چند ممنوع معاملات

شادمحمدشاد

اس سے پہلے ہم نے ایک مضمون بنام”پروڈکٹس کب مہنگی ہوتی ہیں؟“لکھا تھا،جس میں  تقریبا پانچ ممنوع معاملات(نجش،تلقی رکبان،بیع حاضر للبادی،احتکار اور غبن ودھوکہ)کی تفصیل بھی تحریر کی تھی۔آج کے اس مختصر مضمون میں چند دیگر ایسے معاملات آپ کے سامنے رکھنا مقصود ہے جو شریعت کی نظر میں ممنوع ہے،لہذا انہیں سمجھ کر ان سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔

1۔دوسرے مسلمان کی بیع پر بیع کرنا:

اس کو فقہی اصطلاح میں ’’بیع المسلم علی بیع اَخيه‘‘ کہتے ہیں۔اس کی صورت یہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان ایک متعین قیمت پر معاملہ طے ہوچکا ہو اور پھر کوئی تیسرا آدمی آکر خریدار کو کہے کہ میں اسی طرح کی چیز تمہیں کم قیمت پر دیتا ہوں۔ یا فروخت کنندہ سے کہے کہ میں تم سے یہی چیز زیادہ قیمت پر خریدتا ہوں۔

اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ  بائع(فروخت کنندہ) اپنے لیے تین دنوں کا اختیار  رکھ لے کہ تین دنوں کے اندر اندر اگر میں چاہوں گا تو اس معاملہ کو ختم کردوں گا۔ اب ان تین دنوں  اندر اندر ایک  تیسرا شخص آکر فروخت کنندہ  سے  کہتا ہےکہ:تم اپنے اختیار کو استعمال  کرتے ہوئے اس معاملہ کو ختم کردو،میں تم سے  یہ چیز زیادہ قیمت پر خرید لوں گا۔

  یا دو آدمیوں کی باہمی رضامندی سے معاملہ طے ہوجائے،اور مشتری(خریدار) کو یہ اختیار دیا گیا کہ تین دنوں کے اندر اندر اگر وہ چاہے تو اس معاملہ کو منسوخ کرسکتا ہے۔اسی دوران کوئی تیسرا آدمی آکر فروخت کنندہ کو یہ کہتا ہے کہ:تم اس  معاملہ کو ختم کردو میں اسی طرح کی چیز تمہیں کم قیمت میں دے سکتا ہوں،یا اس سے اچھی چیز اسی قیمت پر یا اس سے کم پر تمہیں دے سکتا ہوں۔

چونکہ شریعت کا اصل قانون یہ ہے کہ  ہر وہ جائز معاہدہ جو فریقین کی رضامندی سے وجود میں  آیا ہو، کسی تیسرے کی مداخلت کے بغیر اپنے منطقی انجام کو پہنچے،فریقین اس معاہدہ کے مطابق عمل کرے اور دوسرے لوگ اس کا احترام کرے،اس لیے احادیثِ مبارکہ میں گزری ہوئی صورتوں میں تیسرے شخص کی مداخلت کو سختی سے منع کیا گیا ہے،صحیح بخاری میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:” تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے۔ “

2۔دوسرے کی بھاؤ تاؤ میں مداخلت کرنا:

 اس کو فقہی اصطلاح میں ’’سوم علی سوم اَخيه‘‘ کہتے ہیں۔اس کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی بھاؤ تاؤ کررہے ہوں اور کسی قیمت پر اتفاق کرکےمعاملہ مکمل کرنے کی طرف رغبت رکھتے ہوں کہ اسی دوران کوئی تیسرا شخص آکر اپنے لیے بھاؤ تاؤ شروع کردے،زیادہ قیمت کی پیش کش کردے یا اپنی وجاہت استعمال کرکے معاملہ کو اپنی طرف کھینچے۔اس کی شرعا ممانعت آئی ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ سرور دو عالمﷺ نے فرمایا:” کوئی مسلمان اپنے بھائی کے مول بھاؤ پر اپنا مول بھاؤ نہ کرے۔ “(صحیح مسلم)

3۔اذانِ جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرنا:

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید وفروخت کا ایسا معاملہ کرنا جو سعی میں خلل انداز ہو،شرعا  ممنوع ہے،کیونکہ سعی واجب ہے اور ترکِ واجب شرعاً ممنوع اور حرام ہے،البتہ اگر کسی معاملہ کی وجہ سعی میں خلل نہ پڑے تو جائز ہے،مثلاً: مسجد کی طرف جاتے ہوئے راستے میں کوئی معاملہ کیا جائے۔

البتہ ’’مضطر‘‘ کو شرعاً اجازت دی گئی ہے، یعنی اگر کسی کو کوئی چیز خریدنے  یا بیچنے کی ایسی سخت ضرورت  پیش آجائے جس کے بغیر اس کی جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے یاسخت قسم کی بیماری میں مبتلا ہونے یا بیماری کے بڑھ جانے  کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص کو اپنی ضرورت کی چیز خریدنے کی ا جازت دی گئی  ہے،اگرچہ جمعہ کی اذان ہوچکی ہو،اوروہ دوسرا شخص جو ایسے مجبور کے ساتھ معاملہ کرتا ہے وہ بھی گناہ گار نہیں ہوگا،بلکہ ایسی اضطراری کیفیت میں اگر اُس مجبور کی ضرورت کسی اور جگہ سے پوری نہیں ہوسکتی  تو اُس دوسرے شخص پر لازم ہے کہ اس کی ضرورت پوری کرے۔

اسی طرح  فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ  اذان جمعہ کے بعد بیع و شراء کا معاملہ کرنا اُن لوگوں کے لیے ممنوع ہےجن پر نمازِ جمعہ واجب ہو۔اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

1۔بائع (فروخت کرنے والے) اور مشتری(خریدنے والے) دونوں میں سے ہر ایک پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی واجب  ہو۔

2۔یا دونوں میں سے کسی ایک پر واجب ہو اور دوسرے پر واجب نہ ہو،یعنی ایک  مسافر ہو یاشہر کی مضافات سے باہر کے دیہات سے تعلق رکھتا ہو۔

3۔ جمعہ کی ادائیگی تو دونوں پر واجب ہو مگر ایک نے نمازِ جمعہ ادا کرلی ہو اور دوسرےنے(جس پر جمعہ واجب ہے) ابھی تک جمعہ ادا نہیں کیا۔

 تو اِن تینوں صورتوں میں  ان کاآپس میں  یہ معاملہ کرنا جائز نہیں، کیونکہ پہلی صورت میں چونکہ بائع اور مشتری دونوں پر جمعہ واجب ہے  تو اُن پر سعی بھی واجب ہے،اور اُن کا اس طرح  معاملہ کرنا كہ جس  سے سعی میں خلل پڑے،شرعاً جائز نہیں ہے۔

دوسری صورت میں ایک تو وہ آدمی ہے جس پر جمعہ کی ادائیگی واجب نہیں ہے،لیکن دوسرا آدمی وہ ہے جس پر جمعہ واجب ہے اور اُس نے ابھی تک جمعہ ادا نہیں کیا،لہذااگر یہ دونوں کوئی  ایسا معاملہ کرتے ہیں  جس سے دوسرے کی سعی میں خلل واقع ہورہا ہے تو یہ جائز نہیں۔

پہلے آدمی  کے معاملہ کرنے میں اگرچہ یہ خرابی تو نہیں پائی جارہی،لیکن وہ دوسرے آدمی کے سعی میں رکاوٹ اورخلل پیدا کررہا ہے،یعنی اس رکاوٹ کے لیے سبب بن رہا ہے،اور کسی ناجائز امر کے لیے سبب بننا بھی ناجائز ہے،لہذا اس کا ایسے شخص  کے ساتھ معاملہ کرناجائز نہیں ہے۔

تیسری صورت کا بھی یہی حکم ہے کہ  ایک نے تو جمعہ ادا کرلیا ہے، لیکن وہ دوسرے کی سعی میں خلل  اور رکاوٹ ڈال رہا ہے، اس لیے یہ بھی جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر بائع اور مشتری میں سے کسی ایک پر بھی جمعہ کی ادائیگی واجب نہ ہو،یا دونوں نے نمازِ جمعہ ادا کرلی ہواور  کوئی اور شرعی خرابی بھی نہ ہو، تو اَذان ِ جمعہ کے بعد اُن کاآپس میں معاملہ کرنا  فی نفسہ جائزہے،کیونکہ جمعہ کی اذان کے بعد معاملہ کرنااصلاً  تو جائز تھا، مگر ایک خارجی مانع اور عارض کی وجہ سے اِسے ممنوع قراردیا گیا، اور وہ عارض ’’سعی میں خلل‘‘ کا واقع ہونا ہے،لہذا جس صورت میں  یہ  مانع نہ پایا جائے وہاں اصل حکم لوٹ آئے گااور معاملہ جائز ہوجائےگا،البتہ پسندیدہ پھر بھی نہیں ہے،بہتر یہ کہ نمازِ جمعہ کے بعد ہی خرید وفروخت وغیرہ معاملات شروع کرنے چاہیے۔

 واقعہ یہ ہے کہ یہ حکم صرف معاملات کی حد تک محدود نہیں ہے،بلکہ  اذانِ جمعہ کے بعد ہر وہ کام شرعاً ممنوع ہے جس کی وجہ سے سعی میں رکاوٹ بن رہی ہو۔

   اسی طرح فقہاء کرام نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ جمعہ کے دن سعی سے  سبکدوش ہونے کے بعد اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے قبل مسجد کے آس پاس یا مسجد کے دروازے پر خرید وفروخت  کرنا بھی ممنوع  اور گناہ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔