پیدل مارچ

خواتین و حضرات ، ایمپائر کی انگلی کھڑی ہو گی، نہ دھرنا دے کر بیٹھے رہنے سے ہی کچھ حاصل ۔ آپ کو دنیوی واخروی کامیابی کے حصول کیلئے پیدل مارچ کا آپشن ہی استعمال کرنا ہو گا۔

اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ اسی کی دہائی تک لانگ بوٹ پہنے، مسلح فوجی جوان قطاریں باندھے سڑکوں کے کنارے اپنی انفنٹری یونٹ کے ایک سے دوسرے شہر ٹرانسفر ہونے پر پیدل جاتے نظر آتے تھے۔ افسر سینہ تان کر سب سے آگے چلا کرتے ۔ شاید یہی فوج کی زبان میںLeading from Front کہلاتا ہو۔ اب البتہ دہشتگردی کی نحوست کی وجہ سے سِول آبادیوں میں بلند دیواریں، بیریئر اور مشین گنیں عام دِکھتی ہیں مگر پیدل فوجی دستوں کی قطاروں کے جوش آور مناظر بہت کم۔جمہوریت اور سِولین سپرمیسی جیسی باتیں اور عسکری افسران پر تنقید ایک طرف، سچائی مگر یہ ہے کہ فوجی جوانوں کی فزیکل فٹنس دیکھ کر گاہے ایک خاص قسم کے حسد کا پیدا ہونا فطری ۔ مسلح افواج میں بلحاظ عمر سالانہ جسمانی تربیت کے کورسز ۔ سرحدوں کی نگرانی پر مامور رینجرز میں سینکڑوں میل پیدل چلنے کا کلچر ۔ اس کے مقابل سِول اداروں میں کالی عینک، بڑی گاڑی ، بڑھے ہوئے پیٹ اور پروٹوکول ۔ ”سیکورٹی کا مسئلہ’ ‘ جیسے بہانوں کے ساتھ انتہائی کم فاصلے تک بھی صاحب بہادروں کا پیدل چل کر جانا موقوف ۔ کوئی پھرتیلا ملزم دوڑ لگا دے تو بڑی توند والا پولیس افسر پکڑنے سے عاری۔ سہل پسندی، سست روی اور مخصوص قسم کی مادیت پرستی ۔ نتیجہ یہ کہ 30سے50 سال تک کی عمر کے سِول افسروں اور "جوانوں” کی ایک قابلِ ذکر تعداد ذیابیطس، فشارِ خون، امراضِ قلب اور بیماریوں کی ماں یعنی موٹاپے کا شکار اور دورانِ سروس شرحِ اموات بلندی کی طرف گامزن۔ ماضی کے برعکس دادے پوتوں اور باپ بیٹوں کی لاشیں دفنا رہے ہیں۔ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا، لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ ، صرف سکول کے تقریری مقابلوں میں باقی۔چنانچہ بقول شخصے بہت سارے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں جبکہ ان کی توند اسی دوڑ میں کئی فٹ آگے نکل گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے تختِ دہلی پر قبضہ کیا تو ایک نوجوان مغل شہزادہ گرفتار ہوا۔ پوچھا گیا کہ جب فوج آئی تو تم نے بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کیوں نہ کی؟ جواب دیا جوتا پہنانے والا کوئی نہ تھا! چنانچہ گرفتار شہزادوں میں سے کچھ کو پیروں میں زنجیریں پہنائی گئیں اور کچھ کے سر کاٹ کر اسیر بادشاہ کے سامنے رکھے گئے۔

اپنے ہاتھ سے کام کرنے والا اللہ کا حبیب قرار دیا گیا مگر کھاتے پیتے گھرانوں میں خود کام کرنے کا کلچر ختم ہونے کو۔ بچے ماؤں کے شفیق ہاتھوں کے لمس سے محروم چاچوں اور ماسیوں کے کھردرے ہاتھوں میں پل رہے ہیں۔ ماؤں کو سوشل مصروفیات سے فرصت جو نہیں۔ کھیل کے میدان رہائشی کالونیوں میں بدلتے ہوئے۔ بچوں کے ہاتھوں میں گیند بلے یا بائیسکل کے سٹیئرنگ کی بجائے آئی فون، آئی پیڈ اور ٹیبلٹ ۔ آؤٹ ڈور سرگرمیوں کی بجائے صوفوں پر نیم دراز اکتائے ہوئے بچے سوشل میڈیا پر اپنی منہ بگڑی تصاویر اپ لوڈ کرنے میں مصروف ۔ احادیثِ مبارکہ میں اللہ کے آخری رسول ﷺ کے اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ مسابقت(دوڑ لگانے) کا واقعہ مشہور۔ سواری میسر ہونے کے باوجود آپؐ ازواجِ مطہراتؓ یا صحابۂ کرامؓ کے ہمراہ ؐ مدینہ کے گرد پیدل گشت کرنے کو ترجیح دیتے۔ پیدل چلتے ہوئے تیز اور لمبے قدموں سے چلنے کا طریقہ اختیار فرماتے جسے آج کل Brisk Walk یا Jogging کہا جاتاہے۔ آپؐ کو سست روی سے چلتے کسی نے نہیں دیکھا ۔بعض احادیث میں آپؐ کا کبھی کبھار ننگے قدموں چلنا بھی مذکور ہے۔ صحابۂؓ کے ہمراہ احد پہاڑ پر چڑھنا، صحرا میں پیدل گشت آپؐ کی سنتِ طیبہ ہیں۔ مسجد کی طرف پیدل چل کر جانے پر ہر قدم پر ثواب اور پیدل حج کرنے کی خصوصی فضیلت سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔

اب ایک نظر ترقی یافتہ ممالک کی طرف ۔ ڈنمارک میں 16فیصد ٹرپ بائیسکل کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔ شہری آبادی کا 50فیصد حصہ تعلیمی اداروں اور کام کاج کے مقامات پر بذریعہ بائیسکل جاتا ہے۔ ہر 10 میں سے 9 شہری اپنی ذاتی بائیسکل کے مالک ہیں۔ دس سے سولہ سال تک کی عمر کے سکول جانے والے بچوں کی 40فیصد تعداد بائیسکل پر سفر کرتی ہے۔ بطور سواری بائیسکل کی مقبولیت کا عالم یہ کہ سال 2013ء میں ڈنمارک میں جہاں 5لاکھ بائیسکل فروخت ہوئے وہیں 2014ء میں 60,709 بائیسکل چوری ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق حکومتِ ڈنمارک کو کار کی بجائے بائیسکل پر کئے جانے والے ہر ڈیڑھ کلومیٹر سفر کے بدلے صحت ، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں یومیہ 68,40,000 پونڈز کی بچت ہوتی ہے۔ نیدر لینڈز کے شہریوں کی 48فیصد آبادی اپنا روزمرہ سفر بائیسکل کے ذریعے کرتی ہے ۔ شہری علاقوں میں روزانہ 32فیصد لوگ بائیسکل پر، 22فیصد کاروں پر اور 16فیصد پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں 63فیصد ڈچ شہری روزانہ بائیسکل پر اپنے کام کاج کو جاتے ہیں۔ شہر میں 2,63,000کاروں کے مقابلے میں بائیسکلوں کی تعداد 80لاکھ کے قریب ہے جبکہ 35کمپنیاں کرائے پر بائیسکل فراہم کرتی ہیں۔ سڑکوں پر آٹوموبائل گاڑیوں کے ساتھ بائیسکل چلانے کیلئے بنائے گئے خصوصی ٹریکس کی کل لمبائی تقریباََ 500کلومیٹر ہے۔

تو معزز خواتین و حضرات! اپنے آپ اور اپنی آئندہ نسلوں پر رحم کریں۔ کمپیوٹر ، موبائیل فون ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال ضرور کریں مگر آؤٹ ڈور کھیلوں اور فزیکل فٹنس کی قیمت پر نہیں۔ یاد رکھیئے، جب ایک دفعہ وزن اور پیٹ بڑھ گیا تو ایمپائر کی انگلی کھڑی ہو گی، نہ دھرنا دے کر بیٹھے رہنے سے ہی کچھ حاصل۔ آپ کودنیوی واخروی کامیابی کے حصول کیلئے پیدل مارچ کا آپشن ہی استعمال کرنا ہو گا۔مستقل مزاجی کے ساتھ صبح صرف پینتالیس منٹ!

تبصرے بند ہیں۔