کانگریس پر مودی کا الزام، مسلمانوں پر مہربان

سیدمنصورآغا

پارلیمانی الیکشن دورہیں، لیکن انتخابی سرگرمیاں ابھی سے شروع ہوگئی ہیں۔ چنانچہ کانگریس کو مسلم ووٹ پھریاد آیا۔چند غیرسیاسی شخصیات سے راہل گاندھی کی ملاقا ت کرائی گئی۔ میٹنگ میں مشہورومعروف شخصیت پروفیسر عرفان حبیب بھی تھے۔انہوں نے راہل کو یاد دلایاکہ کانگریس پسماندہ طبقات، ایس سی؍ایس ٹی، قبائلی اور مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آتی تھی۔اب یہ تمام طبقات اس سے الگ ہوگئے ہیں اورعلاقائی پارٹیوں میں چلے گئے۔راہل گاندھی نے اس حقیقت کو تسلیم کیا اورکہا اسی لئے ہماری کوشش ہے کہ یہ طبقات پھر کانگریس سے جڑیں۔ راہل نے یہ بھی کہا کہ کانگریس تمام طبقات کی پارٹی ہے۔اس میٹنگ میں مسٹرفضیل ایوبی ایڈوکیٹ نے پتہ کی بات کہی کہ’ پسماندہ طبقات اوراقلیت کو صرف انصاف اوروکاس درکار ہے۔‘

 یہ وہی بات ہے جس کو بھاجپا ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘کے نعرے سے وعدہ کرتی آئی ہے۔ افسوس کہ بھاجپائی لیڈروں نے اس ملاقات کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش کی اوریہ کوشش منفی انداز میں کی گئی۔جو باتیں کہی گئیں، وہ کمزورطبقات اوراقلیت کیلئے انصاف اوروکاس کی نہیں، بلکہ اکثریت کو ان سے اورکانگریس سے بھڑکانے کیلئے کہی گئیں۔

اگرچہ 2014کے چناؤ میں مودی کی کٹر مسلم مخالف شبیہ نے بھی ووٹروں کو متاثرکیا تھا، لیکن انہوں نے یہ الیکشن وکاس کے ایجنڈے پر لڑاتھا۔ ان کے لوک لبھاون وعدوں، اچھے دنوں کے خوابوں اوریوپی اے سرکار کے خلاف بھاجپا کی پانچ سالہ مہم، کرپشن کے جھوٹے سچے الزامات اور مہنگائی کے موضوعات پر ان کی لچھے دارتقریروں نے ان کو کامیابی دلائی۔بدقسمتی سے اب یہ سارے سکے کھوٹے پڑگئے ہیں، اس لئے مودی جی کی قیادت میں بھاجپا فرقہ ورانہ ایجنڈے کی دھار تیز کرنے میں لگ گئی ہے، جس کا ان کو گجرات کے دنوں سے بڑاتجربہ ہے۔

گزشتہ اسمبلی چناؤ میں انہوں نے یوپی میں شمشان، قبرستان اور رمضان کا راگ الاپ کر ماحول کو فرقہ ورانہ رنگ دیا۔ حالیہ اسمبلی چناؤ میں گجرات میں جب ہارنظرآنے لگی تو تمام سفارتی اور آئینی قدروں کو بالائے طاق رکھ کریہ شوشہ چھوڑدیا کہ کانگریس لیڈروں نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سے ملاقات کرکے الیکشن کو متاثرکرنے کی سازش کی ہے اورمسٹراحمد پٹیل کووزیراعلا بنادیگی۔ اب انہوں نے اعظم گڑھ میں اس نیشنل ہائی وے کا فیتہ کاٹتے ہوئے جس کا بڑا کام اکھلیش سرکار میں ہوگیا تھا، وکاس کا سہرااپنے سرباندھااور مذکورہ میٹنگ کے حوالے سے یہ شگوفہ چھوڑدیا کہ کانگریس تو مسلمانوں کے لئے ہے۔ ان کا یہ کہنا ان کے سابقہ کئی بیانوں کی طرح حقیقت کے خلاف ہے۔

انہوں نے ایک اردواخبار میں شائع خبرکی بنیادپر کہہ دیا کہ راہل گاندھی نے اس میٹنگ میں خود کہا ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں کیلئے ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کرانہوں نے یہ کہہ دیا کہ کیونکہ کانگریس پارلی منٹ میں تین طلاق بل کی حمایت نہیں کررہی اس لئے وہ صرف مسلم مردوں کی ہمدرد ہے۔

ان کا یہ بیان ان کی مسلم مخالف ذہنیت کا ایک اورشاہ کار ہے۔ شایدانہوں نے ہندورائے دہندگان کو اس قدر نادان سمجھ لیا ہے کہ وہ اس پر یقین کرلیں گے، حالانکہ گوپال سنگھ کمیٹی، گجرال کمیٹی،رنگاناتھ مشراکمیشن اورسچر کمیٹی کی رپورٹیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کانگریس کی دوراقتدار میں مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کاکام اسی طرح کیا گیا ہے جس طرح سلوپوائزن (رفتہ رفتہ اثر کرنے والا زہر) دے کرقتل کیا جاتا ہے۔راہل گاندھی نے اگر ایسا کوئی دعوا کیا بھی ہوتا، تب بھی ہم کہتے کہ غلط کہا۔کانگریس دورکے پانچ ہزارسے زیادہ مسلم کش فسادات اس کے گواہ ہیں، جن میں مسلسل ان کے جان ومال کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

میٹنگ کے بعد کے شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راہل نے وہ بات کہی ہی نہیں جو رپورٹرکے غیرمحتاط قلم سے نکل گئی ہے، اورجس کے درست ہونے پران کا اصرار رہے، لیکن اس کا ذریعہ  ظاہر نہیں کررہے۔ حالانکہ مذکورہ میٹنگ کئی شرکاء نے یہ تردید کردی ہے کہ راہل نے ایسا کچھ کہا تھا۔ تردید کرنے والوں میں پروفیسر عرفان حبیب اور  زیڈ کے فیضان ایڈوکیٹ بھی ہیں۔ پروفیسرحبیب نے رپورٹ پر حیرانی کا اظہارکرتے ہوئے کہا،’’ایسا تو قطعی کچھ نہیں ہوا۔کسی فرد نے، راہل گاندھی نے یا وہاں موجود کسی دوسرے شخص نے اس موضوع کوچھوا تک نہیں۔ یہ محض خیالی اڑان ہے۔ــ‘‘

مسٹرفیضان کے مطابق راہل گاندھی نے صرف یہ کہا تھا کہ’’ کانگریس پارٹی تمام مذہبی فرقوں، ذات اوربرادریوں کی پارٹی ہے۔ ہم سب کے مسائل پر بات کرتے ہیں، اورسب کیلئے کام کرتے ہیں، مسلمانوں کے لئے بھی۔‘‘این ڈی ٹی وی کے رپورٹر سے محترمہ فرح نقوی نے کہا، ’نہیں، راہل نے ایسا کچھ نہیں کہا، انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ کانگریس پارٹی سب ہندستانیوں کیلئے ہے۔ ‘ ایک اور شریک میٹنگ جنید رحمان نے ’سختی سے اس کی تردیدکرتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔‘فضیل احمد ایوبی ایڈوکیٹ نے بھی سختی سے اس کی تردید کی اورکہا ’راہل نے ایسا کچھ نہیں کہا۔‘ پروفیسر غزالہ جمیل، (جے این یو) نے کہا، ’راہل نے ہرگز یہ نہیں کہا تھا، انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ کانگریس مسلم مسائل پر بات کرنے سے نہیں کتراتی۔‘

اس کے برخلاف مذکورہ رپورٹرنے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’ رپورٹ میں جو لکھا گیا وہ ٹھیک لکھا گیا ہے، جس کی کانگریس اقلیتی سیل کے کنوینرندیم جاوید نے تائید کی اور رپورٹ کی تعریف بھی کی۔ ‘  تاہم مسٹرجاویدنے ان کے اس دعوے کی تردید کی۔یہ میٹنگ انہوں نے ہی کرائی تھی۔ یہ توممکن ہوسکتا ہے مسٹرجاوید پہلو بچانے کیلئے کچھ کہہ دیں، لیکن باقی شخصیات کے  بیانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔اس کے باوجود پہلے وزیردفاع سیتھا رمن نے راہل کو نشانہ بنایا اور پھر اعظم گڑھ جاکر مودی جی نے اپنے ڈرامائی انداز میں کانگریس پرحملہ کیا۔ ان کی کابینہ کے ایک وزیر پرکاش جائوڈیکر نے سوال کیا کہ راہل گاندھی خود جواب کیوں نہیں دیتے؟ یہ وہی اعتراض ہے جو گزشتہ چارسال کے دوران بار بار خود ان کے لیڈرنریندرمودی پرکیاجاتا رہا ہے۔کیا مسٹرجاؤڈیکر کے نزدیک خصوصاًپروفیسرعرفان حبیب ان کے علاوہ پروفیسر غزالہ جمیل،زیدکے فیضان، مسٹر ایوبی اوردیگرکے تردیدی بیانات کافی نہیں ؟ وہ خودوزیرتعلیم ہیں، ان کوکم ازکم پروفیسرعرفان حبیب صاحب کالحاظ کرناتھا جو ہمیشہ سے بیباک اظہاررائے کیلئے جانے جاتے ہیں۔

صاف ہے کہ مسٹرمودی اوران کے ما تحت وزیروں کامقصد اگلے چناؤ کیلئے گول بندی کرنا ہے، جس کیلئے جگہ جگہ ایسے ہی موضوعات کو اچھالا جارہاہے، جیسے اے ایم یو اورجامعہ ملیہ میں ریزرویشن، جناح کی تصویر، ہراپرچم جوعام طورسے درگاہوں اورمزارات پر نظرآتے ہیں وغیرہ۔ ان سب کو معلوم ہے کہ گزشتہ چارسال کی کارگزاری دکھا کرمنھ کی ہی کھانی پڑیگی۔ ابھی چندرو ز قبل بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے دوٹوک کہا کہ الیکشن ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر نہیں جیتے جاسکتے۔ان کو جیتنے کیلئے جذباتی اشوز کو ابھارنا ہوگا۔چنانچہ بھاجپا اسی راہ پر چل پڑی ہے۔

ایسے ماحول میں ہمارا محتاط رہنا ہی اصل سیاست ہے۔ ہمیں لگتا ہے ابھی تک وہ منزل دورہے، جس میں زبان کھولنے اورکوئی قدم اٹھانے سے پہلے دس بارسوچا جاتا ہے۔ مولانا علی میاں ؒ نے ایک شذرہ میں لکھا تھا، لکھنؤ سے رائے بریلی جاتے ہوئے، کارکے آگے تیل کا ایک ٹنکر تھا،جس پر لکھا تھا ’ "Highly Inflammable” یعنی ـ’’ انتہائی جلد بھڑک اٹھنے والا‘‘۔ ہماری ملّت کا یہی حال ہے۔اب جب اردگرد ایسا مادہ بکھراہوا ہے، جوزراسی چنگاری سے بھڑک اٹھ سکتا  اور تباہی مچاسکتا ہے توزیادہ احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے۔

پرسنل لاء بورڈ

مسلم پرسنل لاء بورڈ کی عاملہ کا اجلاس 15جولائی کوندوہ کے بجائے دہلی میں ہوا۔ صدرمولانا رابع حسنی ندوی تشریف نہیں لاسکے۔ وجہ ان کی طبیعت کی ناسازی بتائی گئی ہے۔ہم حیران ہیں کہ  ایسی صورت میں ہونا یہ چاہئے تھا کہ اگراجلاس کہیں باہرہونے طے تھا تو اس کو ندوہ منتقل کیا جاتا تاکہ صدرمحترم کی شرکت نہ بھی ہوتی توبھی مشورہ میں شریک ہوسکتے تھے۔ ایک رپورٹ یہ آئی تھی کہ بورڈ کے بعض اقدامات ندوہ میں  ناراضگی کا ماحول ہے۔ اجلاس وہاں ہوتا تو بدمزگی کا اندیشہ تھا۔ اگرخدانخواستہ اس میں سچائی ہے توسخت افسوس اورتشویش کی بات ہے، اس کا تدارک ہونا چاہئے۔

 اجلاس سے قبل اگرچہ خبریہ تھی کہ ملک بھرکے تمام اضلاع میں دارالقضا ء قائم کرنے کی تجویز زیر غور آئے گی، لیکن تجویزصرف دس جگہ کی زیرمشورہ آئی جن میں سے چارعنقریب قائم ہوجائیں گے۔ اخباروں میں جو رپورٹیں آئیں ان میں بار بار’عدالت ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی، جو قطعی غیر حقیقی ہے۔ عدالت کی اصطلاح اس نظم پر صادق نہیں آتی جس کو آپ دارالقضاء کہتے ہیں۔ ’عدالت‘ کی اصطلاح سے دھوکہ بھی ہوتا ہے اورغلط فہمی بھی پھیلائی جاتی ہے۔ ہماری کسی تنظیم کی جانب سے کوئی کام ایسا نہیں ہونا چاہئے جس سے عوام کو مغالطہ میں پڑجائیں۔ اس کی اصلاح ہونی چاہئے۔

ڈاکٹرطاہرمحمود کا مکتوب

گزشتہ ہفتہ ’دارالقضاء۔۔۔‘موضوع پر مطبوعہ کالم کے حوالہ سے ڈاکٹرطاہرمحمود صاحب کا ایک گرامی نامہ ملا۔ لکھا ہے، ’ آپ نے لکھا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی مرتّبہ کتاب ’مجموعہ قوانین اسلامی‘ کے انگریزی ترجمے کا کام قاضی مجاہد الاسلام مرحوم نے طاہر محمود کے سپرد کیا تھا مگر وہ ہو نہیں سکا تھا۔ عرض ہے کہ میں نے مطلوبہ ترجمہ دو ہفتے میں ہی کردیا تھا جو اصل اردو کے ساتھ 2001 میں Compendium of Islamic Laws کے عنوان سے بورڈ نے شائع کیا تھا۔‘‘ہم سہو کی اصلاح کیلئے ڈاکٹرصاحب کے شکرگزارہیں۔ تاہم اطلاع اب یہ ہے کہ تین سال سے جسٹس (ر) سید شاہ محمدقادری اس پر نظرثانی کررہے ہیں۔ اس میں دیگرفقہا کی آراء کا اضافہ کرنا بھی مقصود ہے۔ خداکرے یہ کام جلدہوجائے۔ آمین

سوامی اگنی ویش پرحملہ

سوامی اگنی ویش جی ایک بزرگ شخصیت ہیں۔ ذی علم اورخداترس ہیں۔ وہ امن واتحاد اور بھائی چارہ کے نقیب ہیں۔ شدت پسندی اوردھرم کے نام پر غنڈہ گردی پر سخت تنقید بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ منگل وہ جھارکھنڈ میں ایک پروگرام میں گئے۔ ان کی قیام گاہ پر بتایاگیاکہ کچھ نوجوان ان کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ سوامی جی نے کہاکہ مظاہرہ کیوں، وہ آجائیں اوربیٹھ کربات کریں، مگر وہ نہیں آئے۔اس کی اطلاع ایس پی اورڈی ایم کو دی گئی مگرکوئی اقدام نہیں ہوا۔جب سوامی جی اپنے پروگرام کیلئے نکلے تو بھگوا پٹکے والے نوجوانوں نے ان گھیرلیا۔ان کے ساتھ ہاتھا پائی کی،ان کو گرا دیا اورکپڑے پھاڑدئے۔ ان کا تعلق سنگھی تنظیموں سے بتایا جاتا ہے۔ ہم اس واردات کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہیں اورسرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے راج دھرم کو نبھائے او خطاکاروں کی اصلاح کی تدبیرکرے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔