کثرتیت اور اقامت دین

ڈاکٹر محمد رفعت

کثرتیت (Pluralism) آج  کا ایک مقبول نعرہ ہے۔ چنانچہ اکثر کہا جاتا ہے کہ حکومتوں کا رویہ، کثرتیت سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ کثرتیت سے ہم آہنگی کی یہی توقع، سیاسی و سماجی تحریکوں سے بھی کی جاتی ہے۔ کثرتیت کے نعرے سے متاثر موجود ہ فضا میں کارِ اقامت دین کی معنویت بھی زیربحث آگئی ہے۔مسلمانوں کے حلقوں میں یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ کثرتیت سے معمورفضا میں اقامتِ دین کے نصب العین کا اختیار کیاجانا موزوں و مناسب بھی ہے یا نہیں ؟ اگر اس نصب العین کا اختیار کرنا موزوں سمجھا جائے تو مزید سوال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اقامت دین کی تشریح کیا ہے اور اُس کے تقاضے کیا ہیں ؟۔  اس طرح کے خیالات کی موجودگی کی بنا پر ضرورت ہے کہ کثرتیت سے متعلق بحث کا سنجیدہ نوٹس لیاجائے جو ہمارے ملک میں بھی ہورہی ہے اور ملک کے باہر بھی۔ موضوع کے بنیادی سوالات پر غور سے پہلے خود کثرتیت کی اصطلاح کے بعض پہلوئوں پر توجہ ضروری معلوم ہوتی ہے۔

 کثرتیت کی اصطلاح

  اِس اصطلاح سے متعلق چند اہم پہلو یہ ہیں :

(۱لف)  اجتماعی حلقوں میں زیر بحث بعض اصطلاحیں محض کسی موضوع یا نقطۂ نظر کا تعارف کراتی ہیں مثلاً معاشیات کے مباحث میں ’’انفرادی ملکیت‘‘ کی اصطلاح پر غور کیجئے۔ اس اصطلاح کا مفہوم محض اتنا ہے کہ اشیاء پر افراد کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے۔ الفاظ کی اس ترکیب میں بطور خود، توصیف یاذَم کا کوئی پہلو شامل نہیں ہے۔ انفرادی ملکیت کے قائلین اور ناقدین، دونوں اپنے اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کے لئے اس اصطلاح کا استعمال کرسکتے ہیں ۔ اس کے برعکس بعض اصطلاحیں محض کسی نقطۂ نظر کا تعارف نہیں کراتیں بلکہ اپنے اندر توصیف یا  ذَم   کا مفہوم بھی رکھتی ہیں ۔ کثرتیت یا Pluralism کے الفاظ اِسی نوعیت کے ہیں ۔ کثرتیت کے معنی محض ایک خاص رویے یا نقطۂ نظر کے نہیں ہیں بلکہ اس رویے کے مطلوب اور پسندیدہ ہونے کا مفہوم بھی اِس اصطلاح میں شامل ہے۔ چنانچہ اس قسم کے  الفاظ محض اصطلاح نہیں ہوتے بلکہ نعرے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ مجرد اصطلاحیں تو محض علمی تجزیے کا موضوع ہوتی ہیں مگر نعرے جذبات کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس لیے اُن کی اثر انگیزی زیادہ ہوتی ہے ۔ اسی اعتبار سے ان کی درست تفہیم کے لئے نسبتاً زیادہ ہوش مندی اور باریک بینی درکار ہوتی ہے۔

 (ب) جب کوئی اصطلاح قبولیتِ عام حاصل کرکے نعرہ بن چکی ہوتو یہ سوال کم ہی لوگ کرتے ہیں کہ یہ نعرہ معقول بھی ہے یا نہیں ؟ غیر شعوری طور پر مقبولیت کو معقولیت کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ جب دنیامیں کوئی طرز ِفکر چل پڑے تو عموماً اُس پر تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ کثرتیت کے نعرے کے سلسلے میں کیفیت یہی ہے۔ یہ اصطلاح مغرب کی سیاسی وفکری فضا کی دَین ہے اور مغربی میڈیا نے اس کو دنیا میں رائج کیا ہے۔ مغرب کے سیاسی غلبے کی بنا پر اور مغربی میڈیا کے پروپگنڈے کے زیر اثر دنیا کے مرعوب دماغوں نے تحقیق وتجزیے کی زحمت گوارا کیے بغیر اِس نعرے کو قبول کرلیا ہے۔ البتہ یہ ظاہر ہےکہ کسی طرزِ فکر یا نعرے کے سلسلے میں یہ رویہ معقول نہیں ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نعرے کا مفہوم متعین کیاجائے، اس کے مضمرات پر غور کیا جائے اور اُس کے حق میں پیش کیے جانے والے استدلال کا علمی جائزہ لیا جائے۔علمی معیارات پر پورا اترنے والا طرزفکر ہی سنجیدہ توجہ کا مستحق ہوسکتا ہے۔ کسی نقطۂ نظر کی صداقت جانچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ذہن کو مرعوبیت سے آزاد رکھا جائے۔ یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ جس نعرے کو میڈیا کی تائید حاصل ہو وہ لازماً درست ہوتا ہے۔

(ج) کثرتیت کی اصطلاح عرصے سے موجود ہے لیکن پچھلی چند دہائیوں سے اس کا چرچا زیادہ ہونے لگا ہے۔ اسی دوران علمی و سیاسی مباحث میں جدیدیت (Modernity) اور مابعد جدیدیت (Post modernity)نامی دو متضاد رویوں کا تذکرہ شروع ہوا۔ جدیدیت کے تجربے سے غیر مطمئن ذہن، اُس انتشارِ فکر((Anarchy کی طرف راغب ہونے لگے جس کی نمائندگی— مابعد جدیدیت — کا رجحان کرتا ہے۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے درمیان کشمکش کے باوجود، جہاں تک کثرتیت کے نعرے کا تعلق ہے، دونوں رجحانات کے علمبردار اس نعرے کی تائید کرتے نظر آتے ہیں گو اُن کی تائید کے محرکات مختلف ہیں ۔ جدیدیت کے قائلین عموماً سیکولرزم  — مذہب و ریاست کی علیٰحدگی — کو درست سیاسی پالیسی قرار دیتے ہیں۔ اگر سیکولرزم کی مندرجہ بالا تشریح میں مذہب کی نفی شامل نہ کی جائے تو اس میں اور کثرتیت کے نعرے میں زیادہ فاصلہ نہیں رہتا۔ دوسری جانب مابعد جدیدیت   کے علمبردار، سرے سے منظم فکر ہی کی نفی کرتے ہیں ۔ چنانچہ اُن کو کثرتیت کا نعرہ اپیل کرتا ہے۔

(د) کثرتیت کے نعرے کے سلسلے میں یہ امر بھی پیش ِ نظر رہنا چاہئے کہ عملاً اس کے مضمرات نیشن اسٹیٹ (قوم پرستی پر مبنی ریاست) کے سیاق میں سامنے آتے ہیں ۔ یوں تو ہر حکومت ایک متعین خطے پر قائم ہوتی ہے اور اس کی جغرافیائی حدود اس کے حدودِ اقتدار کی نشاندہی کرتی ہیں، لیکن نیشن اسٹیٹ عموماً محض سیاسی و حدت پر قناعت نہیں کرتی بلکہ اُس مخصوص خطۂ ارضی کی ثقافتی شناخت (Cultural Identity) کی بھی قائل ہوتی ہے۔ یہ ثقافتی شناخت چونکہ کسی متفق علیہ تصور سے عبارت نہیں ہوتی اِس لیے اُس کی تعبیر وتشریح میں، اُس حکومت کے تحت رہنے والے مختلف افراد اور گروہوں میں خاصا اختلاف پایاجاتا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ تاریخی اسباب کی بنا پر جس گروہ کو اقتدار مل گیا ہوتا ہے وہ اپنی مخصوص تعبیر کو سارے باشندگانِ مملکت پر بہ جبر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فطری طور پر اقتدار سے محروم گروہ یا کم طاقت رکھنےو الے عناصر، اس جبر کی مزاحمت کرتے ہیں ۔ اِس کشمکش سے بچنے یا اُس کی شدت کم کرنے کے لئے کثرتیت کے نعرے کا سہارا لیاجاتاہے۔ گویا یہ نعرہ اصلاً عملی مسائل کے حل کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ نہ کہ سماجی حقائق کے تجزیے وتفہیم کے لیے۔

کثرتیت کا مفہوم

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانوں اور انسانی گروہوں کے درمیان گوناگوں نوعیتوں کے اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ یہ تنوع (Diversity) ایک حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کثرتیت کی اصطلاح کبھی کبھی اِس واقعے کے بیان کے لیے استعمال کی جاتی ہے مثلاً جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ’’ہندوستان کا سماج Plural (یعنی کثرتیت کا حامل) ہے‘‘ تو وہ اس واقعے کا ذکر کرتا ہے کہ ہندوستان کے رہنے والے رنگ ونسل، علاقہ وزبان اور عقیدہ ومذہب وغیرہ کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں بلکہ ان سب پہلوئوں سے ان کے درمیان نمایاں فرق پایاجاتا ہے۔ اس تنوع کو بطور واقعہ ہر شخص تسلیم کرے گا، جو حقائق کا انکار نہیں کرنا چاہتا۔ اگر کثرتیت کی اصطلاح محض ایک حقیقی صورتحال کی عکاسی کے لئے استعمال کی جائے (جو فی الواقع موجود ہے) تو اِس اصطلاح پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’عرب کا بیشتر حصہ ریگستان ہے‘‘ اور اُس کا یہ قول محض ایک حقیقت کا اظہار ہے تو وہ اسی طرح یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ فلاں ملک کا سماج Plural (کثرتیت کا حامل) ہے اور یہ بھی محض ایک حقیقت کا اظہار ہوگا۔

لیکن کثرتیت (Pluralism) کی اصطلاح عموماً محض ایک واقعے کے بیان کے لئے استعمال نہیں ہوتی  بلکہ اُس  رویے کے لئے استعمال ہوتی ہے جو اِنسانی سماج میں موجود تنوع کے سلسلے میں اختیار کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ کثرتیت، محض واقعتاً موجود تنوع اور اختلاف کے اِدراک و اعتراف کا نام نہیں ہے بلکہ اس سوال کے جواب کا نام ہے کہ ’’اِس اختلاف کے تقاضے کیا ہیں اور اس تنوع کی موجودگی میں مناسب رویہ کیا ہونا چاہیے جسے اختیار کیا جائے‘‘؟ اس مفہوم میں کثرتیت کا لفظ محض ایک اصطلاح نہیں رہتا بلکہ نعرہ بن جاتا ہے، جو مطلوب رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔

آکسفورڈ ڈکشنری میں Pluralism  کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے:

” A form of society in which the members of minority groups  maintain their independent cultural traditions”

(یعنی ایسا معاشرہ جہاں اقلیتوں کو اپنی تہذیبی روایات کے تحفظ و بقا کی ضمانت حاصل ہو)

ریفرنس آکسفورڈڈکشنری میں Pluralism کا مفہوم بتاتے ہوئے کہا گیا ہے:

"The existecne or toleration in society of a number of groups that belong to different races or have different political or  religious beliefs”

(کسی معاشرے میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے یا مختلف سیاسی ومذہبی تصورات کے حامل گروہوں کی موجودگی اور اُن کے تئیں رواداری)

مندرجہ بالا دونوں تعریفوں میں کثرتیت کی تشریح ایک رویے کے طور پر کی گئی ہے، نہ کہ محض ایک واقعے کے طور پر۔

برٹانیکا ریفرنس انسائیکلو پیڈیا میں Pluralism کی تشریح اس طرح ہے:

“In political science, the view that in liberal democracies, power should be dispersed among a variety of economic and ideological pressure groups and should not be held by a single elite or group of elites. Pluralism assumes that diversity is beneficial to society and that the disparate functional or cultural groups of which society is composed— including religious groups, trade unions, professional organizations and ethnic minorities— should be autonomous.”

(کثرتیت، علم سیاست کی ایک اصطلاح ہے۔ یہ اس تصور سے عبارت ہے کہ آزاد خیال (لبرل) جمہوری ریاستوں میں اقتدار پر ایک طبقے یا چند طبقات کا قبضہ نہیں ہوناچاہئے۔ بلکہ اقتدار مختلف معاشی طبقات اور نظریاتی گروہوں کے درمیان منقسم ہوناچاہیے۔ کثرتیت کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ تنوع، معاشرے کے لئے مفید ہے۔ چنانچہ معاشرے کے مختلف طبقات اور تہذیبی اکائیوں کو  — جن میں مذہبی گروہ ٹریڈ یونین، پیشہ ورانہ انجمنیں اور نسلی گروہ شامل ہیں    — حق خود اختیاری حاصل ہونا چاہئے۔)

مندرجہ بالا تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرتیت کے مفہوم میں درج ذیل عناصر شامل ہیں :

(الف) رواداری (ب) اقلیتوں کی تہذیبی روایات کا تحفظ (ج) تہذیبی اکائیوں کا حق خود اختیاری (autonomy) (د) سیاسی اقتدار کا ایک گروہ میں مرتکز نہ ہونا (ہ) تنوع کو پسندیدہ قرار دینا۔

اب مندرجہ بالا نکات کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کی تفہیم سے پہلے کارِ اقامت دین کا تذکرہ ضروری ہے۔

اقامت دین

کثرتیت کے نقطۂ نظر کا جو جائزہ پیش نظر ہے، وہ کارِ اقامتِ دین کے سیاق میں ہے۔ چنانچہ مناسب ہوگا کہ دین کی اقامت کامفہوم ذہنوں میں تازہ کرلیا جائے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۔۰ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۔(سورۃ الشوریٰ:13)

’’اُس اللہ نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوح کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کی تاکید ہم نے ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو کی تھی کہ قائم کرو اس دین کو اور اس سلسلے میں آپس میں متفرق نہ ہوجائو۔ جس بات کی طرف تم بلاتے ہو وہ مشرکوں پر سخت گراں ہے۔ اللہ چُن لیتا ہے اپنی طرف سے جس کو چاہے اور اپنی طرف آنے کا راستہ اُس کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے‘‘۔

جناب شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’آدم علیہ السلام کے بعد، سب سے پہلے رسول، حضرت نوح علیہ السلام ہیں ۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ فی الحقیقت تشریعِ احکام کا سلسلہ ان ہی سے شروع ہوا۔ اور آخری نبی حضور ﷺ ہیں جن پر سلسلہ رسالت و نبوت منتہی ہوا۔ درمیان میں جو انبیاء ورسل آئے، اُن میں حضرت ابراہیم ؑحضرت موسیٰ ا ور حضرت عیسیٰ علیہم السلام، یہ تین زیادہ مشہور ہوئے، جن کے نام لیوا ہر زمانے میں بکثرت موجود رہا کیے۔ اِن پانچوں کو اولوالعزم پیغمبر کہتے ہیں ۔ بہرحال اِس جگہ حق تعالیٰ نے صاف طور پر بتلا دیا کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے کیونکہ عقائد، اخلاق اور اصولِ دیانات میں تمام متفق رہے ہیں ۔ البتہ بعض فروع میں حسب مصلحتِ زمانہ کچھ تفاوت ہوا … (چنانچہ) سب انبیاء اور اُن کی امتوں کو حکم ہوا کہ دینِ الٰہی کو اپنے قول وعمل سے قائم رکھیں ‘‘۔

 رواداری

رواداری اُن عناصر ترکیبی میں سے ایک ہے جو کثرتیت کے تصور کی تشکیل کرتے ہیں ۔ رواداری کے معنی  یہ ہیں : ’’اپنے نظریے و مسلک کو حق سمجھتے ہوئے، اس سے اختلاف رکھنے والوں کی یہ آزادی تسلیم کرنا ہ وہ جس نظریے ومسلک کو چاہیں اختیار کرسکیں ‘‘۔ یہ رواداری کے تصور کی مثبت تشریح ہے۔ منفی پہلو سے رواداری کا مفہوم یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’اپنے نظریے و مسلک کے حق ہونے پر پختہ یقین کے باوجود کسی سے اُس کو بالجبر منوانے کی کوشش نہ کرنا‘‘۔ رواداری کے اس مثبت و منفی مفہوم کی اِسلام تائید کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے:

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۔لَاانْفِصَامَ لَہَا۔ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ  (سورہ بقرہ: 256)

’’کوئی زبردستی نہیں دین کے معاملے میں ۔ بے شک ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ تو جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں ۔ اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔

اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے جناب شبیراحمد عثمانی لکھتے ہیں :

’’جب دلائل توحید بخوبی بیان فرما دیے گئے جس سے کافر کو کوئی عذر باقی نہ رہا تو اَب زور (زبردستی) سے کسی کو مسلمان کرنے کی کیا حاجت ہوسکتی ہے۔ عقل والوں کو خود سمجھ لینا چاہیے۔ اور نہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ زبردستی کسی کو مسلمان بنائو‘‘۔

دوسری جگہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۔ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۔ (سورہ یونس،آیت: 99)

’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو بے شک ایمان لے آتے وہ تمام لوگ جو زمین میں ہیں ۔ پھر کیا تم زبردستی کروگے لوگوں پر حتیٰ کہ وہ مومن ہوجائیں ‘‘!

اِس آیت کے ذیل میں جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :

’’آپ (ﷺ) کو یہ قدرت نہیں کہ زبردستی کسی کے دل میں ایمان اُتار دیں ۔ خدا چاہتا تو بے شک سب آدمیوں کے دل میں ایمان ڈال سکتا تھا مگر — ایسا کرنا اُس کی تکوینی حکمت ومصلحت کے خلاف تھا، اِس لیے نہیں کیا‘‘۔

فَذَكِّرْ۔ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌلَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍاِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَكَفَرَفَيُعَذِّبُہُ اللہُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ۔(سورہ غاشیہ:آیات 21 تا24)

’’پس آپ ان کو سمجھائیے۔ آپ کا کام یہی سمجھانا ہے۔ آپ اُن پر داروغہ نہیں ہیں ۔ چنانچہ جس نے حق سے روگردانی کی اور کفر کیا تو اللہ اُس کو بڑی سزا دے گا‘‘۔

اِن آیات کی تشریح یہ ہے:

’’جب یہ لوگ باوجود دلائل واضحہ کے، غور نہیں کرتے تو آپ بھی ان کی فکر میں زیادہ نہ پڑیے بلکہ صرف نصیحت کردیا کیجیے، کیونکہ آپ نصیحت کرنے اور سمجھانے ہی کے لئے بھیجے گئے ہیں ۔ اگر یہ نہیں سمجھتے تو کوئی آپ ان پر داروغہ بناکر مسلط نہیں کئے گئے کہ زبردستی منواکر چھوڑیں اور اُن کے دلوں کو بدل ڈالیں ۔یہ کام مقلب القلوب کا ہے ۔ (لیکن وہ اس لیے نہیں کرتا کہ زبردستی ہدایت، دل میں اتار دینا اُس کی تکوینی حکمت کے خلاف ہے۔ ‘‘

آیات بالا سے یہ بات واضح ہے کہ رواداری کے معنی، حق کی تبلیغ سے باز آجانے کے نہیں ہیں بلکہ صرف یہ ہیں کہ حق تبلیغ ادا کرنے کے بعد داعی حق کو اِس امر کی کوشش نہ کرنی چاہیے کہ منکرین کو زبردستی دائرۂ اسلام میں لے آیا جائے۔

تہذیبی آزادی

رواداری کا لفظ عموماً افراد پر جبر نہ کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ نظریہ و مسلک کی جو آزادی فرد کے لئے تسلیم کی جاتی ہے وہ گروہوں کے لیے بھی تسلیم کی جائے۔ ہر اُس گروہ کے سلسلے میں جو اپنا کوئی دین رکھتا ہے اور کسی تہذیبی روایت (Cultural Tradition) سے وابستہ ہے، اِسلام اِس اصول کا قائل ہے کہ اُسے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اوراپنے تہذیبی تصورات کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ کثرتیت  کا موجودہ نعرہ، اِسلام کے اِس اصول کے قریب پہنچ گیا ہے تاہم کثرتیت کے موجودہ تصور میں تین نمایاں خامیاں موجود ہیں :

  (الف) تہذیبی اکائیوں کے اپنے تصورات کے مطابق اجتماعی زندگی گزارنے کے حق کو دنیا کے اکثر ممالک کے دساتیر میں صاف وصریح الفاظ میں تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً افراد کے حقوق پر توجہ کی گئی ہے لیکن گروہوں کے حقوق کو نظرانداز کیاگیا ہے۔ مثال کے طور پر دستورِ ہند کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کا دستور اقلیتوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے حق کو اور پرسنل لاکی حد تک مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کے حق کو تسلیم کرتا ہے لیکن دیگر اجتماعی معاملات کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔ پھر پرسنل لا پر عمل کا حق بھی مستقلاً دستورِ ہند کے رہنما اصولوں کی زد میں ہے جو ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کے نفاذ کی تلقین کرتے ہیں ۔

   (ب) دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ اکثردساتیرِ مملکت میں تہذیبی حقوق کا تذکرہ اقلیتوں کے سیاق میں ہے۔ جبکہ کسی گروہ کی آبادی کے کم یا زیادہ ہونے کا اِن حقوق سے کوئی تعلق نہیں ۔ معقولیت کاتقاضا یہ تھا کہ تہذیبی روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق تمام تہذیبی اکائیوں کے لئے تسلیم کیاجاتا ۔ (بلا لحاظ اس کے کہ اُن کی تعداد زیادہ ہے یا کم)۔

(ج) تیسری خامی یہ ہے کہ تہذیبی اکائیوں کے بعض حقوق یقیناً کچھ جمہوری ریاستوں میں تسلیم کرلیے گئے ہیں لیکن تہذیبی اکائیوں کو خود اختیاری  (autonomy) دینے کے لئے جمہوری ریاستیں تیار نہیں ہیں ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان ریاستوں کے کارفرما عناصر جارحانہ قوم پرستی سے متاثر ہیں ۔ چنانچہ جس کلچر کو وہ ’’قومی کلچر‘‘ سمجھتے ہیں اُس کو تمام باشندگانِ مملکت پر بہ جبر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ اِس رجحان کی موجودگی میں یہ تجویز اُن کے لیے ناقابل تصور ہے کہ تہذیبی اکائیوں کو تہذیبی خود اختیاری حاصل ہو۔

اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اِسلام نے تہذیبی اکائیوں کے سلسلے میں جس وسیع النظری کا ثبوت دیا ہے، کثرتیت کے موجود قائلین ابھی فکر ونظر کی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکے ہیں ۔ اِس سلسلے میں ضروری ہے کہ وہ اِسلامی نظام سے استفادہ کریں ۔

تنوع کی حیثیت

اِنسانی معاشرے میں جو تنوع پایاجاتا ہے اُس کو کثرتیت کے تصور کے مطابق، پسندیدہ اور مطلوب سمجھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر کی تفہیم کے لیے تنوع کی دو قسموں میں فرق ضروری ہے۔ افراد کے مابین ایک فرق وہ ہوتا ہے جو رنگ ونسل یا زبان کے اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اِسلام اِس فرق کو اللہ کی نشانی قرار دیتا ہے۔

وَمِنْ اٰيٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ۔ (سورہ روم،آیت: 22)

’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں، دانشمند لوگوں کے لیے‘‘۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’دنیا میں آپ ہر طرف اتنا تنوع (Variety) پائیں گے کہ اس کا احاطہ مشکل ہوجائے گا۔ اِنسان، حیوان، نباتات اور دوسری تمام اشیاء کی جِس  نوع کو بھی آپ لے لیں، اُس کے افراد میں بنیادی یکسانی کے باوجود بے شمار اختلافات موجود ہیں حتیٰ کہ کسی نوع کا بھی کوئی ایک فرد، دوسرے سے بالکل مشابہ نہیں ہے‘‘ ۔ (تفہیم القرآن، سورہ روم، حاشیہ 32)

رنگ، نسل، علاقہ اور زبان کے اشتراک کی بنیاد پر قبیلے اور شعوب وجود میں آتے ہیں ۔ قرآن کے مطابق قبائل اور شعوب کا وجود، اللہ تعالیٰ کے منصوبے کے تحت ہوا ہے۔

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۔ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۔ (سورہ حجرات،آیت: 13)

’’اے اِنسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔

سید مودودیؒ اِس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :

’’اِس آیت میں پوری نوعِ انسانی کو خطاب کرکے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالم گیر فساد کی موجب بنی رہی ہے۔ مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام اِنسانوں کو مخاطب کرکے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں ۔ ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہی ہے، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں، وہ درحقیقت ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں، جو ایک ماں اور باپ سے شروع ہوئی تھی۔

دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا، مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنا پر اونچ اور نیچ، شریف اور کمین، برتر اور کم تر کے امتیازات قائم کیے جائیں، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں اور ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے۔ خالق نے جِس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ اُن کے درمیان باہمی تعاون اور تعارف کی فطری صورت یہی تھی۔ تیسرے یہ کہ اِنسان اور اِنسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہوسکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے‘‘۔ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی)

رنگ، نسل، علاقہ وزبان کے فرق کے علاوہ اِنسانوں میں ایک دوسرا فرق بھی پایا جاتا ہے  اور وہ دین کا فرق ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق اِس فرق کو گوارا تو کیا جائے گا لیکن اس اختلاف کو اللہ تعالیٰ نے پسندیدہ نہیں قرار دیا ہے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر کو ناپسند کرتا ہے اور شکرگزاری کو پسند کرتا ہے۔

اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللہَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ۔ وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِہِ الْكُفْرَ۔ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَہُ لَكُمْ۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ اِنَّہٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (سورہ زمر، آیت: 7)

’’اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے۔ لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر کوتو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ آخر کار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ وہ تو دِلوں کا حال تک جانتا ہے‘‘۔

کثرتیت کے قائلین کی عظیم غلطی یہ ہے کہ وہ رنگ ونسل کے اختلاف اور دین کے اختلاف کو یکساں حیثیت دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اختلاف کی دونوں نوعیتیں، اِنسانی معاشرے کے لیے مفید ہیں ۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ دین حق سے وابستگی انسان کے لیے مفید ہے اور ادیانِ باطلہ کی پیروی اُس کے لیے تباہ کن ہے۔

کثرتیت کے اجزاءِ ترکیبی کے مندرجہ بالا تجزیے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تصورِ کثرتیت میں صحیح اور غلط دونوں طرح کے عناصر موجود ہیں۔ چنانچہ اس نعرے کو جوں کا توں قبول نہیں کیاجاسکتا۔ بے اعتدالیوں سے پاک کرکے کثرتیت کے نعرے کو تصور اِسلام سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت ہے۔ دوسری  اہم بات یہ ہے کہ دین  کی اقامت تمام اہل ایمان کا فریضہ ہے، کثرتیت کے حامل معاشروں میں رہنے والے اہلِ ایمان، اس فریضے سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔