کشمیر کے مسائل کو کب تک نظر انداز کیا جائے گا؟ 

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم نے  پچھلے دنوں اپنے ایک خطاب   کے دوران  اپنی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی  سے متعلق یہ  چونکانے والا انکشاف کیا کہ  ’ یہ تنظیم تمام طبقات کے لوگوں کی خوشحالی اور معاشرتی مفاد کے لئے کام کرتی ہے‘۔ ہر اشتہار کے ساتھ ہونے والے  اعلان ’شرطیں لاگو‘ کی مانند انہیں چاہیے تھا  بی جے پی یا ان کی حکومت سے استفادہ کے لیے ضروری شرائط بھی بتا دیتے ۔  اس میں پہلی  لازمی شرط  بی جے پی بلکہ اس میں بھی مودی جی سےکامل   وفاداری اور تنقید و مخالفت سے مکمل احتراز ہے ۔فی زمانہ  اس اصول و ضابطے  کی  خلاف ورزی کرنے  والوں کے حصے میں  بلاتفریق مذہب و ملت،  خدمت و خوشحالی  کے بجائے ذلت و تعذیب آتی ہے۔بی جے پی  کے اندر  اس کے نمونےلال کرشن  اڈوانی اور   سنجے جوشی کی شکل میں موجود  ہیں اور پارٹی سے باہر اس  کے بے شمار  نمونے مثلاً عمر قید کی سزا بھگتنے والے لالو پرشاد یادو اور سنجیو بھٹ ہیں۔    ان دونوں کا اصل قصور بی جے پی اور نریندر مودی کی مخالفت ہے۔ باقی الزامات ثانوی درجہ کے ہیں۔

  اتر پردیش میں  تو آئے دن اس کینہ پروری اور انتقامی  اقدامات  کی مثالیں  پیش ہوتی رہتی   ہیں۔و ہاں ایک طرف ہندو مہاسبھا کے  کملیش تیواری جیسے  مجرموں کے قتل پر سرکاری خزانے سے لاکھوں روپئے نچھاور کردئیے جاتے ہیں اور دوسری جانب این آر سی  کے خلاف آواز اٹھانے والے پرامن مظاہرین کا مکان و دوکان قرق کرکے ناکردہ گناہوں کی بھرپائی کی جاتی ہے۔ وکاس دوبے کو رہا کردیا جاتا ہے جیسا کہ ۵ ماہ قبل کیا گیا تھا مگر  ڈاکٹر کفیل کوحراست میں  رکھا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے مذکورہ تقریر  ۲  دن  قبل   لداخ  کا دورہ کیا  تھا ۔ اسی لداخ کا جو  ایک سال پہلے  تک جموں کشمیر کا حصہ  تھا۔کشمیر میں  پچھلے 11 ماہ سے لاک ڈاون ہے۔  دفع 370ختم کرنے کے بعد وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ایک ہفتہ بعد لوگ عیدالاضحیٰ معمول کے مطابق منائیں گے لیکن اگلی عید آنے والی ہے حالات ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے۔

کشمیر کے  حالات کو قابو میں کرنے کے لیے 400لوگوں پر قومی سلامتی ایکٹ کا مقدمہ درج کیا گیا اور 300 پر کارروائی کرکے  نظر بند کردیا گیا۔ عوام  کوہونے والی  پریشانی کا کوئی حساب نہیں ہے ۔ کورونا کے پھیلاو سے قبل ۶ فروری (2020) کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ کشن ریڈی نے ایوانِ پارلیمان میں بتایا تھا کہ جموں کشمیر کے   پرتشدد واقعات میں  73 فیصد کمی آئی ہے اور حفاظتی دستوں کے 22 جوانوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔  کیا وزیر اعظم  کو  ان جوانوں  کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کشمیر نہیں جانا چاہیے تھا؟  وزیر موصوف کے مطابق کشمیر میں 32 عسکریت پسندوں کے علاوہ  19 شہری بھی مارے   گئے کیا وہ وزیر اعظم کی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں یا  سیاسی مفاد ان کو روکتا ہے؟

پچھلے سال  یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کشمیر میں دفع ۳۷۰ کے ختم ہوتے ہی امن قائم ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 2019 کے ماہ جون  میں  22 جنگجو ہلاک ہوئے  تھے ۔ یہ تعداد جولائی میں گھٹ کر  8پر آگئی۔ اس کے بعد اگست کے پہلے ہفتے میں کشمیر کی حیثیت بدل گئی اور اس ماہ صرف  5جنگجو ہلاک ہوئے۔ اس  کے یہ  معنیٰ لیے گئے کہ اب پرامن فضا قائم ہوگئی ہے لیکن ستمبر میں7  اکتوبر8اور نومبر میں5   ہلاکتیں ہوئیں اور دسمبر میں کوئی ہلاک نہیں ہوا اس کو بہت اچھی علامت سمجھا گیا لیکن جنوری میں یہ تعداد اچانک بڑھ کر     18 ہوگئی اور فروری و مارچ میں بھی  7جنگجو حفاظتی دستوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس  کا مطلب یہ ہے کہ جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ  غلط ہورہا تھا  کیونکہ  یہ سب سخت ترین کرفیو کے باوجود ہوگیا تھا ۔ مارچ کے اواخر میں تو کورونا والا لاک ڈاون بھی لگ گیا اس کے باوجو  اپریل میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی تعداد بڑھ کر  28ہوگئی تو اس کو کیا سمجھا جائے ؟ آج کل کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جبکہ شوٹ آوٹ کی خبریں نہ آتی ہوں ۔ تشدد میں کمی  اگر مثبت پیش رفت  تھی تو اضافہ  کیا ہے؟ پچھلے سال سے موازنہ کریں تو پہلے پانچ ماہ میں اس سال  78 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ  پچھلے سال 101 ہوئی تھیں لیکن بعد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔  ایسے میں  یہ سوال  پیدا ہوتا ہے اس 11ماہ کے لاک ڈاون سے کیا حاصل ہوا؟ اس صورتحال کے لیے کون ذمہ دار ہے؟

وزیر اعظم جس روز لداخ گئے تھے  اس کے دو دن قبل کشمیر  سے ایک تین سالہ  بچہ عیاد جہانگیر  کی اندوہناک تصویر سوشیل میڈیا میں سامنے آئی تھی ۔  وہ ننھا معصوم  اپنے نانا بشیر احمد خان  کی لاش پر بیٹھ کر رورہا تھا ۔   اس  جگر سوز تصویر پر سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے ٹوئٹ میں کہا  تھاکہ ’’دو طرح کے ویڈیوز گردش کر رہے ہیں ایک میں دکھایا جارہا کہ تین سالہ بچہ جس کے نانا کو مارا گیا،  مگر اس کو بچایا جارہا ہے اور دوسرے ویڈیو میں دکھایا جارہا ہے کہ مہلوک کا بیٹا سی آر پی ایف پر اس کے نانا  کو دن دہاڑے مارنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ کشمیر میں سچائی بڑی شکار بن گئی ہے‘‘۔جموں و کشمیر اتحاد المسلیمن کے صدر و حریت لیڈر مولانا مسرور عباس انصاری اپنے ایک ٹوئٹ میں ان تصاویر کے حوالے سے کہا تھا  کہ ’’اس بچے کی آنکھوں میں آنسو جگر کو پارہ پارہ کرتے ہیں۔ یہ حد درجہ تکلیف دہ ہے۔ میں اس تکلیف کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔

یہ اندوہناک خبر کشمیر کے سارے اخبارات پر چھائی ہوئی تھی ۔ معروف صحافی ماجد حیدری اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’’خون آلود بسکٹ ہاتھوں میں لئے یہ بچہ اس بات سے بے خبر ہے کہ  بسکٹ لانےولا مرچکا ہے، کشمیر میں ایک بچے کا بچپن یہی ہے‘‘۔  اتنا کچھ ہونے کے باوجود حکومت کے کسی ذمہ دار کی زبان سے ہمدردی  کا ایک لفظ نہیں  پھوٹا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ65 سالہ  بشیر احمد عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ کشمیر کے آئی جی پولیس کے حوالے سے بتایا گیا کہ مسجد سے جن دو دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا تھا ان کی شناخت ہو گئی ہے۔سیکیورٹی اداروں نے دونوں مبینہ حملہ آوروں کا تعلق لشکرِ طیبہ سے بتاکر کہا تھا کہ ان کے نام عادل اور عثمان ہیں۔پولیس نے عثمان کو غیر ملکی در اندازتک  بتادیا  لیکن سوال یہ ہے کہ اس حملےکی زد میں بشیر احمد خان آئے کیسے؟

بشیر احمد خان  کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ حفاظتی دستوں  نے انہیں دانستہ طور پر نشانہ بنایا۔ اخبار ‘کشمیر ریڈر’ نے   ان  کی بیٹی اور دیگر اہل خانہ کے بیان کو صفحہ اول پر شائع کیا۔اس میں ان کی بیٹی ارم جان کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ میرے والد کو مارنے والے کو بھی اسی طرح گولیاں ماری جائیں۔انہوں  نے مزید کہا کہ میرے والد کو مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ یہ جبر کی ہی ایک قسم ہے۔ مجھے انصاف چاہیے۔بشیر احمد خان کے بھتیجے اعجاز خان نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے میرے چچا کے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے کی بات میں صداقت نہیں ہے کیوں کہ شواہد اس کے برخلاف ہیں۔اعجاز خان  کے مطابق  گاڑی  پر  گولیوں کے نشان نہیں ہیں۔اس کا مطلب ہے  انہیں گاڑی سے اتار  کر گولیاں ماری گئی ہیں ۔ایسے میں  یہ  سوال  پیدا ہوتا ہے  کہ آخر عسکریت پسند ان کو گاڑی سے اتار کر کیوں ہلاک کریں گے؟

یہی بات ننھا جہانگیر  اپنی ویڈیو میں کہتا  ہے جس  کو ساری دنیا نے ٹوئیٹر پر دیکھا ۔ تین سال کا بچہ جس کو کوئی بات سمجھائی نہیں جاسکتی،  کہتا ہے کہ بابا کوپولس نے گاڑی سے اتارا اور ٹھائیں ٹھائیں کردیا ۔ کاش کہ  وہ وزیر اعظم جنھوں نے بڑے طمطراق سے اپنے پارٹی کارکنان کے درمیان یہ دعویٰ کیا کہ ’ یہ تنظیم تمام طبقات کے لوگوں کی خوشحالی اور معاشرتی مفاد کے لئے کام کرتی ہے‘ لیہہ سے واپسی میں سوپور جاتے اور اس بچے کو اپنی گود میں لے کرجھوٹ موٹ ہی سہی   کہہ دیتے کہ تیرے نانا کو پولس  نے نہیں مارا۔ اس کے آنسو پوچھتے گھر والوں کو پرسہ دے کر کشمیریوں کو یہ بتاتے کہ ان کا  یہ غیر معینہ لاک ڈاون آخر کب ختم ہوگا اور انہیں اور  مزید کتنے دن اس طرح کی کسمپرسی کا شکار رہنا پڑے گا؟  ہندوستان کی پیشانی جموں کشمیر فی ا    لحال   لہو لہان ہے۔  کیا اس پر مرہم رکھنا  وزیر اعظم کی ذمہ داری نہیں ہے؟ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ ظلم کو دوام نہیں ہے۔ جن مظلوموں کی فریاد کو زمین  والے نظر انداز کردیتے ہیں  ان کو آسمان والا سنتا ہے اور ظالموں کو اپنے اذنِ خاص  سے کیفرِ کردار تک پہنچاتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔