کانگریس کے لئے خود احتسابی کا وقت آچکا ہے

محمد شمشاد 
لوک سبھا انتخاب کے ٹھیک دو سال کے بعد آسام کے اسمبلی انتخاب میں بھاجپا کی جیت نے انکی خوشیوں میں دوبالا کر دیا ہے اور ابوہ انکے سر چڑھ کر بولنے لگا ہے بھاجپا کے رہنما سر عام کہتے پھر رہے ہیں کہ اس نے کانگر یس مکت بھارت کا گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں جو وعدہ کیا تھا اسے ضرور نبھا دیا ہے اور اب انہیں اس ملک کو مسلمان مکت بنانا باقی ہے یہ حذف بھی جلد پورا کرلیا جائیگا حالانکہ اگر بھاجپا کا انتخابی تجزیہ کیا جائے تو اسکی حالت کانگریس سے کسی بھی حال میں ٹھیک نہیں ہے جہاں وہ دہلی ، بہار ، مغربی بنگال ، کیرالہ ، تمل ناڈو ،پانڈی چیری میں با لکل چت نظر آتی ہے جبکہ ان ریاستوں میں کانگریس کی پوزیشن بھاجپا کے نسبت بہ قدر بہتر اور مضبوط نظر آتی ہے۔
دوسری جانب آسام اسمبلی انتخاب کے ہارنے کانگریس کے اندر اور باہر یعنی ہر طرف ہلا کر رکھ دیا ہے اور اسی وجہ کرپارٹی کے اندر یہ بات رہ رہ کر اٹھائی جارہی ہے کہ اب راہل گاندھی کو با ضابطہ کانگریس کی کمان دے دی جائے مگرکانگریسی صدر سونیا گاندھی اسکے لئے راضی نہیں ہیں اور ابھی اسے ٹالنے کی موڈ میں ہیں جبکہ راہل گاندھی کو کانگریس کا صدر بنائے جانے کا حتمی فیصلہ سونیا گاندھی کے ہاتھ میں ہی ہے اسکی وجہ کیا ہوسکتی ہے اسکے بارے میں کچھ کہنا ابھی مشکل ہے تاہم اسوقت راہل گاندھی سیاسی طور پہ کافی سرگرم نظر آرہے ہیں۔
بظاہر ان پانچ ریاستوں میں امید کے مطابق نتائج نہ آنے کی وجہ سے کانگریس میں کچھ بغاوتی سر سننے کو مل رہی ہے ویسے الیکشن میں ہا ر کے بعد ہر پارٹی میں اس طرح کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مہاراشٹر کے سینئر کانگریسی رہنما اور سابق مرکزی وزیر گرو داس کامت نے پارٹی سے استعفی دیکر سیاست سے رٹائرمنٹ کا اعلان کردیاواضح رہے کہ گروداس کامت کو گاندھی پریوار کا قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے اسی لئے انکا استعفی سیاسی گلیاروں میں حیران کن بھی مانا جا رہا ہے انکے پارٹی کو چھوڑنے سے کانگریس کو مہاراشٹرا میں نقصان ہو نے کا پورا امکان ہے لیکن اب کامت جی سونیا گاندی سے ملاقات کرنے کیلئے راضی ہوچکے ہیں شاید وہ کانگریس میں شامل رہیں جبکہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعلی اجیت جوگی نے کانگریس پارٹی کو چھوڑکر اپنی نئی پارٹی بنانے کا اعلان کرتے ہو ئے کہا کہ اب ریاست کے فیصلے دہلی سے نہیں ہونگے اسکے ساتھ ہی تریپورہ میں بھی کانگریس کیلئے مشکلیں بڑھ گئی ہیں اور انکے چھ ودھائکو ں نے کانگریں سے استعفی دے دیا ہے۔
ان سب حالات کے باوجود سونیا گاندھی راہل گاندھی کو کانگریس کا صدر بنانے کے حق میں نہیں ہیں اسکی کیا وجہ ہے ان سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے بہر حال تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ کانگریس کی نیا کو ڈوبونے میں کسی باہرکے لوگوں کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ اسکے لئے ذمہ دار کانگر یس کے وہ سینئر رہنما ہی ہیں جنہوں نے سنگھ کے کیمپوں میں تربیت حاصل کر کے کانگریس میں شامل ہو کر اسکی نیا ڈوبونے کی قسم کھا رکھی ہے ایک طرف کانگریس کے رہنما اور وزراء بند کمرے میں بیٹھ کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور کوئی بھی فیصلہ کر لیتے ہیں جبکہ آج کی تاریخ میں ہندوستان میں کیجریوال ،لالو پرشاد ، نیتش کمار ، ممتا بنرجی اور بدرالدین اجمل جیسے بہت سارے ایسے رہنما پیدا ہوچکے ہیں جنہیں بند کمرے میں بیٹھ کر کے سیاست کرنے کی عادت نہیں ہے بلکہ انہیں زیادہ تر وقت عوام کے درمیان رہ کر بتانے کی عادت پڑچکی ہے ان کانگریسی رہنماؤں کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ انکے عوام کن کن حالات سے سفر کر رہی ہے اور نہ ہی انہیں انکی ضروریات پر ایک نظر ڈالنے کی فرصت نصیب ہوئی بچاری عوام کر بھی کیا کرے کہاں جائے آخر انہیں کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرنا ہی پڑا اس کے علاوہ کانگریسی رہنما ہر وقت اسی فراق میں لگے رہتے ہیں کہ اگر کوئی سیکولر پارٹی یا لیڈرمثال کے طور پر لالو ،ممتا ، کیجریوال ، بدرالدین اجمل جیسی شخصیت کوئی علاقائی پارٹیاں بنا کر متحرک ہوجائے تو اسے کس طرح سے برباد کر دیا جائے اسی منصوبہ بندی میں کانگریس کے سینئر رہنماؤں کا زیادہ تر وقت برباد ہوجاتا ہے اسکے ساتھ اس پارٹی میں پنچایت ،بلاک ،ڈسٹرک ہو یا صوبہ یا مرکزی سطح پر کبھی بھی نئے اور نوجو ان و متحرک چہرے کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے سوائے انکے جنکا باپ یا داد پارٹی کے بڑے عہدے پر فیضیاب ہوں یا وہ خاندانی رئیس زادے ہوں جبکہ ان رہنماؤں میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بل بوتے پر کسی ایک کو ایک پنچایت کا الیکشن جیتوا کر دکھائیں پارلیامانی اور اسمبلی الیکشن جیتنا تو انکے لئے بہت دور کی بات ہے۔
کسی بھی الیکشن میں جب بھی سیکولر پارٹیاں شکست سے دوچار ہوتی ہیں اوروہاں بھاجپا کامیاب ہوتی ہے تو اسکا سارا الزام مسلمانوں کے سر ٹھیکرا پھوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کے تقسیم کے وجہ کر سیکولر پارٹیوں کی ہار ہوئی ہے یہی بات آسام الیکشن کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ یہاں کانگریس کی شکست بدرالدین اجمل کی پارٹی AIUDF کی وجہ کر ہوئی ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف مسلمان ہی کیوں کانگریس کو ووٹ کرے کیا مسلمان انکا کوئی خرید غلام ہے کیا لیکن کانگریس کی براہمن لابی کہاں چلی گئی وہ راجپوت ،بھومیہار اور اگروال لابی کس کھوتے میں دبک گئے جن کیلئے کانگریس اعلی سے اعلی کرسیاں محفوظ رکھتی ہے کرسی ملتے ہی کانگریس مسلمانوں کواقلیت اور اکثریت کا مفہوم سمجھانے لگتی ہے اور جب کرسی بچانے کا وقت آتا ہے تو مسلمانوں کو بھاجپا کا ڈر دکھا کر ووٹ حاصل کرنے آواز لگائی جاتی ہے
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ کانگریس ہمیشہ سے ہی ووڈوں کی تقسیم والی سیاست کرتی رہی ہے اور آج بھی وہ وہی کررہی ہے یہ اسی تقسیم کا ایک ٹیلر ہے جو آام میں اسے ملا ہے اور بہار میں لالو اور نیتش کمار کے رحم و کرم پر اسے زندہ رہنا پڑرہا ہے اگر کانگریس نے اب بھی سبھلنے کی کوشش نہیں کی اور پارٹی کے اندر بیٹھے سنگھیوں کو پہچاننے کے بعد انہیں پرٹی بدر کرنے کی کوشش نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب اسے بھی دو یا تین پارلیامنٹ تک ہی سمٹ کر رہ جانا پڑے جبکہ اب زمینی حقائق بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور اب ہر پارٹیوں کیلئے نگیر ہو چکی ہے کہ ہر معاملے میں وہ اپنا واضح موقف ظاہر کریں اور اس پر وہ قائم رہیں لیکن کانگریس بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کو جاننے کی بالکل ہی کوشش نہیں کر رہی ہے ریاست آسام جہاں بھاجپا اپوزیشن میں بھی نہیں تھی وہاں وہ حکومت میں کیسے آگئی یہ غورو فکر کرنے کا مقام ہے کہ اس نے اس الیکشن میں کیسی حکمت عملی تیار کی کہ وہ حکومت میں آگئی اور کانگریس جو ۱۵سالوں سے حکومت میں تھی اسکی ایسی درگت بن گئی آخر گگوئی کے دور اقتد ار میں سنگھ پریوار کو اتنے پھلنے پھولنے کا موقع کیسے مل گیا کیا گگوئی کو صرف اپنے بیٹے کی سیاسی زندگی ہی ستارہی تھی اور وہ عوام سے بالکل بے فکر اپنے کمرے میں بدرالدین اجمل کو بربادی کا منصوبہ بنانے میں مشغول تھے
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں بھاجپا کا مقابلہ براہ راست کانگریس سے ہے وہاں بھاجپا کو زبردشت کامیابی ملی ہے اور جہاں اسے علاقائی پارٹیوں سے مقابلہ رہا ہے وہاں اںے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جس ریاست میں کانگر یس کامیاب ہوئی ہے تو مسلم رہنماؤں کی کمی دیکھی گئی ہے جبکہ اسی ریاست میں دیگر سیکولر و علاقائی پارٹیوں کے وجود کے بعد مسلمان رہنما ؤں ایم پی ، ایم ایل اے میں کافی اضافہ ہوا ہے اب سوال یہ اٹھنا لازمی ہے کہ ایسا کیوں کبھی کانگریس نے اپنے دامن پر لگے داغ کو دھونے کی کوشش کی ہے اگر نہیں تو ہندوستانی عوام اسے کب تک ڈھوئے پھرتی رہے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔