کانپتی، ڈرتی، لرزتی، کپکپاتی زندگی

 کلیم الحفیظ

پانچ ریاستوں میں سے چار میں براہ راست اور ایک میں بالواسطہ جیت نے فرقہ پرستوں کے حوصلے اتنے بلند کردیے ہیں کہ وہ من مانی پر اتر آئے ہیں۔ ملک کے آئین پر موجودہ حکمرانوں کا یقین ہی نہیں ہے ،ان کی کوشش ہے کہ ملک میں غیر آئینی کام اس قدر کیے جائیں کہ آئین ناکارہ ہوجائے تاکہ اس کے بدلے اپنی پسندکاآئین نافذ کرنے میں آسانی ہو۔گزشتہ دو ہفتوں کے واقعات پر نظر ڈالیے تو آئیندہ کا منظرنامہ آپ کے سامنے آجائے گا۔لنچنگ اور دھمکیوں کا دور تو پچھلے سات سال سے جاری ہے مگر اب اس سے آگے قدم بڑھ گئے ہیں۔ اس کے باوجود ملت بیدار ہونے کو تیار نہیں ہے۔وہ مصلحت کی چادر تان کر سو رہی ہے۔

اتر پردیش میں الیکشن جیتنے کے فوراً بعد ایک ممبر اسمبلی نے بیان دیا کہ اس کے حلقہ میں گوشت کی دوکانیں نہیں کھلیں گی۔ہندو یوو واہنی کے شرپسندوں نے مسلمانوں کو گالیاں دیں اور مسجدوں سے لائوڈسپیکر ہٹا نے کی دھمکی دی اور کہا کہ اگر تم نہیں ہٹائوگے تو ہم زبردستی ہٹائیں گے۔دہلی کی 16مساجد میں جمعہ کی نماز سے روک دیا گیا۔متھرا میں عامر اور اس کے دو ساتھیوں کے ساتھ اس لیے مار پیٹ کی گئی کہ بھیڑ کو شک ہوا کہ اس کی گاڑی میں گائے کا گوشت ہے۔کرناٹک ہائی کورٹ نے فیصلہ سنا دیا کہ اسلام میں حجاب لازمی نہیں۔ مدھیہ پردیش میں لڑکیوں کے ساتھ بد سلوکی کرنے والوں کے خلاف ایک مسلم نوجوان جب پولس اسٹیشن گیا تو پولس نے اسے ہی مجرم بنا کر جیل بھیج دیا۔طبقاتی منافرت کو ہوا دینے کے لیے جھوٹے شواہد پر مبنی فلم کشمیر فائل ریلیز کردی گئی۔ یہ سارے واقعات بالکل تازہ ہیں۔

گوشت کو لے کر بی جے پی کی ریاستوں میں ہمیشہ سے ہی تنازعہ رہا ہے۔یوگی جی نے جب 2017میں اقتدار سنبھالا تھا تو پورے پردیش میں مذبح خانے بند کردیے تھے۔جس سے کئی مہینوں تک گوشت کا کاروبار کرنے والے متاثر ہوئے تھے۔اس کے بعد سخت قوانین بنائے گئے اور لائسنس جاری کیے گئے۔گائے کے نام پر بھی برسوں سے انسانوں کا خون بہایا جاتا رہا ہے۔اس معاملے میں اخلاق سے لے کر عامر تک ہزاروں مسلمانوں کو مارا پیٹا جاتا رہا یہاں تک کہ درجنوں افراد کو جان سے ماردیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گوشت کے جتنے بڑے تاجر ہیں وہ اعلیٰ ذات کے ہندو ہیں ،ایکسپورٹ کی جتنی کمپنیاں ہیں بیشتر اعلیٰ ذات کے ہندووں کی ہیں۔ گائے کے نام پر بنی گئو شالائوں میں ہزاروں گائیں روز مرجاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں اترپردیش کی کئی گئو شالائوں کی صورت حال سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔حالیہ الیکشن میں گائیوں کے ذریعے ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ کرنے کا ایشو بھی زور و شور سے اٹھا تھا۔ملک بھر میں لاکھوں گائیں کوڑے کے ڈھیر پر پلاسٹک کھاکر بیمار ہوجاتی ہیں۔ ہندو بھائی اس وقت تک ہی گائے کی سیوا کرتے ہیں جب تک وہ دودھ دیتی ہے اس کے بعد اسے سڑک پر آوارہ گردی کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ کے کوڑے دانوں پر یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

مسجدوں کے لائوڈاسپیکر پر بھی ہنگامہ آرائی نئی نہیں ہے۔ ہندو یووا واہنی کے نوجوان تو مسلم دشمنی میں ایسا کررہے ہیں، لیکن اس معاملے پر گزشتہ دنوں ایک فلمی ہیرو کو بھی پریشانی ہوگئی تھی۔مسئلہ اذان اور لائوڈاسپیکر نہیں ہے، مسئلہ تو مسلمان ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مسجدوں پر ہی لائوڈسپیکر لگے ہیں ،مندروں اور گرودواروں پر بھی لگے ہیں۔ مسجدوں سے تو صرف پانچ بار پانچ پانچ منٹ کے لیے اذانیں ہوتی ہیں ،جب کہ مندروں اور گرودواروں پر گھنٹوں بھجن اورشبد کیرتن ہوتا ہے۔جس کی آوازیں پورے گائوں اور پورے شہر میں سنی جاتی ہیں۔ بھجن اور شبد کیرتن سے کسی کی نیند میں خلل نہیں ہوتا۔ خلل صرف اذان سے ہوتا ہے۔ کیوں کہ انھیں یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ اسلام بھارتیہ دھرم نہیں ہے بلکہ حملہ آواروں کا دین ہے۔

مسجدوں میں نماز سے روکنے کے واقعات ملک میں شاذ و نادر ہی ہوئے ہیں ،اور اگر کہیں ہوئے بھی ہیں تو اس کے پیچھے کچھ وجوہات رہی ہیں ،مثلا ً بعض مقامات پر مسلمانوں کے مسلکی اختلافات نے یہ حالات پیدا کردیے تھے کہ پولس کو مسجد بند کرانا پڑی اورجب فیصلہ یا سمجھوتا ہوگیا تو مسجد کھول دی گئی ،یا کہیں غیر مسلموں نے اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا اور بات جھگڑے اور عدالت تک پہنچ گئی ،لیکن آزاد بھارت کی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہوگا کہ جب ملک کی راجدھانی میں یکایک 16مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا گیاہو۔میں نے ان میں سے دو مساجد کا دورہ کیا۔ائمہ سے ملاقات کی۔ جو تفصیل سامنے آئی وہ مستقبل کے لیے بڑی خطرناک سازش کا پتا دیتی ہے۔امام صاحبان نے بتایا کہ تقریباًدن کے 12بجے پولس کیکچھ اہل کاروں نے آکر کہا کہ آج اس مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں ہوگی۔اتفاق یہ بھی تھاکہ اس دن (18مارچ)ہولی تھی۔ امام صاحب نے کہا کہ کیوں نہیں ہوگی؟ تو اس سپاہی نے کہا کہ اوپر سے آرڈر ہے۔ جب کہا گیا کہ آرڈر کی کاپی دکھائیے تو اس نے امام صاحب کو آنکھیں دکھادیں۔ امام صاحب نے کہا یہاں ہولی کا کوئی اثر بھی نہیں ہے۔ کسی مقامی ہندو بھائی کو اعتراض بھی نہیں۔ اگر ہولی کی وجہ سے کہہ رہے ہیں تو ہم وقت بدل کر پڑھ لیں گے ،لیکن پولس والے نے سختی سے کہا کہ جب تک اوپر سے آرڈر نہیں ہوگا ہم یہاں نماز نہیں پڑھنے دیں گے،اور اس طرح ان مساجد میں نماز نہیں ہوئی۔

 اس واقعے سے آپ اندازہ لگائیے کہ ملک کس راستے پر جارہا ہے۔دہلی کی 16مساجد کے ائمہ کو صرف دو تین پولس والوں نے زبانی حکم دے کر نماز سے روک دیا۔یہ تمام مسجدیں محکمہ ٔ  آ ثار قدیمہ کے زیر نگرانی ہیں اور یہاں کے امام دہلی وقف بورڈ کے تنخواہ دار ہیں۔ آخر پولس کسی مجرم کو بھی گرفتا رکرنے جاتی ہے تو تحریری وارنٹ لے کر جاتی ہے۔کوئی محکمہ کسی کام سے روکتا ہے تو اس کے لیے تحریری حکم صادر کرتا ہے۔یہ بھی دیکھیے کہ یہ واقعہ کہاں ہوا ہے۔ ملک کی راج دھانی میں۔ جس کے بارے میں پورے ملک کے مسلمانوں کا یہ گمان ہے کہ یہاں سب سے زیادہ با شعور اور بیدار مغز مسلمان رہتے ہیں۔ ابھی تک کسی ملی اور دینی جماعت نے بھی اس پر آواز نہیں اٹھائی۔ اے آئی ایم آئی ایم کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے بھی منھ نہیں کھولا۔یہ کیسی بے بسی ہے۔کیسی بے چارگی ہے۔ کتنے کمزور ہوگئے ہیں ہم۔ایک معمولی سپاہی بھی ہمیں ہمارے مذہبی فرائض کو ادا کرنے سے روک دیگا۔وہ بھی کسی معقول عذر اور تحریر کے بغیر۔کہاں گئی ایمانی غیرت؟ کیا اس طرح کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ڈری،سہمی،ہر وقت اندیشوں میں گرفتار۔ کہاں گئے وہ سیکولر مسلمان جنھوں نے اپنی قیمتی رائے دے کر سیکولرسٹوں کو فتح دلائی تھی ؟

میرے عزیزو:میں بار بار یہ کہ چکا ہوں کہ تمہاری کمزوری کا علاج صرف اور صرف یہ ہے کہ تم سیاسی طور پر متحد ہوجائو۔سیاسی اتحاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم ایک ساتھ مل کر بی جے پی کے خلاف کانگریس،عام آدمی یا سماج وادی کو ووٹ دو۔بلکہ سیاسی اتحاد سے میری مراد یہ ہے کہ تم اپنے پرچم اور اپنی قیادت کے زیر نگیں متحد ہوجائو۔اس لیے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دے کر تم ستر سال سے دھوکا کھارہے ہو۔ابھی حال ہی میں اتر پردیش میں جس کو تم نے دل کھول کر اور جھولی بھر کر ووٹ دیا تھا۔اس نے جب وقت پڑا تو تمہیں کنارے لگادیا۔ یوپی کے ایوان بالا کے لیے اس نے 20میں سے 15یادووں کو امیدوار بنایا اور تمہارے حصے میں صرف دو ہی سیٹیں آئیں۔ آنکھیں کھولو۔جب کہ اس پارٹی کوملنے والے کل ووٹوں میں آسھے سے زیادہ مسلمانوں کا ووٹ ہے۔اب بھی وقت ہے۔ بزدلی مت دکھائو۔آئین کی بالا دستی قائم کرو۔کسی خاکی وردی والے سے مرعوب مت ہو۔ جمہوری نظام میں اپنی آواز بلند کرتے رہو۔باطل سے آنکھ ملا کر بات کرو۔اسی طرح خاموشی سے ظلم سہتے رہو گے تو غلامی تمہارا مقدر بن جائے گی۔

یہ بھی کوئی زندگی ہے سست و غافل زندگی؟

بے حمیت، بد گہر، بے روح، بزدل زندگی

بھاگتی، بچتی، دبکتی، تھرتھراتی زندگی

کانپتی، ڈرتی، لرزتی، کپکپاتی زندگی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔