پیغامِ حق کی ترسیل

ڈاکٹر محمد رفعت

اِنسانوں تک ہدایت اِلٰہی کی ترسیل کے اعتبار سے انسانی تاریخ کے دو دور قرار پاتے ہیں۔  پہلا دور حضرت آدم علیہ السلام سےشروع ہوکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوتا ہے۔  تاریخ کے اس مرحلے میں اِنسانوں تک اُن کے خالق ومالک کی ہدایت، اُس کے پیغمبروں کے ذریعے پہنچتی رہی ہے۔ اِنسانی تاریخ کا دوسرا دور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے قیامت تک وسیع ہے۔  اس دور میں اِنسانوں تک پیغامِ ربانی کوپہنچانے کا کام اُمت مسلمہ کے سپرد کیا گیا ہے۔  تاریخ کے اِن دونوں ادوار میں دینِ حق کی اقامت اوراُس کے مکمل اظہار کا طریقہ ایک ہی رہا ہے جس کے بنیادی اجزاء ’’دعوت اور جہاد‘‘ ہیں۔  پہلے جُز— ’دعوت‘ —کے اصل ذرائع اِبلاغ اورترسیل ہیں جن کے لیے اِنسانوں سے ربط ضروری ہے۔  اِبلاغ اورترسیل کے لیے داعیانِ حق جوکوشش کرتے ہیں اُن میں وہ اُن تمام اسالیب اوروسائل کواستعمال کرتے ہیں جو تمدن کی ترقی نےفراہم کیے ہوں تاہم اس سلسلے میں وہ دعوت اسلامی کے منفرد مزاج کوہمیشہ ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس لیے اُن کا طریقِ کار، سنجیدہ اورباوقار ہوتا ہے چنانچہ اِبلاغ کے ایسے وسائل وہ اختیار نہیں کرتے جو دعوت کےوقار کے منافی ہوں۔  دعوتِ اسلامی کے مزاج سے ہم آہنگ اِبلاغ کی چند خصوصیات کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔

دِلوں پر دستک

قرآن مجید  اس حقیقت کوبار بار سامنے لاتا ہے کہ اسلامی دعوت کا مقصود،  اِنسانی قلب وذہن کی تبدیلی ہے تاکہ اِنسان حق کو پہنچان سکے اور اُسے اختیار کرسکے۔ یہ تبدیلی،  محکم دلائل کی پیش کش کے ذریعے ہی ممکن ہے، جبر سےاِنسانی قلب تبدیل نہیں ہوتے۔

تسلیم اُسے دِل سے کوئی کرنہیں کرسکتا

وہ ادّعا جوجبر کی تلوار کرے ہے

پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ اسلام، اِنسانی شخصیت میں محض کوئی جُزوی یا ظاہری تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ پورے اِنسانی وجود کو مرضیاتِ اِلٰہی سے ہم آہنگ بنانا چاہتا ہے۔ ایسی ہمہ گیر اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اِنسان کے اندرون کوبدلا جائے۔  اِنسانی اعمال، بہر صورت اُس کے خیالات وافکار کے تابع ہوتے ہیں اورظاہر کی تبدیلی (اگروہ حقیقی اور دیر پا ہو) باطن کے تغیر کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔  خیالات وافکار کی دنیا میں انقلاب، جبر کے ذریعے نہیں لایا جاسکتا۔ اِنسان اپنی آزاد مرضی سے جس فکر کوقبول کرنا ہے،  وہی اُس کے کردار کی حقیقی بنیاد بنتی ہے۔

اِس میں شک نہیں کہ اِنسان دھوکا کھا سکتا ہے۔  جذباتی اپیل،  پُر کشش نعرے اور مسحور کن تقریریں اِنسانوں کواپنی طرف کھینچ سکتی ہیں اورانہیں حرکت وعمل پر آمادہ بھی کرسکتی ہیں تاہم ایسی سرگرمی کی نوعیت اکثر منفی ہوتی ہے۔استدلال سے خالی اپیل، اِنسانوں سے تخریبی کام توکراسکتی ہے لیکن کردار کی تعمیر اُس کے بس کی بات نہیں۔  ماضی کی تاریخ اورحال کی دنیامیں ایسی تحریکات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جنہو ں نے اِنسانوں کوفریب میں مبتلا کیا اور ایک قلیل عرصے کے لیے انہیں سرگرم عمل بھی کردیا لیکن ایسی تحریکات کے تحت معاشرے کی تعمیر نو کی جانب پیش قدمی نہ ہوسکی۔  اِسلام اوراُس کی دعوت کا مزاج اس سطحیت سے پاک ہے۔  بلا شبہ اسلام، اِنسان کے جذبات سے بھی اپیل کرتا ہے لیکن اُس کا خطاب،  اِنسان کے اعلیٰ اورپاکیزہ جذبات سے ہوتا ہے۔  اسلام کی دعوت، اِنسان کی خوابیدہ فطرت کو بیدار کرتی ہے  جب کہ باطل دعوتیں،  اِنسان کی فطرت کوسُلا نے کی کوشش کرتی ہیں اس لیے کہ بیدار مغز اِنسان،  باطل کے خلافِ حقیقت ہونے کا بآسانی اِدراک کرلیتا ہے،  اور پھر وہ باطل کے فریب میں نہیں آتا۔

داعی حق جانتا ہے کہ مخاطب کے قلب وذہن کی اِصلاح کے لیے، سنجیدہ ماحول میں اُس سے بات چیت اورگفتگو ضروری ہے۔  اِنسان کےدل کی دنیا اُس وقت بدلنی شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے رَب سے آشنا ہو جاتا ہے اوراس عالمِ واقعہ میں اُس کی نشانیوں کا اِدراک کرنے لگتا ہے۔  داعیِ حق کا کام یہ ہے کہ اِنسانوں کوربِ حقیقی کی صفات سے واقف کرائے، اُس کی ہدایات سے آگاہ کرے اور اُس کے سامنے جوابدہی کا احساس  پیدا کرے۔ اس کام کے لیے موزوں ترین طریقہ انسانوں کے سامنے کلامِ اِلٰہی کا سُنانا ہے۔  اِنسانوں جب خالق کا کلام سنتے ہیں تو حق کے متلاشی افراد اُس کلام کی صداقت کا بآسانی ادراک کرلیتے ہیں۔

کلامِ اِلٰہی کواِنسانوں تک پہنچانے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر عین حالتِ جنگ میں بھی کوئی شخص اللہ کے کلام کو سننے کی خواہش ظاہر کرے تو اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ اسے اس کا موقع فراہم کریں۔  قرآن مجید کا ارشاد ہے:

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ۔۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ(سورۂ توبہ۔  آیت:6)

’’اوراگر مشرکین میں سے کوئی شخص،  پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو تم اُسے پناہ دے دویہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔  پھر اُسے اُس کے مامن تک پہنچادو۔  یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔‘‘

اِبلاغِ عام

سماجی وسیاسی تحریکیں اِبلاغِ عام کوبڑی اہمیت دیتی ہیں۔  اس کی وجہ واضح ہے۔  سماج اور اجتماعی اداروں میں کسی قابلِ ذکر تبدیلی کے لیے انقلابی پیغام کی عام ترسیل ایک لازمی شرط ہے۔  اسلا م نے بھی اِبلاغِ عام کی اہمیت کوتسلیم کیا ہے۔  اُس کا منشاء ہے کہ حق کی دعوت،  وسیع پیمانے پر پھیلے اوراِنسانی آبادی کا کوئی گروہ بھی اس دعوت سے ناواقف نہ رہے۔  پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری دعوتوں کےبرعکس،  اسلام کا پیغام کسی مخصوص گروہ کے لیے نہیں ہے۔  بلکہ اسلام، نسل، رنگ، علاقےاورزبان کی تفریق کے باوجود،  اِنسانوں کواُن کی انسانی حیثیت میں خطاب کرتا ہے۔  قرآن مجید کا ارشاد ہے :

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (سورۂ بقرہ۔  آیت : 21)

’’اے اِنسانو!بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جس نے تمہیں پیدا کیا اورتم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کوبھی۔  اِس طرح توقع ہے کہ تم بچ سکوگے (غلط بینی، غلط روی اور تباہی سے)‘‘

آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک کلیدی ذمہ داری یہ تھی کہ آپ اُمتِ مسلمہ کی تعلیم وتربیت کرکے اُس کو دنیا کی رہنمائی کے  لائق بنادیں۔  آپ نے یہ فریضہ اپنی پوری نبوی زندگی میں انجام دیا۔  فطری طور پر جن صحابہ کو آپ کی مجالس میں شرکت کے زیادہ مواقع حاصل تھے،  انہوں نے اس تعلیم و تربیت سے زیادہ فیض حاصل کیا۔  لیکن اصولاً آپ کی تعلیم، ساری اُمت کے لیے تھی۔  قرآن مجید تزکیہ وتعلیم کے نبوی فرائض کا تذکرہ کرتے ہوئے آئندہ آنے والے اہلِ ایمان کا بھی تذکرہ کرتا ہے۔  اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ حق کے عام اِبلاغ کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک طرف انسانیت عامہ کے درمیان، دعوت کوپھیلانا اوراسلام کا عام تعارف کرانا ضـروری ہے وہیں دوسری جانب اُمت مسلمہ کے افراد کی وسیع تعلیم وتربیت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔

ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۔۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۔ وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ۔۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۔(سورۂ جمعہ آیات: 2 و 3)

’’وہ اللہ ہے جس نے اُمیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اُٹھایا،  جوانہیں اُس کی آیات سناتا ہے،  اُن کی زندگی سنوارتا ہے اوراُن کوکتاب اورحکمت کی تعلیم دیتا ہے،  حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور(اس رسول کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی  اُن سے نہیں ملے ہیں۔  اللہ زبردست اورحکیم ہے۔ ‘‘

اہلِ ایمان کی آئندہ نسلوں کے اس تذکرےکے ذریعے قرآن مجید نے یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ تز کیہ اور تعلیم کتاب وحکمت کا اہتمام،  ہر دور میں جاری رہنا چاہیے تاکہ اہلِ ایمان میں کوئی فرد اور گروہ، دین کی سمجھ سے محروم نہ رہے۔  خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے دوران بھی یہ طریقہ مسلمانوں کوسکھایا گیا تھا کہ اگروہ علم کے مرکز (مدینہ ) سے دوررہتے ہوں تو اُن کےکچھ نمائندے، مدینہ آکردین کا فہم حاصل کریں اور پھر اپنی آبادی میں واپس جاکر وہاں کے لوگوں کوتعلیم دیں۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۔ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۔(سورۂ توبہ۔  آیت : 122)

’’اوریہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارےہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ  ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کرآتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اورواپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کوخبردار کرتے تاکہ وہ (غلط روی سے) پرہیز کرتے‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بہت سے انبیاء محض اپنی قوم کے لیے بھیجے گئے۔  سارے اِنسانوں تک پیغامِ حق پہنچانے کی ذمہ داری اُن کو نہیں دی گئی۔  تاہم اپنی قوم کے درمیان،  انہوں نے قوم کے ہر حصے اورطبقے تک حق کی دعوت پہنچائی اورکسی کو محروم نہیں رکھا۔ اسی بِنا پر اکثر ایسا ہوا کہ قوم کے متکبرین نے انبیا ء پر اعتراض کیااورکہا کہ تمہاری مجالس میں پست طبقے کے لوگ موجود ہوتے ہیں اور تمہاری دعوت کے قبول کرنے والے بھی اسی طبقے کے ہیں۔  اس اعتراض کے باوجود،  انبیاء علیہیم السلام نے اِنسانوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی اور حق کی روشنی سے سب کو فائدہ پہنچایا۔  نوح علیہ السلام کاتذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کہتا ہے :

فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ ہُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ۔ وَمَا نَرٰي لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍؚبَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِيْنَ(سورۂ ہود۔ آیت : 27)

’’نوح کی قوم کے سردار وں نے،  جنہوں نے اُس کی بات ماننے سے انکار کیاتھا، کہا کہ ’’ ہماری نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہوکہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے اورہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بَس اُن لوگوں نے جوہمارے یہاں رذیل تھے، بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کرلی ہے اورہم کوئی چیز  بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو۔  بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ‘‘۔

نوح علیہ السلام نے متکبر سرداروں کی اس تنقید کے باوجود اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور تمام اِنسانوں تک حق کی ترسیل کا کام جاری رکھا۔ قرآن مجید نے نوح علیہ السلام کاقول نقل کیا ہے۔

وَيٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَيْہِ مَالًا۔ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللہِ وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۔ اِنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَلٰكِنِّيْٓ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْـہَلُوْنَ۔ وَيٰقَوْمِ مَنْ يَّنْصُرُنِيْ مِنَ اللہِ اِنْ طَرَدْتُّہُمْ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۔ (سورۂ ہود۔ آیت :29،30)

’’ نوح نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو! میں اس کام پرتم سے کوئی مال نہیں مانگتا۔ میرا جرتواللہ کے ذمہ ہے اور میں اُن لوگوں کودھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے۔  وہ آپ ہی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔ اوراے قوم،  اگر میں ان لوگوں کو دُھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے مجھے کون بچانے آئے گا ؟ کیا تم لوگوں کی سمجھ میں اتنی بات بھی نہیں آتی ؟‘‘

شخصی گفتگو

 اِبلاغِ عام کی اہمیت واضح ہے۔ تاہم تمدن اورٹکنالوجی کی ترقی کے اعتبار سے لوگ کسی بھی سطح پر ہوں،  بہر حال اپنی بات پہنچانے کا مؤثر ترین ذریعہ ایسی گفتگو ہے جودو اشخاص کے درمیان روبرو ہو۔  شخصی گفتگو کے اہم امتیازات یہ ہیں۔

(الف)  جب ایک داعی اپنا پیغام،  شخصی گفتگو میں کسی کے سامنے رکھتا ہے تو مخاطَب،  محض داعی کی بات نہیں سنتا بلکہ اُس کی پوری شخصیت کا مشاہدہ کرتا ہے۔   اِس طرح داعی کا اخلاص، اُس کی گرم جوشی اور اُس کے کردار کی بلندی— یہ سارے پہلو مخاطَب کے سامنے آجاتے ہیں۔

(ب ) شخصی گفتگو میں غلط فہمی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔  سُننے والے کے لیے سوالات کرنے کا موقع ہوتا ہے اور وہ اپنی الجھنیں بیان کرسکتا ہے۔  داعی اُس کے سوالات کے پیش نظر، اپنی بات مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرسکتا ہے۔

(ج ) شخصی گفتگو،  مخاطَب کی اہمیت کا اعترا ف ہے۔  جب سننے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کی شخصیت کا احترام کیا جارہا ہے تووہ پیغام پر سنجیدہ توجہ کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔

مندرجہ بالا فوائد اُس وقت بھی حاصل ہوتے ہیں جب ایک فرد کے بجائے، افراد کی ایک مختصر تعداد سے گفتگو کی جائے ۔  البتہ جب تعداد بہت بڑھ جائے تو گفتگو کے بجائے تقریر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تقریر کی افادیت کے باوجود، مندرجہ بالا فوائد پورے طور پر حاصل نہیں ہوپاتے۔  ایک فرد یا چند افراد کے بجائے بڑے مجمع سے خطاب کی صورت میں مقرر کے لیے یہ کوشش بہر حال لازم ہے کہ وہ سننے والے ہر فرد کو اپنی دعوت کی جانب متوجہ کرنےکی کوشش کرے۔  بسا اوقات سامعین، مجمع کے عام تاثر سے ہم آہنگ ہونے کی غیر شعوری کوشش کرتے ہیں (چنانچہ  اگرتقریر پر داد وتحسین کے نعرے بلند ہوں توسننے والا، مقر ر کی بات کوزیادہ اہمیت دیتا ہے۔ ) مقرر کی کوشش کامیاب اُس وقت ہوگی جب وہ سامع کو، مجمع کے تاثرات سے متاثر نہ ہونے دے بلکہ اپنے استدلال سے متاثر کرے۔

شخصی رابطے کی امتیازی خصوصیات کی بنا پر مثالی داعیوں (انبیا ء کرام ) نے اس طرزِ ترسیل پر توجہ کی ہے۔  انہوں نے افراد سے الگ الگ بھی بات کی اورچند لوگوں سے یکجا گفتگو بھی کی۔ نوح علیہ السلام نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔

ثُمَّ اِنِّىْ دَعَوْتُہُمْ جِہَارًا۔ ثُمَّ اِنِّىْٓ اَعْلَنْتُ لَہُمْ وَاَسْرَرْتُ لَہُمْ اِسْرَارًا۔ (سورۂ نوح۔ آیت : 8 و 9)

’’نوح نے کہا،  ’’پھر میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو ہانکے پکارے دعوت دی،  پھر میں نے علانیہ بھی اُن کوتبلیغ کی اورچپکے چپکے بھی سمجھایا۔ ‘‘

جب  حضرت مصعب بن عمیر کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے بھیجا تو انہوں نے وہاں اسلام کی عام تبلیغ کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں جن کا تذکرہ سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے۔  دورِ اوّل کے بعد دنیاکے مختلف مُلکوں میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ حق کی دعوت قبول کرنے والوں میں ایک قابلِ ذکر تعداد ہمیشہ ایسے افراد کی رہی جوداعیانِ حق سے شخصی گفتگو کے بعد ایمان لائے۔

اِبلاغ کے دیگر ذرائع

اگر شخصی گفتگو کا موقع نہ ہوتو داعی کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پیغام رسانی کا وہ ڈھنگ اختیار کرے جس میں مخاطَب کے لیے بھی کچھ کہنے کا موقع  موجود ہو۔  مخاطَب چاہے تو سوال کرسکے، وضاحت چاہ سکے اور تنقید کرسکے۔ پچھلے ادوار میں خطوط، پیغام بھیجنے کا ذریعہ تھے۔  جس کوخط لکھا جاتا تھا وہ اپنے جواب میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا تھا۔ اب خطوط کے بجائے ای میل کے ذریعے پیغامات کاتبادلہ ہوتا ہے۔  اس میں بھی مخاطب کی یہ آزادی برقرار رہتی ہے کہ وہ جوابی تاثرات کا اظہار کرسکتا ہے۔ اس دائرے کووسیع تر کرتے ہوئے ویب سائٹ (جس میں ردِ عمل کے اظہار کی سہولت موجودہو) اورویڈیو کانفرنس کوایسے ذرائع میں شامل کیا جاسکتا ہے۔  سماجی ذرائع (سوشل میڈیا ) کے موجودہ طرز کا بغور جائزہ لے کر اُس میں ضروری اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔  اگر افراد کے درمیان بامعنیٰ اورنتیجہ خیز گفتگو کے بجائے محض شور کی کیفیت پیدا ہوجائے تو کسی سنجیدہ پیغام کی ترسیل ممکن نہیں ہوتی۔

بہرصورت  داعیانِ حق کو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ محض معلومات کا بہم پہنچانا اُن کا مقصد نہیں۔  بلکہ انسانوں کے قلب وذہن اور شخصیت وکردار کی تبدیلی اُن کا ہدف ہے۔  چنانچہ سماجی ذرائع سے روابط قائم ہونے کے بعد، دعوت سےدلچسپی لینے والوں سےملاقات کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ راہِ حق کی طرف اُن کی پیش قدمی ممکن ہوسکے۔ اِبلاغِ عام کے وسیع دائرے میں شخصی روابط کے لیے موزوں افراد کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔

اِبلاغ کے الیکٹرانک ذرائع کی دستیابی کے باوجود، ترسیل کے قدیم وسائل کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔  چنانچہ آج بھی پیغام رسانی  اوردرست معلومات کی فراہمی کے لیے کتابوں،  کتابچوں،  فولڈرز، اخبارات اور رسائل وجرائد کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے۔  جس طرح سامع کو اظہارِ خیال کا موقع دینا،  پیغام رسانی کونتیجہ خیز بناتا ہے اسی طرح قاری کو سوالات کرنے اورتاثرات بیان کرنے کا موقع فراہم کرنا بھی درست تفہیم کے لیے مفید ہوتا ہے۔  رسائل وجرائد اوراخبارات میں قارئین کے سوالات اور آراء کے کالم کی موجودگی، ترسیل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔  سوالات اورآراء کے جواب میں وضاحتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔

ترسیل واِبلاغ کے سلسلے میں مندرجہ بالا نکات کا خلاصہ یہ ہے۔

(الف) پیغام رسانی کا مؤثر ترین ذریعہ آج بھی وہ گفتگو ہے جوایک فرد یا چند افراد سے کی جائے۔

(ب )  مختصر مجمع سے خطاب کی صورت میں سوالات اوراظہارِ خیال کے مواقع بآسانی فراہم کیے جاسکتے ہیں اورکیےجانے چاہئیں۔

(ج ) قدیم ذرائع (کتب وجرائد) اورجدید الیکٹرانک ذرائع سے جن افراد سے ربط قائم ہواُس کی تکمیل کے لیے ملاقاتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

(د)  ہرقسم کے ذرائع میں ایسی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں کہ مخاطَب کواپنے مافی الضمیر کے اظہار کا موقع مل سکے۔

(ہ ) اسلامی مزاج— شائستہ زبان اورسنجیدہ اسلوب کا متقاضی ہے۔  سماجی ذرائع (سوشل میڈیا ) سے استفادے کی ایسی صورتیں سوچنی چاہئیں جہاں اسلام کے اس معیار کوقائم رکھاجاسکے۔

(و ) اِسلامی پیغام کی ترسیل کے لیے تھیٹراورناٹک جیسی شکلیں مناسب نہیں ہیں۔  ان سے کسی سنجیدہ  پیغام کی ترسیل ممکن نہیں ہوتی۔

(ز)  سماجی ذرائع (سوشل میڈیا) کے مباحث میں شور کی کیفیت سے بچنا چاہیے۔  اگریہ ممکن نہ ہو توان ذرائع کوترک کیا جائے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    رچرڈ ڈوکنز بڑے فخرسے اس شخص کے متعلق بیان کرتا ہے جس نے اسے بتایا کہ جب سے اس نے کائنات کے متعلق اس الحادی نظریات کا مطالعہ کیا جسے (رچرڈ ڈوکنز) اپنی کتابوں میں نشر کر رہا ہے مسلسل تین دن سو نہیں سکا۔
    بقول: ڈوکنز ان نظریات کے مطالعے کے بعد اس شخص نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زندگی بس ٹائم پاس ہے !

    One man said he didn’t sleep for three nights after reading The Selfish Gene. He felt that the whole of his life had become empty, and the universe no longer had a point
    Reinventing the Future, p.112.

    بے سکونی اندرونی خلش اور روح و مادہ کی کشمکش و تصادم کی تباہ کُن جنگ یہ وہ سوغاتیں ہیں جو الحاد نسل انسانی کو بَطَوْرِ احسان پیش کرتا ہے . اور یہ زہر میں بُجھا احسان ناصرف یہ کہ انسان کی انسانیت کا معنی ہی ختم کر دیتا ہے،
    بلکہ انسان کی زندگی اور وجود کے مقصد کو ملیا میٹ کر دیتا ہے ۔

    اس قسم کے خوف ناک مریض معاشرے میں جس کا فکر و ثقافت اور تلاش حق سے دور دُور کا واسطہ نا ہو
    ولایتی اور دیسی ملحدین فقط دنیاوی حقائق اور ابدی سماجی صداقتوں کی منصوبہ بند تخریب چاہتے ہیں تاکہ مذہبی معاشرہ ان کی طرح نفسیاتی و عقلی مریض ہو کر زندگی بسر کرے،
    یہ بات اس قدر یقین سے کہنے کہ وجہ یہ ہے کہ بزرگوں کے تجربات اور تاریخ کی شہادت یہی گواہی دے رہے ہیں کہ
    الحاد درحقیقت سوائے فکری انارکی، اندھے پن ، مکمل معدومیت اور عبثیت کے سواء کچھ نہیں.
    ملحدین کی خدمت میں یہ سوال بارہا رکھا جاچکا ہے کہ مذہبی اخلاقی تعلیمات کو ایک سمت رکھ کر کوئی عقلی و منطقی دلیل ایسی پیش کریں جس کی رُو سے نسل انسانی کو جڑ سے بے نام و نشان کردینا غلط و ناجائز ٹھہرے؟؟؟
    آج تک کسی ملحد زادے نے وہ معیار اور قاعدہ نہیں بتایا جس کی کسوٹی پر کوئی چیز درست اور باطل قرار پاتی ہے۔

    دنیائے الحاد میں کائنات کے وجود کا کوئی سکون بخش مقصد و معنی و مفہوم نہیں ۔ بڑے بڑے جرائم اس عالم الحاد میں آ کر اپنی شناعت و قباحت کھو دیتے ہیں ۔
    زمین میں برپا ہر نوع کا بگاڑ و فساد یہاں آکر” بے مقصد ذرات کی شرارت بھری حرکت ”کہلاتا ہے۔

    یال یونی ورسٹی امریکہ کے قانون کا ٹیچر Arthur Allen Leff لکھتا ہے کہ :
    ” کوئی ایسا طریقہ نہیں پایا جاتا کس سے یہ ثابت ہوسکے کہ مہلک بم سے بچوں کو جلا دینا بری اور غیر انسانی حرکت ہے ”
    there is today no way of ‘proving’ that napalming babies is bad
    Economic Analysis of Law: Some Realism about Nominalism (1974), p.454.
    سو اگر الحاد درست ہوتا تو مہلک بم سے بچوں کو نذر آتش کر دینا الحادی دنیا میں تہذیبی سطح پر نسلی ایشو ہوتا.

    کیونکہ مقدمے منطقی ہوتے ہیں تو نتیجے بھی منطقی ہوتے ہیں !.!

    ملحدین کا حال یہ ہے کہ خدا فراموشی کے ساتھ ساتھ خود فراموش ہوچکے ہیں
    {نسوا الله فأنساهم أنفسهم أولئك هم الفاسقون} ﴿١٩﴾ سورة الحشر.
    اس آیت سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر اس لمحہ موجود میں جس میں اللہ کو بھلا دیا جاتا ہے اس لمحے میں در اصل انسان اپنے پورے وجود کو بھول جاتا ہے اور دفتر بے معنی ہو کر ایک فضول و ناکارہ پُرزہ بن جاتا ہے
    جیساکہ ایک دوسرے مقام پر قرآن میں وارد ہے:
    {ومن يرغب عن ملة إبراهيم إلا من سفه نفسه} ﴿١٣٠﴾ سورة البقرة
    .
    ہر چیز کو نیست و نابود کرنا اور اسے بیوقوف ثابت کرنا نیز جرم کا ارتکاب کرنا اور عقلی لبادے کی آڑ میں ساری مذہبی برادری کو پوری ڈھٹائی سے ہر میدان میں غلط قرار دینا یہ وہ شرم ناک دفعات جرائم ہیں کہ ان سب کو پوری ہمت سے نافذ کرنے کے معاملے میں اب تک سب سے کام یاب مذہب الحاد ہے .
    اس الحادی کفر و ارتداد کی یہ عجیب و غریب تاریخ ہے .

    خالق حقیقی کا عرفان حاصل کرنے میں تحقیقی جہاد اور ایمانیات کو سوچ سمجھ کر تسلیم کرنا ہر ملحد کے لئے طہارت کی زندگی کی طرف واپسی کا مبارک سفر ہے اور ایمانی زندگی کی طرف واپسی دراصل اپنے وجود اور حقیقت وجود کی طرف رجوع کا پُر کَشِش افتتاحی غلاف ہے!
    اخلاقی قدروں اور اس کے مصادر و غایات کی درستی کو ماننے کی طرف واپسی کی زندگی درحقیقت ایمانی زندگی سے ملتی ہے
    .
    أصلحنا الله وإياكم للخير.

تبصرے بند ہیں۔