کرناٹک میں اُڑائی گئیں آئین کی دھجیاں

  پروفیسرشہاب عنایت ملک

کرناٹک میں ایڈی یورپا نے حلف اُٹھا کرزورزبردستی سے کرناٹک کے وزیراعلیٰ کی کرسی پراپناقبضہ جمالیاہے۔ اس سے پہلے گورنرکرناٹک نے بی جے پی کوسرکاربنانے کی دعوت محض اس لیے دی کیوں کہ بھاجپاحالیہ اسمبلی انتخابات میں 104 سیٹیں جیت کرکرناٹک کی سب سے بڑی پارٹی بن کراُبھری توہے لیکن حکومت بنانے کے جادوئی آنکڑے کویہ پارٹی ہندوتاکانعرہ دینے کے باوجودبھی پارنہیں کرسکی۔کانگریس 78 سیٹیں جیت کر دوسرے نمبرپررہی جبکہ جنتادل سیکولر ان انتخابات میں 38سیٹیں ہی حاصل کرسکی۔2 آزاداُمیدوار وں نے بھی اس الیکشن میں بازی ماری۔ نتائج آنے کے بعدمرکزاورکرناٹک میں حکومت بنانے کے سلسلے میں دودن کافی گہماگہمی دکھائی دی۔ اسی دوران کانگریس نے جنتادل سیکولر کوحکومت تشکیل دینے کیلئے غیرمشروط حمایت دینے کااعلان کردیا۔انتخابات میں جیتے ہوئے دوآزاداُمیدواروں نے بھی کانگریس جنتادل سیکولرکے اس نئے اتحاد کوہی اپنی حمایت دینے کااعلان کردیاہے اوریوں اس نئے اتحادکی کل سیٹیں 118 ہوگئیں ہیںجوحکومت بنانے کے جادوئی آنکڑے سے چھ سیٹیں زیادہ ہیں ۔اس نئے اتحادنے تحریری طورپر گورنرکوسب سے زیادہ سیٹیں ہونے کی وجہ سے انہیں حکومت بنانے کی دعوت دینے کی مانگ بھی کی۔ ہوناتویہ چاہیئے تھاکہ گورنرفوراً اس نئے اتحاد کو حکومت تشکیل دینے کی دعوت دیتے کیوں کہ یہ اتحاد 118 سیٹیں ہونے کی وجہ سے حکومت تشکیل دینے کاسب سے بڑادعویدار تھالیکن ہوااس کے برعکس ۔گورنرنے مرکز کے دبائومیں آکرجمہوریت کی عصمت ریزی اس بے دردی سے کی کہ یہ فیصلہ تاریخ میں ہمیشہ سیاہ الفاظ میں ہی تحریرکیاجائے گا۔عدالت کافیصلہ بھی یہی ہے کہ اگر انتخابات کے بعدبھی کوئی نیااتحاد قائم ہوتاہے اوراگراس کے پاس سیٹوں کی زیادہ تعدادہے توگورنراس اتحادکوپہلے حکومت بنانے کی دعوت دے سکتاہے لیکن یہاں گورنرنے شروع سے ہی اس اتحادکونظرانداز ہی کردیا وہ اس لئے کہ بھاجپا صدر اور وزیراعظم  نریندرمودی کرناٹک میں کسی طرح سے بھی اقتدارسے محروم نہیں رہنا چاہتے تھے اس لیے شروع سے ہی انہوں نے گورنرپردبائو بنائے رکھااورآخران سے وہ کام انجام دلواہی دیا جس سے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کوپوری دُنیامیں شرمسارہوناپرا۔وزیراعلیٰ کے حلف لینے کے بعدنئے اتحادکے تقریباً تمام ممبران نے کرناٹک اسمبلی کے سامنے دھرنا دے کر اس غیرجمہوری فعل کوملک کی سا  لمیت کے لیے خطرہ قراردیا۔ ملک کے ناموروکیل رام جیٹھ میلانی نے گورنرکے غیرجمہوری فیصلہ کوعدالت عالیہ میں چیلنج بھی کیا۔

  اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ گورنرانتخابات میں اُبھری ہوئی سب سے بڑی جماعت کوحکومت بنانے کی دعوت دے سکتاہے اورانہیں اسمبلی کے فر ش پراکثریت ثابت کرنے کے لئے کچھ عرصہ مقررکرلیتاہے لیکن کرناٹک میں معاملہ بالکل صاف تھا۔ 118 ممبران مکمل طورپرنئے اتحادکے ساتھ جڑے ہوئے تھے پھربھاجپا8ممبران کی تعداد اکثریت ثابت کرنے کیلئے کہاں سے پیداکرتی  ۔ظاہر ہے ایساکرنے کیلئے بھاجپاکوجنتادل ایس اور کانگریس میں جوڑتوڑ سے ہی کام لیناہے جس کے لئے گورنر نے بھاجپاکو15دنوں کاوقت فراہم کرکے اپنے آپ کونریندرمودی اورامت شاہ کاوفادارہونے کاثبوت فراہم کردیا۔کانگریس اورجنتادل ایس نے پہلے ہی بھاجپاپرممبران کوخریدنے کاالزام عائد کرتے ہوئے کہاہے کہ بھاجپانے ان کے بعض ممبران سے رابطہ قائم کرکے ان کوایک سوکروڑمیں نہ صرف خریدنے کی کوشش کی بلکہ انہیں عہدے کالالچ دے کربھاجپاکواسمبلی کے فرش پرحمایت کرنے کی بات بھی کی۔ ادھرکانگریس نے خریدوفروخت کے ڈرسے اپنے تمام ممبران کویکجاکرکے ایک Resort  میں رکھنے کافیصلہ لیاہے اورشایدجنتادل ایس بھی ایساہی کرنے جارہی ہے تاکہ بی جے پی کے خریدوفروخت کرنے والے مگرمچھوں سے انہیں دوررکھاجائے۔دوسری طرف اگردیکھاجائے تو بھاجپاکازور زبردستی کایہ سلسلہ ماضی میں بھی ملک کی دوسری ریاستوں میں دکھائی دیتاہے ۔میزورم اورگوامیں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھرآئی تھی۔ ہوناتویہ چاہیئے تھاکہ ان ریاستوں میں بھی کانگریس کوپہلے سرکاربنانے کی دعوت دی جاتی لیکن بھارتیہ جنتاپارٹی نے ان ریاستوں میں تاناشاہی کے ذریعے اقلیت میں ہونے کے باوجوداپنی سرکاریں تشکیل دیں اس سے جمہوریت کی جودھجیاں اُڑی ہیںوہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اوراب کرناٹک میں جمہوریت کی عصمت دری کودیکھ کرآدمی یہ کہنے پرمجبور ہوجاتاہے کہ دُنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کاجنازہ بڑی آن بان اورشان سے نکل رہاہے اوریہ جنازہ وہ سرکارنکال رہی ہے جوآئے دن سب کاساتھ سب کاوکاس نعرہ لگاکر ملک کے کروڑوں عوام کوبیوقوف بنانے میں مصروف عمل ہے۔

  میرے اس کالم سے ہرگزیہ نتیجہ اخذ نہ کیاجائے کہ میں کانگریس کاکوئی بہت بڑا پرستارہوں اس لیے ان کے حق میں اس طرح کاجذباتی کالم تحریرکررہاہوں ۔ایسا ہرگزنہیں ہے ۔کانگریس نے اس طرح کے کام بڑی دفعہ اپنے دوراقتدارمیں خوش اسلوبی سے انجام دیئے ہیں لیکن تب میں اورآج میں فرق ضرورہے اوروہ فرق یہ ہے کہ تب اس طرح کی حرکتوں کے خلاف ہندوستانی میڈیابہ بانگ دہل آوازبلندکرلیتاتھالیکن آج کاملکی میڈیامودی کی ہاں میں ہاں ملاکر جمہوری قدروں کوکمزورکرنے میں نہایت ہی چاپلوسی سے اپنا کردار ادا کررہاہے۔ہندوستانی میڈیاکی مودی پرستی کودیکھ کرانسان یہ کہنے پرمجبورہوتاہے کہ جمہوریت کے اس چوتھے ستون نے جمہوریت کاجنازہ نکالنے میں جوکردارادا کیا ہے وہ ہندوستانی تاریخ کاسیاہ ترین باب ہے ۔ میڈیاکی مودی نوازی اورجھوٹ کودیکھ کرکوئی بھی آدمی اس بات کااظہار برملا کرسکتاہے کہ وہ دن دورنہیں جب ملک ایک دفعہ پھرٹکڑوں میں تقسیم ہوکر رہ جائے گا۔ کرناٹک سرکارکی تشکیل میں بھی ملک کے میڈیانے جومنفی کردارادا کیاہے اس سے ہم سب واقف ہیں ۔غلط قسم کے تجزیے اورخبریں نشرکرکے الیکٹرانک میڈیانے جس طرح عوام کوگمراہ کیاہے اُس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

  بہرحال کرناٹک میں بھاجپانے اپنی سرکار تشکیل تودے دی ۔اب اُسے 15دنوں کے اندراسمبلی کے فرش پر اپنی اکثریت بھی ثابت کرنی ہے جس کے لئے بھاجپا8ممبران کوخریدنے کی سرتوڑکوشش بھی کرے گی بلکہ اگریوں کہاجائے کہ بھاجپااپنی عزت بچانے کیلئے سب کچھ دائوپرلگاسکتی ہے توغلط نہیں ہوگا۔اس کے باوجوداگربھاجپااسمبلی کے فرش پراپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکامیاب رہی توپوراملک ایک دفعہ پھر پوری دنیامیں بدنام توہوگا ہی ساتھ میں انہیں آئندہ کے ملکی انتخابات میں نقصان بھی اُٹھانا پڑسکتاہے۔ اس بات کافیصلہ ابھی جمعہ کوہوناہے کہ آیااکثریت ثابت کرنے کے لیے 15دن کاطویل عرصہ ہی درکارہے یااسکی معیاد کم کردی جائے۔ سپریم کورٹ نے حلف برداری کی تقریب پر روک تونہیں لگائی البتہ اس بات کی اُمیدہے کہ گورنرنے جو15 دن کاطویل عرصہ بی جے پی کوخریدوفروخت کے لئے عطاکیاہے ۔اس کی معیادمیں سپریم کورٹ کمی لاسکتی ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گورنر جوایک غیرجانبدارحاکم ہوتاہے کس طرح راج کرنے والی پارٹی کی جی حضوری کرکے آئین کی دھجیاں اُڑانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتاہے۔ کرناٹک کے گورنرکے اس جانبدارانہ فیصلے نے آئین کی دھجیاں تواڑاہی دی ہیں ۔ساتھ میں تانہ شاہی کوپنپنے کا موقعہ فراہم کرکے جمہوری اداروں کوکمزورکرنے کی ایک بڑی کوشش بھی کی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔