چمچہ گیری کی سیاست۔ اصولوں اور نظریوں سے دوری

عبدالعزیز
گندی سیاست کو ایک برا کھیل سمجھا جاتا ہے مگر اب سیاسی پارٹیوں میں اسی کھیل کو پسند کیا جاتا ہے۔ سیاسی قوت کے ذریعہ جو جس قدر دولت جمع کرتا ہے اسی قدر عوام و خواص میں اس کی عزت افزائی ہوتی ہے۔ دولت جب عوام و خواص میں عزت افزائی کا ذریعہ بن جاتی ہے تو ہر شخص اس کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے۔ اصول اور نظریہ کی بات پیچھے ہوجاتی ہے جو اصول اور نظریہ کی سیاست کرتے ہیں وہ بظاہر پیچھے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے گھر سے لے کر باہر تک لوگ انھیں بیوقوف اور بدھی سمجھتے ہیں۔ بہت کم لوگ زندگی کے آخری لمحے تک اصول پرستی اور حق پرستی پر قائم و دائم رہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اصول اور حق کے دامن کو کسی حال میں نہیں چھوڑتے زندگی میں وہی فائدہ میں رہتے ہیں۔ دوسری دنیا بھی ان کی بہتر ہوتی ہے۔ اصول اور ضابطہ کی زندگی یقیناًصبر آزما ہوتی ہے جس کی وجہ سے کم ہی لوگ اس رستے پر چلتے ہیں یا قدم رکھنا چاہتے ہیں۔
چمچہ گیری بھی سیاست میں اقتدار تک پہنچنے کا پرانا ذریعہ ہے۔ خوشامد پسندی یا چمچہ گیری پہلے جو لوگ کرتے تھے وہ کھلے عام کرنا یا کہنے سے ڈرتے تھے مگر اب بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ مسٹر مودی کے زمانے میں ہونے لگی ہے۔ شاید اس سے پہلے چمچہ گیری اس ڈھٹائی اور بے حیائی کے ذریعہ نہیں ہوتی تھی۔ ایمرجنسی کے زمانے میں اندرا گاندھی نے اپنے ایک چمچہ مسٹر ڈی کے بروا کو پہلے بہار کا گورنر بنایا پھر کانگریس پارٹی کا صدر بنا دیا۔ مسٹر بروا اس قدر خوش ہوئے کہ ’’اندرا انڈیا ہے اور انڈیا اندرا ‘‘ کہنے لگے۔ سنجے گاندھی ایمرجنسی میں خوب چمکے، کیونکہ چمچہ گیری کا کلچر خوب پنپنے لگا۔ جگن ناتھ مشرا، این ڈی تیواری اور برکت غنی (بنگال) سنجے گاندھی کی خوشامد میں بہت آگے ہوگئے تھے۔ غنی خان نے تو مالدہ کے گھر گھر میں سنجے گاندھی کی تصویر آویزاں کردی تھی۔ مسٹر سدھارتا شنکر رے سنجے گاندھی کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ہوائی اڈے پر انھیں اتارنے نہیں پہنچے تو سنجے گاندھی کو غصہ آگیا جس کی وجہ سے محترمہ اندرا گاندھی ناراض ہوگئیں۔ مسٹر رے کی وزارت کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ کلکتہ سے بہت لوگ محترمہ کو منانے کیلئے دہلی گئے۔ بڑی مشکل سے ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ تیواری اور مشرا کا حال غنی خان سے بھی برا تھا۔ وزیر اعلیٰ بہار ہوتے ہوئے جب انھوں نے سنجے گاندھی کا پیر چوما تو ایک رپورٹر نے ان سے پوچھا کہ آپ برہمن ہوکر سنجے گاندھی کا پیر چھو رہے ہیں تو جواب میں انھوں نے کہاکہ ’’سنجے گاندھی مجھ سے بڑے برہمن ہیں‘‘۔ جاڑے کا موسم تھا۔ سنجے گاندھی ہیلی کوپٹر سے بلیا آئے۔ ہیلی کوپٹر جب بلیا پہنچا تو موسم بڑا کہر آلود تھا۔ سنجے گاندھی نے کہاکہ موسم بڑا کہر آلود ہے۔ تیواری نے ایک بار نہیں کئی بار کہاکہ ’’ہاں! ہاں؛ بڑا کہر آلود ہے‘‘۔ تیواری جی نے نہ اوپر دیکھا اور نہ نیچے، دوری بنانے کیلئے جو رسی بندھی ہوئی تھی اس سے پھنس کر گرگئے۔ سنجے گاندھی نے انھیں اٹھایا۔ جب سنجے گاندھی انھیں اٹھا رہے تھے تو تیواری جی نے کہا ’’موسم واقعی کہر آلود ہے‘‘۔ رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ تیواری جی کچھ اس طرح سنجے گاندھی کے سامنے کہہ رہے تھے جیسے موسم کی خرابی میں ان کا ہاتھ ہو۔
نریندر مودی جب سے وزیر اعظم ہوئے سنجے گاندھی کا زمانہ واپس آگیا بلکہ اس سے بھی بدتر کیونکہ تیواری اور مشرا اگر چمچہ گیری کرتے تھے تو وہ کوئی حیلہ بہانہ ڈھونڈ لیتے تھے، مگر اب جو مودی کی چمچہ گیری کر رہے ہیں وہ کھلے عام کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ فلمی دنیا کے نہالانی نے علانیہ طور پر کہاکہ وہ مودی کا چمچہ ہیں۔ انوپم کھیر بھی فلمی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اگر انھیں کوئی مودی کا چمچہ کہتا ہے تو ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ خوشی ہوتی ہے۔ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو چمچہ گیری کی حد کر دی۔ ایسے شخص کو جو گجرات فساد کی وجہ سے مشہور ہوا جس کی حکومت میں ہزاروں لوگ مارے گئے یا جلا دیئے گئے ہیں اسے ذرا بھی افسوس نہیں ہوا بلکہ سیاست کی دنیا میں ترقی کی وجہ سے خوشی ہوئی۔ آندھرا پردیش کے نائیڈو نے اسے قدرت کا تحفہ کہا ہے۔ اگر یہی قدرت کا تحفہ ہے کہ پورے ملک میں اس وقت فرقہ پرستی، فساد انگیزی اور فتنہ گری بڑھ گئی ہے۔ جہاں بھی بی جے پی کے لوگ جاتے ہیں فساد بڑھ جاتا ہے۔ لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ آج (22جون) کے ’دی ٹیلگراف ‘ نے کیرانہ کی ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ جب سے الہ آباد میں مودی اور امیت شاہ کا بھاشن ہوا اور حکم سنگھ کی لسٹ منظر عام پر آئی اس کے نتیجہ میں بی جے پی کی ٹیم کیرانہ گئی۔ ہندو اور مسلمانوں میں تناؤ پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی تجارت ماند پڑگئی ہے۔ بہت سے لوگ جو کلکتہ سے کیرانہ ساڑی لینے جاتے تھے وہ بنارس ہی سے لوٹ آتے ہیں۔ کیرانہ کے مسلم تاجروں نے بتایا کہ بنارس کے بہت سے تجار نے جو بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں کیرانہ کے غیر مسلموں کے اخراج کی افواہ اپنے تجارتی مقصد کیلئے پھیلائی جسے بی جے پی کی مجلس عاملہ نے اچک لیا۔ ایک ریسٹورنٹ کے مسلم تاجر نے بتایا کہ اس کے ریسٹورنٹ میں غیر مسلم گاہک کم آنے لگے ہیں۔ جو غیر مسلم آلو، پیاز ادھار دیتے تھے انھوں نے ادھار دینا بند کر دیا یہ کہہ کر کب یہاں سے کب بھاگنا پڑے کوئی ٹھیک نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ فسطائیت اور فرقہ پرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ فسطائیت اور فرقہ پرستی انسانیت کو کچل دیتی ہے۔ آدمی جو فسطائی اور فرقہ پرست ہوجاتا ہے اس کے اندر انسان گھٹ جاتا ہے اور سایہ بڑا ہوجاتا ہے۔ جگر مراد آبادی نے سچ کہا ہے ؂
جہل خرد نے کیا دن دکھلائے ۔۔۔گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
کفر و جہالت انسان کو اندھیرے میں بھٹکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کچھ لوگ چمچہ گیری، اور خوشامد پرستی کے ذریعہ آگے بڑھ رہے ہیں تو کچھ لوگ دہشت اور دھمکی کے ذریعہ آگے بڑھنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آر ایس ایس اور بھاجپا کی نیتی اور راج نیتی یہی ہے کہ اقتدار ہاتھ میں آئے چاہے جیسے آئے۔ بی جے پی میں بھی آمریت اس قدر نہیں تھی مگر اب جو آمریت آئی ہے وہ ہر طرح کی خرابی اپنے ساتھ لائی ہے۔ اس میں سے ایک چمچہ گیری ہے۔ بھاجپا کے اندر جو کچھ جمہوریت تھی اس کا بھی کباڑا ہوگیا ہے۔ اصول اور حق پرستی کے خلاف تو یہ پارٹی عالم وجود ہی میں آئی ہے، اس لئے اس پارٹی میں اصول اور حق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کانگریس کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ راہل گاندھی اگر چہ سنجے گاندھی نہیں ہیں مگر کچھ جھلک ان میں بھی سنجے گاندھی کی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھی صلاحیت کے لوگ کانگریس میں آگے نہیں آپارہے ہیں۔
آسام میں جو کانگریس کی ہار ہوئی ہے اس میں راہل گاندھی کی آمریت اور ان کی چنڈال چوکڑی کا بڑا دخل ہے۔ آسام کا بہت باصلاحیت لیڈر ہمنتا بسواس سرما آسام کے حالیہ الیکشن سے پہلے پارٹی سے نکل کر بھاجپا میں محض راہل گاندھی کی آمریت کی وجہ سے شامل ہوا۔ راہل گاندھی میں جب تک سنجے گاندھی کی جھلک ہوگی۔ کانگریس کیلئے آگے بڑھنا آسان نہیں ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔