کالے دھن کے بارے میں  جاننے کا حق‘ ہندوستان کے ہر شہری کو!

 نوٹ بندی کا ساتھ دینا چوں  کہ راشٹر پریم کے سے جوڑ دیا گیا تھا اور جو اس کے منفی پہلوؤں  پر توجہ دلائے اسے غدّاری کے تمغوں  سے نوازنے کی ایک وبا سے ملک میں  پھیلی ہوئی تھی، شاید اس لیے مسئلے کی سنگینی کو جانتے بوجھتے بہت سے لوگوں  نے سکوت میں  عافیت سمجھی، اور ’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘ہم جیسے تو یہی کہتے کہتے تھک گئے، لیکن کسی نے کان نہ دھرا، اب حال ہی میں  ہندستان کے صدرِ جمہوریہ پرنب مکھرجی کا بیان آیا کہ اس اقدام سے ’غریبوں  کی پریشانیاں  بڑھی ہیں ‘ اور ساتھ ہی انھوں  نے اس خدشےکا بھی اظہار کیا کہ ’اس سے معیشت کی رفتار میں  سُستی آ سکتی ہے‘ نیز انھوں  نے اس نکتے پر بھی توجہ مبذول رکھی کہ طویل وقت کی متوقع ترقی کے لیےغریب زیادہ انتظار نہیں  کر پائیں  گے،اس وقت ان کی فوری مدد کی ضرورت ہے، تاکہ بھوک، بے روزگاری اور استحصال سے آزاد مستقبل کی طرف قومی مہم میں  سرگرمی سے حصہ لیا جا سکے۔ہمیں  خوشی ہے کہ صدر نے ملک کی صورتِ حال پرحق بیانی سے کام لیا، خدا کرے اس پر عملی و مثبت اقدام بھی جلد کیے جائیں۔ اس موقع پر ہم یہ بھی عرض کرنا چاہیں  گے کہ 8نومبر 2016ء سے جاری نوٹ بندی میں  ہندوستان کا ہر عام شہری مصیبتوں  و کلفتوں  سے گزرا ہے، اس لیے پچاس دن کی میعاد کے گزر جانے کے بعد ہر شہری کو یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ اس بابت حکومت اپنے مقصد میں  کہاں  تک کامیاب ہوئی؟ اس ہنگامی فیصلے کے بعد کُل کتنا کالا دھن مختلف مقامات سے برآمد ہوا؟نیز جو کالا دھن اس راستے سے پکڑا گیا ہے‘ وہ کہاں  ہے اور کن کاموں  میں  خرچ ہوگا؟ ویسے بھی قسمت سے بنے ہمارے وزیرِ اعظم تو خود کہتے رہتے ہیں  کہ وہ ’پردھان منتری‘ نہیں  بلکہ ’پردھان سیوک‘ ہیں،  تو ان کے ایک اعلان پر جب عوام نے صبر و تحمل کے ساتھ، خواہی نہ خواہی پچاس دن گزار لیے، اب اس مدت کے پورا ہوجانے پر بہت سے اہم معاملات کو عام کرنا اور متعدد اہم امور پر روشنی ڈالنا، ان کی ذمّے داری بنتی ہے، لیکن انھوں  نے ایسا نہیں  کیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اب اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کے بہ جاے عوامی بنانے کی ضرورت ہے،لیکن افسوس!31دسمبر2016ءپر عوام کے شدید انتظار کے بعد بھی پردھان سیوک نے ضروری مسائل سے آنکھیں  موندے رکھیں اور اپنے بیان کا رخ دوسری جانب موڑ دیا۔ حال یہ ہے کہ اب تک بینک سے نکالنے والی رقم پر پابندیاں  عائد ہیں،  ا س لیے کہ  انھوں  نے اپنے بیان میں شہریوں  کے لیے کئی نئی اسکیموں  کو جاری کرنے اور کئی پرانی اسکیموں  کا دایرہ بڑھانے کا اعلان تو کیا، جس میں  ’آواس یوجنا‘ کے تحت گھروں  کی تعمیر اور خریف اور ربیع کی بوائی کے لیے کسانوں  کو قرض پر سود کی شرح میں  چھوٹ، چھوٹے کاروباریوں  اور تاجروں  کے لیے کریڈٹ گارنٹی کو بڑھانے اور حاملہ خواتین اور معمر شہریوں  کے لیے بعض اسکیمیں  وغیرہ شامل ہیں ‘ لیکن جس بات کا بے صبری سے انتظار کیا جا رہا تھا، اس پر نہیں  بولے۔

 ان حالات میں  اپوذیشن کی برہمی درست ہے کہ وزیرِ اعظم نے گذشتہ 50  دنوں  میں  کالے دھن کی کتنی رقم کا انکشاف ہوا، اس کا کوئی ذکر نہیں  کیا،جب کہ لوگ جاننا چاہتے ہیں  کہ گذشتہ 50 دنوں  میں  کتنے لاکھ کروڑ روپئے کالے دھن کا انکشاف ہوا ہے۔راہل گاندھی وغیرہ پہلے بھی یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں  کہ آٹھ نومبر کو نوٹوں  کی منسوخی کے بعد سے ملک میں  کتنے کالے دھن کا پتا چلا ہے اور کتنا معاشی نقصان ہوا ہے، یہ تمام تفصیلات عام کی جانی چاہئیں۔ انھوں  نے اپنی پارٹی کے یومِ تاسیس کے موقع پر منعقد پریس کانفرنس میں  مطالبات پر مشتمل ایک خط بھی پیش کیا اور یہ کہا تھا کہ حکومت کو بتانا چاہیے کہ نوٹوں  کی منسوخی کے بعد کتنے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں ؟اس کے ساتھ ہی بینکوں  سے کتنے روپئے نکالنے کےلیے قطاروں  میں  لگے لوگوں  کی موتوں  کی اطلاع دینی چاہیے اور ایسے لوگوں  کی تعداد بتائی جانی چاہیےکہ ان میں  سے کتنوں  کو معاوضہ دیا گیا اور اگر نہیں  تو کیوں ؟اس صورتِ حال میں  موصوف کا یہ کہنا حق بہ جانب ہے کہ چند امیر خاندانوں  کے لیے غریبوں  کی قربانی دی جا رہی ہے، نوٹوں  کی منسوخی کی مار غریب اور متوسط طبقےپر پڑ رہی ہے اورملک کے ایک فی صد امیرترین خاندانوں  کے لیے غریبوں  کی قربانی دی جارہی ہے۔سچ کہیں  تو یہ بات صرف راہل گاندھی یا ابوذیشن کی نہیں،  بلکہ ہر حساس و فکر مند شہری کی آواز ہے، جسے یوں  نظر انداز نہیں  کیا جانا چاہیے۔پہلے اچانک نوٹ بندی کااتنا بڑا فیصلہ، پھر متبادل کی مسلسل کمی اور اب میعاد گزر جانے کے بعد یہ سرد مہری، پورے ملکی نظام کو متاثر کر رہی ہے، جس میں  موصولہ اطلاعات کے مطابق نقصان صرف اور صرف عوام کا ہو رہا ہے، رہا کیش لیس نظام تو وہ تو خود اپنے ساتھ مسائل کا ایسا پلندہ لایا ہے، جنھیں  سلجھا پانا آسان نہیں۔ اس لیے ہماری دلی تمنّا ہے کہ حکومت عوام کے درد کو سمجھے اور فوری طور پر مناسب فیصلے لے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔