کجریوال اور رشوت؟

حفیظ نعمانی

آزادی کے بعد کئی برس تک سیاست اور حکومت کے میدان میں صرف وہ حضرات آتے رہے جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں کسی نہ کسی شکل میں حصہ لیا تھا۔ پھر وہ آنے لگے جو کالجوں، یونیورسٹیوں میں پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے لگے اور یونین کے ذریعہ لیڈری اور نیتا گیری کے دائوپیچ سیکھنے لگے اور اب زیادہ تر وہ حضرات ہیں جو کسی سیاسی لیڈر کے یا وزیر کے یا گورنر کے بیٹے بیٹی بھتیجے یا پوتے ہیں ۔ یہ فخر صرف اروند کجریوال اور کرن بیدی کو حاصل ہے جو بدعنوانی، بے ایمانی، بھرشٹاچار، لوک پال اور رشوت سے جنگ کرتے ہوئے سیاست میں آئے ہیں ۔

کرن بیدی خود بدعنوان سسٹم کی زخمی تھیں اور کجریوال شری اننا ہزارے سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایک ایسی نوکری پر لات ماردی جس کے ذریعہ وہ چاہتے تو کوٹھی نہیں کالونی بنا سکتے تھے۔ اور پھر دہلی والوں نے انہیں اس کا ایسا انعام دیا کہ جب 2015 ء میں دہلی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو انہوں نے کانگریس کو تو جھاڑو سے پوری طرح صاف کردیا اور بی جے پی کے بھاری روڑوں میں سے تین روڑے جھاڑو کے قابو میں نہیں آئے۔

کجریوال کی صلاحیتیں زیادہ تھیں اور گھوڑا چھوٹا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ٹانگیں زمین سے لگنے لگیں ۔ زیادہ اچھا تو یہ ہوتا کہ قانون نے اگر انہیں دو روٹیاں دی تھیں تو ان پر ہی قناعت کرتے۔ مگر انہوں نے دو روٹیوں سے ہی دعوت شیراز کردی اور وہ لہجہ اختیار کیا جو اترپردیش جیسے بڑے صوبہ کے وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کا ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انہوں نے جو ایک نئے انداز کی حکومت کرنے کا وعدہ کیا اور کسی حد تک اسے پورا بھی کیا۔ وہ پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے حلف لینے کے بعد وزیروں کا اور اسمبلی کے ممبروں کا وی آئی پی کلچر ختم کردیا کہ کوئی بڑی کوٹھی نہیں لے گا اور نہ کار میں لال بتی لگائے گا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کوئی محکمہ اپنے پاس نہیں رکھیں گے۔ صرف وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ وہ جب سیاست میں آئے تو انہوں نے دہلی میں بجلی پانی کو موضوع بنایا۔ اور وہ پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جن کے بارے میں ان صحافیوں نے جو شیلاجی کی حمایت کیا کرتے تھے۔ ہم سے کہاکہ کجریوال نے بجلی پانی کے لئے جو کیا وہ کوئی کر نہیں سکتا تھا۔

انہوں نے اگر پانچ برس صرف دہلی میں گذارے ہوتے اور پنجاب اور گوا میں پائوں نہ پھیلائے ہوتے تو شاید ہندوستان کے وزیر اعظم ان کو خطرہ نہ سمجھتے۔ لیکن پنجاب میں انہوں نے بی جے پی اور بادل کو دھو دیا۔ جبکہ وہ خود پنجابی نہیں تھے تو وزیر اعظم کے لئے ضروری ہوگیا کہ وہ اپنی پوری طاقت سے انہیں کچل دیں ۔ اور انہوں نے وہی کیا کہ کجریوال کے ان ساتھیوں کو جو ساتھی نہیں تھے بلکہ حکومت کی ڈولی اٹھانے والے کہار تھے خریدنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ اتنے کہاروں کو خرید لیا کہ ڈولی زمین پر آگئی۔ کجریوال الیکشن کے لئے تو تیار تھے حکومت کے لئے ان کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ لیکن جب حکومت بنائی تو جسے پڑھا لکھا اور چکنا چپڑا دیکھا اسے وزیر بنا دیا۔ مجبوری یہ تھی کہ جو اُن کے مشن کے ساتھی تھے وہ ایم ایل اے نہیں تھے جو وزیر بن جاتے؟

مودی جی کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ جب ٹھان لیتے ہیں تو اچھا برا اور حیثیت یا عزت کچھ نہیں دیکھتے جیسے انہوں نے یوپی کو جیتنے کی ٹھان لی تو الزام لگانے والوں کے مطابق الیکشن کمیشن کو بھی مشینوں کے ذریعہ ہاتھ کالے کرنے پر مجبور کردیا اور گجرات والی 2002 ء کی فرقہ پرستی۰ بھی استعمال کرڈالی۔ یہی اب وہ کجریوال کے ساتھ کررہے ہیں ۔

غضب خدا کا جس کجریوال نے حکومت بنائی تو ایک بھی محکمہ اپنے پاس نہیں رکھا کہ رشوت آنے کی ہمت نہ کرے جبکہ اترپردیش کے سنیاسی یوگی نے اپنے پاس 42  محکمے رکھے ہیں ۔ اس کے بعد ایک برہمن کے حلق میں دو کروڑ روپئے ڈال دیئے کہ میرے سامنے لئے اور جرم صرف یہ ہے کہ اس برہمن پنڈت کو کجریوال نے اپنی وزارت سے الگ کردیا تھا۔ اور جس طبقہ کے ہاتھ میں میونسپل بورڈ کے الیکشن کی ہار جیت ہے وہ بہت سستے داموں میں بک جاتی ہے۔ اسے مودی نے امت شاہ کے ذریعہ شاید سونے کے بھائو خرید لیا کہ ملک کا سب سے بدنام کارپوریشن جس کی بداعمالیوں اور بدکرداریوں کا یہ عالم تھا کہ لوگ انتظار کررہے تھے کہ آجائے الیکشن تو 10  سیٹیں نہیں جیتنے دیں گے؟ لیکن وہ بی جے پی بھرپور اکثریت لے آئی اور پھر دہلی گندی کرنے کا سامان ہوگیا۔

اروند کجریوال سب کچھ سوچ سکتے تھے۔ بس یہ نہیں سوچ سکتے کہ کوئی ان پر رشوت کا الزام لگائے گا؟ اور شاید اس کا اثر ہے کہ وہ ہونٹ سی کر بیٹھے ہیں ۔ ہمیں تو ڈر ہے کہ وہ سیاست کو خدا حافظ نہ کہہ دیں ؟ وہ بہت برے ماحول میں روشنی کا مینار ہیں ۔ ہم نے صرف ان کے فوٹو دیکھے ہیں اور ان کی آواز ٹی وی پر سنی ہے اور جو کچھ لکھا ہے وہ صرف اپنا خیال ہے۔ ہوسکتا ہے یہ غلط ثابت ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو دوسرے رُخ پر بھی ہم اس قلم سے لکھیں گے۔ خداکرے اس کی نوبت نہ آئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔