کشمیر جنت بے نظیر کو محبوبہ مفتی جہنم بنا رہی ہیں

اور ان کے زعفرانی دوست پاکستان کو جہنم کہہ رہے ہیں

عبدالعزیز

          بی جے پی کے بارے میں جو خدشات تھے کہ جب ہندستان میں اس کی حکومت ہوگی تو ملک ہر قسم کے خطرات سے دوچار ہوگا اور لوگوں کے مصائب اور مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس وقت ایک ایک بات صحیح ہورہی ہے اور سنگھ پریوار کی نئی نئی شرارتیں سامنے آرہی ہیں جس میں دلت اور مسلمان زیادہ پریشان  ہیں مگر دوسرے بھی حیران ہیں کہ کیا کچھ ہندستان میں ہونے والا ہے۔

          دو ڈھائی سال کے اندر ہندستان ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے کہ لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا ہندستان ایک جمہوری سیکولر اور آزاد ملک ہے۔ کسی نے ذرا بھی زعفرانیوں سے اختلاف و انحراف کیا اسے فوراً غدارِ کا نہ صرف الزام دیدیتے ہیں بلکہ نچلی عدالتوں میں غدار وطن کا مقدمہ دائر کر دیتے ہیں کیونکہ نیچے کی عدالتیں حکومت کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ وہ آسانی سے عرضی کو سماعت کیلئے منظور کر لیتی ہیں اور حکومت کے حسب خواہش ضمانت بھی بسا اوقات نہیں دیتیں اور جہاں پولس دہلی کی طرح ہوتی ہے وہاں تو ایف آئی آر ہی تھانہ میں لکھا کر پولس کو گرفتار کرنے کی ہدایت جاری کر دی جاتی ہے۔ کنہیا کمار اور عمر خالد کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ ممبئی میں بھی اس طرح کی حرکتیں پولس سے کرائی گئیں۔

          وزیر دفاع منوہر پاریکر کے ایک بیان کو لے کر جس میں انھوں نے پاکستان جانا جہنم میں جانے کے برابر بتایا ہے۔ زعفرانیوں کو اس قدر پسند آیا کہ اب پاکستان کو جو جہنم نہیں کہے گا۔ اس کی بھی خیر نہیں یعنی جو ان کے سر میں سر نہیں ملائے گا وہ ملک دشمنی اور وطن دشمنی ہوگی اور اس کی سزا جیل ہوگی۔ کرناٹک کی ایک فلم اداکارہ اور سابق ایم پی رامیہ نے منوہر پاریکر کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے یہ کہہ دیا کہ پاکستان جہنم نہیں ہے۔ وہاں کے لوگ بھی یہاں کی طرح ہی ہیں۔ اس پر زعفرانی سیاست کے گرگے چراغ پا ہوگئے اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے اور اسے اس کو سزا دلانے پر اتارو ہوگئے۔ ہندستان کشمیر سے الگ نہیں ہے۔ کشمیر میں بھی بھاجپا کی بدقسمتی سے حکومت بن گئی۔ بھاجپا کی خوش قسمتی کہئے کہ پہلے باپ مفتی محمد سعید نے حکومت میں بھاجپا کو شامل کیا۔ اب بیٹی محبوبہ مفتی کے ساتھ بھاجپا کی حکومت کشمیر میں قائم ہے۔ باپ مفتی سعید کے وقت سے ہی کشمیر کو جہنم بنانے کی کوشش شروع ہوگئی تھی مگر جب سے محبوبہ مفتی کو بھاجپا والے نے گدی پر بٹھایا اس وقت سے صورت حال مزید خراب ہوگئی۔ گزشتہ چالیس پچاس دن سے تو کشمیر جہنم بنا ہوا ہے۔ کرفیو ہی کرفیو ہے اور لوگ بھوکے مررہے ہیں جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں انھیں بھی تشدد سے باز آجانا چاہئے لیکن عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ان پر اندھا دھند گولیاں برسائی جائیں۔ انھیں اپاہج اور اندھا بنا دیا جائے۔ وہ کسی کام کے نہ رہیں۔ زندگی ان کی اجیرن ہوجائے۔ یہ تو ہٹلر اور مسولینی کا طریقہ ہے جو کشمیر میں اپنایا جا رہا ہے، اس سے حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے اور پھر کشمیر کو قابو میں کرنا آسان نہیں ہوگا۔ کشمیر میں عوام کا احتجاج ہے اور عوام کا غصہ ہے۔ پاکستان کی تو یہ کوشش ہوگی کہ کشمیر کے حالات بگڑتے رہیں۔ معمول پر نہ آئیں۔ کیا یہی کوشش محبوبہ اور مودی کی ہوگی کہ کشمیر کے حالات معمول پر نہ آئیں ؟ کب سے اپوزیشن لیڈروں کی مانگ اور مطالبہ ہو رہا ہے کہ کشمیر کے جوانوں اور نوجوانوں سے بات چیت کی جائے۔ ان کے احساسات و جذبات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ انھیں انسانیت اور کشمیریت کے دائرے میں رہ کر ان کے غم و غصے کو ٹھنڈا کیا جائے مگر اپوزیشن کی باتوں کو مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتیں در خور اعتنا نہیں سمجھ رہی ہیں۔ اب جبکہ مودی جی کچھ نرم پڑے ہیں محبوبہ مفتی اپنے نئے زعفرانی دوستوں کو خوش کرنے کیلئے کڑے سے کڑے قدم اٹھانے کی بات کر رہی ہیں جو انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے۔ محبوبہ جس راستہ پر چل پڑی ہیں ایسا لگتا ہے کہ نہ انھیں خدا ہی ملے گا نہ وصالِ صنم۔ ایک نہ ایک دن بی جے پی انھیں استعمال کرکے پھینک دے گی پھر وہ یوسف بے کارواں ہوجائیں گی۔ آج جو وہ عباس نقوی اور شہنواز بنی ہوئی ہیں ان کو یہ چیز زیادہ دنوں تک راس نہیں آئے گی۔ کشمیر سے ان کی بے وفائی مہنگی ثابت ہوگی۔ کشمیری تو اب ان کو بی جے پی کی ہم نوا ہی نہیں سمجھ رہے ہیں بلکہ ان کا حاشیہ بردار سمجھنے پر مجبور ہیں۔ محبوبہ مفتی کے جو گنے چنے دن ہیں ان کو سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہیں اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے اسی طرح کی بہکی بہکی باتیں کریں گی جس طرح راج ناتھ سنگھ کے ساتھ پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کر رہی تھیں تو وہ تو ڈوبیں گی ہی اپنے زعفرانی دوستوں کو بھی لے ڈوبیں گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔