ڈاکٹروں کا احتجاج : تعصب، سیاست یا بے وقوفی؟

ڈاکٹر عابد الرحمن

مغربی بنگال کے ڈاکٹروں کا شکریہ کہ انہوں نے۷ دن سے چل رہی اپنی ہڑتال واپس لے لی۔ کلکتہ میں جو نئیر ڈاکٹروں پر ہوئے حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس معاملہ کے مجرمین کے خلاف عبرتناک کارروائی کی جانی چاہئے۔ اور مستقبل میں اس طرح کے معاملات نہ ہوں اس کے لئے کڑے انتظامات کئے جانے چاہئے۔ڈاکٹروں پر تشدد کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے لیکن جتنی شہرت اس معاملہ کو ملی اتنی کسی اور معاملہ کو نہیں ملی،مغربی بنگال اور کلکتہ میں ہی اس سے پہلے اسی طرح کے واقعات ہوچکے ہیں لیکن وہاں کے ڈاکٹروں کو اور ڈاکٹروں کی قومی تنظیم کو جتنا غصہ اس واقعہ پر آیا اس سے پہلے کے کسی واقعہ پر نہیں آیا۔ جس طرح اس واقعہ کو قومی سطح پر وائرل کیا گیا وہ بھی آپ اپنی مثال ہے۔ اسطرح کے واقعات کی روک تھام اور ڈاکٹروں کی حفاظت کے لئے کڑے اقدامات کے مطالبات کو لے کر احتجاج اور ہڑتالیں اس سے پہلے بھی ہوئے لیکن اتنے شدید اور طویل نہیں ہوئے۔ اس سے پہلے سیاسی لیڈران کے ذریعہ ڈاکٹروں پر ہوئے شدد کے ویڈیو وائرل ہوئے لیکن اس پر اس طرح کا کوئی شدید ردعمل نہ مقامی ڈاکٹروں کی طرف سے آیا نہ ان کی قومی تنظیم کی طرف سے۔

 اس معاملہ میں ایک ویڈیو میسیج وائرل کیا گیا جس کی شروعات پیشنٹ کے نام اور فوٹو سے ہوئی، پھر بتایا گیا کہ کس طرح مریض کے رشتہ داروں اور اس کی براداری والوں نے پاسپیٹل میں گھس کر ڈاکٹروں کے خلاف تشدد برپا کیا، آتش زنی کی توڑ پھوڑ کی ہوسٹل میں طلباء کے سامان کو برباد کیا، زخمی ڈاکٹروں کی حالت بھی اجاگر کی گئی، میڈیا پر تنقید کی گئی کہ میڈیا اس معاملہ میں دھیان نہیں دے رہا ہے اور خود ہی اس کی وجہ بتائی گئی کہ’ حملہ آور ‘ اقلیتی کمیونٹی کے تھے اس لئے،مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ زخمی اور ہڑتال کر رہے ڈاکٹروں سے ملنے نہیں آئیں، یہ بھی کہا گیا کہ ممتا بنرجی ڈاکٹروں کو ملنے ضرور آتیں اگر وہ ڈاکٹر نام نہاد ’دبی کچلی کمیونٹی (suppressed community) ‘کے ہوتے، آخر میں ممتا بنر جی کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ ڈیر ممتا بنر جی مجرموں کو بچانا کیونکہ وہ آپکا ووٹ بنک ہیں آپ کو الیکشنس میں کامیا نہیں کرواسکتا، آپ نے مغربی بنگال کو ناکام ریاست بنا دیا ہے اب یہاں صدر راج درکار ہے۔‘ اس ویڈیو کو دیکھ کر ہی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس مرتبہ ڈاکٹروں کے احتجاج نے سارے ریکارڈ کیوں توڑے، یہ احتجاج اتنا شدیدطویل اور بے نظیر کیوں تھا۔ دراصل اس معاملہ میں مریض مسلم تھا یعنی ڈاکٹروں پر حملہ کرنے والے لوگ مسلمان تھے اور سونے پہ سہاگا کہ یہ معاملہ مغربی نگال میں ہوا جہاں کی حکومت اور خاص طور سے وزیر اعلیٰ پر مسلمانوں کی منھ بھرائی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، یہ بات الگ کہ یہ الزام غلط ہے کیونکہ مسلمانوں کی منھ بھرائی کا عملی اظہار کم از کم ہمیں تو کہیں دکھائی نہیں دیا۔ غالب گمان ہے کہ اس معاملہ میں ڈاکٹرس کے احتجاج کی شدت صرف اس لئے تھی کہ حملہ آور مسلمان تھے، وگر نہ اس سے پہلے خود مغربی بنگال کے ڈاکٹر بھی کئی بار پٹ چکے ہیں لیکن اس وقت انہیں اتنا غصہ نیں آیا تھا، اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ احتجاج کی یہ شدت خود ڈاکٹروں کی تھی یا اسے کہیں اور سے کنٹرول کیا گیا، مثلاٍ مذکورہ ویڈیو ہمیں ڈاکٹروں کے ایک واٹس ایپ گروپ پر دیکھنے کو ملا جسے ایک ڈاکٹر نے ’ ضرور دیکھئے ‘ کے کیپشن کے ساتھ شیئر کیا، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ویڈیو احتجاج کر نے والے ڈاکٹروں نے خود بنایا ہے یا انہیں شہہ دینے والے کسی ہمدرد نے۔

 اس پورے ویڈیو میں مسلمانوں کے تئیں تعصب کھلم کھلا دکھائی دے رہا ہے۔ دراصل یہی تعصب ہے جس نے ملک کے عوام میں ہجومیت ( Mob mentality) پروان چڑھائی ہے۔ یہ ہجومیت شروع ہوئی مسلمانوں دلتوں اور کمزوروں کے خلاف، اس وقت اسے روکا نہیں گیا، حکومت اور سیاسی پارٹیوں نے اسے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا اسے روکنے کے اقدامات کر نے کے بجائے الٹ اسے بڑھاوا دیا جس کی وجہ سے یہ ہجومی تشدد ایک پالسی بن کر چلتا یا چلایا جاتا رہا ْ، اس کے مظلومین پر ہی مقدمات درج کئے گئے اور خاطیوں کو بچانے کی کوشش کی گئی۔

 ابھی تک یہ سب معمول بن کر چل رہا تھا سماج کے کسی خاص با اثر اور ڈاکٹرس یا ان کی طرح پڑھے لکھے طبقے کے کان پر جوں نہیں رینگی، کسی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اسے روکنے کے اقدامات کرنے کی مانگ نہیں کی، حکومتوں کی کار کردگی پر سوال نہیں اٹھائے، جس کی وجہ سے اس ہجومیت کو حوصلہ ملا اور اس نے مسلمانوں دلتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے اور با اثر طبقات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس میں جیون داتا اور بھگوان کہے جانے والے ڈاکٹرس ہی اس کا سب سے زیادہ نشانہ بنے لیکن اتنا ہونے کے بعد بھی اس ہجومیت کے خلاف وہ ردعمل نہیں ہوا جو ہونا چاہئے تھا لیکن آج جب مسلمان اس کے مجرم ٹھہرے تو سب کے کان کھڑے ہوگئے پورے ملک میں جیسے بھونچال آگیا، ملزمین کے نام ( مذہب یا مسلمانیت ) وائرل کی گئی گویا اس واقعہ کو فرقہ وارانہرنگ دے دیا گیا۔یہی فرقہ وارانہ عصبیت ہجومیت کی ہمت افزائی کرتی ہے اب بھی اگر اسے نہیں روکا گیا تو یہ مسلمانوں دلتوں کمزوروں اور ڈاکٹرس تو کیا ہر اس شخص قوم گروہ یا ادارے کو اپنی چپیٹ میں لے لے گی جو اس کی سوچ سمجھ یا نظریہ کے خلاف جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر قانون شکنی بزور قوت روکی جانی چاہئے، قانون شکنی کر نے والوں کو اتنی سخت سزا دی جانی چاہئے کہ وہ لوگوں کے لئے عبرت بن جائیں چاہے وہ کوئی ہوں ہندو یا مسلمان اور چاہے ان کے مظلوم بھی کوئی ہوں ہندو یا مسلمان، اس طرح کے معاملات میں تعصب اور سیاست خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ڈاکٹرس انتہائی پڑھے لکھے، لوگوں کی خدمت کا حلف اٹھائے ہوئے اور لوگوں کے دکھ درد مٹانے کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کئے ہوئے لوگوں کا رویہ بھی اس معاملہ میں وہی ہے جوکچھ خاص لوگوں کے ذریعہ بھڑکائی جانے والی سر پھری بھیڑ کا ہوتا ہے، ہمیں ڈاکٹرس سے ہمدردی ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں ڈاکٹر وں کو بھگوان کا دوسرا روپ کہا جاتا ہے اگر وہی محفوظ نہ ہوں تو وہ اپنے فرائض کس طرح انجام دے سکیں گے، ڈاکٹروں کی حفاظت کے لئے قومی سطح پر سخت اقدامات کی ضرورت کا احساس ہمیں بھی ہے۔

 ہم مغربی بنگال کے ڈاکٹروں کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور اس معاملہ میں ملوث تمام مجرمین کو سخت ترین سزا دلوانے کی مانگ کرتے ہیں اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات ہونے سے پہلے ہی روک دئے جائیں ایسے بندوبست کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اس معاملہ میں ہم ڈاکٹروں کے رویہ کی حمایت نہیں کرتے، اس معاملہ میں ان کے رویہ سے ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹرس کا پڑھا لکھا طبقہ بھی متعصب ہوگیا ہے یا سیاسی فریق بن گیا ہے یا پھر اتنا بے وقوف ہو گیاہے کہ سیاسی لوگوں نے بڑے آرام اور آسانی سے اسے استعمال کرلیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔