کانگریس، مسلمانوں کی ناراضی اور ببّر

حفیظ نعمانی
’’27سال یوپی بے حال‘‘کاقافلہ منزل پر آگیا۔ اور اب اگلے قدم کے بارے میں غور وخوض ہورہاہے۔ اور ہوتا رہے گا اس لئے کہ نہیں معلوم کہ الیکشن 5مہینہ کے بعد ہے یا 8 مہینہ کے بعد؟ہم صرف دو باتوں کی وجہ سے یہ سطر یں لکھ رہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ محترمہ جنہیں اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنانے کا کانگریس نے اعلان کیا ہے۔ انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ خود الیکشن نہیں لڑیں گی بلکہ اپنے امید واروں کی مدد کریں گی۔ کانگریس کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کا پہلے اعلان نہیں کرتی۔ سوائے ان کے جو اپنی حکو مت کے کامیاب پانچ سال گذارنے کے بعد میدان میں اترا ہو۔ لیکن اس بار ہمت کرکے مہینوں پہلے اعلان کرنا۔ اور اعلان کے دو ہفتے کے بعد شیلا جی کا یہ اعلان کرنا کہ میں خود الیکشن نہیں لڑوں گی۔ نیک شگون نہیں ہے۔
دہلی سے کانپور تک تین دن کا اہم عہدیداروں کا روڈ شو۔ اور اسکے والہانہ استقبال اور قدم قدم پر عوام کے ہجوم کی خبروں کے بعد یہ اعلان۔ ایسا لگتا ہے جیسے شیلا جی نے اندازہ کر لیا کہ وہ اپوزیشن میں نہیں ہیں کہ رائے بریلی یا امیٹھی کی بھی کسی محفوظ سیٹ سے لڑیں تو سرخ رو ہو کر تاج پوشی کرا لیں۔ پھر وہ اسکے لئے تیار ہو سکتی ہیں کہ صرف 15مہینے کے بعد شکست کا دوسرا زخم برداشت کرلیں۔ ؟
اس روڈ شو کے بعد صرف مسٹر راج ببر پورے اعتماد کے ساتھ بول رہے ہیں۔ اور انکے بارے میں ہی بتایا گیا کہ جب لیڈروں کی یہ بس شاہجہاں پور کے علاقے سے گذررہی تھی تو سڑک کے کنارے دولڑکے کانگریس کا جھنڈا لئے کھڑے تھے۔ جس پر راج ببر کی نظر پڑ گئی اور انھوں نے یہ کہہ کربس کو رکواد یا کہ یہی ہے وہ کانگریس جسے نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اور وہ اتر کر ان سے ملے۔ یقین ہے کہ انکا ہی نہیں بہت سوں کا دل جیت لیا ہوگا۔
مسٹر راج ببّر نے کہا کہ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ مسلمان ہم سے ناراض تھے اور انکی ناراضگی جائز تھی جس کا اعتراف ہمیں کرنا ہے۔ لیکن بہت جلد یہ ناراضگی دور ہو جائے گی۔ کیونکہ اب ہم کسی پریشر یا دبائو میں کام نہیں کریں گے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ راج ببّر نے صدارت کی ذمہ داری سونیا گاندھی کی خوشامد کے بعد قبول کی ہے۔ یا ان
سے یہ شرطیں منوا لی ہیں کہ وہ قدم قدم پر دخل نہیں دیں گی ؟اور جو آج وہ عوام ،خاص طور پر مسلمانوں سے وعدے کررہے ہیں تو کیا انکو پورا کرنے کی وہ بھی پابند ہوں گی ؟۔اس ذکر کو چھیڑ نے کی صرف وجہ یہ ہے کہ ملک کی ہر ریاست کا کانگریسی صدر ایک ٹیلی فون پر بنا دیا جاتا ہے۔ اور ایک ٹیلو فون پر ہٹا دیا جاتا ہے۔  27سال میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں اتنے ہی صدر بنائے اور ہٹائے گئے ہیں۔
اور شاید جمہوریت میں آمریت کی اس سے بد ترین مثال دوسری نہیں ہوگی کہ ہم سے ایک بھائی کی طرح محبت کرنے والی محسنہ قدوائی صاحبہ کو اندرا جی نے دہلی بلا کر اتر پردیش کاصدر بنایا۔ اتر پردیش کے ایک وزیر عبد الرحمن نشتر صاحب بھی محسنہ صاحبہ کو بہن بنائے ہوئے تھے۔ اور وہ کانپور کے رہنے والے تھے۔ اس خبر سے وہ اتنے خوش ہوئے کہ چٹ پٹ انھوں نے پروگرام بنا لیا کہ محسنہ صاحبہ دہلی سے آکر کانپور میں رہیں گی۔ ایک جلسہ کوخطاب کریں گی اور ہار پھو ل سے لدی ہوئی لکھنؤ آئیں گی۔ کانگریس میں ہمیشہ دو گروپ رہے ہیں۔ نشتر صاحب کے مخالف گروپ نے اندرا جی کو بڑھا چڑھا کر نہ جانے کیا بتادیا کہ انہیں محسنہ قدوائی اور نشتر باغی نظرآئے۔ اور لکھنؤ پہنچنے سے پہلے اندرا جی نے ایک دوسرے صاحب کو صدر بنا دیا۔ اگر کوئی ایسی ایکسرے کی مشین ایجاد ہو گئی ہوتی جو چالیس سال پرانے زخموں کی بھی عکاسی کر دیتی تو محسنہ صاحبہ کا وہ زخم راج ببّرکو بھی نظر آجاتا کہ صدر کی کرسی پر بیٹھنے بھی نہ پائی تھیں کہ ہٹا دی گئیں۔ اور وہ جلوس جو کانپور سے آیا تھا وہ محسنہ کی کیسی تصویرلیکر واپس گیا ہوگا یہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
سابق صدروں میں جیسوال ہوں یا پروفیسر ریتا بہو گنا ہوں یا دوسرے صدر ہوں انہیں اس لئے ہٹا دیا گیا کہ انکی صدارت کے دور میں کانگریس کیوں ہاری ؟۔جبکہ پورا الیکشن سونیا گاندھی اور راہل گاندھی لڑاتے تھے اور ناکامی کا ٹھیکرا صوبائی صدر کے سر پر پھوڑ دیتے تھے۔ صرف 2014کے الیکشن میں ماں بیٹوں نے ہار کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اب رہی بات مسلمانوں کی تو مسلمانوں نے برسہا بر س کانگریس سے زخم کھائے ہیں اور پھر معاف کر دیا ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اختیار میں یہ تو نہیں ہے کہ وہ ہندوئوں کو ناراض نہ ہونے دیں ؟۔پوری کانگریس گواہ ہے کہ ہمیشہ مرکز میں اسکی حکومت مسلمانوں نے بنوائی صرف اسلئے کہ اسکا متبادل نہ لالو یا دو تھے نہ ملائم سنگھ یادو اور نہ کمیونسٹ پارٹیاں۔ ان میں سے کوئی بھی اگرمر کز میں حکومت بنانے کے قابل ہو تا تو 1998میں اٹل جی کی نہیں انکی حکومت بنی ہوتی۔ 2014میں کانگریس اتنی گندی ہو چکی تھی کہ مسلمان ناپاک ہونے کے ڈر سے
اسے نہیں چھو رہا تھا۔ اور کانگریس نے بھی برداشت نہیں کیا کہ اگر اسکے امیدوار نہیں جیت پارہے تو ملائم سنگھ کے سیکولر ہی جیت جائیں۔ اس نے بی جے پی کو ہرانے کے لئے نہیں بلکہ سماج وادی پارٹی کو ہرانے کے لئے رامپور میں نور بانو کے بیٹے کو اور مراد آباد میں نور بانو کو ٹکٹ دیدیا۔ اور مودی کی 280سیٹوں کا منتر پوراکرنے میں اہم کردار سونیا گاندھی نے ادا کیا۔ یہ اسی کا انعام ہے کہ 26مہینے گذر جانے کے بعد بھی وڈیرا آزاد گھوم رہے ہیں۔
کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ مسلمانوں نے کبھی نہیں کہا کہ ہماری حالت معلوم کرنے کے لئے کمیشن بنائو۔ کانگریس نے ہی ایک کے بعد دوسرا کمیشن بنایا۔ اور جب معلوم ہوا کہ اب مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہو چکی ہے تو بھگوان کا شکرادا کرکے خاموش ہو گئی۔ کانگریس نے ہمیشہ ہندئوں کے دبائو میں کام کیا۔ جب جب کسی اسکیم کا اعلان کیا تو اسے مسلمانو ں کی منہ بھرائی کا طعنہ دیا گیا اور اس نے ڈر کر قدم پیچھے ہٹا لئے۔ مسلمان راج ببّر کو بے شک اپنا لیڈر مان لیں گے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اس بات پرقائم رہیں کہ وہ دبائو میں کا م نہیں کریں گے۔ اور اپنا استعفیٰ لکھ کر سب کو دکھا دیں کہ جس دن ان سے ٹکٹ دینے یا مسلمانوں کے کسی دوسرے معاملہ میں جواب طلب کیا گیا تو وہ یہ استعفیٰ بھیج دیں گے۔
ہم ہمیشہ اسکے مخالف رہے ہیں کہ مسلمان اپنی الگ پارٹی بنائیں۔ لیکن اگر راج ببّر کانگریس سے مسلمانو ں کے لئے وہ کرانے میں ناکام ہو جائیں جس کا وہ اشارہ دے رہے ہیں تو وہ مسلمانوں کوساتھ لیکر ایک پارٹی بنائیں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی ساری صلاحیتوں کے ساتھ ہم انکی حمایت کریں گے۔ اس لئے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کی لڑائی ہم خود لڑیں اس میں ہمیں نفرت کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ اوراگر راج ببّر اپنے جیسے کروڑوں ہندوئوں کو ساتھ لیکر لڑیں تو نتیجہ وہ ہوگا جو مسلمان چاہتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔