پھر دہشت گردی کا کھیل؟

ڈاکٹر عابد الرحمن

دہشت گردی کی گرفتاریوں کا کھیل دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ خبر ہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے ایک سترہ سالا لڑکے سمیت ۹مسلم نوجوانواں کو گرفتار کیا ہے الزام ہے کہ یہ لوگ آئی ایس آئی ایس سے متعلق ہیں۔ یہ گرفتاریاں ممبرا تھانے اور اورنگ آباد سے عمل میں آئی ہیں۔ خبر کے مطابق ان لوگوں کے پاس سے کوئی خاص ہتھیار یا دھماکہ خیز مادہ تو بر آمد نہیں ہوا لیکن کچھ کیمیکل، موبائل فون ہارڈ ڈرائیو ایسڈ باٹل چاقو اور سم کارڈ وغیرہ برآمد ہوئے ہیں۔ اب اے ٹی ایس یہ تحقیق کر رہی ہے کہ آیا یہ لوگ آئی ایس آئی ایس کے سلیپر سیل کے طور پر تو کام نہیں کر رہے ہیں ؟ پچھلے ہفتے قومی تفتیشی ایجنسی ( این آئی اے ) نے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ آئی ایس آئی ایس سے متاثر ایک (دہشت گرد ) اکائی حرکت الحرب اسلامی سے متعلق تھا، اسی طرح اس اکائی کو ہتھیار سپلائی کر نے کے الزام میں بھی ایک شخص گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے ایجنسی نے مختلف مقامات پر ریڈ کر کے بھاری مقدار میں ہتھیار اور دھماکہ خیز مادے ضبط کئے تھے۔ ( انڈین ایکسپریس ۲۳، جنوری ۲۰۱۹ )

 ابھی مزید تحقیقات کے بعد بہت سی نئی پرانی باتیں سامنے آ سکتی ہیں، مذہبی اور عوامی مقامات پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے علاوہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں پر اہم سیاسی اور سماجی شخصیات برسر اقتدار پارٹی اور سنگھ کے لیڈران وزراء اور مسلم مخالف منھ زوروں کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام بھی لگا دیا جائے۔ انتخابات قریب ہیں اور ایسے میں اس طرح کی پولس کارروائیاں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لئے کافی ہیں، کوئی کرے نہ کرے اس طرح کی پولس کارروائیوں سے ہندو ووٹ بنک آپ ہی آپ پولرائز ہوجاتا ہے۔ حالانکہ نام نہاد مسلم دہشت گردی اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں اور ان کے متعلق ہتھیاروں، دھماکہ خیز مادوں، کمپیوٹروں، ان کے خطرناک تخریبی منصوبوں، سیاسی اور سماجی لیڈران کے قتل کے متعلق ان کے منصوبوں کی کہانیاں عدالتوں میں اس بری طرح پٹ چکی ہیں کہ اب حکومت و انتظامیہ اور لوگوں کو بھی اس طرح کی پولس کارروائیوں پر بالکل یقین نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن دراصل اس طرح کی کارروائیاں جھوٹی ہوں یا سچی وہ سیاسی طور پر استعمال کی جاتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کے لئے دیدہ و دانستہ ایسی کارروائیاں بغیر کسی روک ٹوک کے ہونے دیتی ہیں اور میڈیا اور عوام کا مسلم متعصب دھڑا انہیں پورے ملک میں پہچا کر ان کا کام آسان کردیتا ہے۔

 پورے ملک کی ذمہ دار حکومت کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے کہ پانچ دس سال کی مقدمہ بازی کے بعد یہ کارروائیاں جھوٹی ثابت ہوئیں تو وہ عوام کو کیا جواب دے گی کیونکہ حکومت اس طرح کی کارروائیوں پر جانبداری کا مظاہرہ کر کے عوام کے تعصب کو بڑھاکر اپنے حق میں استعمال کر نے کا کام کرتی ہے۔ ہماری حکومت پولس میڈیااور عوام کا تعصب تو اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اب انہیں اس کی شرم بھی نہیں آتی، کھلے طور پر جانبداری برتی جا تی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

مذکورہ گرفتاریوں سے محض سات روز پہلے تھانے میں بی جے پی کے ایک لیڈر کی دکان میں سے بہت سارے ہتھیارضبط کئے گئے اسے گرفتار تو کرلیا گیا لیکن جس طرح دہشت گردی کے متعلق مذکورہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کو میڈیا میں جوکوریج دیا گیا اور اس پر جس طرح کی باتیں اور اندیشے پولس کی طرف سے ظاہر کئے گئے جس طرح ان لوگوں کو آئی ایس آئی ایس جیسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم سے جوڑ دیا گیا، جس طرح دہشت گردی کی نئی تنظیم اور سلیپر سیل کی باتیں ہوئیں بی جے پی کے اس آدمی کے متعلق وہ کچھ نہیں ہوا، نہ اسکی گرفتاری کو ہندو دہشت گردی کہا گیا، نہ اسے کسی دہشت گرد تنظیم سے جوڑا گیا نہ اس کے متعلق کسی سلیپر سیل کی تحقیقات کی بات کہی گئی اور نہ ہی اس کی تنظیم بی جے پی اور سنگھ پر دہشت گردی کا الزام لگا یا گیا، بس اس نے کہہ دیا اور مان لیا گیاکہ وہ جلد پیسہ کمانے کے لئے (غیر قانونی ) ہتھیار بیچ رہا تھا تاکہ قرضہ جات کی ادائیگی کی جا سکے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ دونوں مقدمات میں کس طرح کی تفتیش کی جاتی ہے، کس رفتار مقدمات چلائے جاتے ہیں اور کس طرح فیصل ہوتے ہیں۔

اگر مذکورہ پولس کارروائی میں گرفتارمسلم نوجوان واقعی دہشت گردانہ وارداتوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو ان کی گرفتاری ہمارے لئے باعث خوشی ہے کیونکہ ہم اور بھارت کے سبھی مسلمان دہشت گردی کے تئیں ملک کی عوام و خواص پولس اور سیکیورٹی ایجنسیوں سربراہان مملکت، آر ایس ایس اور شیو سینا و بی جے پی ہی کی طرح بلکہ ان سے زیادہ حساس ہیں اور اسے ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ بھی سمجھتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہر کارروائی کی حمایت کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کے نام پرہم نا انصافی کی حمایت نہیں کر سکتے، ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو بھی کارروائی ہو وہ مبنی بر انصاف اور حق بہ جانب ہو، غیر ضروری اور غیر قانونی نہ ہو۔ انہی لوگوں کے خلاف ہو جن کے خلاف دہشت گردی یا دہشت گردی کی سازش رچنے کے پختہ ثبوت موجود ہوں۔ ہمیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ پچھلے دس پندر ہ سالوں میں ہماری تفتیشی ایجنسیوں، دہشت گردی مخالف دستوں اور پولس نے بالکل اسی طرح کی سنسنی خیز گرفتاریاں کی تھیں اور ان کے متعلق خطرناک دہشت گرد ہونے کی کہانیاں بھی سنائی تھیں لیکن جب یہ سارے معاملات عدلیہ میں پہنچے تو منھ کے بل گر گئے ان میں سے زیادہ تر معاملات میں پولس کی ساری کہانیاں جھوٹ اور من گھڑت ثابت ہوئیں اور خطرناک دہشت گرد اور تباہ کن دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر نے والے با عزت بری ہوگئے لیکن ان کی معصومیت کے ثبوت اور رہائی کے لئے بہت لمبا عرصہ لگا اور اس دوران ان کا کریئر ہی کیا پوری زندگی خراب ہوگئی۔ نفسیاتی اور جسمانی ٹارچر کے ناقابل فراموش داغ اور دہلادینے والی اذیتیں ان کی روح تک میں پیوست ہو گئیں۔ تو اس سب کے بعد اب نئے معاملات میں حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ پولس اور تفتیشی ایجنسیوں کو اس بات کی پابند بنائے کہ داعش ہی کیا دہشت گردی کے دیگر معاملات کے سلسلے کی گرفتاریوں میں کم از کم ایسا نہ ہواور اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ پولس اور تفتیشی ایجنسیوں کے محاسبہ کاسخت اورفعال نظام بنا یا جائے تاکہ محاسبہ کی لٹکتی تلوار قانون کے محافظوں کو قانون کا پابند بنائے رکھے۔ دوسرے اس طرح کے معاملات میں مقدمات تیز رفتاری سے چلائے جائیں تاکہ ملزمین اگر واقعی مجرم ہیں تو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچیں اور اگر بے قصور ہیں جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے تو کم سے کم وقت میں انہیں انصاف ملے اور وہ رہا ہوں، ان کی زندگی کے قیمتی سال جیل خانہ کی نذر نہ ہوں۔

 دہشت گردی کے خلاف اب تک کی گئی پولس کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد صرف تعلیم یا فتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار و ہراساں کر کے ان کا کرئر تباہ کرنا اور دہشت گردقرار دے کر اور ملک میں کئی مسلم ناموں والی دہشت گرد تنظیموں کی فعال موجودگی کا اعلان کر کے پوری مسلم قوم پر دہشت گردی کا دھبہ لگا نا ہی تھا کیونکہ جس آسانی سے عدالتوں نے پولس کی کہانیوں اور ثبوتوں کو مسترد کیا ہے اس سے ایسا نہیں لگتا کہ خود پولس کو اور سرکاری قانونی ماہرین کو ان ثبوت و شواہد کے کمزور ہونے کا ادراک نہ ہو یعنی یہ پوری کارروائی یا تو پولس کی ذاتی من مانی تھی یا پھر پوری مسلم قوم کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی، ہمیں لگتا ہے کہ اس سازش میں خود سرکاریں بھی ملوث رہی ہیں اور اگر سرکاریں اس میں ملوث نہیں ہیں اور اگر یہ پولس کی ذاتی کارروائیاں ہی تھیں تو بھی اس کی ذمہ داری سر کار پر ہی عائد ہوتی ہے، کہ سرکار نے اس ضمن میں خاطی پولس والوں پر کوئی کارروائی نہیں کی یا کم از کم انکے محاسبہ کا کوئی فعال نظام نہیں بنایا۔ بلکہ خاطی پولس والوں پر کارروائی کر نے کے بجائے انہیں قانونی اور سیاسی پناہ فراہم کرتی رہیں۔ اگر سرکار سمجھتی ہے کہ یہ محض الزام ہے تو کم از کم اب اس نے پوری ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ان کارروائیوں کو بھی پرانی روش پر جانے سے روکنے کا مکمل انتظام کرنا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔