کشمیر کا لہو ارزاں

واحد بشیر

 12؍اگست کی شام کو جس وقت اونیرہ شوپیان کشمیر میں بھارتی فورسز اہلکاروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان معرکہ آرائی کی خبریں آنی شروع ہوگئی اُسی وقت بے گناہ لاشیں گرنے کا اندیشہ بھی لاحق ہوگیاہے، کیونکہ گزشتہ آٹھ ماہ سے یہاں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ انکونٹر کی جگہ پر یا اس کے آس پاس کسی نہ کسی عام اور نہتے نوجوان کو بھی گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ اگلے دن جب یہ جھڑپ اختتام پذیر ہوئی تو سینئر عسکری کمانڈر محمد یاسین ایتو المعروف محمود غزنوی اور اُن کے دو ساتھی عرفان اور عمر مجید کے جابحق ہونے کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیل جانے کے ساتھ ہی مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ احتجاجی نوجوانوں پر حسب عادت فورسز اہلکاروں نے راست کارروائی کرکے دو نہتے نوجوانوں کو جابحق جبکہ درجنوں دیگرافراد کو زخمی کردیا گیا۔ زخمیوں میں کئی نوجوانوں کی آنکھیں بری طرح سے متاثر ہوئی ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ شوپیان کے ایک نوجوان ساحل حمید کی دونوں آنکھیں بینائی سے متاثر ہوچکی ہیں ۔

 ریاست میں موت کا رقص جاری ہے۔ نوجوانوں کے جانوں کے زیاں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ معصوم اور بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام کے لئے فوج اور نیم فوجی اہلکاروں سے کوئی بازپرس نہیں کررہاہے۔ آونیرہ شوپیاں میں خونین معرکہ آرائی میں حزب المجاہدین کے آپریشنل کمانڈر کے ساتھ مزید دو جنگجوجاں بحق ہوگئے۔ عسکریت پسندی کو ریاستی نوجوانوں نے بھارتی ظلم و جبر کے خلاف آخری حربے کے طور پر 1989ء میں اختیار کرتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے اختیار کیا تھا، تاحال بھارت کی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے کئی نوجوان یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔90ء کی دہائی سے لے کر اب تک ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور یہاں کی مٹی کو اپنے خون سے لالہ زار کردیا۔ اس سفر کی شروعات سے پہلے مزاحمتی قیادت نے مختلف  جمہوری ذرائع اور وسائل کو اختیار کرکے اس سیاسی بیانئے کو تبدیل کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی جو یہاں کی ہند نواز سیاسی جماعتوں نے اپنے حقیر مفادات کے حصول کے لئے تعمیر کیا ہے۔ مسئلے کے حوالے سے فریقین اپنی اپنی جگہوں پر اس بات کو برملا طور پر قبول کرتے ہیں کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے ساتھ نہ صرف بھارت اور پاکستان کے کروڑوں لوگوں کا مستقبل وابستہ ہے بلکہ اس لٹکتے ہوئے مسئلے نے ریاستی عوام کو مجموعی طور پر ذہنی امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ اور پورے جنوب ایشیائی خطے کا امن و امان اس مسئلے کی وجہ سے خطرے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جموں و کشمیر میں ہزاروں شادی شدہ خواتین جبری طور پر گمشدہ ہونے والے اپنے مردوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ غائب کردئے جانے والے لوگوں کے بچے اپنے باپ کا چہرہ دیکھنے کے لئے سالہا سال سے منتظراور بے قرار ہیں ۔

ایسے افراد کے والدین اپنے جگر گوشوں کی صورت دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں اور اس کسک کو دل میں جگہ دے کر موت کے فرشتے کا انتظار اس حالت میں کرتے ہیں کہ ان کی نظریں اپنے گھر کے دروازے پر لگی ہوئی ہوتی ہیں ، اور وہ اپنی اولاد کی واپسی کے منتظر رہتے ہوئے اپنی جان، جان آفرین کے حوالے کردیتے ہیں ۔ ریاستی عوام انتہائی کرب کی حالت میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی۔ ہماری نئی نسل کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ والدین اپنے جوان بیٹوں کے جنازے اپنے ہاتھوں اٹھاتے ہیں ۔

ریاست اور ریاست کے کل پرزوں کو اس سارے کرب و بلا کی بالکل بھی کوئی پرواہ نہیں ۔ جائز عوامی احتجاج کو قانون کی دھجیاں بکھیر کر لاٹھیوں ، گولوں اور گولیوں کی بوچھاڑ تلے کچلا جارہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ ریاستی پولیس بعض اوقات خود بھی اپنی حفاظت سے قاصر رہ جاتی ہے۔ دن دہاڑے سارے قوانین اور ضوابط بالائے طاق رکھ کر سرکاری مشینری کے اس اہم پرزے کی بے آبروئی کی جاتی ہے ۔ بعد ازاں اس گوشمالی کے لئے غلط فہمیوں کا بہانہ تراش کر معاملے کو گول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس ماحول میں ایک باضابطہ فورس کی یہ حالت ہو، وہاں عوامی جان و مال اور عزت وآبرو کی کوئی کیا ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔جموں و کشمیر میں انسانی جان کی بے بضاعتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی فوج کے سربراہان بار باراس قسم کے بیانات جاری کرتے ہیں کہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹاجائے گا۔سختی کے ساتھ نمٹنے کی ان دھمکیوں کو محض رواروی میں دئے ہوئے بیانات تصور نہ کیا جائے بلکہ زمینی حقائق اس بات کا اندازہ لگانے میں کافی مدد فراہم کرتے ہیں کہ اس سے اصل کیا مراد ہے۔

سال گزشتہ میں تحریک مزاحمت نے جب ایک بھر پور عوامی رخ اختیار کیا اور لوگوں نے اپنا احتجاج ریکارڑ کرانے کے لئے بھاری اجتماعات کا انعقاد کیا، تو ریاست کے کارپرداز وں نے حکمت عملی کی تبدیلی کے تحت خوف و ہراس کے طریقے عملانے شروع کئے۔ ایک سو سے زائد لوگوں کو موت کی ابدی نیند سلایا گیا اور اس موت پر ماتم کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ جنازوں میں بھی لاشیں گرائی گئیں ۔ پیلٹ کے استعمال سے ہزاروں کو جسمانی طور پر ناخیز کردیا گیا، اور معصوم لڑکوں اور لڑکیوں کو بصارت سے محروم کردیا گیا۔ زخمیوں کو ہسپتالوں سے گرفتار کیا گیا اور طلاب کو امتحانی مراکز کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا گیا۔بھر سوچ و بچار کے بعد ایک نئی طرز کی حکمت عملی کو تشکیل دیا گیا، جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں ہر اس زبان کو خاموش کردینے کا فیصلہ کیا گیاجو حق کا آوازہ بلند کرنے کی جسارت کرے۔

2016ء کی عوامی تحریک پر طاقت کے بل بوتے جوں ہی تھوڑا بہت کنٹرول حاصل ہوا تو آپریشن آل آؤٹ کا آغاز کیا گیا۔ اس آپریشن کے تحت ریاست کے عسکریت پسند نوجوانوں کا صفایا کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا۔انکاؤنٹر سائٹس کے نزدیک بھاری عوامی اجتماعات اور مرد و خواتین،اور نوجوانوں کے پرزور احتجاج کے آگے ہار جانے کے بعد نہتے اور معصوم لوگوں ، خصوصاََ نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ظلم و بربریت کے اس لامتناہی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے صرف پچھلے چھہ ماہ میں قریب دو درجن سے زائد نوجوانوں کوابدی نیند سلا دیا گیا۔ 12اگست 2017ء کو شوپیان کے مضافاتی علاقے آونیرہ میں انکاؤنٹر سائٹ کے نزدیک نوجوانوں کے ایک احتجاج کرنے والے جم غفیر پر فوج نے اندھا دھند گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 20عام شہری شدید زخمی ہوئے جن میں محمد سید نامی شوپیان کا نوجوان زخموں کی تاب نہ لا کرچل بسا۔

13اگست کو کاکہ پورہ پلوامہ میں اویس احمد نامی ایک اور نوجوان کو فوج نے پیلٹ مار کر موت کی ابدی نیند سلایا۔ریاست جموں و کشمیر میں فوج کو افسپا (AFSPA) جیسے بدنام قانونی حفاظتی حصار کا آسرا حاصل ہے، اس حفاظتی حصار کے تحت محض شک کی بنیاد پر کسی بھی عام شہری کو موت کی نیند سلایا جاسکتا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے نہتے اور بے بس معصوم نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل عام جاری ہے۔ہندوستان کی عدلیہ، انتظامیہ اور رائے عامہ دانستہ طور پراس قتل عام سے آنکھیں موند رہی ہے۔ اور ریاستی سرپرستی میں ہندوستانی میڈیا پرائم ٹائم میں ٹی وی پر گمراہ کن مباحثوں کا انعقاد کرکے جموں و کشمیر کی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں ۔عالمی سطح پر بھی حقوق انسانی کے نام نہاد علمبردار ان پامالیوں اور ماورائے عدالت انسانی جانوں کے زیاں پر محض خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے کے نام پر ریاست میں نہتے نوجوانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری  ہے۔  فوج عالمی قوانین جنگ کی صریح خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور بد ترین قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب کررہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔