چار پانچ سو روپیوں کے سوداگر، کر رہے ہیں سیاسی بات

مدثراحمد

اترپردیش کے انتخابات ختم ہوچکے ہیں، نئی حکومت بنانے کی تیاری بھی ہورہی ہے، یوپی میں الیکشن جمہوری نظام کیلئے نہ ہوتے ہوئے ہندومسلم کے ن پر ہوتارہااور اترپردیش، منی پور، گوااور اتراکھنڈمیں بی جے پی اقتدا رپر قابض ہوئی، ساتھ ہی ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں کے سامنے یہ نظریہ پیش کیاکہ تم100 سیکولر مل کر بھی ایک کمیونل پارٹی کا مقابلہ نہیں کرپائے۔ یوپی میں شکست کے اسباب اس لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کہ اس ریاست میں اکثرسیکولر جماعتوں کا دبدبہ رہاہے، خصوصاً مسلم سیاست کا بول بالارہاہے۔ ہربار مسلمانوں کی بڑی تعداد اس علاقے میں کامیاب ہوتی رہی ہے، چاہے وہ کانگریس سے ہو یاپھرایس پی سے ہو یا پھر بی ایس پی سے، ماضی میں مسلمانوں کو اچھی قیادت کا موقع ملاہے۔

 لیکن پچھلے چند سالوں سے خاص طور پر2014 کے بعد حالات ناگریز ہوچکے ہیں اور اب الیکشن پارٹی پارٹی کے درمیان نہیں بلکہ ہندومسلم کے درمیان، سیکولرکمیونل کے درمیان ہونے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ یوپی میں سماجی وادی پارٹی جو سب سے زیادہ سیاسی جماعت مانی جاتی تھی وہ اپنے ہم خیال جماعتوں کا بھروسہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور سیکولر سیکولرکے کھیل میں کمیونل کو جیت کا موقع پر دے چکی ہے۔ لیکن اس سب کے درمیان مسلمانوں نے اس کراری شکست کاسہراخود اپنے سرپر لینے کی کوشش کی ہے، یعنی کہ انہوں نے اس شکست کیلئے اسدالدین اویسی کو ذمہ دار ٹھہرایاہے۔

 پچھلے چاردنوں سے ہم سوشیل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں کہ خود مسلمان ہی مسلمانوں کو بدنام کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، کوئی اعدادوشمارات غلط طریقے سے پیش کررہاہے تو کوئی اویسی کوآر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے ساتھ بیٹھی ہوئی تصویر کو شیئر کررہاہے۔ کبھی کبھی ہمیں سوچنے پر مجبور ہوناپڑتاہے کہ جنہیں سیاست کے "س”سے کوئی واسطہ نہیں وہ بھی سوشیل میڈیا کی جھوٹی تحریروں اور معلومات کو صحیح جان کر شیئر کرلیتے ہیں اور جو لوگ الیکشن کے وقت پر500سے2500 روپیوں میں اپنے ووٹ و ضمیر کاسودا کرتے ہیں وہ بھی سیاست پر تبصرے کررہے ہیں، مسلم سیاست کے حال، ماضی اور مستقبل کےبارے میں بات کررہے ہیں۔ جن کی بات اُن کی بیویاں نہیں مانتی وہ لوگ سوشیل میڈیاکے ذریعے سے دوسروں پر اپنی بات تھوپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ بھی رہاہے کہ مسلمان اپنے ہی قائدین پر الزام تراشیاں کررہے ہیں اور یہ بھی رونا رورہے ہیں کہ مسلمانوں کاکوئی قائد نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو قیادت کرنے کیلئے آپ کے درمیان آرہاہے اُسے آپ تسلیم کرنانہیں چاہتےاور یہ سوچتے ہیں کہ آپ کا قائد آپ کی آواز بنے۔

 اس وقت مسلمان اس طرح کے بے تکے تبصرے کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ وہ خود کس حد تک موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے تیارہیں، اُن کااپنا ووٹرکارڈ ہے بھی یانہیں، اپنے سیاسی مستقبل کیلئے وہ کس طرح کی تیاری کررہے ہیں، یہ بھی دیکھیں کہ موجودہ حالات تناظرمیں انہوں نے اپنا قائد کس طرح کے لوگوں کو چننے کا فیصلہ کیاہے۔ ہنسی آتی ہے اُن لوگوں پر جو اپنے ووٹ اور اپنے ضمیرکی قیمت طئے کرتے ہیں اورچار پانچ ہزار روپیوں میں اپنی قسمت کو فروخت کرتے ہیں وہ مسلمانوں کی قیادت میں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ مسلمان اب اپنوں پر الزام تراشیاں بند کریں اور اپنے مستقبل کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعائون قائم کرنے اور اپنوں کی ہمت افزائی اور تائید کرنے کا فیصلہ لیں، تب جاکر تبدیلی آئیگی، ورنہ غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے رہیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔