پُر دم ہے اگر تُو، تو نہیں خطرہ اُفتاد!

ریاض الحق

خوش فہمی اور خوش نظری سے اس قوم کا شکم مادر سے یارانہ ہے. ہر زوال کے بعد عروج کی امید، ہر ظلم کے بعد انصاف کی امید، ہر گناہ کے بعد نیکی کی امید، سرزنش کے بعد محبت کی امید. پر ہائے افسوس ان بدنصیبوں کا نصیب بھی شاید اس حسین معشوقہ کی طرح روٹھا ہے جس کی خواہ کتنی ہی ناز برداری کی جائے یہ ایک نظر التفات کو بھی راضی نہیں ہے. بعض اوقات اس کی معصومیت پر پیار آ جاتا ہے کہ قدرت کو گاے کی تخلیق کے بجائے اسی کی تخلیق پر اکتفا کر لینا چاہیے تھا. اور کبھی اس کی کم عقلی اور نادانی پر خود کو نذر و نیاز میں پیش کرنے کا جی چاہتا ہے.

  دل میں بہت سی آرزوئیں اور تمنائیں جنم لیتی ہیں اور حوصلہ کرتا ہوں کہ آگے بڑھوں اور اس کے بےپرواہ قدموں کو تھام لوں اور اس کو اس روشن و تاباں کھائی کی گہرائیوں میں گم ہونے سے بچا لوں جس کی چمک دمک ان  کا موہ رہی ہے. لیکن اچانک ایک انجان خوف میری قلم سے بغل گیر ہو جاتا ہے اور اس کی سیاہی ایک منظم اور بامقصد کے بجائے ایک بےسلیقہ،  پریشان کن اور بےمصرف تحریر کو قلمبند کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے. مگر آج اس باطنی کشمکش اور دل کی خلش نے مجبور کیا کہ ترے نصیب میں وادئ طائف کے پتھر ہی سہی پر آج ان تمناؤں اور آرزوؤں کے خواب اپنی اس عزیز قوم کو ضرور دکھاؤں گا. جس کی بلند خیالی اور دقیق النظری نہ جانے کہاں گم ہو گئی اور صرف خیال و نظر ہی ہاتھ رہ گیا. اور جن خیالات میں اپنے آباء و اجداد کی شوکت و جلال تو بستا ہو مگر اس کے حصول کی وہ فراست و بصیرت اور شدت و ذکاوت نظر نہیں آتی. جس کی آنکھوں میں خدا کی زمین پر امن وقرار اور آشتی و آسودگی کا خواب تو پلتا ہو پر اس کے نفاذ کا کوئی لائحہ عمل نہ ہو. آج انہی خوابوں کی تعبیر نہ سہی پر اسکی کچھ جھلکیاں ضرور پیش کروں گا. جو بعض اوقات سایوں کی مانند میرے قلب و ذہن پر چھا جاتے ہیں اور قلبی اختلاش کا باعث بن جاتے ہیں . ایسی ہی ایک خلش اس شام کو ہوئی جب ہماری ہمدردی اور غم گساری کا دم بھرنے والے چند نام نہادوں کو آپس میں برسرپیکار دیکھا. ایک لمحہ کے لئے تو یوں محسوس ہوا جیسے نہ تو یہ اپنی قوم کے لئے وفادار ہیں اور نہ ہی خود اپنے لئے. بلکہ یہ چند رشوت خور اور بدنام زمانہ افراد کا جھنڈ ہے. جو چند کاغذی گڈیوں کی خاطر پوری قوم کے مستقبل کا بےسود سودا کر آئے ہیں . اور ایک ٹیس قلب مضمحل میں اس صبح کو اٹھی جب اقتدار  کی باگ ڈور ان ظالم زمانہ افراد کے ہاتھوں میں پہونچنے کی خبر سنی. مگر یہ خبر کچھ ایسی اندوہناک نہ تھی. کیونکہ حالات اور وقت کا تقاضہ بھی یہی تھا. اور جس کے ناگوار نتائج کی چوکھٹ پر ہمارے نامور مسلم رہبران عرصہ پہلے ہی سے نیت باندھے خوش آمدید کا راگ الاپ رہے تھے. رنج و ملال تو اس وقت ہوا جب ہمارے دینی و ملی رہنما ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے اور سینہ کوبی کرتے نظر آئیں .

 یقیناً اور صد فیصد یہ ہماری کم عقلی، نادانی، اور غیر دانشمندانہ رویوں کے نتائج تھے. جن سے روبرو   ہونے کے لئے ہمیں کمربستہ ہو جانا چاہیے تھا. نہ کہ بندوق چلا کر گولی نہ نکلنے کی دعا کرنے بیٹھ جانا تھا. اور گولی نکل جانے پر اپنے ہاتھوں کی لغزش پر کف افسوس ملنا. یقینی طور پر غلطی پر ندامت کا احساس ضمیر کی بلندی کا ترجمان ہے،پر دوبارہ غلطی پر آمادہ ہونا مزید ضمیر و احساسات کے مردہ ہونے کی دلیل ہے.

 بلا شبہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے. اس کی تخلیق میں شر و بر کی آمیزش ہے. اور نسیان و غفلت اسکا شیوہ رہا ہے. لیکن اگر یہی فراموشی اور خوش فہمی عادت میں تبدیل ہو جائے، تو یہ ایک ناقابل تلافی خسارے کا باعث بن سکتی ہے. جس کے نتائج اس قوم کی ہلاکت و معدومیت کی شکل میں آئیں گے. معدومیت کے لفظ سے ہو سکتا ہے ایک باشعور طبقے کو دلی ٹھیس پہونچے، لیکن درحقیقت جس قوم کا اس کے عہد کی تہذیب و ثقافت، علم و آگہی، ترقی و خوشحالی اور حکومت و سیاست میں کردار نہ ہو تو وہ قوم خود بخود تاریخ کے صفحات سے معدوم ہو جاتی ہے.

عزیزو! اب بات اپنے حقوق لینے یا بچانے تک محدود نہیں رہی بلکہ اب وقت آیا ہے کہ اپنے وجود کے تحفظ پر غور کیا جائے اور اس وسائل پر جد و جہد کا آغاز کیا جائے. اپنی آنکھوں سے ذاتی مفادات کی پٹیوں کو اتار پھینکا جائے اور اجتماعی نقطہ نظر کو اپنایا جائے. دل لبھانے اور جاہ و منصب کا خواب دکھانے والے عارضی قول و قرار سے منہ موڑ کر ایک پائیدار اور مستحکم لائحہ عمل تیار کیا جائے. اپنی مساجد ومکاتب میں فرائض ومستحبات اور وظائف کی درخشانی کے ساتھ ساتھ انہیں مدنی دور حکومت کا وہ قلعہ بنایا جائے جس سے صرف ایمان و یقین ہی نہیں بلکہ علم و فراست، حکومت و سیاست اور انسانیت سازی کی صدائیں ہوں . تمام مسالک کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے کے بجائے، ان کو انہی کے پلیٹ فارم پر دانشمندی اور ہوشمندی کا ثبوت دینے کی تلقین کی جائے. مسلمانوں کو ایک ہی جھنڈے کے نیچے لانے کے بجائے ان میں عقل و شعور اور فراست و دانائی کو پروان چڑھایا جائے.

  آؤ! ایک ایسی قوم کی تشکیل نو کی خاطر کمر بستہ ہو جائیں جس میں مکی دور کا صبر و استقلال ہو اور مدنی دور کی خرد مندی اور فہم و ادراک  ہو.   یہ بات اپنے قلب و شعور میں پیوست کر لو کہ تمہارا مقابلہ ایک ایسی قوم سے ہے جو علوم و فنون میں  دولت و حیثیت میں بصیرت و ذکاوت میں اور اعداد و شمار میں تم سے کہیں زیادہ ہیں . اور ستم بالاے ستم یہ  کہ وہ تم پر غالب اور حکمران بھی ہیں . لہٰذا ایسی قوم کا مقابلہ نہ تو جوشیلی تقاریر اور بیان بازی سے ہو سکتا ہے اور نہ ہی احتجاج و اشتعال سے. اب آپ صبر و تحمل اور بردباری کو اپنی فطرت بنا لیں . اور خاموشی کے ساتھ کامیابی کی راہ پر گامزن رہیں . بلا شبہ اس راہ میں بہت سی مزاحمت اور سنگ راہ کی باعث قدم لڑکھڑا جائیں گے. لیکن اگر عزم مصمم ہو اور نگہ پرسوز ہو تو یہ تمام شئے عارضی ثابت ہو گی. اگر آپ سیاست کے میدان میں اتحاد کے ذریعہ ان پر لرزہ طاری کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں تو یقین مانیے انکا اتحاد آپ کے قدم اکھاڑنے کا زور رکھتا ہے. اسلیے اپنی ترقی و خوشحالی کا خاکہ ان سے علیحدگی اپنا کر نہیں بلکہ انکو اپنے خاکہ میں شامل کے بنائیے. ان سے نفرت کے بجائے ان سے فائدہ اٹھانے کی سوچ کو پروان دیجئے. ان کی خامیوں پر نقطہ چینی کرنے کے بجائے اپنے گریبان چاک کرنے شروع کیجئے. فروعی مسائل سے کنارہ کشی اختیار کر کے قوم کی اصلاح و سلامتی کے ذرائع پر عمل پیرا ہوا جائے. مساجد کو انہدام سے بچانے کے بجائے گردنوں کو اترنے سے بچایا جائے. کیونکہ جب سر ہی نہ ہوگا تو سجدہ گاہ کی کیا حقیقت.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔