پیغمبرﷺ کی شادیوں پر اعتراضات: ایک جائزه

عبدالماجد رحمانی قاسمی

(ايم، اے، اسلامك اسٹڈيز، جامعه مليه اسلاميه، نئي دھلي)

عقل انسانی اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کے ذریعے انسان کو حق، حقانیت اور راہ ہدایت تک رسائی حاصل ہوتی ہے، البتہ بسا اوقات قومی عصبیت، مذہبی تعصب اور منفی رویہ انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، ایسے میں سچ اور سچائی خواہ روز روشن کی طرح عیاں ہو اس کا ادراک کرنا ایک امر محال ہوجاتا ہے، مغرب کے نام نہاد محققین نے جب تحقیق کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لئے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہر چیز کو اپنے بے جا اعتراضات اور سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا، توخاص طور پر پیغمبر اسلام کی پاکیزہ سیرت کو داغدار کرنے اور آپ کے تئیں اہل اسلام کی عقیدتوں کو کمزور کرنے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں اور آپ کی صاف و شفاف سیرت وکردار پر ایسے بے سرو پا اعتراضات کئے اور آپ کی حیات طیبہ پر ایسے اتہامات اور الزامات عائد کیے، جن کا عقل و خرد اور حقائق سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسی ضمن میں مستشرقین کی وہ من گھڑت اور افسانوی باتیں ہیں، جن میں انہوں نے رسول رحمت ؐ کی متعدد شادیوں کو اپنی دریدہ دہنی اور ہفوات کا نشانہ بنایا۔یہ اس قدر بے ہودہ ہیں کہ واقعات کے پس منظر پر نظر رکھنے والا کوئی بھی صاحب بصیرت شخص ان میں معترضین کی کج فہمی، بہتان تراشی اور علم وتحقیق کے اصولوں سے روگردانی کو بآسانی دریافت کر سکتا ہے۔

اعتراضات

مستشرقین نے کثرتِ ازدواج کی بنا پر آپ ﷺ کو جنسی طور پر حد سے تجاوز کرنے والے انسان کے طور پر پیش کیا ہے، ان لوگوں نے آپ ؐ کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہے، جو علمی وتحقیقی معیار سے تو کوسوں دور ہے ہی، عام انسانی اخلاقیات بھی اس کے ذکر کی اجازت نہیں دیتے۔  اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان بازاری اور بد زبان لوگوں کو اسکالر اور محقق بھی کہا جاتاہے۔  ولیم میور آپ ؐ کے بارے میں لکھتا ہے :

Mahomet was now going on to three-score years: but weakness for the sex seemed only to grow with age and the attractions of his increasing harem were insufficient to prove his passion from wandering beyond its ample limits.[1]

’’اب محمد ؐ کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی لیکن جنس مخالف کی طرف میلان کی کمزوری میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہاتھا آپ کے بڑھتے ہوئے حرم کی کشش آپ کو اپنی وسیع حدود سے تجاوز سے روکنے کیلئے کافی نہ تھی ‘‘۔ (۱)

مستشرقہ کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب “Muhammad” میں بڑی عیاری کے ساتھ افسانوی انداز میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ کی نظر حضرت زینب بنت جحش پہ پڑی اور اس کے حسن و خوبصورتی کی وجہ سے آپ اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے (نعوذ باللہ) پھر جلد ہی حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کے درمیان طلاق ہوگئی۔  (Muhammad,P:167)

حضرت ام سلمہ سے شادی کے حوالے سے کہ جب آپ ؐ نے انہیں پیام بھیجا، تو ام سلمہ نے معذرت کی اور اس کے تین اسباب بیا ن کئے : (۱)معمر ہوں (۲) یتیم بچوں کی ماں ہوں (۳) میرے جذبات میں رقابت ہے۔ اس پر کیرن آرم اسٹرانگ لکھتی ہیں :

Muhammad smiled — he had a smile of great sweetness, which almost everybody found disarming.

’’آنحضرت یہ بات سن کر مسکرادئیے وہی عظیم میٹھی مسکراہٹ جو ہر کسی کو پسپا کر دیتی تھی ‘‘۔(۲)

تحقیقی جائزہ

حاسدین اسلام نے تعصب اور رسول اللہ سے بغض و عداوت کی وجہ سے آپ کی پاکیزہ زندگی اور بے عیب کردار کومتہم کرنے کے لئے تعدد ازدواج کو بہانہ بناکر آپ ؐ کی معصوم اورعفت مآب ذات پر شہوت پرستی اور خواہش نفسانی کے غلبہ کا بیہودہ الزام لگانے کی کوشش کی ہے، آئیے ہم رسول اللہ کی زندگی کو اہل عقل و انصاف کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔

شادی کے لحاظ سے نبی کریم ؐ کی زندگی کے چار مرحلے ہیں، (۱) ولادت سے ۲۵؍سال تک کا عرصہ، جس میں آپ نے کوئی شادی نہیں کی، (۲)۲۵؍ سال سے ۵۵؍ سال تک کا عرصہ ہے، جس میں کبھی دو بیویاں آپ کے نکاح میں جمع نہیں ہوئیں (۳) ۵۵؍ سے ۶۰؍ سال تک کا مختصر عرصہ ہے، جس میں متعدد شادیاں ہوئیں (۴) ۶۰؍ سے۶۳؍ سال کی عمر میں آپ کی وفات تک زمانہ جس میں آپ نے کوئی نکاح نہیں فرمایا۔ آپ ؐ کی حیات طیبہ میں تعددازدواج کی مدت بہت مختصر ہے، اسے بنیاد بنا کر آپ کے اعلیٰ کردار پر کیچڑ اچھالنا حالات و واقعات کے پس منظر اور تاریخی حقائق سے ناواقفیت کی دلیل ہے، یہاں چند باتیں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے:

۱:۔ اگر مطلق ایک سے زیادہ شادیاں کرنا شہوت پرستی اور خواہش نفسانی کی وجہ سے ہوتا ہے، تو پھر یہ الزام صرف محمد عربیؐ پر ہی کیوں ؟ اس کی زد میں تو بہت سی وہ عظیم ہستیاں بھی آتی ہیں، جو صرف اہل اسلام کے نزدیک نہیں ؛بلکہ یہود ونصاریٰ اور دیگر غیر مسلموں کے عقیدے کے مطابق بھی معزز ومکرم اور قابل احترام سمجھی جاتی ہیں، مثلا :

بائبل کے مطابق حضر ت ابراہیم ؑ کی تین بیویاں تھی، حضرت ہاجرہ، سارہ اور قطورہ، (۴) حضرت یعقوب ؑ کی چار بیویاں تھیں، حضرت لیاہ، زلفہ، راحیل اور بلہاہ، (۵)حضرت داؤد ؑ کی ۹؍بیویوں کا نام ملتا ہے اور حضرت سلیمان ؑ کی ۷۰۰؍بیویوں اور ۳۰۰؍ حرموں کا تذکرہ ملتا ہے، (۶) صحیح بخاری میں حضرت سلیمان ؑ کی بیویوں کی تعداد۶۰؍سے ۱۰۰؍تک بیان ہوئی ہے، (۷) راجا دشرتھ کی تین بیویاں تھیں، رانی کوشلیہ، رانی سمترا اوررانی کیکئی، کرشن جی کی بہت سی گوپیوں کے علاوہ ۱۸؍بیویاں تھیں۔ اگر تعدد ازدواج کی وجہ سے ان معزز اور تاریخی شخصیتوں پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا، تو پھررسول اللہ ؐکی شادیوں پر کیوں ؟ اگر کوئی پیغمبر اسلام کی شادیوں پر سوال کھڑے کرتا ہے، تو ازخود یہی اعتراض ان تمام شخصیات پربھی ہونگی۔

۲:۔ پھر یہ بھی انتہائی اہم بات ہے کہ عرب کے اس معاشرے میں بے حیائی و شراب نوشی عام تھی، اس کے باوجود آپ کے جانی دشمن بھی آپ کے کردار کی پاکیزگی گواہی دیتے ہیں اور آپ کو صادق و امین کے لقب سے یاد کرتے ہیں، اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے ہیں، آپ حجر اسود کے سنگین معاملہ کا حل فرماتے ہیں، اعلان نبوت کے وقت اہل مکہ کے ساتھ گزاری ہوئی اپنی صاف ستھری زندگی کو نبوت کی دلیل کے طور پر ان کے سامنے پیش کرتے ہیں : فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ، افلاتعقلون (سورۃ یونس:۱۶) قریش مکہ نے آپ کی دعوت کو روکنے کے لئے طرح طرح کے الزامات لگائے، شاعر کہا، جادوگر کہا، مجنوں او ر سحر زدہ قرار دیا، دولت اور سلطنت کے حصول کا خواہش مند بتلایا ؛لیکن آپ کے کسی دشمن نے بھی آپ کے پاکیزہ کردار پر انگلی نہیں اٹھائی، ظاہر ہے کہ اگر انہوں نے آپ ؐ کی ذات میں شہوت پرستی اورنفسانی خواہشات کا ادنیٰ شائبہ بھی محسوس کیا ہوتا، تو وہ ضرور اس پہلو سے آپ کی ذات کو طعن و تشنیع اور دشنام طرازی کا نشانہ بناتے۔

۳:۔ اگر آپ کی متعدد شادیاں (العیاذ باللہ) شہوت اور جنسی جذبے کی تسکین کے لئے ہوتیں، تو جب قریش کے سرداروں نے آپ کو آپ کے پسند کی عرب کی کسی بھی خوبصورت ترین خاتون سے نکاح کی پیشکش کی، تو آپ نے اسے کیوں ٹھکرادیا ؟ آپ نے روتے ہوئے یہ کیوں فرمایا کہ چچا جان ! خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں تو بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا۔  (۸)حالانکہ یہ ایک اچھا موقع تھا، قریش آپ کی ہر خواہش پوری کرنے کے لئے تیار تھے ؛لیکن آپ کی زندگی کے مقاصد عظیم تھے، آپ کا ہر عمل کسی بڑے مقصد اور عظیم مصلحت کے تحت انجام پاتاتھا، جس کے سامنے معمولی دنیاوی اغراض مقاصد کی کوئی حیثیت نہیں؛اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ۲۵؍(پچیس ) سال تک کوئی شادی نہیں کی، جبکہ آپ ایک معززخاندان کے خوبرو، بہادر اور پر کشش نوجوان تھے، سردارانِ قریش آپ سے اپنی بیٹیوں کا نکاح کرنے میں فخر محسوس کرتے، سیکڑوں افراد ایسے تھے، جو آپ کے ایک اشارے پر اپنا گھر بار، مال و متاع اور اپنی جان بھی قربان کرنے کے لئے نہ صرف تیار؛ بلکہ اسے اپنے لئے سعادت اور باعث فخر سمجھتے تھے؛ لیکن آپ نے کسی حسین ترین دوشیزہ یا عرب رؤسا کی شہزادیوں کو اپنی زوجیت کے لئے منتخب کرنے کے بجائے ایک ایسی معمر خاتون کو زوجیت کا شرف بخشا، جو آپ سے ۱۵؍(پندرہ ) سال بڑی تھیں، رسول اللہ سے شادی کے وقت حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی عمر ۴۰؍(چالیس ) سال تھی اور اس سے پہلے وہ دو شوہروں کی زوجیت میں رہ چکی تھی، آپؐ نے اپنی عمر کے ۵۰؍ (پچاس) سال تک اسی خاتون کے ساتھ زندگی بسر کی، جب تک حضرت خدیجہؓ حیات رہیں آپ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا، ایسی عظیم ہستی پر شہوت پرستی کا الزام انصاف کا خون نہیں تو اور کیا ہے ؟

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی وفات کے بعد شوال ۱۰؍نبوت میں رسول اللہ ؐ نے بچیوں کی کفالت اور گھر کی دیکھ بھال کے لئے حضرت سودہ بنت زمعہؓ سے شادی کی، جو کہ پچاس سالہ بوڑھی، بیوہ اور بے سہارا خاتون تھیں، اسلام کی خاطر ان کی بڑی قربانیاں تھیں، آپؓ کا سارا خاندان شرک پر قائم تھا، تو آپؓ نے اپنے خاوند سکران بن عمرو بن عبد ود کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی، پھر شوہر کا بھی انتقال ہوگیا، تو رسول اللہ نے آپ کی دلجوئی اور مشکلات ومصائب کو ہلکاکرنے کے لئے آپ سے نکاح فرما یا۔

۵۵؍ سے ۶۰ ؍سال کا مختصر عرصہ ہے، جس میں آپ نے متعدد نکاح فرمائے اور تاریخی طور پر یہ شادیاں ازواج کی تعداد کو چار تک محدود کرنے والی آیت کے نزول سے پہلے ہوئی ہیں، مفسرین کے مطابق آیت فا نکحوما طاب لکم من النسائالاخ کا نزول ۷؍ہجری میں ہوا، جس کے بعدآپ نے کوئی نکاح نہیں فرمایااور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت ام سلمہؓ اور حضرت زینبؓ ان چار کے سوا دیگر ازواج مطہرات سے عملی طور پر کنارہ کشی اختیار فرمالی، پھر حقیقت یہ کہ ان شادیوں کے پس پردہ ایسے بے شمار دینی، دنیاوی، معاشرتی، سماجی اور تبلیغی مصلحتیں اور اغراض و مقاصد تھے کہ حق تعالیٰ نے خود وحی کے ذریعہ ان رشتوں کو قائم کرنے کا حکم فرمایا، رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے:

ماتزوجت شیئا من نساءي ولازوجت شیئا من بناتي، إلا بوحي جائني بہ جبریل علیہ السلام من ربي۔(۸)

’’میں نے کسی خاتون سے نکاح نہیں کیا اور نہ اپنی بیٹیوں سے کسی کا نکاح کیا، مگر اس وحی کی بنیاد پر، جسے جبریل امین میرے رب کی طرف سے لے کر آئے۔‘‘

ان عظیم مقاصد کواجمالا ذکر کیا جاتا ہے، جو آپ کے مختلف رشتہ ازدواج میں نمایاں ہیں، پیر کرم شاہ الازہری ؒ نے اپنی کتاب ’’ضیاء النبی‘ ‘ جلد ہفتم میں ان مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، یہ اس قدر واضح ہیں کہ خود معترضین نے بھی ان کا برملا اعتراف کیا ہے۔  اسلام کی خاطر بڑی قربانیاں پیش کرنے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی صاحبزادیوں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور سیدہ حفصہؓ کوزوجیت کا شرف بخشا؛ تاکہ معاشرتی طور پر ان کے والدین کی احسان شناسی اور عزت افزائی کا اعتراف و اظہار ہوسکے، پھر رسول اللہ ؐ کو ایسی خواتین کی ضرورت تھی، جودیگر صحابیات کو اسلام کی تعلیمات اور عورتوں کے ان مخصوص مسائل کی تعلیم دے سکیں، جنہیں وہ فطری شرم وحیا کی وجہ سے رسول اللہ سے نہ پوچھ سکتی تھیں ؛ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ تمام ازواجِ مطہرات، بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہؓ نے پوری زندگی اس فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دیا، حتیٰ کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا ’’خذوا نصف دینکم عن ھٰذہ الحمیراء‘‘() تم اپنا نصف دین اس حمیراء (عائشہؓ) سے سیکھو۔ (۹)

حضرت جویریہؓ سے رسول اللہ کے نکاح کی وجہ سے صحابہ کرام نے بنو مصطلق کے ہزاروں قیدیوں کو آزاد کردیا، جس کے باعث ان میں اسلام کے تئیں نرم گوشہ پیدا ہوا اور بالآخر ۶؍ہجری میں پورا قبیلہ بنوخزاعہ قریش سے کٹ کر مسلمانوں کا حلیف بن گیا، اسلام اور مسلمانوں کے سخت کٹر دشمن اب ان کے جاں نثار دوست بن گئے۔  یہود اسلام اور مسلمانوں کے شدید دشمن تھے، غزوہ خیبر کے موقعہ پر یہودیوں کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ قیدی بناکر لائی گئیں، رسول اللہ نے انہیں آزاد کرکے اپنی زوجیت میں لے لیا، یہود کی مقامی روایت کے مطابق داماد کے خلاف لڑائی کو برا سمجھا جاتا تھا، اس نکاح کے باعث یہود نے مسلمانو ں کے خلاف کوئی لشکر کشی نہیں کی۔

اسی طرح حضرت ابو سفیان کی بیٹی حضرت ام حبیبہؓ سے شادی کاایک مقصد قریش کے دو نہایت اہم قبیلے بنو ہاشم اور بنو امیہ کے آپسی اختلافات کو مٹاکر خوشگوار تعلقات قائم کرنا تھا اور اس نکاح کے ذریعے اسلام کے ایک بہت بڑے مخالف ابو سفیان کی دشمنی کا زور ٹوٹ گیا، سیدہ زینبؓ بنت خزیمہ اور سیدہ ام سلمہؓ (ہند بنت ابی امیہ المخزومی ) قدیم الاسلام اور راسخ العقیدہ تھیں، ان دونوں کے شوہر عبد اللہ بن جحش اور ابو سلمہ (عبداللہ بن الاسد )غزوۂ احد میں شہید ہوگئے تھے اور یہ بے یارو مدگار رہ گئی تھیں، نیز ان دونوں کے خاوندوں سے رسول اللہ کا قریبی رشتہ تھا، اس لئے صلہ رحمی کابھی تقاضا تھا کہ ان خواتین کو زوجیت میں لے کر ان کے ایمان کی حفاظت اور دنیوی ضرورت کی کفالت کی جائے۔  آخری نکاح آپ نے حضرت میمونہ بنت حارث سے فرمایا، جو بزرگ اور بیوہ خاتون تھیں، جن کی آٹھ دیگر بہنیں عرب کے بہت اہم لوگوں کے نکاح میں تھیں، حضرت عباس کی ترغیب کے بعد آپ ؐ نے چچا کی خواہش کے احترام میں ان سے نکاح فرمایا، جس کے نتیجے میں آپؐ کی رشتہ داری عرب کے بہت اہم خاندانوں سے ہو گئی۔ (۱۰)

رسول اللہ ؐ کی حضرت عائشہ کے علاوہ تمام ازواج مطہرات بیوہ یا طلاق یافتہ تھیں، اس طرح آپ نے انسانیت کو بے سہارا بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح کی عملا ترغیب دی ہے، اسلام نے چونکہ زنا کو نہ صرف حرام قرار دیا ہے، بلکہ زانی کے لئے سخت سزائیں بھی مقرر کی ہیں، اس لئے اس کا فطری تقاضا تھا کہ نکاح کے معاملے میں تھوڑی وسعت کوبرقرار رکھا جائے۔ وہ معاشرہ جو نکاح کے بغیر مرد و عورت کے تعلقات کی کوئی حد اور تعداد مقرر نہیں کرتا، کیسے ایک سے زائد نکاح پر اعتراض کرتا ہے مجھے نہیں معلوم۔

حواشي :

(۱) استشراق اور مستشرقین ص، ۴۳۔ (۲) استشراقی فریب، ص ۲۱۴؍بحوالہ پیغمبر امن، ص ۱۱۲ (۴) تکوین، باب ۱۶، آیت ۱۵، باب ۱۸، آیت ۱۴، باب ۲۵، آیت ۱، ۲۔(۵)تکوین باب ۲۹، آیت ۲۲، ۲۴، ۲۶۔ (۶) سلاطین اول، ۱۱:۳ رحمۃاللعالمین، ج:۲، ص:۱۲۳۔ (۷) صحیح بخاری، ج:۲، ص:۷۸۸کراچی۔ (۸) ابن سید الناس، عیون الاثر، ج :۲، ص:۳۳۷، بیروت۔ () ابن ہشام ج :۱، ص :۲۶۵، ۲۶۶۔(۹)مسند فردوس دیلمی بحوالہ سید سلیمان ندوی : سیرت عائشہ، ص :۱۶۵۔(۱۰) تفصیل کے لئے دیکھئے : نبی کریم ﷺکی عائلی زندگی۔

تبصرے بند ہیں۔