کانگریس کا عالمانہ انتخابی منشور: مگر حکومت کیسے بنے گی؟

صفدر امام قادری

  کا نگریس نے حسبِ روایت اپنا انتخابی منشورملک میں الیکشن شروع ہونے سے پہلے جاری کر دیااور کاغذپر خوابوں کی ایک نئی دنیا کے خدوخال کھینچ کر رکھ دیے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے یک مشت پندرہ لاکھ کے بجاے سالانہ پچہتّر ہزار روپے سیدھے اکاونٹ میں بھیجے جانے کا وعدہ کیا۔ بائیس لا کھ لوگوں کو آنے والے وقت میں ملازمتیں دی جائیں گی۔ کسانوں کے لیے الگ سے بجٹ بنایا جائے گا۔ قرض نہیں لوٹا پانے وا لے کسانوں پر مقدمے نہیں چلیں گے۔ ایک خوش حال اور روشن دنیا آئندہ پانچ برسوں میں ہمارے رو برو ہوگی۔ گویا آجاگر ہم جہنم زار میں جیتے ہیں تو مئی ۲۰۱۹ء کے بعد راہل گاندھی کی قیادت میں اچانک جنت الفردوس میں پہنچ جائیں گے۔

        علمِ سیاسیات کی صاف ستھری بھار ی بھرکم کتابوں میں ہم نے اسکول سے لے کر یونی ورسٹیوں تک جمہوری طریقۂ کار کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے، اس میں سیاسی جماعتوں اور ان کے انتخابات میں شرکت کے امور جہاں زیرِ بحث ہو تے ہیں۔ وہاں منشور جیسے لفظ پر خاص زور ہو تا ہے۔ اصول یہ بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک وقوم کے لیے اپنے تصوّرات اور پچھلی کارکردگی اور آئندہ کی سرگرمیوں کا لیکھا جوکھا پیش کرتی ہیں۔ پچھلے انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایسا کوئی منشور باضابطہ طور پر جاری نہیں کیا تھا۔ ابھی تک جو آثار و قرائن نظر آرہے ہیں، اس سے یہ خدشات ظاہر ہو رہے ہیں کہ ملک کی صاحبِ اقتدار جماعت کی ایسے کسی منشور میں دلچسپی نہیں ہے۔ یوں بھی جمہوریت کی تاریخ اس بات کے ثبوت کے ساتھ ہمیشہ آنسو بہاتی رہی ہے کہ جو سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں وعدوں پر ووٹ مانگتی ہیں، آخر آخر تک اُن سے خود ہی رو گردانی کر کے ووٹ دہندوں کو باضابطہ طور پر بے قوف بناتی رہی ہیں۔

        یو ں تو کانگریس یا کسی دوسرے سیاسی جماعت میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔ جمہوری اقتدار کا یہ الگ شاخ سانہ ہے کہ کم وبیش تمام سیاسی جماعتیں اصولوں کو جلد از جلد بھول جاتی ہیں اور عملی طور پر ویسی ہی ہوجاتی ہیں جیسا ہو نے کا ان کا دعوا نہیں ہو تا ہے مگر کانگریس کو اپنی تاریخ کاتھوڑا بہت پاس رکھنا ہو تا ہے اور روایتی طور پر اپنے اصولوں پر چلنے والی پارٹی کا بھرم قائم رکھنا ہو تا ہے، اس لیے ان ظاہر داریوں میں بھی الجھنا پڑتا ہے جس کا ثبوت یہ نیا منشور ہے۔ جس میں ہندستان کی نئی تقدیر لکھنے کا دعوا کیا گیا ہے۔ یہ دعوا دلیل اور ثبوتوں کے بغیر کامیابی کے دروازے تک نہیں پہنچے گا، اس لیے اس پر غور کرنا لازمی ہے اور یہ بھی جا ننا ضروری ہے کہ کیا کانگریس واقعتا ملک کی تقدیر بدلنا چاہتی ہے؟کانگریس کے مینی فیسٹو میں تعلیم، روزگار، افلاس، فوج جیسے موضوعات پر بڑی بڑی باتیں ہیں۔ دفعہ۱۲۴کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ارادے بھی سامنے آئے ہیں مگر اقلیت آبادی کے بارے میں زیادہ بولنے سے پرہیز ہمیں نئے خطروں کی طرف غور کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے لڑنے کے لیے کانگریس کی تیاریوں میں اس بات سے بچنے کی کوشش ہے کہ کیسے اس پر اقلیتوں کی طرف داری کے الزامات عاید نہ ہوں۔ گاندھی اگر اس سے بچنے کے لیے کوشاں ہو تے تو ناتھو رام گوڈسے نے ان کی جا ن نہ لی ہو تی۔ کیوں کہ ہر دطرف ہو رہے فسادات اور تقسیم ِ ملک کی الجھنوں میں گاندھی کو ناچاراقلیت آبادی کا طرف دار ہو نا پڑا تھامگر وہ تب کی کانگریس تھی اور ابھی گاندھی زندہ تھے۔ آج کی کانگریس کا حال یہ ہے کہ اُس نے ایسی کوئی قربانی نہیں دی۔ ایسا کوئی مستحکم ارادہ بھی نہیں ہے۔ اندرا گاندھی کی قیمتی جان گئی مگر وہ آپریشن ’بلیواسٹار‘کا ایک غیر ضروری اور جذباتی ردِعمل تھا۔ ملک کے ہزاروں اور لاکھوں سکھ حکومت کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ راجیو گاندھی کی جان بھی جنوبی ہندستان کی ایک ایسی دہشت گرد انہ سیاست کی وجہ سے گئی  جس میں ہندستان کی حکومت کے نقطۂ نظر کے سب طرف دار نہیں تھے۔ دونوں مرحلوں میں قومی تعمیرو تشکیل کا کوئی ٹھوس اصول اور جنگ ِ آزادی کے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے کا کائی جذبہ نہیں تھا۔

        کانگریس کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے جواہر لال نہرو کے خاندان کی قیادت کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہے۔ اندرا گاندھی تک قومی تحریک کے زیرِ سایہ پرورش پانے والی نسل کی تربیت کا پوراایک سلسلہ تھا، اس لیے حکومت سازی کسی نہ کسی جہت سے منزل تک پہنچ جاتی تھی حالاں کہ ایمرجنسی ان کے ماتھے پر داغ کی طرح اب بھی قائم ہے۔ اسی وجہ سے انھیں حکومت سے تین برس کے لیے بے دخل ہو نا پڑااور ملک میں پہلی بار غیر کانگریسی سرکارقائم ہو سکی۔ راجیوگاندھی کو لوگوں نے ’مسٹر کلین‘کہا کیوں کہ ان کے بارے میں یہ مانا گیا ہے کہ وہ سیاسی آلودگی سے پاک ہیں۔ انھوں نے کانگریس کے صد سالہ جشن میں بہت طمطراق کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا تھاکہ حکومت اور نوکر شاہی سے درمیانی لوگوں کونکال پھینکے گے مگر ملک اور قوم کا ان کے پاس کو ئی تصوّر ہی نہیں تھا۔ ناچار کانگریس کے سڑے گلے نظام کا حصّہ بن کرانھیں اقتدا ر کی گلیوں میں ضائع ہوجاناتھا۔

        راجیوگاندھی کے قتل کے بعد کانگریس نے پہلے سونیا گاندھی اور پھر راہل کو سیاسی ککہرا پڑھانے اور سکھانے کی کوشش کی۔ حسبِ ضرورت پرینکاگاندھی بھی اپنی موجودگی درج کراتی رہتی ہیں۔ خدا کے فضل سے اس خاندان پر کیسا عتاب نازل ہو ا کہ سیاسی سوجھ بوجھ کے نا م پر کم و بیش سب  اکثرپیدل ہی نظر آتے ہیں۔ ایک مدّت تک سونیا گاندھی رٹے ہو ئے جملے توتے کی طرح بولتی رہیں۔ من موہن سنگھ کی شرافت، بُرد باری اور عالمانہ شخصیت تھی کہ کوئی بہت پریشانی نہیں ہو ئی اور دس برس حکومت چلتی رہی۔ سچائی یہ ہے کہ ان دس برسوں میں صرف یہ مجاہدہ ہو تا رہا کہ راہل گاندھی  سیاست سیکھ لیں اور آئندہ ان کے ہاتھوں میں ہندستان کی باگ ڈور سونپ دی جائے۔ کسی فلمی ایکٹر کو دو چار برس میں ماہر ادارے اتنی تربیت دے دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ ایکٹنگ کرنے لگتے ہیں مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہاں بڑے بڑے ایکٹروں کی اولادیں ایسے ناکام ہو تی ہیں کہ سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ راہل گاندھی کی تربیت میں کھوٹ نے بڑی آسانی سے نریندرمودی کا بُت نہ صرف یہ کہ قائم کر دیا بلکہ اُسے ملک کے ذرّے ذرّے میں زہر پھیلانے کے مواقع عطا کر دیے۔ آج ہندستان کا عامم آدمی اگر پریشان اور دکھی ہے تو اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں کانگریس کی نالائق قیادت کے اثرات ہیں۔

        پہلے ہندستا ن کی تمام پارٹیاں کانگریس سے مل کر کانگریس کے سائے میں اپنا کا م کرتی تھیں۔ آج کانگریس کی یہ حالت ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سائے میں اپناایجنڈا طے کرتی ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔ جہاں جہاں اسے بہت مجبوری تھی، وہیں اس نے اقلیتوں کو اہمیت دی۔ اسے گاندھی کی طرح یہ یا د نہیں کہ پارلیامنٹ میں اقلیت آبادی کو پہنچانے کی سب سے بڑی ذمہ داری کانگریس کی ہے کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی تو ایک بھی اقلیت امیدوار کو پارلیامنٹ میں کیوں دیکھنا چاہے گی۔ جہاں کانگریس محاذ میں مسلم اقلیت کو آپس میں لڑ کر سیٹ گنوا دینے کا اندیشہ ہے، محاذ نے اقلیتوں کو امیدوار بنا کر اندر سے یہ مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ا قلیت امید و ار ہار جائیں۔ انتخابی جلسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کے خلاف تو بار بارچور اور لٹیرا کہنے میں انھیں کوئی دریغ نہیں مگر اقلیتوں کے لیے منصوبوں کی پیش کش میں واضح طور پر راہِ فرار کا انتخاب نظر آتا ہے۔ پرینکا گاندھی بھی پریاگ سے کاشی تک گھاٹ گھاٹ اور مندر مندرپوجا کرتی ہیں اور آرتی میں شامل ہوتے یوں ہی نظر آئیں۔ اندیشے پیدا ہو رہے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اثر میں آکرکانگریس سافٹ ہندو وادی اِمیج کے قریب رہنا چاہتی ہے تا کہ ملک کا اکثریتی طبقہ انھیں ووٹ دینے میں دریغ نہ کرے۔

        راہل گاندھی کا مسئلہ یہ ہے کہ الگ الگ مواقع سے ان کے مشیران ادلتے بدلتے ہیں مگر ان کی سڑانڈ قائم رہتی ہے۔ ایسے میں نئی قیادت کس طور پر آزادانہ پروں کے ساتھ اُڑ سکے گی۔ ان کی ذاتی صلاحیت کالوگوں کو اندازہ ہی ہے۔ وہ بی۔ اے۔ میں کالج کے داخلہ فارم میں والد کے نام کی جگہ ’مسٹرپی ایم‘لکھ چکے ہیں۔ رہی بات انتخابی منشور کی تو کانگریس کے پاس بڑے بزرگوں کی ایک جماعت ۱۸۸۵ء سے لے کر آج تک ہمیشہ موجود رہی ہے۔ ان میں ہرشعبہ ہاے زندگی کے ماہر ین بھی اپنے آپ چلے آتے ہیں۔ ملک کے دانش وروں میں اب بھی ایک طبقہ ہے جسے لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف کانگریس ہی سیکولر جماعت کی قیادت کر سکتی ہے۔ اس وجہ سے دانش وروں کا ایک طبقہ ہمیشہ کھڑا رہتاہے۔ افسو س اس کا ہے کہ سیکولرزم اور جمہوریت کو بچانے کا ٹھیکاصرف کانگریس کے پاس ہے اور کمیونسٹوں کے زوال کے ساتھ اس پیمانے پر کانگریس اور باعثِ کشش معلوم پڑتی ہے مگر کیا راہل گاندھی ان توقعات اور نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل اور مشکل چیلینجزمیں ہمارے رہنما ہو سکتے ہیں ؟ہمارا دل بھی یہ نہیں کہتااور ان کی قیادت سے اس کا ثبوت بھی نہیں ملتا۔ ان کا مقابلہ جب نریندر مودی او ر امت شاہ جیسے’مطلق العنان‘ کرداروں سے ہوتاہے تو وہ قددِ آدم معلوم نہیں ہو تے۔ کانگریس نے جن تین ریاستوں میں حکومت بنائی، وہاں بھی یہ بات واضح ہو گئی کہ اسے نئی قیادت میں کوئی خاص بھروسہ نہیں ہے۔ تو کیا صرف راہل گاندھی ہی نئی قیادت کے اہل ہیں ؟موجودہ انتخاب کے سات مراحل ہیں اور پہلے مرحلے میں عوام اپنے حقوق کا جلد ہی استعمال کر لیں گے۔ اس کے بعد چھے اور مراحل ہیں۔

اب بھی یہ وقت ہے کہ کانگریس اپنی انفرادی طاقت کے بجاے علاقائی پارٹیوں کی اہمیت کو پہچانے اور روادارانہ سلوک کے ساتھ میدان میں اترے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اسی انداز سے بغیر کسی اضافی جھمیلے میں پڑے اپنی سیٹیں بڑھانے کی کوشش میں لگی ہو ئی ہے۔ خدا کرے، کانگریس کو علاقائی قیادتوں سے سمجھوتا کرناآجائے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کوہرانے کی ہر کوشش میں اُسے کامیابی ملے۔ گنجائشیں پیدا ہوں اور سیٹیں نکل آئیں تو وزیرِ عظم کے لیے بھی کسی دوسرے کے نام کا انتخاب کر کے نریندر مودی جیسے زہریلے ناگ کا سر کچل دینا پہلی ترجیح ہو نی چاہیے۔ فصیلِ وقت کی اس عبارت کو کم از کم راہل گاندھی کو ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ اسی سے ان کا کردار تاریخ میں روشن ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔