چمکی بخار کا وار اور بے حس سرکار 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

 ہر سال مئی جون کے مہینے میں ایکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم (اے ای ایس) جسے چمکی بخار کہا جا رہا ہے، سے مظفرپور اور اس کے اطراف سے بچوں کے مرنے کی خبریں آنے لگتی ہیں۔  اس بار چمکی (دماغی) بخار نے مہا ماری کی شکل اختیار کر قہر برپا دیا ہے۔  18 جون تک 390 بچوں کے بیمار پڑنے کے معاملہ سامنے آئے تھے۔  جن میں سے 135 سے زیادہ بچوں کی موت ہو گئی۔  تازہ خبر کے مطابق یہ تعداد 181 کو پار کر چکی ہے۔  مرنے یا شدید طور پر بیمار بچوں میں 80 فیصد لڑکیوں کا ہونا تشویشناک ہے۔  ابھی بھی بیماری سے متاثر بچوں کا اسپتال آنے کا سلسلہ جاری ہے اور سیکڑوں سنگین حالت میں مقامی اسپتالوں میں بھرتی ہیں۔  شمالی بہار کے مظفرپور، سیتامڑھی، شیوہر، ویشالی، سمستی پور، ویسٹ چمپارن اور ایسٹ چمارن اضلاع اس بیماری سے بری طرح متاثر ہیں۔

مظفر پور میں اس جان لیوا بیماری کا معاملہ سب سے پہلے 1993 میں سامنے آیا تھا۔  مگر 1995 سے ہر سال لگاتار اس مہلک بیماری سے بچے مر رہے ہیں۔  2012 میں 178 اور 2014 میں 139 بچوں کی موت ہوئی تھی۔  اس بیماری کی شروعات تیز بخار سے ہوتی ہے، جس کے بعد یہ جسم کے نیرولوجیکل سسٹم کو متاثر کرتا ہے۔  جسم میں چھٹپٹاہٹ اور دماغی عدم توازن کی کیفیت تک پیدا ہو جاتی ہے۔  اس سلسلہ میں کئی تحقیقات ہوئیں لیکن مرض کی وجوہات کا پتا نہیں چل پایا۔  البتہ بہار کے شعبہ صحت نے اس مرض کی علامتوں کی بنیاد پر اسٹنڈرڈ آپریشن پروسیزر تیار کیا۔  اس کا نتیجہ یہ رہا کہ 2015 میں چمکی بخار سے مرنے والے بچوں کی تعداد میں کافی کمی دکھائی دی۔  اس سال صرف 16 بچوں کی موت ہوئی اور 2016 میں یہ تعداد چار رہ گئی۔  2015 کے بعد کبھی بھی دماغی بخار سے مرنے والے بچوں کا آنکڑا 20 سے اوپر نہیں گیا۔  مگر اتنے لمبے عرصہ میں اس بیماری سے بچاؤ کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا گیا۔

2014 میں مرکزی وزیر صحت کے طور پر ڈاکٹر ہرش وردھن نے اس علاقے کا دورہ کر کہا تھا کہ بچوں کی 100 فیصد ٹیکہ کاری ہونی چاہئے۔  کوئی بھی بچہ ٹیکے سے چھوٹنا نہیں چاہئے۔  اگر اس پر عمل کیا گیا ہوتا تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔  اصل میں اس طرح کی بیماریاں اچانک ہی دھاوا بولتی ہیں اور پھر لمبے عرصے تک غائب رہتی ہیں۔  اس وقت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اعلان کیا تھا کہ جلد ہی یہاں 100 بیڈ کا بچوں کا اسپتال بنایا جائے گا۔  مظفرپور اور دربھنگا میں دو اعلیٰ سطح کے ریسرچ سینٹر قائم کئے جائیں گے۔  یہی نہیں میڈیکل کالج کی سیٹ 150 سے بڑھا کر 250 کرنے اور گیا، بھاگلپور، بیتیا، پاواپوری اور نالندہ میں وائرولاجیکل ڈائگنوسٹک لیب بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔  اس مرتبہ بھی انہوں نے اپنے دورے کے دوران کچھ اسی طرح کے وعدے کئے ہیں جن پر گزشتہ پانچ سال میں کوئی عمل نہیں ہوا۔  زمینی حقیقت یہ ہے کہ مظفرپور کے سرکاری اسپتال "شری کرشن میڈیکل کالج و اسپتال ” جہاں 100 سے زیادہ بچوں کی موت ہوئی، وہاں صرف پچاس بستروں کا آئی سی یو ہے۔  ایک ایک بستر پر تین تین بچے علاج لے رہے تھے۔  اس علاقہ میں ٹیکہ کاری صرف 76 فیصد ہو سکی ہے۔

اکیلے مظفرپور میں ہی نہیں پوری ریاست میں صحت سہولیات کی بے حد کمی ہے۔  اسپتالوں میں ضروری آئی سی یو، بیڈ، دواؤں اور اینٹی انسیفلائٹس ویکسین کی بھاری کمی ہے۔  شدید طور پر بیمار مریضوں کے لئے وینٹی لیٹر اور آکسیجن سلنڈر کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن زیادہ تر سرکاری اسپتالوں میں یہ بنیادی سہولتیں نا کے برابر ہیں۔  کئی اضلاع میں بخار کی جانچ کے لئے ضروری سہولت تک نہیں ہے۔  اس کی وجہ سے حالات اور بھی بدتر ہو گئے۔  نیشنل سیمپل سروے کے مطابق بہار میں 3000 پرائمری ہیلتھ سینٹر ہونے چاہئیں، پر ہیں صرف 1883۔  پالیسی ریسرچ اسٹڈیز نے بہار کے بجٹ میں پایا کہ 18-2019 میں صحت کے لئے 7793.82 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ 16-2017 میں یہ رقم 8234 کروڑ تھی۔  یعنی ریاست اپنے بجٹ کا 4.4 فیصد ہی صحت پر خرچ کرتی ہے۔  جو 18 ریاستوں کے اوست خرچ سے کافی کم ہے۔  صوبہ میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی ہے۔  سال 2018 میں بہار کے وزیر صحت نے اسمبلی میں بتایا تھا کہ ریاست میں 17،685 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے، جبکہ قومی اوست 11،097 لوگوں پر ایک ڈاکٹر کا ہے۔  ایسے میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا مظفرپور میں 25 سو بستر والا اسپتال بنانے کا اعلان بے تکا لگتا ہے۔  پچیس سو بستر والا اسپتال بنانے میں تقریباََ 1.5 سے 2.5 ہزار کروڑ روپے خرچ ہونگے۔  اگر سات ہزار کروڑ روپے میں سے دو ہزار کروڑ روپے ایک ضلع پر خرچ کر دیئے جائیں گے تو باقی اضلاع پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟

ویسے عوامی صحت ہمارے ملک کی ترجیحات میں کبھی نہیں رہی۔  عالمی ادارہ صحت کے مطابق بھارت میں فی شخص صحت پر 1112 سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔  یعنی تین روپے فی دن، چین ہم سے زیادہ آبادی والا ملک ہے وہاں فی شخص صحت پر اوسطً خرچ 426 ڈالر ہے۔  بیماری کو مہا ماری بننے سے روکنے کے لئے اس کی پہچان کر فوراً علاج کا انتظام ہونا چاہئے۔  مگر اس کے لئے وسائل ہی نہیں ہیں۔  نیشنل سینٹر فار ڈزیز کنٹرول جیسے ادارے کا بجٹ صرف 233 کروڑ ہے، جبکہ امریکہ میں سینٹر فار ڈزیز کنٹرول کا 2018 کے لئے بجٹ 77000 کروڑ روپے تھا۔  یہ بھارت کے کل صحت بجٹ 52 ہزار کروڑ روپے سے کہیں زیادہ ہے۔  صحت کے لحاظ سے دنیا میں بھارت کا مقام 145 واں ہے۔  125 کروڑ آبادی والے ملک کے لئے 52 ہزار کروڑ میں کیسی صحت کی سہولیات ہوں گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 15-2016 میں ہوا تھا۔  اس کے مطابق بہار میں پانچ سال کے 44 فیصد بچے کوپوشن کے شکار ہیں۔  صحت کی سہولیات کے علاوہ بچوں میں کوپوشن، صاف پانی کی عدم دستیابی، غذایت سے پر کھانے کی کمی، صاف صفائی اور بیداری کی کمی اس بیماری کو بڑھانے کا کام کرتی ہے۔  اس کے باوجود سرکار اور اس کے نمائندوں کا حال یہ ہے کہ جس کے جو منھ میں آرہا ہے بول رہا ہے۔  کوئی کہہ رہا ہے کہ خالی پیٹ لیچی کھانے سے بچے بیمار ہوئے۔  تو کوئی کہہ رہا ہے کہ بیداری کی کمی کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔  تو کوئی اسے قدرتی آفت قرار دے رہا ہے۔  بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اجے نشاد نے بچوں کی موت کے لئے 4 جی کو ذمہ دار ٹھرایا یعنی گرمی، گاؤں، غریبی اور گندگی۔  سوال یہ ہے کہ گرمی دوسرے علاقوں میں بھی کم نہیں ہے، اور جہاں لیچی کی کھیتی نہیں ہوتی وہاں بچے اس بیماری سے کیوں متاثر ہوئے، اور ملک کے دوسرے حصوں میں جہاں لیچی پیدا ہوتی ہے وہاں یہ بیماری کیوں نہیں۔  رہا سوال بیداری کا تو یہ کام سرکار کے علاوہ کون کرے گا۔  دراصل ترہت ڈویژن کا علاقہ تین بڑی ندیوں گنگا، گنڈک اور باگمتی سے متاثر ہے۔  شدید گرمی اور ہوا میں زیادہ نمی کی وجہ سے اسیفلائٹس کا وائرس فعال ہو جاتا ہے۔  پری مانسون بارش کے ہونے پر مچھروں کے ذریعہ یہ انسانی جسم میں داخل ہو کر اپنا اثر دکھاتا ہے۔  عدم غذائیت کے شکار بچے سب سے پہلے اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔

ہر علاقے میں روز دو تین بچے دم توڑ رہے ہیں۔  بچوں کی موت کا معاملہ اتنا سنگین ہو گیا ہے کہ اب سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔  عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ مرکزی وصوبائی سرکار کو ہدایت دے کہ بہار میں 500 آئی سی یو اور موبائل آئی سی یو کا انتظام کیا جائے۔  ساتھ ہی پرائیویٹ اسپتالوں میں بچوں کا مفت علاج ہو۔  قومی انسانی حقوق کمیشن نے بھی بچوں کی موت پر خود سے نوٹس لیتے ہوئے بہار حکومت کو اس بیماری کی روک تھام کیلئے کئے گئے اقدامات کی رپورٹ مانگی ہے۔

سرکار کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سو سے زیادہ موتیں ہونے کے بعد بھی ریاست کا محکمہ صحت نہیں جاگا۔  جبکہ ریاستی حکومت کو اسی وقت ہوشیار ہو جانا چاہئے تھا جب جون کے مہینے کی شروعات میں ایک ہی دن میں دو بچوں کی موت ہوئی تھی۔  گزشتہ ایک دہائی سے اس بیماری کے ہر سال مظفرپور اور آس پاس کے علاقوں میں پھیلنے کی واقفیت کے باوجود شعبہ صحت نے نہ احتیاطی اقدامات کئے اور نہ ہی اس سے نمٹنے کی کوئی تیاری۔  حالانکہ ریاست کے چیف سیکرٹری دیپک کمار کا کہنا ہے کہ علاج کا بہتر انتظام کی وجہ سے اس سال چمکی بخار سے موتوں کا اوسط کم ہے۔  اس بار صرف 26 فیصد کی موت ہوئی ہے، جبکہ گزشتہ برسوں میں یہ شرح 35-36 فیصد تک رہتی تھی۔  جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مریضوں کو لانے کے لئے ایمبولینس تک کا مناسب انتظام نہیں تھا۔  کئی موتیں وقت پر علاج نہ ملنے کی وجہ سے بھی ہوئیں۔  پہلے سے تیاری کی گئی ہوتی تو شاید اس انہونی سے بچا جا سکتا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔