ڈاکٹر امبیڈکر کو کمتر کرنے کی سنگھ پریوار کی کوشش ناکام

عبدالعزیز
دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ملک کے دستور کے مسودۂ قانون کو تیار کرنے میں ڈاکٹر امبیڈکر کا کتنا نمایاں کردار تھا۔ مگر سنگھ پریوار کا یہ ہمیشہ کردار رہا ہے کہ جو لوگ سماجی انصاف، مساوات، غیر جانبداری ، جمہوریت اور تکثیری معاشرہ کے قائل ہیں انھیں سنگھ پریوار نشانہ بنانے یا کمتر کرنے کی ہمیشہ کوئی نہ کوئی چال چلتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کو اس کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ اصل کام تو دستور کا بی ایس راؤ نے کیا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر تو ان کے مسودہ میں جو انگریزی کی غلطی ہوتی تھی اسے درست کیا کرتے تھے۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’آگنائزر‘مارچ 2014ء کے شمارے میں اس سے ملتی جلتی بات شائع کی تھی‘‘۔ عام طور پر دستور کے مسودہ قانون کی تیاری کا سہرا امبیڈکر کے سر باندھا جاتا ہے مگر اس سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ڈرافٹنگ (مسودہ قانون کی تیاری) کا زیادہ کام بی ایس راؤ نے کیا تھا جسے وائس راؤ نے دستور ساز اسمبلی (CA) کے مشیر کار کے طور پر تقرر کیا تھا‘‘۔ ایک طرف دستور کے مسودۂ قانون کو تیار کرنے والے کی توہین کی جاتی ہے دوسری طرف مسٹر نریندر مودی ملک سے باہر جب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ’’دستور ہند ملک کی مقدس کتاب ہے‘‘۔ ان کی حکومت نے بابا صاحب امبیڈکر کی 125 ویں برسی بھی بڑی دھوم دھام سے منائی۔ پارلیمنٹ میں ان کے ممبران نے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی۔ سنگھ پریوار کی یہ دو رخی پالیسی یا منافقت ان کے کردار کابہت نمایاں حصہ ہے جسے وہ کسی وقت بھی چھپا نہیں سکتے۔ بابا صاحب امبیڈکر پر یہ بھی سنگھ پریوار والے الزام تراشتے ہیں کہ وہ پسماندہ طبقات یعنی شیڈول کاسٹ کے حقوق کے تحفظ کیلئے وہ ڈرافٹنگ کرتے وقت کوشاں تھے۔
سنگھ پریوار کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دستور ساز اسمبلی نے انھیں مسودۂ قانون کی تیاری کمیٹی (Drafting Commitee) کاچیئرمین مقرر کیا تھا۔ ٹی ٹی کرشنم چاری کمیٹی کے ایک ممبر تھے، ایک بار ڈرافٹنگ کمیٹی کی میٹنگ میں انھوں نے کہا جو بحث و مباحثہ کی روداد میں محفوظ (Recorded) ہے۔ انھوں نے کہاکہ ’’کمیٹی میں سات ممبران تھے جس میں ایک شخص نے استعفیٰ دے دیا جن کی جگہ پُر کی گئی۔ ایک کی موت ہوگئی جو جگہ کبھی پُر نہیں ہوئی۔ ایک شخص امریکہ میں رہتا تھا۔ دو افراد دہلی سے دور رہتے تھے۔ خرابی صحت کی وجہ سے وہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ایک شخص مملکت کے کاموں میں سرگرم عمل رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی حصہ نہیں لے پاتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سارا بار ڈاکٹر امبیڈکر پر تھا جسے انھوں نے بہتر انداز میں پورا کیا جس کیلئے ہم سب ان کے شکر گزار ہیں۔
ڈاکٹر راجندر پرساد قانون ساز اسمبلی کے صدر تھے۔ انھوں نے بھی ڈاکٹر امبیڈکر کے کاموں کو تعریفی کلمات کے ساتھ سراہا ہے۔ انھوں نے ایک بار کہا کہ ’’ہم لوگ کبھی آسانی سے ایک نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے تھے جسے ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنے نتیجہ فکر اور نتیجہ قلم سے پیش کیا ہے۔ ان کو مسودہ قانون کی تیاری کمیٹی کا چیئر مین بنانا بالکل درست اور موزوں فیصلہ تھا۔ انھوں نے کام بہتر سے بہتر ڈھنگ سے کیا ہے‘‘۔ سنگھ پریوار کے لوگ جو دستور کے خلاف تھے اور جنھوں نے آزادی کی لڑائی میں بھی حصہ نہیں لیا وہ دستور کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں رکھتے۔ دستور میں درج سیکولرزم، جمہوریت، سوشلزم، برابری اور تکثیریت کو ناپسند کرتے ہیں ان کے نزدیک دستور ہندو راشٹر بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب اٹل بہاری واجپئی کی حکومت تھی تو دستور کی نظرثانی کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی کہ دستور کو کیسے از سر نو ڈرافٹ کیا جائے یا اس کی کمیاں یا خامیاں کیسے درست کی جائیں مگر اس وقت کے صدر کے آر نرائنن نے کہاکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ دستور نے ہمیں ناکام بنا دیا ہے یا ہم نے دستور کو ناکام کر دیا‘‘۔ صدر جمہوریہ کی طرف سے توجہ مبذول کرانے کی وجہ سے تو پھر دستور کی کارگزاری پر نظرثانی کا کمیشن (Commission to Review the working of the Constituition) بنایا گیا۔ سنگھ پریوار کو جب بھی موقع ملتا ہے دستور کو نشانہ بناتے ہیں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سیکولرزم کی اصطلاح کا پارلیمنٹ میں نہ صرف مذاق اڑایا بلکہ کہاکہ اس نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا، اس اصطلاح کو ’بدل‘ دینا چاہئے اور اس کی جگہ کوئی دوسری اصطلاح کو استعمال کرنا چاہئے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار کے مکھیا اور لیڈر کو سیکولرزم بالکل نامنظور ہے اور ہندو راشٹر انھیں پسند ہے۔ اپنی پسند کا دستور لانے کی کوشش ان کی آج کی نہیں بلکہ 1927ء سے ہے جب سے آر ایس ایس کی تشکیل ہوئی جو لوگ سیکولرزم اور جمہوریت کے ہندستان میں چمپئن (ہیرو) مانے جاتے ہیں۔ گاندھی، نہرو، مولانا آزاد، ڈاکٹر امبیڈکر یہ سب پریوار کی نظرمیں کھٹکتے ہیں۔ گاندھی جی کو تو سنگھ پریوار کے ناتھو رام گوڈ سے نے جو ساور کے شاگرد رشید تھے گولی مار کر جان لے لی۔ اب جواہر لال نہرو کے پیچھے سنگھ پریوار والے پڑے ہیں کہ کس طرح ان کی کردار کشی ہو۔ موت کے بعد بھی ایسے اچھے لوگوں کو بخشنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ راجستھان میں سنگھ پریوار کی حکومت نے اسکول کے نصاب کی کتابوں سے جواہر لال نہرو کے نام کو نکال دیا۔ سنگھ پریوار ہندستان کی تاریخ کو بدلنے کیلئے بھی سو جتن کر رہے ہیں۔ اگر ان کی حکومت دیرپا ہوگئی اور ان کی حکومت مضبوط تر ہوگئی تو نہ دستور کی خیر ہے اور نہ تکثیری معاشرہ اور ماحول کی خیر ہے۔ ہندستان کی ہر چیز خطرہ میں پڑ جائے گی۔ ایک طرف یہ ترقی کی بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف فرقہ پرستی ان کا خاص موضوع ہوتا ہے۔ امیت شاہ نے الہ آباد میں شمالی ضلع کے کیرانا کو اتر پردیش کا کشمیر کہا۔ وہاں کے چند ہندو کے جانے کو اخراج سے تعبیر کیا۔ مودی جی نے ویکاس کی بات کو دہرایا اور گنگا جمنا سے آشیرواد لینے کی بات کہی۔ لوک سبھا کے الیکشن کے موقع پر بنارس میں مودی جی نے گنگا کے سامنے ہاتھ پھیلاکر آشیرواد مانگا تھا۔ اب اتر پردیش کا الیکشن جیتنے کیلئے گنگا جمنا سے آشیرواد مانگ رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے شاگرد امیت شاہ گنگا جمنی تہذیب کو ستیا ناس کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ہے سنگھ پریوار کی چال اور حال۔ خدا خیر کرے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔