ڈاکٹر ذاکر نائک: دیارِ کفر و شرک میں اسلام کی ایک آواز

محمد وسیم

ہم بہت چھوٹے تھے جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا تها، اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی میڈیا نے حملے کا الزام طالبان پر لگایا، جارج بش نے دنیاےء کفر کو اکٹھا کیا اور ہزاروں کلومیٹر دور افغانستان پر چڑھ دوڑا، لاکھوں مسلمان مارے گئے، ہزاروں عورتوں کی عزتیں تار تار کی گئیں، ہندوستان کو بهی امریکہ کی کاروائی میں فائدہ دکھنے لگا اور افغانستان میں کوششیں شروع کر دیں، عالمی میڈیا اور امریکہ دونوں اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں لگ گئے، دنیا میں مسلمانوں کی ایک پہچان بنی اور وہ پہچان تهی دہشت گرد کی، ایسے عالمی ماحول میں ہندوستان جو کفر ہی کی ایک بڑی شاخ ہے، وہ پیچھے کیوں رہ سکتا تھا، اس نے بهی مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی، انکاونٹر کیا گیا، نوجوانوں کو جیلوں کے اندر ڈالا گیا، اسلام اور مسلمانوں کا استعمال کیا گیا، اس طرح سے ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب اور ناانصافی کا رویہ اپنایا گیا، مدارس و مساجد کو نشانہ بنایا گیا، علماء و طلباء کو بغیر کسی ثبوت کے جیلوں کے اندر ڈالا گیا، غرض کہ ہندوستان میں بھی اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔

21 ویں صدی کے شروع میں جب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا تھا اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا تھا، تو ایسا نہیں ہے کہ اسلام مٹ چکا تھا، بلکہ ایسے وقت میں کفر و شرک کی سرزمین ہندوستان کے صوبہ مہاراشٹر سے ہواءوں اور طوفانوں کے بیچ ایک شخص اسلام کے ٹمٹماتے ہوےء دےء کو لے کر اٹھتا ہے اور دنیا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے دنیا والو ! جس اسلام کو تم دہشت گردی سے جوڑ رہے ہو، اس اسلام کا مطلب ہوتا ہے امن، اسی امن میں دنیا کو سکون حاصل ہو سکتا ہے، وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ ڈاکٹر ذاکر نائک تها، ہاں ڈاکٹر ذاکر نائک، مبلغِ اسلام، داعیء اسلام، تقابل ادیان کا ماہر، اسلامک ریسرچ فاونڈیشن اور پیس ٹی وی کا بانی، جس نے اسلام کے پیغامِ امن کو عام کرنے کی ہمت کر ڈالی۔

جب دنیا اسلام کو بدنام کرنے میں لگی تھی تو ایسے وقت میں ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کے پیغامِ امن کو بڑی نرمی اور امن کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے، ان کی دعوت خالص اسلامی تعلیمات کے مطابق تهی، اسلام سے متعلق ہر سوال کا تشفی بخش جواب دیتے تھے، سیکڑوں اور ہزاروں پروگراموں میں انهوں نے کبھی شدت پسندی، دہشت گردی اور ظلم کی بات نہیں کی، یہاں تک کہ کافروں اور مشرکوں کے ساتھ بهی بڑی نرمی سے پیش آئے، ان کے پروگراموں میں بڑے بڑے، وکلاء، وزراء، مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے شرکت کی اور ان کی دعوت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا، ہر کسی نے ان کو امن کا داعی اور اسلام کا سپاہی قرار دیا

عالمی میڈیا تو اظہارِ رائے کی آزادی کا نعرہ لگاتا ہے مگر بات جب مسلمانوں کے اظہارِ رائے کی آتی ہے تو میڈیا اسے دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے، ڈاکٹر ذاکر نائک کے معاملے میں بغیر کسی ثبوت کے میڈیا جهوٹ پھیلانے میں لگا ہوا ہے، بڑی ڈھٹائی سے میڈیا کہتی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک دہشت گرد ہے، ان پر مقدمہ درج کرایا جائے، ان کو جیل کے اندر ڈالا جائے، ان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے، باطل میڈیا اور حکومت کے ساتھ ساتھ شیعہ، بریلی، مشرک و بدعتی مسلمان بهی میڈیا اور حکومت کی ہاں میں ہاں ملاےء ہوےء ہیں، ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے مگر ہندوستانی میڈیا، ریاستی اور مرکزی حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں کو اب تک ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف کوئی بهی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائک نے خود کہا ہے کہ میری کوئی بھی تقریر اور پروین توگڑیا اور یوگی وغیرہ کی تقریریں دکھائی جائیں، پهر یہ فیصلہ کیا جائے کہ ملک کے امن و امان کو خراب کرنے کا ذمہ دار کون ہے ؟ ہندوستان کی بعض شیطان زدہ صفت مسلم جماعتوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک ہندوستان سے فرار ہیں، تو ان سے میرا یہی کہنا ہے کہ اگر تمہارے نزدیک ڈاکٹر ذاکر نائک دہشت گرد ہیں اور چاہتے ہو کہ ان کے خلاف کارروائی ہو تو سب سے پہلے مسلمانوں کے قاتلوں کے خلاف آواز اٹھاءو، ان کے لئے پھانسی کی مانگ کرو، مگر تم ایسا نہیں کرو گے، کیوں کہ تمہارے اندر ایمانی غیرت باقی نہیں رہی، تم کفار کے لئے نرم ہو اور مومنوں کے لئے سخت، یہی صفت تمہیں دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کر کے رکھ دے گی

قارئینِ کرام : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو دین نازل ہوا تھا، وہ مکہ، مدینہ، جزیرہء عرب، عراق اور سمندروں وغیرہ کے راستوں سے سرزمینِ ہندوستان پہونچا، اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کے لوگوں پر فضلِ خاص کیا کہ اس نے اسلام کی روشنی کو دیارِ کفر و شرک میں بهی پھیلنے کا ذریعہ پیدا کیا، ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہندوستان میں اسلام ہمارا مہمان ہے اور ہم اسلام کے میزبان ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کی مہمان نوازی اچهی طرح سے کریں تاکہ روز قیامت یہ مہمان اللہ تعالیٰ کے سامنے شکایت نہ کرے کہ اے اللہ ! میں ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس مہمان بن کر گیا تھا مگر کسی نے ہماری میزبانی نہیں کی۔

آج ضرورت آن پڑی ہے کہ اسلام کو ایک عزت کا مقام دیا جائے، دیارِ کفر و شرک میں اسلام کے ایک اہم میزبان ڈاکٹر ذاکر نائک کی مکمل حمایت کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان ایک کنبے اور جسدِ واحد کی مانند ہیں، اس کے تحت ڈاکٹر ذاکر نائک سے محبت کا اظہار کیا جائے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کی مدد کے لئے قانونی ٹیم تیار کی جائے- میڈیا، باطل حکومت اور متعصب خفیہ ایجنسیاں جو کہ باطل کی پیروکار ہیں، ان کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کیا جائے، کیوں کہ یہ وقت متحد ہو کر باطل کے سامنے کھڑے ہونے کا ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔