کامیابی کی کلید، محض قابلیت یا ہمت و حوصلہ

شاد محمد شاد

آج صبح کی بات ہے۔ میں بڑا سا کوٹ اور رضائی جیسا کمبل اوڑھے انگیٹھی سینک رہا تھا۔ باہر برفیلے موسم اور سرد ہوا سے جسم جم سا رہا تھا۔ بیٹے کی ضد پر بیس قدم دور دکان کی طرف جانا ہوا۔ بڑی مشکل سے دکان پہنچا۔ اچانک سڑک پر چلتا ہوا ایک نابینا شخص نظر آیا۔ نام کا پتہ نہیں، لیکن گاٶں کے لوگ اس کو ”جانو“ کہہ کر پکارتے ہیں۔ سر پر بیس کلو آٹے کی بوری رکھے، ایک بازو کے ساتھ بڑا سا دودھ کا برتن اور دوسرے بازو کے ساتھ سبزی کی تھیلی لٹکائے اور ہاتھ میں چڑی لیے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ آنکھوں میں روشنی نہ ہونے کی وجہ سے چڑی کو سڑک کے کنارے بنے نالے میں کھینچتے ہوئے جارہا تھا کہ کہیں سڑک کے بیچ پہنچ کر لقمہ اجل نہ بن جائے۔

دوست نے بتایا کہ یہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہے۔ دودھ پیچنے کے لیے صبح سویرے گھر سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر واقع بازار آتا ہے اور ضرورت کی چیزیں خرید کر واپس چلا جاتا ہے۔ نہ کسی کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے، نہ سہارے کا طلب گار ہے۔

اُسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہمت و حوصلہ کس چیز کا نام ہے۔

یہ شخص کتنی بار گِرا ہوگا، گر کر بکھرا  اور کرچی کرچی ہوگیا ہوگا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری، اپنے ٹکڑے اور کرچیاں جمع کرکے اُنہیں حوصلے کی گٹھڑی میں باندھا اور کمر پر لاد کر پورے گھر کی کفالت کرنے لگ گیا۔

ہمارا حال دیکھیے۔ ہم خود تو کچھ کرتے نہیں ہیں، اگر کوئی اور ہمت کرکے کوئی علمی، عملی، دنیوی یا اخروی کارنامہ انجام دیتا ہے تو بجائے اس کی ہمت افزائی کے، ہم اپنی کاہلی اور سستی پر یہ کہہ کر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ ”یہ کیا کمال ہے، یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں“۔

ارے بھائی! ہر شخص میں قابلیت ہوتی ہے، لیکن صرف قابلیت کوئی کامیابی یا فخر کی چیز نہیں ہے، کیونکہ قابلیت تو وہبی شیئ ہے۔ بغیر کسی محنت کے مفت میں ملنے والی قابلیت (Ability) پر اترانا بےوقوفوں کا کام ہے۔ بات تو تب ہے کہ ہمت و حوصلہ کرکے ”کرسکنا“ سے ”کرچکنا“ کی سیڑھی پر آجاٶ، کیونکہ ہمت و حوصلہ وہبی نہیں، بلکہ کسبی ہے۔

جب تک آپ اٹھ کر ہمت کرکے حرکت میں نہیں آئیں گے، بخدا جان لو کہ یہ قابلیت تمہارے جسم کے اندر ہی رفتہ رفتہ گل سڑ جائیگی۔

تبصرے بند ہیں۔