چوکیدار ہی خونخوار

مدثراحمد

ملک بھر میں گاؤ رکشا کے نام پر جو خونی کھیل کھیلا جارہا ہے وہ اب نہ صرف ہندوستان میں عام بات ہوچکی ہے بلکہ اسکا چرچہ اب بین الاقوامی سطح پر بھی ہورہا ہے ، گاؤ رکشا کے نام پر جو گاؤرکشک ملوث ہیں انکا حقیقی مقصد دھرم کے نام پر گائے کی حفاظت نہیں ہے بلکہ گاؤ رکشا کے نام پر بلیک میلنگ کرنا، اپنی غنڈہ کردی کا سکہ جمانا اور سیاسی مفادات حاصل کرنا ہے۔

یہ بات عیاں ہے کہ ان خود ساختہ گاؤرکشکوں کو جہاں سیاستدانوں کا ساتھ ہے وہیں پولیس کی دریا دلی بھی ان دہشت گردوں کو مل رہی ہے اور قانون کا نفاذ صحیح طریقے سے نہیں ہورہا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ منگلور کے مضافاتی علاقے میں پیش آیا ہے جس میں گائے کے تاجر کے قتل میں ملوث بجرنگ دل کے کارکنوں کا پولیس نے نہ صرف بچاؤ کیا ہے بلکہ پولیس کے ہی کچھ اعلیٰ اہلکار اس تاجر کے خون میں ملزم پائے گئے ہیں ۔ پہلے تو حسن ابا نامی گائے کے تاجر کی موت کو پولیس نے حادثاتی طور پر ہونے والی موت قرار دیتے ہوئے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جب حسنبا کے اہل خانہ نے اس معاملے کو قتل قرار دیتے ہوئے چھان بین کا مطالبہ کیا تو اس پراسرار واردات کا بھید کھل گیا، اس معاملے میں نہ صرف بجرنگدل کے کارکنان شامل تھے بلکہ پولیس کے چار اہلکار بھی راست طور پر شامل تھے۔

اس طرح کا معاملہ پہلا نہیں ہے کہ پولیس ایسی وارداتوں میں ملوث ہوئی ہے بلکہ ماضی کے صفحات پلٹ کر دیکھا جائے تو فرقہ دارانہ فسادات ہوں یا گروہی تصادم، یا ماب لنچنگ ان تمام معاملات میں پولیس ظالموں کے ساتھ ہی رہے ہیں اور ملک کی سیکولر عوام سمیت مسلمان پولیس کے ظالمانہ رویہ پر تنقید کرتے ہوئیکہتے ہیں کہ پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے اور وہ فرقہ پرستوں اور سنگھیوں کے ساتھ ہے۔ یہ شکوہ کرنے سے پہلے ہم نے شاید ہی کبھی یہ سوچا ہوگا کہ پولیس محکمے میں ہماری مداخلت کتنی ہے اور ہمارے نوجوان پولیس محکمے میں کتنے فیصد ہیں ؟۔ آج سنگھ پریوار اپنے ناپاک عزائم میں گرفت اس وجہ سے مضبوط کئے جارہا ہے کہ انکی دفاع کے لئے عدالتوں ، پولیس محکموں اور انتظامیائی امور میں سنگھ پریوار کے نظریات سے اتفاق رکھنے والے اور سنگھ پریوار کی تربیت گاہوں سے تربیت یافتہ اراکین شامل ہیں اور اس کام کو سنگھ پریوار منظم طریقے سے انجام دیتا رہاہے۔ جب پولیس اور انتظامیہ کے محکموں میں سنگھ پریوار کے ہی ایجنٹ خدمات انجام دے رہے ہوں تو کیسے ممکن ہوگا کہ وہ سنگھ پریوار کے خلاف کھڑنے والوں کا ساتھ دینگے ؟۔

 آج سنگھ پریوار کی کوششیں ہیں کہ وہ انکے ایجنٹ پولیس اور خفیہ اداروں میں کثرت سے رہیں جب بھی انہیں انکی ضرورت پڑے اس وقت یہ سرکاری افسروں کے طور پر مدد کریں ۔ قریب پانچ سال پہلے ایک نجی چینل نے خفیہ کارروائی کرتے ہوئے اس بات کو منظر عام پر لایا تھا کہ سری رام سینا اور بجرنگ دل اپنے جوانوں کو پولیس میں شامل کرنے کے لئے باقاعدہ تربیت دے رہے ہیں اور کئی نوجوان اب تک پولیس میں نوکریاں حاصل بھی کر کے ہیں جس کا انہیں بھرپور فائدہ مل رہاہے۔ اسکے برعکس دیکھا جائے تو مسلمانوں کی پولیس فورس میں تعداد نہ کہ برابر ہے، ہمارے یہاں جب لڑکا تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو سب سے پہلے اسے گلف جانے کیلئے پاسپورٹ بنوادیتے ہیں اور انہیں قوم و ملت، ملک و وطن سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بس درہم و ریال انکی زندگیاں بن جاتی ہیں ۔

آج پورے ملک میں تین فیصد سے کم مسلمان پولیس محکمے میں ہیں اور بتائیں کہ یہ تین فیصد مسلمان کیسے چاہ کر بھی قانون کے محافظ نہیں بن سکتے؟ وہ کس طرح سے60 فیصد سنگھ پریوار سے متاثر پولیس اہلکاروں کا سامنا کرسکتے ہیں ؟۔ 60 فیصد اس لیے کہ آج بھی پولیس میں سنجیو بھٹ جیسے ایماندار پولیس افسران موجود ہیں جو قانون کے محافظ بنے ہوئے ہیں ۔ اگر واقعی میں ہمیں ہمارے کل کو بچانا ہے تو آج سے ہی فکر کرتے ہوئے ہماری نوجوان نسلوں کو پولیس اور دوسرے سرکاری عہدوں پر فائز کرنے کیلئے پیش رفت کرنی ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔