ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی سے کامران غنی صبا کی خاص بات چیت

کامران غنی صبا

 سوال: خانقاہ منعمیہ قمریہ کی تاریخی اہمیت پر مختصراً روشنی ڈالیں :

 جواب: اس مرکز کے بانی عہد اورنگ زیب کے جید عالم ملا سید بدیع الدین عالمگیری عرف ملا میتن ہیں۔ وہ عہد عالمگیری کے جید علماء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے نے ہی اس جگہ مسجد کی بھی تعمیر کروائی جو پٹنہ کی قدیم جامع مساجدمیں سے ایک ہے اور قدیم طرز تعمیر کی عمدہ مثال ہے۔ یہ صوبۂ بہار کی واحد ایسی مسجد ہے جس میں ایک بڑا تہہ خانہ بھی ہے جو آج بھی اچھی حالت میں موجود ہے۔ حضرت ملا میتن ؒ کے بعد ان کے بیٹے ملا تحقیق کے زمانے میں حضرت ابراہیم بن ادہم بلخی ؒ کے خاندان کے ایک بڑے بزرگ حضرت مخدوم منعم پاک (جن کا تعلق بہار سے ہی تھا) اور جو اپنے پیر سے اجازت لے کر دہلی میں تقریباً پچاس برسوں سے مقیم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بارگاہِ نبوتؐ سے انہیں یہ اشارہ ہوا کہ آپؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم پٹنہ چلے جائو، تمہاری ضرورت بہار میں ہے۔ چنانچہ انہیں کے حکم سے 1746 ء میں آپؒ پٹنہ تشریف لائے اور اسی جگہ کو اپنی خدمت کے مرکز کے طور پر استعمال کیا۔ اس طرح خانقاہ منعمیہ کا وجود عمل میں آیا۔ اس خانقاہ کی تاریخ تقریباً تین سوسال پر محیط ہے اور ان تین سو برسوں میں حضرتؒ کے بعد گیارہ سجادہ ہو چکے ہیں۔ مجھے بارہویں سجادہ ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔

سوال: صوفیائے کرام کے مختلف سلاسل کس طرح وجود میں آئے اور ان کی کیا اہمیت اور فضیلت ہے؟

جواب:جس طرح اسلامی علوم میں فقہ، حدیث، تفسیر، قرأت، تجوید وغیرہ کے بھی الگ الگ سلاسل بنے، یعنی بصری اسکول، مدنی اسکول، مکی اسکول۔ پھر اسی طرح حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اسی طرح صوفیاء کے درمیان جو بڑی اور مجتہدانہ شان والی شخصیتیں پیدا ہوئیں ان کے تلامیذ اور ان کے شاگردوں نے اپنے آپ کو اپنی علمی صلاحیتوں کو اور اپنے طریقۂ کار کو ایک پہچان دینے کے لیے اپنے پیر و مرشد سے خود کو وابستہ کیا۔

سوال: یعنی جس طرح فقہی اسکول الگ الگ امام کے نام سے منسوب ہوتے گئے اسی طرح صوفیاء کے سلاسل بھی مختلف بزرگوں کے نام سے منسوب ہوئے؟

جواب:جی ہاں، لیکن یہاں فرق یہ تھا کہ صوفیاء کے مختلف سلاسل میں کبھی کوئی ٹکرائو نہیں رہا۔ کبھی ایک سلسلے نے دوسرے سلسلے کی رد میں کوئی کتاب نہیں لکھی جبکہ سب کے کام کرنے کے طریقے میں فرق صاف نظر آتا ہے۔ صوفیاء کے سلاسل نے فقہی تنازعات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ  ایک صوفی جو فقہی اعتبار سے شافعی اور حنبلی ہے اور تصوف کے اعتبارسے قادری ہے، اس کا فیضان حنفی، مالکی شافعی سبھی حاصل کر رہے ہیں۔

سوال: یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ صوفیوں نے اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ۔ ۔ ؟

جواب: یقینا بڑی کوشش کی۔ اس کی ایک مثال بھی بہت اہم ہے کہ حضرت بہائو الدین ذکریا ملتانی  ؒجب روحانی تعلیم کے لیے شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جب ان کی تکمیل ہوئی تو سند لکھتے وقت ان کے مرشد نے کچھ اوراد و وظائف ان کو بتائے تو حضرت بہائو الدین ذکریاؒ نے اپنی دلی کیفیات کا اظہار اس طور پر کیا کہ حضرت میں باپ دادا سے حنفی ہوں، آپ میرے شیخ ہیں اور آپ پر میری جان فدا ہے لیکن آپ تو شافعی اور حنبلی ہیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ آپ کے کمالِ اتباع کے لیے مجھے بھی شافعی اور حنبلی مسلک اختیار کر لینا چاہیے تاکہ کامل اتباع ہو سکے۔ آج کے دور میں کسی عالم سے ایسی بات کہی جاتی تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہوتا کہ میرا مرید میرے مسلک پر آ گیا، اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوگی لیکن شیخ شہاب الدین سہروردی نے فرمایا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے حنفی مسلک پر قائم رہو اور امام ابو حنفیہ ؒ کی ہدایات کے مطابق میرے بتائے ہوئے وظائف کو اسی طرح ادا کرو جیسا حنفی مسلک بتاتا ہے۔ تم حنفی مسلک پر رہ کر بھی ایک کامل مرید ہو اور رہو گے۔

سوال:ہندوستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام کی اہم خدمات رہی ہیں۔ صوفیائے کرام میں ایسی کون سی صفات تھیں کہ لوگ جوق در جوق ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو جاتے تھے؟

جواب:یہ بہت اہم سوال ہے اور یہ سوال اس دن شروع ہو گیا تھا جب خلافت ملوکیت میں بدلی تھی۔ یہ انتہائی اہم سوال تھا کہ کیا ملوکیت خلافت کے راستے پر چلے گی یا ملوکیت اپنے مزاج کا تتبع کرے گی؟ جب مذہبی خلافت کے دو ٹکڑے ہو گئے ایک ملوکیت کہلایا اور ایک کا کوئی نام نہ رہا تو ملوکیت بادشاہت کے رعب و دبدبے کے ساتھ قائم ہوئی۔ عوام کا تعلق بادشاہ سے ختم ہوتا چلا گیا تو ایک طبقہ بغیر کسی نام کا ابھر کر سامنے آیا جو عوام میں رہتا تھا اور عوام سے قریب تر تھا۔ وہ صوفیاء کا طبقہ تھا۔ جن کے اداروں کے نام بھی مختلف تھے۔ کہیں انہیں دائرہ کہا جاتا تھا، کہیں خانقاہ، کہیں تکیہ، کہیں رباط لیکن مشن سب کا ایک تھا، عوام میں رہتے ہوئے اسلا م کی ترویج و اشاعت۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنیادی طور پر دو ہی چیزوں کو بنایا۔ اول صرف ایک خدا کی بندگی اور دوم بندگان خدا کی خدمت۔

سوال: علامہ اقبال نے کہا تھا:

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے دست و بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

آخر کیا وجہ ہے کہ اب ایسے صوفیاء ہمیں نہیں ملتے جن کی نگاہوں کے فیضان سے دلوں کی دنیا بدل جائے؟

جواب: میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج بھی ان صفات کے حامل بزرگوں کی کمی نہیں ہے۔ اقبال نے یہ بالکل نہیں کہا ہے کہ جو ان بزرگوں کی بارگاہ میں آتا ہے وہ پہلی ہی نظر میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ان بزرگوں نے صحبت کے دروازے کھولے۔ جس کے نتیجے میں بڑے بڑے سرکش و باغی نکھر کر سامنے آئے۔ صحابہ کرام کی زندگی کے مطالعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جو صحابہ حضورؐ کی صحبت میں جتنا زیادہ رہے وہ اتنے زیادہ کامیاب ہوئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک نظر سے تبدیلی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ آج بھی خانقاہیں اس کام میں مصروف ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ کچھ زوال بھی آیا ہے لیکن زوال کے باوجود حقیقت زوال کی راکھ میں چنگاری کی طرح موجود ہے۔

سوال: امت میں اتحاد و اتفاق کے حوالے سے آپ ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں اتحاد و اتفاق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون سی ہے اور اس کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟

جواب: یہ بہت اہم سوال آپ نے پوچھا ہے۔ اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ لوگ اتحاد پر اپنے ادارے اور مسلک کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں یہ فکر تو ہوتی ہے کہ ہمارے ادارے کا کیا ہوگا لیکن یہ فکر نہیں ہوتی کہ اتحاد ملت کا کیا ہوگا۔ ملی اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ ہم بنیادی طور پر ملی اتحاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے کام کریں تاکہ انتشار و افتراق کی کیفیت پیدا نہ ہو۔

سوال:آج کے پر آشوب دور میں کہ جب ہر طرف نفرت، تشدد، تعصب اور تنگ نظری کی گھٹائیں چھا رہی ہیں۔ خانقاہیں کس طرح کا کردار ادا کر سکتی ہیں ؟

جواب: یہ بھی بہت اہم سوال ہے۔ خانقاہیں آج بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ تقریباً ہر شہر میں ان کے مراکز موجود ہیں۔ یقینا خانقاہیں اگر مؤثر کردار ادا کرتی ہیں تو دنیا کے بہت سارے مسائل کے حل نکل سکتے ہیں۔ خانقاہوں کو اپنی معاصرانہ روایات سے باہر نکل کر عالمی تناظر میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خانقاہیں عرس کے زمانے میں آباد ہوتی ہیں اور غیر عرس کے زمانے میں ویران ہوتی ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ خانقاہ کا روح رواں، سجادہ نشیں ایسی صلاحیت کا حامل ہو کہ وہ ملت کی قیادت اور قرآن و حدیث کی تشریح و توضیح کی بنیادی صلاحیت رکھتا ہو، ساتھ ہی اس میں جذبۂ خدمت بھی ہو۔

سوال:خانقاہ صرف ایک روحانی مرکز کا نام نہیں ہے تاریخ شاہد ہے کہ خانقاہوں نے ایک طرف جہاں لوگوں کی تطہیر قلب کا کام کیا وہیں ان کی روز مرہ کے مسائل حل کرنے کی بھی کوشش کی۔ خانقاہوں میں یہ روح اب کیوں نظر نہیں آتی ؟

جواب: یہ مسئلہ صرف خانقاہوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مساجد بھی اب صرف نماز کے وقت کھلتی ہیں۔ باقی وقتوں میں تالے لگا دئیے جاتے ہیں، اسی طرح خانقاہوں میں بھی سجادہ نشیں کچھ خاص اوقات میں اپنے حجرے سے باہر نکلتے ہیں، خاص انداز میں ملنے والوں سے پیش آتے ہیں اور پھر لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ اس میں کچھ غلط فہمیاں بھی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ سجادہ نشیں تقریر نہیں کرتا ہے، باہر نہیں نکلتا ہے، مائیک پر کھڑاہو کر نہیں بولتا ہے۔ اس کا کام ہے چپ رہنا، مراقبے میں رہنا، مسائل سے اپنے آپ کو دور رکھنا تو ایسا کہنے والا شخص دراصل صوفیاء کی تعلیمات سے واقف نہیں ہے۔ صوفیوں نے ہر دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ اگر ہلاکو کا حملہ ہوا ہے تو نجیب الدین کبریٰ ہاتھ میں پتھر اور اینٹوں کی تھیلی لیے نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی مناظرے کے لیے آتا تو باوجود اس کے کہ صوفیا اختلافات کو پسند نہیں کرتے لیکن وہ کسی مناظر کی دعوت کو مثبت انداز سے ٹھکراتے بھی نہیں ہیں۔ صوفیاء نے مکاتیب، مواعظ، مکتوبات، ملفوظات، شروح، حواشی، تصنیف، تالیف ہر شعبہ میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

سوال: نوجوانوں میں دین و مذہب سے بڑھتی دوری اور اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت کی کیا وجوہ ہیں ؟ نوجوانوں کو جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے کس طرح مذہب سے قریب لایا جا سکتا ہے؟

جواب: بہت عمدہ سوال آپ نے پوچھا ہے۔ نوجوان ہمیشہ سے اپنی ملت کی تقدیر لکھتے آئے ہیں۔ نوجوانوں کو میں یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ اختلاف بین المسالک کے معاملہ میں وہ اپنے اکابر کی زندگی کو سامنے رکھیں۔ آپ امام شافعیؒ کو مثال کو سامنے رکھیں کہ آپ امام ابو حنیفہؒ کے مزار پر جاتے ہیں تو حنفی طریقے کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ ان کی نگاہ میں حرف غلط کی طرح نہیں تھے جیسے ہم اپنے مخالفین کو سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جتنے بھی بڑے لوگ ہیں ان کے بہاں تو سع دکھائی دیتا ہے۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود انہوں نے عملی اتحاد کو کبھی پارہ پارہ نہیں ہونے دیا۔ کیا ان کی طرح ہم بھی نظریاتی اختلافات رکھنے کے باوجود عملی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کر سکتے ہیں ؟آج کے اس عہد میں نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صوفیوں کی تعلیمات پر عمل کریں۔ دوسری بات یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ صوفیوں نے کبھی بھی روشن خیال ہونے سے نہیں روکا۔ اگر صوفی قنوطیت کے قائل ہوتے تو وہ خسروؔ کو بادشاہ کی نوکری نہیں کرنے دیتے۔ مولانا روم کو مثنوی نہیں لکھنے دیتے۔ حسن اللہعلاسجزی، جائسی، شیخ فرید الدین عطار، شیخ شرف الدین یحییٰ منیری، جیسے لوگ پیدا نہیں ہوتے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے زمانے کے لجنڈ تھے اور یہ سب جوان تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے عمر کے آخری حصے میں یہ سارے کارنامے انجام دیئے۔ میں جوانوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ مطالعے کی عادت ڈالیں۔ مطالعہ کی کمی کی وجہ سے تنگ نظری پیدا ہوتی ہے۔ جوانوں کو روشن خیال ہونا چاہیے، انہیں اپنے حوصلوں کو بلند رکھنا چاہیے۔ مسلم نوجوانوں کی ذمہ داریاں آج کے عہد میں مزید بڑھ جاتی ہیں کیوں کہ آج کے عہد میں ہر چیز کی فروانی تو ہے لیکن کردار نہیں ہے۔ آپ یقین جانیں کہ آج جتنی ضرورت موبائل کی ہے اس سے کہیں زیادہ ضرورت اخلاق و کردار کی ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ نفرت، تشدد، تعصب اور تنگ نظری کے بجائے اخلاق کے دامن میں پناہ ڈھونڈیں۔ اپنے اخلاق کو بلند کریں۔ خدمت خلق کے ذریعے لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کریں۔

سوال: آخر میں ہم آپ سے جاننا چاہیں گے کہ حالیہ دنوں میں خانقاہ کی اہم حصولیابیاں کیا رہی ہیں ؟

جواب: ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ صرف عمارت کی تعمیر نہ ہو بلکہ اس کے اندر زندہ ادارے قائم کیے جائیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں ہم نے حکومت کی مدد سے صوفی ریسرچ سنٹر اینڈ کمپریٹیو اسٹڈیز کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ادارہ الحمد للہ تیار ہو چکا ہے۔ یہاں تصوف ایک فیکلٹی کے طورپر پڑھایا جائے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا ملک میں پہلا ادارہ ہوگا۔

سوال: قارئین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

جواب:ہم یہ پیغام ضرور دینا چاہیں گے کہ مسلمان مثبت فکر اور رویے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ منفی پہلو سے مثبت پہلو ڈھونڈ نکالنا ہی اصل کمال ہے۔ اگر ہم نے یہ ہنر سیکھ لیا تو ہمارے لیے کوئی مسئلہ، مسئلہ نہیں رہ جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔