کشمیر کے بہانے افواہوں کا میٹیریئل آ گیا ہے

رويش کمار

کشمیر کے حالات کو لے کر شمالی اور مغربی ہندوستان کی سیاست گد گد ہے. اسے ایک اور موقع مل گیا ہے کشمیر کے بہانے مبینہ قوم پرستی کی آڑ میں بحث کو ہندو بمقابلہ مسلم کی منزل پر لے جانے کا. وہاٹس اپ افواہوں کا میٹريئل بن چکا ہے. اس کے لئے ہم جیسے دو چار صحافیوں کا نام استعمال کرکے غلط افواہ پھیلائی جا رہی ہے. یہ اتنے بڑے احمق ہیں سب، کہ افواہ پھیلا کر کہیں گے کہ سوچیئے کہ لوگوں کا ایک طبقہ آپ کے بارے میں ایسی بات کیوں کر رہا ہے.ایسے میسج فیس بک پر صحافی بھی شیئر کر رہے ہیں. بڑی تعداد میں صحافی بھی قوم پرستی کی آڑ میں ہندو بمقابلہ مسلم کی آگ کو سلگا رہے ہیں. یہ اپنے بارے میں نہیں بتاتے کہ ان کے کام کے بارے میں لوگ کیوں نہیں بات کرتے ہیں. کیا حب الوطنی کے نام پر خاموش رہنے کا فرمان جاری ہو رہا ہے؟

 image1

پتہ چلا ہے کہ اسے ایک ہندی اخبار جن ستا کی سب ایڈیٹر نے فیس بک پر کہیں سے شیئر کیا ہے. میں نہیں جانتا کہ یہ میٹیریئل دھروی نے ہی بنایا ہے یا کسی اور کے بھیجے میٹریل پر یقین کر لیا ہے. جن ستا کے اپنے ایڈیٹر سے وہ نمبر لے کر بات بھی کر سکتی تھیں کہ کیا میں نے ایسا کہا ہے. معلوم کر لیتی مگر پہلے ہی پرجوش ہو گئیں.

image2

لیکن جب اپنے ہی پوسٹ کے کمینٹ باکس میں ان کے تبصرے دیکھے تو لگا کہ ان کے اندر کوئی نفرت ہے جو بے وجہ پل رہی ہے. ان کی ایک ساتھی کا تبصرہ دیکھا کہ اسے ہزار جوتے مارو. میں یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں کہ بہت سے لوگ ایسے خطرناک منصوبوں والوں کی جانب داری اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ ان کے پاس تعبیر کی زبان نہیں ہے اس لئے گالی دیتے ہیں. کیا جن ستا کے سب ایڈیٹر کے پاس بھی تعبیر کا مسئلہ ہے. مجھے دھروی سے کوئی شکایت نہیں ہے. مجھے مسئلہ ایسی باتوں کے نظریہ سے ہے۔ افواہوں کے میٹیریئل پر ایسی بھول چوک کسی سے بھی ہو سکتی ہے. جب ایک سب ایڈیٹر کو اتنا غصہ آ سکتا ہے تو سوچیئے یہ میٹیریئل کتنا مہلک ہو سکتا ہے.

 image-3

جتنی محنت سے ایسے میٹیریئل تیار کئے جا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ کوئی منظم گروہ ہے، جو ایک سیاسی جماعت کے خطرناک منصوبوں کے لئے یہ سب کر رہا ہے. ہند نیوز کا لوگو ہے تاکہ یہ قابل اعتماد بنایا جا سکے. آپ  کبھی ان لوگوں کی ٹائم لائن پر جا کر دیکھئے. تلاش کیجئے کہ کیا یہ لوگ غریب، عام لوگوں کے مسائل، حقوق کے سوال، دال کی قیمت، بے روزگاری، معاہدوں پر رکھے گئے لاٹھی کھاتے ماسٹروں، سرکاری تعلیمی اداروں کو مار کر لاکھوں کی فیس والے تعلیمی اداروں کے بارے میں لکھتے ہیں؟ کیا یہ لوگ لکھتے ہیں کہ ہمارا سپاہی اٹھارہ ہزار کی نوکری میں کس طرح گزارا کرتا ہوگا؟ کیا زندہ سپاہی کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ ایسے لوگوں کے حق کے لئے کیا آپ نے ان کے وہاٹس اپ گروپ اور فیس بک میں کوئی میٹر شیئر ہوتے دیکھا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہاٹس اپ فیس بک پر ہندو بمقابلہ مسلم والے میٹیریئل ہی شیئر کئے جا رہے ہیں؟

وطن کے لوگوں کا ہی خیال نہیں تو یہ قوم پرستی کس کے لئے ہے؟ کہیں اختلاف کے سر کو کچلنے کے لئے تو نہیں ہے؟ بہت سے لوگ وہاٹس اپ میں چل رہے ایسی افواہوں پر یقین کرنے کی حماقت کر لیتے ہیں. ان سے غلطی ہو جاتی ہے. ایسی بات لکھ کر پھیلانے والے کون لوگ ہیں؟ یہ اب کیرانا پر خاموش ہیں. کیرانا کو لے کر افواہ پھیلائی تو پول کھل گئی. غنیمت ہے میڈیا نے پول کھول دی ورنہ وہاٹس اپ اور فیس بک کے ذریعہ سماج کے دماغ میں کباڑ پھیلا چکے ہوتے.

میرے بارے میں جو شیئر کیا ہے اس میں دونوں ہی باتیں غلط ہیں. یعقوب میمن کی معافی کی کسی درخواست پر میں نے کبھی دستخط نہیں کیا. میرے نام سے کشمیر کے بارے میں جو لکھا گیا ہے وہ بھی غلط ہے. میرے پرائم ٹائم کے جس انٹرو سے یہ سطر اٹھائی گئی ہے وہ میرے چینل کی ویب سائٹ ndtv.in پر تحریری طور پر موجود ہے. میرے بلاگ قصبہ پر بھی ہے. میں نے پرائم ٹائم میں جو کہا ہے اس کی دو سطریں یہاں پیش کر رہا ہوں. ان سے پہلے کشمیر کی بے روزگاری کا حوالہ ہے.

"ہمیں کشمیر کا خوبصورت پہاڑ ہی  دکھتا ہے وہاں کی غربت اور بے کاری نہیں نظر آتی ہے. حالات ذمہ دار ہیں تو وہاں کی ریاستی حکومت کیا کرتی رہی ہے. "

جبکہ افواہ میٹیريئل میں یہ لکھا گیا ہے:

"لوگوں کو صرف کشمیر کی خوب صورتی نظر آتی ہے. کشمیر کے نوجوانوں کی بے روزگاری نظر نہیں آتی ہے. بے روزگار نوجوان آخر ہتھیار اور پتھر نہ اٹھائیں تو کیا کریں؟ – رويش کمار. "

مجھے بندوق کسی کے ہاتھ میں اچھی نہیں لگتی. میں کیوں ایسی باتیں کروں گا. آپ قارئین خود سوچیں کہ کون ہیں یہ لوگ جو افواہ پھیلانے میں اتنی محنت کر رہے ہیں. کہیں یوپی انتخابات کے لئے ایسی چیزوں کی فراہمی تو نہیں کی جا رہی ہے. آپ ان خطرناک لوگوں کے بارے میں سوچیں جو آپ کے اندر زہر پھیلانا چاہتے ہیں. ورنہ گورننس اور ترقی کے نام پر آپ کی ذہن میں زہر کے نالے بہتے ملیں گے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔