کانگریس ہوش کے ناخن لے 

جاوید جمال الدین

لوک سبھا 2014کے انتخابات کے اعلان پر ممبئی میں مدیران سے ملاقات کے دوران کانگریس صدرراہل گاندھی نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ” 2014میں اگرکانگریس پارٹی بہتر کارکردگی کامظاہرہ نہیں کرسکتی تو کوئی بات نہیں ہے، ہم نے 2019لوک سبھا کے لیے بلیو پرنٹ تیار کرلیا ہے اور عوام دیکھیںگے کہ سواسوصدی پرانی کانگریس پارٹی ایک نئے روپ ورنگ اختیار کرکے ابھرے گی، گزشتہ چار سال میں ایسا کچھ نظرنہیں آیا، لیکن دسمبر 2018میں کئی محاذپر ناکام برسراقتدار پارٹی بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی)راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ عوام بی جے پی سے ناراض ہیں اور بی جے پی صدرامت شاہ کے ’کانگریس مکت بھارت‘کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا مگر اس تحفہ میں ملی کامیابی سے غرور وتکبر میں مبتلا ہوگئی۔ کانگریس نے وہی بے ڈھنگی چال اپنا ئی، ان تینوں ریاستوں اور خصوصاً مدھیہ پردیش اور راجستھان میں جیوتی ادیتیہ سندھیا اور سچن پائلٹ جیسے کم عمر رہنماﺅں کو موقعہ دینے کے بجائے عمر رسیدہ لیڈروںکو پھر ایک بار باگ ڈورسونپ دی۔

کانگریس لیڈرشپ کے ذریعہ اسمبلی انتخابات کے بعد اس طرح کے فیصلہ سے عام رائے دہندگان میں یہ پیغام پہنچا کہ کانگریس اپنی پرانی ڈگرپر چلنا چاہتی ہے اور ملک کی ترقی وکامرانی کی سمت اس کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ جبکہ اس کے ذہن میں کوئی متبادل اور ایجنڈا نہیں ہے، اورمستقبل کے لیے اس نے کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہے،البتہ کانگریس کے صدرراہل گاندھی کی نہ صرف دوسری پارٹیوں کے لیڈروںبلکہ ذرائع ابلاغ نے بھی، ان کی بھرپور انتخابی مہم کے لیے ستائش کی، لیکن یہ افسوس ناک حقیقیت ہے کہ دوسری، تیسری اور آخری صف تک دوردورتک کوئی نظر نہیں آیا، ریاستی کانگریس صدور اپنے دائرے میں محدودرہے اور انہیں اپنوں کو ٹکٹ دینے، دلانے اور خود کے حلقہ میں محنت کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں رہا، مہانگرمراٹھی اخبار کے سابق مدیر اور سنیئر صحافی نکھل واگلے کے بقول مہاراشٹر میں ریاستی صدراشوک چوان نے ٹکٹ تقسیم کیے جانے تک اپنی ذمہ داری نبھائی اور پھر ناندیڑ کی اپنی نشست بچانے میں وہیں ڈیرہ ڈال لیا اور ریاست گیر سطح پر کہیں انتخابی مہم میں سرگرم نظر نہیں آئے، اس کے باوجود اپنی سیٹ بچانے میں ناکام رہے، اس کے برعکس مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس نے ساری ریاست کی ذمہ داری اپنے کندھوں پرہی نہیں لی بلکہ پانچ سال تک اپنی پرانی اتحادی پارٹی شیوسینا کی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے انتخابات کے لیے ایک مرتبہ پھر اس کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ کرلیا۔ جس کے خاطرخواہاں نتائج سامنے آئے ہیں۔

ایک عام خیال بلکہ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک بھرمیں لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کی شاندار جیت کےلئے کانگریس ذمہ دار ہے، کیونکہ پہلے تو اس نے راجستھان،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے باوجود اس کا فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش نہیں کی، ایک قومی سطح پر مضبوط گٹھ بندھن کی تشکیل اور علاقائی پارٹیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بی جے پی کو جیتنے کا پورا پورا موقعہ دیا، لوک سبھا انتخابات پر اگر ایک سرسری نظردوڑائی جائے تو صاف نظرآئے گا کہ سبھی اپوزیشن پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے حکمت عملی تیار نہیں اور اس کا خمیازہ کانگریس کوسب سے زیادہ بھگتنا پڑا ہے، کچھ بدلنے کی اور آگے بڑھنے کا جذبہ کہیں نظرآیا، تقریری اور برطرفی کی پالیسی کو اختیار رکھا گیا، اس ضمن میں ممبئی ریجنل کانگریس کمیٹی (ایم آرسی سی ) کے مثال دی جاسکتی ہے، عین انتخابات کے وقت سابق ایم پی اور حریف پارٹیوں کی متنازع پالیسیوںپر منہ توڑ جواب دینے والے سنجے نروپم کو ان کے عہدہ ہٹا کر ملند دیورا کو تخت نشین کردیا گیا، نتیجہ عہدیداروںاور ورکروں میں بے چینی پیدا ہوگئی، ممبئی، مہاراشٹر،اترپردیش ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں ورکروںکے فقدان اور سرگرمیوں سے دوری کی عام شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔کرناٹک میں روشن بیگ نے بغاوت کا پرچم بلند کردیا ہے، دراصل ان کا شکایت بجا ہے کہ کانگریس پارٹی میں ایک طبقہ اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کو اچھی نظرسے نہیں دیکھتا ہے اور یہ لعنت کانگریس میں دوتین دہائیوں سے داخل ہوگئی ہے، اورنگ آباد (مہاراشٹر) ایک مسلم اکثریتی شہر منا جاتا ہے، لیکن کانگریس نے کبھی یہاں سے کسی مسلم امیدوارکو موقعہ دینے کی ہمت نہیں کی، اورنگ آباد سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم ) کے مقامی ایم ایل اے باشعور،قابل اور باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور سابق صحافی امتیازسیّد جلیل نے کامیابی حاصل کرلی ہے، اگر کانگریس نیک نیتی کا مظاہرہ کرتی تو پارٹی کے ٹکٹ پر ایک مسلم ایم پی اس کی نشستوں میں بھی بیٹھا نظرآتا،لیکن 1980میں سلیم قاضی کامیاب ہوئے تھے اور تقریباًچالیس سال بعد امتیاز جلیل کو کامیابی نصیب ہوئی ہے۔

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کاتجزیہ کیا جائے ہے کہ 2018 میں کرناٹک اسمبلی انتحابات میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور ایوان میں بڑی پارٹی ہونے کے باوجود جے ڈی یو کو اقتدار سونپ دیا اور وہیں سے قومی سطح پربی جے پی کو شکست دینے کے لئے ایک مضبوط مہاگٹھ بندھن کی امیدبن گئی تھی اور اس بات سے سبھی اپوزیشن پارٹیاں اتفاق کرتی تھیں۔لیکن اس موقعہ کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ دوسری بار دسمبر2018میں 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں راجستھان،مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، میزورم اور تلنگانہ میں کامیابی معمولی اکثریت سے کامیابی ضرورملی لیکن اس موقع پر ہندی علاقے کی ان تینوں ریاستوںمیں کانگریس نے ایس پی اور بی ایس پی کے ساتھ انتحابی سمجھوتہ کیا ہوتا تو مہاگٹھ بندن کی راہ ہموار ہوجاتی اور متحد ہونے کے لئے مضبوط اشاروں کو کانگریس نے نظرانداز کردیا، جیت کا خمار اتنا چڑھ گیا کہ علاقائی پارٹیوںکو نظرانداز کردیا گیا۔یہی کام لوک سبھا انتخابا ت سے قبل کیا گیا۔ کانگریس نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے کوئی پہل نہیں کی۔

جبکہ اترپردیش میں 90کے عشرہ سے کانگریس کی طاقت کم ہوتی چلی گئی ہے اور ان نتائج سے ثابت ہوگیا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست میں پارٹی تقریبا ختم ہو چکی ہے اوراس کا اندازہ لگانے کے بعد ہی کانگریس صدرراہل گاندھی نے شکست سے بچنے کے لیے کیرل کا ر ±خ کیا ہے۔البتہ یوپی میں، ایس پی اوربی ایس پی نے کانگریس کو 8 سے 10 نشستیں دینے کی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، یہ جانتے ہوئے کہ وہ 2 سیٹیں بھی جیتنے کے لائق نہیں رہے ہیں۔اور ایسا ہی ہوا راہل امیٹھی ہارچکے ہیں۔کانگریس نے تمام نشستوں پر امیدواروں کو اتارکر سیکولر ووٹ کو تقسیم کرکے نقصان پہنچایا. تاہم، کانگریس کو بی جے پی کو شکست دینے کے لئے ایس پی بی ایس سے انتخابی سمجھوتہ کرلینا تھا،لیکن کانگریس نے بی جے پی کی بی ٹیم بن کرکام کیا اور ایس پی۔ بی ایس پی کوبھی نقصان پہنچا یااوردرپردہ بی جے پی کی مدد کی۔

اگر مغربی بنگال کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جہاں ممتا بنرجی انتخابات میں بی جے پی کوایک اچھی ٹکر دے رہی تھیں اور ان کی مدد کیے جانے کے بجائے کانگریس نے الیکشن میں پوری طاقت جھونک دی اوریہ حکمت عملی نقصان دہ ثابت ہوئی، جس نے ممتا کو نقصان پہنچادیا اور بی جے پی دونشستوں سے 18پر پہنچ چکی ہے۔اگر کانگریس راجستھان،ایم پی اور چھتیس گڑھ میں انتخابی سجھوتہ کرتی تو بہتر نتائج سامنے آتے تھے۔ان ریاستوںمیں محض پانچ مہینے میں ہی ایسا کیا ہوا کہ بی جے پی نے اس کا صفا یا کردیا ہے۔جہاں تک مہاراشٹر کا سوال ہے اگر یہاں پرکاش امبیڈکر کی ونچت بہوجن اگاڑی سے انتخابی سمجھوتہ ہوتا ہے تو کانگریس کی اتنی بُری ہار نہیں ہوتی تھی، امبیڈکر نے انتخابات میں 12نشستوں کا مطالبہ کیاتھا، لیکن غرور وتکبر میں کانگرس اور این سی پی نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور نتیجے سامنے ہےں۔ مہاراشٹر کے متعدد پارلیمانی حلقوںمیں اگاڑی نے انہیں نقصان پہنچایاہے اور اس کے امیدوار تیسرے نمبر پرنظرآرہے ہیں۔یعنی دلت اور مسلمانوں نے اگاڑی کو ووٹ دیئے ہیں۔اور ووٹوں کی تقسیم ہوگئی۔
ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ بی جے پی نے پلوامہ حملہ اور بلاکوٹ پر فضائیہ کی کارروائی کو بھنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ ہندوتوا کا سکہ بھی آخری حربے کے طورپر پھینکا گیا، اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکرکو اس کی علامت کے طورپرپیش کردیا گیا، جس نے پورے ہندی خطہ کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا، ہاں مودی پر ذاتی حملوں کا پانسہ بھی الٹا پڑگیا، لیکن کانگریس صدرراہل گاندھی کی 2014کی اس بات پر غورکیا جائے کہ کانگریس2019میں ایک نئے رنگ وروپ کے ساتھ ابھرے گی تو ایسا کچھ نظرنہیںآیا، سبکدوش، سابقہ اور ناکام حکمت عملی کے مہروں کو دوہرانے کی کوشش تباہ کن ثابت ہوئی، بلکہ اس مرتبہ بھی اپوزیشن لیڈر کے عہدہ سے محرومی ہاتھ لگی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔