ڈیرا سچا سودا کی کہانی: ایک الگ زاویۂ نظر

ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی

 ڈیرا سچا سودا کے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش ہوا، تو تاریخ کے کئی واقعات ومناظر نظروں کے سامنے آگئے، بابا گرمیت سنگھ نے اس ڈیرے میں کیا کیا گل نہیں کھلائے، جس کو انھوں نے ’’سچا سودا‘‘ کا نام دیا وہ یکسر ’’جھوٹا سودا‘‘ نکلا، اپنا نام بھی انھوں نے خوب سوچ سمجھ کر رکھا تھا ’’بابا رام رحیم‘‘،لیکن اپنے کرتوتوں کے باعث وہ بابا ’’رجیم‘‘ تھے اور اب تو وہ عدالت وعوام سب کی نظر میں ’’ رجیم‘‘ بن گئے، ان کے متعلق تفصیلات بڑے پیمانے پر میڈیا میں نشر ہوئیں، خواہی نہ خواہی میڈیا کو یہ کام کرنا پڑا، کیوں کہ میڈیا کے نمائندے بھی بھکتوں کی زد پر چڑھ گئے، بھگتوں نے بابا پر الزام ثابت ہونے کے بعد پنجاب و ہریانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی، اس دوران جو میڈیا اہلکار ہتھے چڑھ گئے ان کا حساب بھی بے باق کر دیا، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والوں پر جب افتاد پڑی توآنکھوں سے پٹی اتارنی ہی پڑی اور حقائق کو عام کرنا ہی پڑا، پھر بھی میڈیا والے نکلے بڑے سخت جان، ان بلوائیوں کو انھوں نے نہ دیش دروہی لکھا اور نہ دہشت گرد قرار دیا، وہ تو اچھا ہوا کہ ان بلوائیوں کا رشتہ نہ کسی مسجد سے تھا اور نہ مدرسے سے، ورنہ خدا معلوم میڈیا نے کیا کیا گل کھلائے ہوتے، بہرحال عوام جس طرح بابا کے دیوانے ہوکر اتاؤلے ہورہے تھے اس پر سرکار اور سرکاری مشنری بھی قابو پانے میں کسی حد تک ناکام رہی، اور ناکام کیوں نہ ہوتی جبکہ سرکار بابا ہی کے آشرواد سے شاد کام ہو چکی تھی۔

سرکار کی بے اعتنائی، لا پرواہی اور کھلم کھلا چشم پوشی پر ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی ہائی کورٹ کے ذریعہ ملک کے وزیر اعظم سے کہا گیا کہ ’’مودی جی کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بی جے پی کے نہیں ملک کے وزیر اعظم ہیں ‘‘۔ بابا کا قافلہ جس طرح نکلا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ حکومت ان کو راہ فرار دینا چاہتی تھی مگر اس میں ناکام رہی، اس پر خوب بحثیں بھی ہوئیں اور بھاجپائی کٹہرے میں بھی کھڑے ہوئے، بھلا ہو ان لڑکیوں کا جن پر نہ ان کے ماں باپ نے اعتماد کیا اور نہ سماج نے مگر وہ ظلم اور توہم پرستی اور اندھی عقیدت کے خلاف لڑتی رہیں تاآنکہ ظالم کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا، اس جج کی انصاف پسند طبیعت اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی جرأت کو بھی سلام جس نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر انسانی ضمیر اپنا کام کرے تو نہ اس کو خریدا جا سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی رعب وہیبت اپنا دبدبہ قائم کر پاتی ہے، ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا جب کسی مجرم کو سزا سنانے کے لئے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج کو ہیلی کاپٹر سے جیل لایا گیا اور جیل ہی میں وقتی عدالت قائم کی گئی، سوچیے ذرا مجرم کی جڑیں سماج میں کتنی دور تک پھیلی ہوئی تھیں، کہ اس کے لیے اس قدر انتظامات کرنے پڑے، اس کو بچانے کے لیے لوگوں نے کیا کچھ نہیں کیا، جو لوگ مجرمین کی وکالت کرتے ہیں اور ان کو بچانے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دیتے ہیں ان تک قرآن کی بیان کردہ یہ حقیقت پہنچانا چاہیے، کہ اس دنیا میں تو چالبازی اور طاقت کے ذریعہ مجرم کی پشت پناہی کی جا سکتی ہے لیکن آخرت میں اس کائنات کے مالک کی عدالت میں کون پشت پناہی کی جرأت کر سکے گا۔

ھٰأنتم ھؤلاء جٰدلتم عنھم فی الحیٰوۃ الدنیا فمن یجٰدل اللہ عنھم یوم القیٰمۃ أم من یکون علیھم وکیلا (نساء: 109)

(ترجمہ: دنیا وی زندگی میں تو ان کی طرف سے تم نے مدافعت کر لی تو قیامت کے دن ان کی طرف سے اللہ کے سامنے کون مدافعت کرے گا یا کون ان کا کارساز ہوگا)

   اس واقعہ کے کئی رخ اور س کی اچھی خاصی تفصیلات ہیں، جن کا بڑا حصہ قارئین کی نظر سے گزر چکا ہوگا، ان کو یہاں نقل کرنا محض طوالت کا باعث ہوگا، یہاں تو صرف اس واقعہ کو اس زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی جائے گی جس سے تاریخ کے بہت سے واقعہ کو صحیح قرار دینے پر ہر سچا ہندستانی مجبور ہوگا، لیکن اس سے پہلے اس پر بھی کچھ توجہ ضروری ہے کہ آخر یہ واقعہ جس نے بی جے پی کو کہیں نہ کہیں بیک فٹ پر پہنچایا ہے آخر بی جے پی کے دور اقتدار میں کیوں کر پیش آیا، جبکہ بی جے پی اقتدار میں بابا کے آشرواد سے آئی تھی، بابانے کھل کر اس کو سپورٹ کیا تھا، اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا، اور بی جے پی نے بھی سارے کیس ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، یہ بھی سچائی ہے کہ یہ کیس بی جے پی کے پہلے دور اقتدار میں اس وقت کے وزیر اعظم واجپئی کو لکھے گئے خط سے شروع ہوا تھا، اگر بی جے پی نے بابا سے اپنا دامن چھڑانا چاہا تو پھر آخر اس قدر لاچار و بے بس کیوں نظر آئی اور بلوائیوں کو کروڑوں کی املاک کو کیوں نقصان پہنچانے کی اجازت دی، کئی درجن جانیں کیوں گئیں اور سینکڑوں لوگ زخمی کیوں ہوئے، شنید یہ بھی ہے کہ اس خصوصی جج کو خرید نے کی بھی کوشش ہوئی اور اس کو دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن وہ جھکا بھی نہیں اور بکا بھی نہیں، کاش سعودیہ ومصر کے مسلم کہلانے والے ججز اسی کو نمونہ بنالیتے، جس نے آستھا، اندھ وشواش، اندھ بھکتی اور اقتدار کے دباؤ سے بالا ہوکر سب کو انصاف کے قلم کی ٹھوکر پر رکھا اور ظالم کو ظالم ثابت کرنے کے لیے اپنے فیصلے کی مہر لگادی۔

راقم سطور کا احساس یہ ہے کہ بی جے پی کو اس واقعہ سے نقصان کم فائدہ زیادہ ہوا ہے، بھکتوں کی نظر میں اچھا بننے کے لئے جو کچھ کرنا تھا اس نے کیا پھر بھی ان کی نظر میں بری بن گئی، لیکن اس واقعہ سے ملک کے عوام کو وہ مثبت پیغام دینے میں کامیاب ہوگئی، رہا بھکتوں کا مسئلہ تو وہ ٹہرے بھکت، روٹھ کر بھی دامن نہ چھوڑیں گے، ظاہر ہے کہ واجپئی اور مودی کے درمیان دس سال کانگریس کی حکومت رہی اور باباکی بھکتی کے گیت دونوں ہی پارٹیوں کے نیتا گاتے رہے، لیکن کیس کی ابتدا بھی بھاجپا کے اقتدار میں ہوئی اور انتہا بھی اسی کے اقتدار میں، سوشل میڈیا پر ہونے والی بحثوں میں جب مرکزی وصوبائی حکومتوں کی کھلی ہوئی حمایت و سرد مہری پر عار دلائی گئی تو بار بار یہی جواب دیا گیا کہ آپ یہ بھی دیکھیے کہ ڈرامہ کو انجام تک کب اور کس کے دور اقتدار میں پہنچا یا گیا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ باباجی کی آخری سواری وزیر اعظم صاحب کا خاص ہیلی کاپٹر بنا، واقعہ کے تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے حکومت کے کردار کو مشکوک تو قرار دیا جائے گا،لیکن اس ایک تیر سے اس حکومت نے کتنے شکار کیے؟ یا جس طرح نظر آیا کہ وہ بیک فٹ پر گئی ہے، واقعتا یہی ہوا!  اس کا پردہ آنے والے وقت میں ہی فاش ہوگا، فی الحال کوئی حتمی رائے قائم کرنا اپنے بس کی بات نہیں۔

  اب آئیے اس قصے کے دسرے پہلو کی طرف جو درحقیقت موضوع ہے، جو تفصیلات نشر ہوئیں، ان کے بموجب ڈیرا عیاشی کا ایک اڈہ تھا، دوران تلاشی ڈیرے میں موجود گوفہ یعنی سرنگ سے ہوکر بنائے جانے والے غار نما عیش محل میں ایٹم بم کے علاوہ کیا کچھ نہیں نکلا، بابا کے حرم سرا کی کہانی یوں طشت از بام ہوئی کہ سنیاسیوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن گئی، اس سے پہلے اسی جرم میں آسا رام سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں، ڈیرے پر الزام ہے کہ وہاں جو لڑکیاں بھی سادھو بننے کے لیے رہتی تھیں ان کا جنسی استحصال ہوتا تھا، زبان کھولنے کی کسی میں جرأت نہیں ہوتی تھی، بابا پر قتل کے الزام ہیں بھی اور ثابت بھی ہوگئے ہیں، ڈیرے کے باغی بھکتوں کا کہنا ہے کہ اگر کھدائی کرائی جائے تو لاشوں کی باقیات کا ملنا یقینی ہے، سوچیے ذرا وہ لڑکی کتنی لاچار و بے بس ہوگی جس کی عصمت لٹی، مگر اس کے والدین اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں، بلکہ عصمتوں کے سوداگر اور ہوس کے پجاری کی پوجا وار چنا کرنا اپنا ایمان سمجھ رہے تھے، برا ہو اس توہم پرستی کا جس نے نہ جانے کتنی خواتین کو سادھو سنتوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا، سوچیے ذرا ڈیرے میں سنیاسی بابا گرمیت نے کتنی عصمتیں پامال کی ہوں گی، اس کی اخلاقی گراوٹ کی انتہا تو یہ ہے کہ جب وہ ایک عورت کے ساتھ بڑھتی قربت کے نتیجہ میں الزامات کے گھیرے میں آیا تو اس نے اس کو منہ بولی بیٹی قرار دے دیا، لیکن اس کے ساتھ جو تصاویر منظر عام پر آئیں وہ آج کل کی گندی تہذیب کے ’’فرینڈ شپ‘‘ والے رشتوں کی عکاس تھیں، ڈیرے میں اس قدر خواتین کا کیا کام تھا، وہاں سے جس قدر اسلحے بر آمد ہوئے ان کی کیا ضرورت تھی، حکومت باباؤں کی دولت و ثروت اور آمدنی کو ہر طرح کے ٹیکس سے بری رکھتی ہے، اگرچہ خالص سماجی خدمت کرنے والی چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو بھی انکم ٹیکس کا نوٹس آجاتا ہے۔ حکومت کے اس رویّے اور عوام کے اندھ وشواس کے نتیجے میں یہ ڈیرے اور آشرم کیا کیا گل کھلاتے ہیں یہ بات اب کھل کر سامنے آگئی، ڈیرا سچا سودا، زنا اور عیاشی کا اڈہ تھا، اسلحوں کا ذخیرہ اس کی دیش بھکتی پر سوالیہ نشان لگاتا ہے، فیصل ہوئے مقدمات سے اس کی مجرمانہ کارروائیاں واضح ہوجاتی ہیں۔

  یہاں اس پورے واقعہ کی تفصیلات میں جائے بغیر صرف جو کچھ تفصیلات آپ تک پہنچ چکی ہیں ان کی روشنی میں اہل قلم کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ تاریخ کی سچائیوں کو بطور مثال ان کھلے ذہن والوں اور انصاف پسند لوگوں کے سامنے پیش کریں، جن کے ذہنوں میں زہرگھولنے کا کام وہ طبقہ کرتا ہے جواب بھی بابا کی بھکتی پر راضی ہے، جبکہ دسرا بڑا طبقہ وہ ہے جس کے نمائندوں نے ٹی وی چینلز پر حکومت کی حمایت، اندھ بھکتی اور اس طرح کے ڈھونگی باباؤں کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی، یہ موقع ہے حکمت کے ساتھ دعوتی لٹریچر کو عام کرنے کا، مسلم حکمرانوں بالخصوص اورنگ زیب اور محمود غزنوی پر مندر شکنی سے متعلق ہونے والے اعتراضات کو ذہنوں سے کھرچ کر صاف کر دینے کا۔

  مسلم بادشاہوں بالخصوص اورنگ زیب کے ذریعہ مندروں پر کارروائی اور سومناتھ مندر کو لے کر عام طور پر ہندووں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے، کہ ان لوگوں نے تمام مندروں کو لوٹا، برباد کیا، انھیں توڑ کر اس کی جگہ پر مسجدیں بنائیں، جبکہ واقعہ اس کے خلاف ہے، حقائق ان الزامات کو منہ چڑاتے ہیں اور قہقہے لگاتے ہیں، مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری اپنی مثال آپ تھی، مسلم حکمران اگر چاہتے تو ہندوستان میں نہ کوئی مندر رہتا نہ کوئی ہندو، لیکن انھوں نے اپنی مذہبی رواداری، اسلامی تعلیمات اور وسیع القلبی کے سبب ایسا کچھ نہیں کیا، انھوں نے تمام اقوام کے عبادت خانوں کا احترام کیا، کیوں کہ یہی اسلام کی تعلیم تھی، سب سے زیادہ اورنگ زیب عالمگیر نے مندروں اور مٹھوں کے لیے جائدادیں وقف کیں جن میں سے بعض کی دستاویزبنارس ہندو یونیورسٹی میں بھی موجود ہے، اس کے علاوہ متعدد لوگوں کے پاس اس طرح کی دستاویزیں اور فرامین عالمگیری آج بھی موجود ہیں، اسی طرح کا ایک واقعہ بی این پانڈے کی الہ آباد میں میونسپلٹی کی چیرمین شپ (52-1948) کے درمیان پیش آیا تھا، جب سومیشور ناتھ کے مہا دیو مندر کو دان کی گئی ایک زمین کا جھگڑا سامنے آیا تو اس میں دان کے کاغذات جو نکلے وہ اورنگ زیب کے دیے ہوئے تھے (ص37 اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر، ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد، مترجم فیضان رشید) یہ محض کوئی ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ اورنگ زیب کے ذریعے مندروں، مٹھوں اور گرودواروں کو اراضی وقف کرنے کے بے شمار فرامین 1659ء سے 1685ء کے درمیان کے ملے ہیں۔

 مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری کے متعلق سید صباح الدین عبدالرحمن اپنی کتاب ’’اسلام میں مذہبی رواداری‘‘ میں پروفیسر رام پرشاد گھوسلاکی یہ شہادت نقل کرتے ہیں ’’ پروفیسر رام پرشاد گھوسلا اپنی کتاب مغل کنگ شپ اینڈ نوبی لیٹی میں لکھتے ہیں :  ’’مغلوں کے زمانہ میں عدل و انصاف میں جو اہتمام ہوتا اور جو ان کی مذہبی رواداری کی پالیسی تھی اس سے عوام ہمیشہ مطمئن رہے، اسلامی ریاست میں سیاست اور مذہب کا گہرا لگاؤ رہا ہے، لیکن مغلوں کی مذہبی رواداری کی وجہ سے اس لگاؤ کی وجہ سے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا، کسی زمانہ میں بھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ حکمراں قوم کا مذہب محکوموں کا بھی مذہب بنا دیا جائے، حتی کہ اورنگ زیب نے بھی حصول ملازمت کے لیے اسلام کی شرط نہیں رکھی تھی، مغلوں کے عہد میں fermilao act  یا  corporation actجیسے قوانین منظور نہیں کیے گئے، ایلزبتھ کے زمانہ میں ایک ایسا قانون تھا، جس کے ذریعہ جبری طور پر عبادت کرائی جاتی تھی، مغلوں کے زمانہ میں اس قسم کا کوئی جبر نہیں کیا گیا، Bartholomews dayکے جیسے قتل عام سے مغلوں کی تاریخ کبھی داغدار نہیں ہوئی، مذہبی جنگ کی خوں ریزی سے یورپ کی تاریخ بھری ہوئی ہے، لیکن مغلوں کے عہد میں ایسی مذہبی جنگ کی مثال نہیں ملتی، بادشاہ مذہب اسلام کا محافظ اور نگہبان ضرور سمجھا جاتا، لیکن اس نے کبھی غیر مسلم رعایا کے عقائد پر دباؤ نہیں ڈالا۔ ( اسلام میں مذہبی رواداری از سید صباح الدین عبدالرحمن، ص۲۸۷، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ)

 یہ ہے وہ اصل چہرہ جس کو مسخ کرنے کی متعصب مؤرخین نے کوشش کی ہے، جس کے سبب عام طور پر ہم دفاعی پوزیشن میں آجاتے ہیں، کیوں کہ حقائق نہ ہم کو معلوم ہیں اور نہ ملک کے نظام تعلیم سے فارغ ہمارے بچوں کو، جس کے سبب ہم کٹہرے میں کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔

مندروں کو لوٹنے کا الزام سراسر فضول ہے، کسی بھی مسلم حکمراں نے کوئی مندر لوٹا اور نہ اسے توڑ کر اس کی جگہ مسجد بنائی، البتہ مندروں کو لوٹنے کی عادت خود ہندو راجاؤں میں پائی جاتی تھی حد تو یہ ہے کہ بعض راجاؤں نے ’’مندر لوٹ‘‘ محکمہ ہی قائم کر دیا تھا، بارہویں صدی میں کشمیر کے ہرش نامی حکمراں نے یہ محکمہ قائم کیا، اس کی اور بھی مثالیں تاریخی شواہد کے ساتھ موجود ہیں۔ (اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر، ص۱۸)

اس کے برخلاف اورنگ زیب عالمگیر اور دیگر مسلم حکمرانوں نے مندروں کو جاگیریں اور جائیدادیں دیں، ان کے تقدس کو قائم رکھنے کی کوشش کی، صرف اورنگ زیب کو لیجئے تو انھوں نے اپنی حکومت کی یہ پالیسی رکھی کہ مندروں اور مٹھوں کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں چنانچہ الہ آباد کے سومیشور ناتھ مہا دیو مندر، بنار س کا کاشی وشو ناتھ مندر، چتر کوٹ کے بالا جی مندر، اومانند مندر گوہاٹی، جین مندر شترونجی اور شمالی ہندستان کے بے شمار مندروں اور گرودواروں کے لیے جاگیریں وقف کی گئیں، اس کی گواہی معروف تاریخی حوالوں میں ملتی ہے، بالخصوص بی این پانڈے نے اس کے ثبوت پیش کیے ہیں اور پروفیسر اوم پرکاش پرشاد نے اپنی کتاب میں اس کی تفصیلات درج کی ہیں۔

 مسلم حکمرانوں بشمول اورنگ زیب ومحمود غزنوی نے جن مندروں یا مورتیوں کو تباہ کیا اس کے اسباب کچھ اس طرح کے ہی ہوا کرتے تھے جن کے سبب ہند توا کی علمبردار حکومت کے دور اقتدار میں بابا گرمیت کے آشرم کی تلاشی لی گئی اور وہاں سے اسباب فساد و بغاوت بر آمد کیے گئے، اس کو عیاشی کا اڈہ پایا گیااور جہاں اندھ بھکتی اور توہم پرستی کی بھینٹ سیکڑوں دو شیزاؤں کی عصمتیں چڑھ گئیں۔

جس طرح بابا کے بلوائیوں نے ملک کے قانون سے بغاوت کی اور ملک کی املاک کو تباہ کیا، اسی طرح اُس دور میں بھی بعض مندروں میں اسباب بغاوت جمع رہتے تھے، لوگوں کی دولت توہمات کی نذر چڑھتی تھی اور اندھی عقیدت کے سبب کسی کو ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، کوئی بھی حکومت اپنے اقتدار کے خلاف ہونے والی کسی کاروائی اور اس میں شامل کسی عنصر کو معاف نہیں کرتی، اورنگ زیب نے بھی یہی کیا، وہ جب گجرات کے صوبے دار تھے تب بھی انھوں نے ایسے مندروں میں کارروائیاں کیں جہاں بغاوت کے عناصر جمع رہتے تھے اور پھر جب حکمراں ہوئے تو بھی یہ کام انجام دیا، مگر اس راہ میں انھوں نے مندر و مسجد کی تمیز نہیں کی، پروفیسر اوم پرکاش لکھتے ہیں :

 ’’اس نے (یعنی اورنگ زیب نے) متھرا اور بنارس کے مندروں کو اگر نیست و نابود کروایا تو گول کنڈہ کی مسجد کو بھی برباد کیا کیوں کہ حکومت کے خلاف حرکات و سکنات ان تینوں مقامات پر موجود تھے۔ بنارس کے کاشی وشو ناتھ مندر کو توڑنے اور اس پر مسجد بنانے کا الزام اورنگ زیب پر لگایا جاتا ہے جس کا ٹھوس ثبوت نہیں ملتا‘‘۔ (اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر، از ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد، ص18)

 اس سلسلہ کا سب سے بڑا الزام اورنگ زیب پر کاشی وشوناتھ مندر کو توڑنے کا ہے، لیکن پروفیسر اوم پرکاش کے مطابق اب تک اس کا ایک بھی معاصر ثبوت نہیں ملا ہے جس سے یہ الزام ان پر ثابت ہو، ( اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر، ص۲۵)

 لیکن ذرا پروفیسر صاحب کے ہی الفاظ میں کاشی وشوناتھ مندر کی تباہی کی کہانی سنتے چلیے جس سے اس کی تباہی اور تباہی کے اسباب پر تاریخی روشنی بھی پڑتی ہے، بابا گرمیت کے ڈیرے کی تباہی کے حقائق و اسباب سے اس کی مماثلت بھی نظر آتی ہے اور یہ بھی صاف ہوجاتا ہے کہ بابا گرمیت اور آسارام کا گورکھ دھندا کوئی نیا نہیں بلکہ اس کی جڑیں بہت پرانی ہیں، بلکہ اس دور کے ان ڈھونگی باباؤں کے کرتوت واضح ثبوت اور حقیقت بن کر ان بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتی ہیں، پروفیسر اوم پرکاش لکھتے ہیں :

 ’’ بنارس کے کاشی وشوناتھ مندر کو توڑ نے کے سلسلہ میں پی۔ سیتا رام ناتھ نے نہایت اہم ثبوت پیش کیا ہے جسے بی۔ این پانڈے نے بھی اپنے مضمون میں بطور حوالہ تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’کَچھ کی آٹھ مہارانیاں کاشی وشوناتھ میں درشن کرنے گئیں۔ ان میں سے ایک حسین رانی کو مہنتوں نے اغوا کر لیا۔ کچھ کے راجہ نے اس واقعہ کی اطلاع اورنگ زیب کو پہنچائی۔ پہلے تو اورنگ زیب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ ہندوؤں کا آپسی معاملہ ہے اور اس میں اس کی طرف سے کوئی بھی قدم اٹھانا ٹھیک نہیں ہوگا۔ لیکن جب کچھ کے راجا نے کافی منت سماجت کی تو اورنگ زیب نے کچھ ہندو سپاہیوں کو واقعہ کی چھان بین اور حقیقت معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔ ان سپاہیوں کو مہنت کے آدمیوں نے ڈانٹا ڈپٹا اور مارپیٹ کر بھگا دیا۔ اورنگ زیب کو سپاہیوں کے ساتھ کیے گئے اس برتاؤ پر ناگواری ہوئی۔ اس نے دوبارہ کچھ اہل اور بہتر فوجی جوانوں کو اصل واقعات معلوم کرنے کی غرض سے بھیجا۔ لیکن مندر کے پجاریوں نے اس مرتبہ بھی ڈٹ کر مخالفت کی۔ مغل فوجیوں نے مقابلہ کیا۔ مندر کے اندر فوجیوں اور پجاریوں کے درمیان ہوئی لڑائی کے نتیجہ میں مندر تباہ ہوا، اور لڑائی کی صورت میں ایسا ہونا امکانی بات ہے۔ فوجی جب مندر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تو انھوں نے گم شدہ رانی کی تلاش شروع کر دی۔ تلاش کے دوران خاص دیوتا (بڑے دیوتا) کے پیچھے ایک سرنگ کا پتہ چلا جس سے انتہائی ناگوار قسم کی بدبو نکل رہی تھی۔ دو دن تک دو اچھڑک کر اس بدبو کو ختم کیا گیا، اور فوجی برابر پہرہ دیتے رہے۔ تیسرے دن فوجیوں نے سرنگ میں گھس کر کئی گلی سڑی لاشیں جو عورتوں کی تھیں وہاں سے بر آمد کیں۔ کچھ کی لا پتہ رانی کی لاش بھی ملی جو برہنہ تھی۔ اجتماعی آبروزی کی وجہ سے وہ ختم ہوگئی تھی۔ بڑا پجاری گرفتار کیا گیا اور اسے سخت سز ا دی گئی۔‘‘ (اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر، از ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد، ص26-27)

ہم یہاں پر واقعات کی تفصیل میں ہرگز نہیں جانا چاہتے اور نہ ہی یہاں کوئی مکمل تاریخی و تجزیاتی مضمون لکھنا مقصد ہے، اس مضمون سے صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مسلم حکمرانوں پر لگنے والے اکثر الزامات بالکل بے بنیاد اور متعصبانہ تاریخ نگاری نہیں بلکہ تاریخ سازی کا نتیجہ ہیں، مسلم حکمرانوں نے درحقیقت جہاں کہیں بھی کسی کے عبادت خانے پر حملہ کیا تو اس کا سبب یہی تھا کہ وہ جگہ مرکز بغاوت بن چکی تھی، یا پھر آستھا اور اندھ بھکتی کے نام پر عوام کا استحصال کیا جانے لگاتھا، وہاں آنے والی دولت سَنْتوں کی عیاشیوں کے لیے استعمال ہوتی تھی، توہم پرستی کے ناطے خواتین کی عصمت سَنْتوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھتی تھی اور آنکھوں پر عقیدت کی پٹی چڑھانے والے عوام کی دولت اندر سے کھوکھلے بت میں بیٹھے پجاری کی نذر ہوتی تھی، محمود غزنوی نے سومناتھ مندر پر حملہ کیا، اگر تاریخی طور پر خالی الذھن ہوکر اس کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ نہ صرف عوام کی دولت چوسنے کا اڈہ تھا بلکہ بغاوت کے عناصر بھی وہاں جمع تھے، پھر توہمات نے غزنوی کو لشکر کشی پر مجبور کر دیا تھا، بابا گرمیت کے ڈیرے کی سچائی کے سامنے آجانے کے بعد ان واقعات کو اس چشم دید وخود شنید واقعہ کی روشنی میں سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا چاہیے، علامہ شبلی نے اس ضمن میں ایک فیصلہ کن جملہ لکھا ہے:

 ’’یورپین اور ہندو مورخ کہتے ہیں کہ عالمگیر نے چوں کہ بت خانے گرائے، اس لیے بغاوت ہوئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ بغاوت ہوئی اس لیے بت خانے گرائے گئے‘‘( اورنگ زیب پر ایک نظر، علامہ شبلی، ص74)۔

 اس جملہ کی تائید و شرح میں منصف مزاج ہندو مورخین کے بیانات اوپر آپ پڑھ آئے ہیں، ان کی روشنی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے لٹریچر کو، واقعات کو، مختصر رسائل ور پمفلٹ کی شکل میں بڑے پیمانے پر عام کیا جائے اور معاشرے کی فضا کو مسموم ہونے سے بچایا جائے، واقعہ یہ ہے کہ حقائق کے خلاف جس قدر شدت سے پروپیگنڈا مہم چلائی جارہی ہے، اس کے دفاع میں ہماری کوششیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، پھر بھی جو لوگ کام میں لگے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں، اس واقعہ سے حکمت کے ساتھ دعوتی فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے، توہم پرستی پر بھی ضرب لگائی جا سکتی ہے اور آستھا کے نام پر ہونے والے گورکھ دھندوں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے، اب سے کچھ پہلے ایک ٹی وی چینل نے ایک اسٹوری کی تھی اور اس نے مندروں اور آشرموں میں آنے والی دولت کے اعداد و شمار پیش کرنے کے بعد اپنی تعمیری سفارشات بھی پیش کی تھیں جن کو ہوا میں اڑا دیا گیا، وہ ویڈیو اب بھی یوٹیوب پر موجود ہے،(1) بہرحال مندر ہوں یا درگاہیں اور قبروں کی تجارت کے اڈے، جہاں کہیں بھی عقیدت کے نام پر تجارت شروع ہوجائے اور عوام کا بے جا استحصال ہونے لگے تو اس کا نوٹس لینا ضروری ہے، الحمدللہ ہماری مذہبی تعلیمات اور حقیقت میں ہمارے مذہبی معاملات صاف و شفاف اور دودو چار کی طرح واضح ہیں، حق بجانب ہیں وہ مدارس ومساجد جن کی جائیدادیں اور جن کی آمدنی کا حساب حکومت سے لے کر عوام تک سب کو معلوم ہوتا ہے اور سب ان کے آمد و خرچ سے واقف ہوتے ہیں۔

(1)     وہ اور اس جیسی دوسری دو ویڈیو کے لنک مندرجہ ذیل ہیں :

Your donation to Temples Dainik Bhaskar Repor: https://youtu.be/t82NN62gUqM

Check out how rich India’s temples are!: https://m.youtube.com/watch?v=Kxc5NFnU2rg

Shocking! 50 Lakh Crore of Gold Stored in Indian Temples: https://m.youtube.com/watch?v=aB9QUMHA_UE

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔