پہلے اندرونی جنگ سے مقابلہ کرے کانگریس

محمد سعد

پارلیمانی انتخابات سے کانگرےس کے جس خراب دور کی شروعات ہوئی تھی وہ موجودہ اسمبلی انتخابات تک لگاتار جاری ہے اور تمام کوششوں کے باوجود بھی کانگرےس کو اس سے نجات ملتی نظر نہیں آرہی ہے ،کانگرےس کافی وقت سے دوہری جنگ لڑرہی ہے ،ایک سیاسی جنگ تو اسے بی جے پی سے لڑنی پڑ رہی ہے جس مےں وہ ایک کے بعد ایک شکست کا سامنا کر رہی ہے اور دوسری کانگرےس کی اندرونی جنگ ہے جس مےں نشانے پر راہل گاندھی ہےں ،کیونکہ کانگرےس کے کافی لیڈران کا ماننا ہے کہ راہل گاندھی کی وجہ سے کانگریس کو لگاتار شکست کا سامنا کرنے کو مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

نریندر مودی جےسے قدآور لیڈر کے سامنے راہل گاندھی پوری طرح سے ناکام ثابت ہو رہے ہیں ،پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے بعد سے تو راہل گاندھی کی کانگریس میں ہی مخالفت تیز ہوچکی ہے اور راہل گاندھی کی قابلیت پر سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ راہل گاندھی کانگریس پر عوام کا بھروسہ پھر سے قائم کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔

ان کی تقریر اور ان کی سیاسی پالیسی کا عوام پر کسی طرح کا کوئی کمال نظر نہیں آرہا ہے اور کانگریس لگاتار کمزور ہوتی جا رہی ہے ،ہم اس بات کو کسی طرح سے نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں کہ راہل گاندھی ایک ایماندار لیڈر ہیں اور ان کا سیاسی نظریہ بھی قابل تعریف ہے۔ مگر ان میں وہ بات نہیں ہے کہ جو وزیر اعظم نریندر مودی جیسے قدآور لیڈر کے مقابلے میں کو مظبوط ثابت کر سکتی ہو،یوپی کے اسمبلی انتخابات مےں سماجوادی پارٹی سے کانگرےس کے اتحاد کے بعد راہل گاندھی نے اکھلےش یادو کے ساتھ ملکر خوب پرچار کیا مگر وہ عوام کے دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ،ان سب باتوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس کو اگر پھر سے کامیابی کی طرف قدم بڑھانے ہیں تو اسے راہل پریم سے باہر نکلنا ہوگا اور کانگریس کے دوسرے لیڈران کو بھی موقع دینا ہوگا۔،

کانگریس مےں ایک اور افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ کانگریس کے پاس کافی وقت سے کچھ ایسے لیڈران ہی پیر جمائے ہوئے ہیں کہ جن کی آواز عوام کو اپنے حق میں نہیں کر پاتی ہے ایسے لیڈران راہل اور سونیا گاندھی کی جی حضوری میں ہی لگے رہتے ہیں تاکہ کانگریس میں ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے ۔راہل گاندھی نے کئی بار نوجوانوں کو کانگریس میں آگے لانے کی بات کہی اور کچھ نوجوانوں کو آگے بڑھایا بھی گیا مگر جس طرح سے کانگریس میں نوجوانوں کو اہمیت دی جانی چاہیے وہ اب بھی نظر نہیں آتی ہے ۔

کانگریس کیوں اس پر غور وفکر نہیں کرتی ہے کہ جب راہل کی قیادت پر پارٹی میں سے ہی سوال کھڑے ہوتے ہیں تو پھر کیوں راہل کے سامنے پارٹی کے دوسرے لیڈران کی قابلیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے ،ہر انتخابی مہم میں راہل گاندھی کی کانگریس کا خاص چہرا کیوں بنے رہتے ہیں ،کانگریس جس طرح سے ایک کے بعد ایک شکست کے دور سے گزرنے کو مجبور ہوچکی ہے تو اسے ایسے میں کافی کچھ سوچنے اور پھر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ،کانگریس نے یوپی کے انتخابات میں کامیابی کے لئے پہلے تنظیمی تبدیلی کی اور پھر سماجوادی پارٹی سے اتحاد قائم کیا لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے خراب دور سے نکل نہیں سکی ہے ۔

پنجاب میں کانگریس نے بہتر مظاہرہ کیا اور عوام کا دل جیتنے میں کامیاب رہی ،اس کی خاص وجہ وہاں پر نوجوت سنگھ سدھو کا کانگریس میں شامل ہونا بھی رہا ،نوجوت سنگھ سدھو کا کافی حد تک پنجاب کی عوام کو کانگریس کے حق میں کرنے میں کامیاب رہے اگر اسی طرح کا فارمولہ کانگریس اتراکھنڈ میں بھی اپناتی تو شاید وہاں بھی تصویر کچھ اور ہوتی ،راہل گاندھی کی قابلیت کے ساتھ کانگریس کو کچھ اور لیڈران کو بھی آگے لانا ہوگا اور خاص طور سے ایسے لیڈران کو لانا ہوگا کہ جو بہتر تقریر کر سکتے ہوں اور میڈیا میں بھی پارٹی کی طرف سے بہتر بات رکھ سکتے ہوں ،کانگریس جس طرح کی ناکامی کے دور سے گزر رہی ہے اس میں حالاکہ اس کی اپنی غلطیوں کا کافی بڑا رول ہے جو غلطیاں کانگریس نے اقتدار میں رہتے ہوئے کی تھی اس کا پھل کانگریس کو بھگتنا پڑ رہا ہے ،یوپی کے اسمبلی انتخابات میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ بی جے پی کے امیدواروں کو مسلم علاقوں سے بھی کافی ووٹ ملا ہے ،کیا یہ کانگریس جےسی پارٹی کی غلطیوں کی سزا نہیں ہے کہ جو ووٹ سماجوادی پارٹی سے اتحاد کے بعد اس کی جھولی میں جانا چاہیے تھا وہ ایک بھی مسلم کو انتخابات میں ٹکٹ نہ دےنے والی بی جے پی کی جھولی میں بھی کافی تعداد میں چلا گیا ۔

کانگریس کو اب دوبارہ سے خود کو مظبوط کرنے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی اور اسے اپنی سیاسی زمین پھر سے حاصل کرنی ہوگی لیکن اس سے پہلے کانگریس کو اندرونی جنگ کا مقابلہ کرکے اس پر جیت حاصل کرنی ہوگی ،کانگریس مےں نوجوانوں لیڈران کو ان کی قابلیت کے مطابق پارٹی میں اہمیت دینی ہوگی ،آخر کب تک کانگریس راہل گاندھی کی محبت میں گرفتار ہوکر سیاسی طور پر ایک کے بعد ایک نقصان اٹھاتی رہے گی اور اب تو کانگریس کے پاس نقصان اٹھانے کے لئے بھی کچھ نہیں بچا ہے ،مستقبل میں اگر کانگریس اسی طرح سے سیاسی نقصان اٹھاتی ہے تو پھر شاید کانگریس گزرے دور کی ایک سیاسی پارٹی بنکر ہی رہ جائے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔