کانگریس کو لے کر مودی کی بوکھلا ہٹ کا سبب کیا ہے؟

جاوید جمال الدين

ملک کی شمال مشرقی ریاست بہار کی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈراور لالو یادو جے صاحب زادے  تیجسوی پرساد یادو نے حال میں اپنے ایک بیان میں  دو ٹوک الفاظ میں اس بات کا اظہارکیا ہے کہ "ملک میں کانگریس کے بغیر اپوزیشن کا تصورممکن ہی نہیں ہے۔ "واضح رہے کہ ان کی پارٹی آر جے ڈی قومی معاملوں پر مرکز میں کانگریس کے ساتھ ہے اور بہار میں بھی لگ بھگ کانگریس ان کے ساتھ ہی ہے۔  پھر بھی انہوں نے پارٹی لیڈرشپ کومشورہ دیاہے کہ کانگریس کو اگردوبارہ اقتدار میں آنا ہے تو اسے علاقائی پارٹیوں کو "ڈرائیونگ سیٹ” پر بیٹھانا ہوگا۔ اور ایک مشترکہ پروگرام پر متحد ہونا چاہئیے فی الحال مہنگائی اور بے روزگاری اہم مسائل ہیں، سبھی جانتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے اور مہنگائی بھی آسمان کوچھورہی ہے، ان دونوں مہنگائی اور بے روزگاری سے ملک کا عام آدمی پریشان ہے۔ ان مسائل کو ارباب اقتدار تک پہنچانے کے لیے کانگریس کی قومی حیثیت کافائدہ اٹھایاجاسکتا ہے اور اسے قیادت دی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ ملک میں ایمرجنسی کے بعد 1977 میں ہوئے عام انتخابات میں کانگریس کو شکست فاش ہوئی تھی، وزیراعظم اندراگاندھی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا، اس کے بعد متعدد پارٹیوں کے اتحاد یعنی جنتاپارٹی نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی، اور مرارجی ڈیسائی پہلی بار ایک غیر کانگریسی مرکزی حکومت کے کی تشکیل عمل میں آئی تھی، اس موقع پر سیاسی مبصرین اور سیاستدانوں نے اس طرح کے دعوے شروع کر دیئے کہ "کانگریس کاتقریباً پچیس سال تک دوبارہ اقتدارمیں آنا ممکن نہیں ہے۔ "لیکن جنتاپارٹی میں شامل لیڈروں کی آپسی چپقلش نے محض تیسرے سال میں جنتاپارٹی کی حکومت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اور خاتون آہن کہلائی جانے والی مسز اندراگاندھی کی قیادت میں کانگریس دوبارہ اقتدارمیں آگئی تھی، اب اس طرح کا دعوی وزیراعظم نریندر مودی کررہے ہیں۔ کہ کانگریس ایک صدی تک اقتدار میں نہیں آئے گی۔

 دراصل صدارتی خطبہ پر شکریہ کی رسم ادا کرتے ہوئے دو روز تک وزیراعظم مودی نے سخت انداز اپناتے ہوئے پارلیمنٹ میں کانگریس کو تنقید کانشانہ بنایا۔ انہوں نے  مہنگائی ، بےبروزگاری اور ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر ایک لفظ نہیں کہا، بلکہ ان کی پوری تقریر کانگریس دشمنی پر مبنی تھی۔ اس موقع پرعوام کا یہ جمہوری حق تھا کہ گزشتہ دوسال میں کووڈ -19کی وجہ سے بلکہ اس سے پہلے سے کمزور ہوئی اور پھر اس کے بعد ہر سطح پر اپنا توازن کھو دینے والی معیشت کوکس طرح  سنبھالا دیا جائے گا۔ جوامیدیں عوام کودلائی گئیں اور جو منصوبہ سازی کے بارے میں  بڑے بڑے دعوے کئے گئے ، انہیں کب عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اس طرح چین کی ہندوستانی سرحد میں داخل ہونے اورپیش قدمی کے تعلق سے مودی حکومت نے کیا اقدامات کئے گئے۔ کووڈ کی دوسری لہر کے دوران عام آدمی کی زبوں حالی پر بھی کچھ نہیں کہاگیا۔ بلکہ ان کا نشانہ صرف اور صرف کانگریس پارٹی اور اس کی اگلی پچھلی لیڈرشپ رہی ہے۔

  وزیراعظم مودی نے پارلیمنٹ میں کانگریس کے خلاف جوتلخ رویہ اپنایا ہے، وہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ 2014 میں 44 نشستوں پر سمٹ جانے والی کانگریس 2019 میں لوک سبھا انتخابات  میں محض دس سیٹ کاہی اضافہ کرسکی اور 53 کےعددپر پہنچ گئی اور دونوں بار اسے اپوزیشن لیڈر کا رتبہ بھی نہیں دیا گیااور کئی اہم ریاستوں میں بھی اس کی حیثیت محدود ہوکررہ گئی ہے۔ مودی نے اترپردیش، پنجاب سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران آخر کانگریس اور لیڈر شپ پر زہر آلود تیر کیوں داغے ہیں۔ اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔  وزیراعظم نے پورا وقت کانگریس پر ضائع کردیا۔

مودی نے کانگریس کا نامہ اعمال کھول کر رکھ دیا، حالانکہ پہلے اس بات کا ذکر کیا گیاہے کہ مہنگائی، بیروزگاری ، چین کی دخل اندازی کو درکنار کرتے ہوئے ، مودی پریوار واد، ایمرجنسی کے داغ ، سکھ برادر، کشمیری پنڈت وغیرہ کو ہی پیش کرنے میں لگے رہے۔ ان کے خطبہ میں نہ بدعنوانی، فرقہ پرستی تک کاذکر تھا اور نہ کووڈ کا۔ بلکہ 1947 کے بعد ہر معاملہ میں  کانگریس کو بار بارقصوروار ٹھہراتے رہے ، جسے 2014 سے عوام اقتدار سے بے دخل کر چکے ہیں، جوکہ سخت جدوجہد کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ لیکن مودی نے صرف اور صرف  کانگریس کو لعنت ملامت کرنا ہی اپنا مقصد بنالیا ہے۔

اگر ہم ان اسمبلی انتخابات کا جائزہ لیں تو یہ محسوس ہوگا کہ ان پانچ ریاستوں میں سے تین ریاستیں پنجاب، اتراکھنڈاور گواایسی ہیں جہاں انتخابات میں بی جے پی کامقابلہ راست کانگریس سے ہی ہے۔ یوپی میں تو کئی پارٹیاں میدان میں ہیں جبکہ منی پور میں بھی علاقائی پارٹیاں میدان میں ہیں۔ ایسے موقعہ پر ماضی کی باتوں کو کانگریس کی غلط پالیسیوں سے منسوب کرنے کی کوشش کرنا، جس میں سکھ مخالف فسادات اور کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کاذکر دانستہ طورپر کیاگیا ہے، دراصل یوپی سے جو خبریں مل رہی ہیں اور سنگھ پریوار کے جائزے زمینی حقائق کو پیش کررہے ہیں، وہ بی جے پی مخالف ہے۔ جبکہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی نے ہاتھرس اجتماعی عصمت دری ، پیلی بھیت کے واقعہ اور عام آدمی کے مسائل کے لیے سرگرمی دکھائی ہے، اس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ عوام نے فرقہ پرستی اور علحیدگی پسندی کو مسترد کردیا ہے، اگر اس کے باوجود بھی یوپی میں کانگریس زیادہ کچھ نہیں کرسکی تو پنجاب اتراکھنڈ اور گوا میں کانگریس کو حکومت مخالف ووٹ کافائدہ پہنچنے کی امید ہے اور پارلیمنٹ سے عوامی مسائل کے بجائے کانگریس کو ہدف بنانا، اس کے مواقع کو نقصان پہنچانے جیسا ہے ، اور یہ بی جے پوکھلاہی کر بی بوکھلاہٹ کانتیجہ ہے۔ ، ورنہ کانگریس کی حالت سے ہم سبھی بہتر طورپر واقف ہیں۔ جوکہ جدوجہد کے "موڈ”پر ہے۔ البتہ کانگریس کی قومی حیثیت برقرار ہے جس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مودی اور ان کی پارٹی بی جےپی بھی یہ جانتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔