کلامِ نبوتؐ کی کرنیں

ترتیب: عبدالعزیز
حشر میں شفاعت رسولؐ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک روز رسولِؐ خدا نے نماز فجر پڑھائی اور وہیں بیٹھے رہے۔ جب خوب دن چڑھ آیا تو آپؐ ہنسے، لیکن وہیں بیٹھے رہے، یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں اداکیں مگر کسی سے کوئی بات نہیں کی مگر جانے لگے تو صحابہؓ نے مجھ سے کہا: آپؓ حضورؐ سے پوچھیں، آج کیا بات ہے؟ اس طرح تو کبھی نہیں ہوا۔۔۔ حضورؐ نے یہ سنا تو قبل اس کے کہ صدیق اکبرؓ کچھ سوال کرتے، آپؐ نے ارشاد فرمایا:
دنیا کے بارے میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ اور آخرت آج میرے سامنے پیش کی گئی، سارے اگلے پچھلے انسان ایک چٹیل میدان میں جمع کئے گئے۔ پسینے ان کے منہ تک پہنچنے کو تھے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس گئے اور کہاکہ اے آدمؑ ! آپ انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو خدا تعالیٰ نے برگزیدہ بنایا۔ آپ خدا کے پاس ہماری سفارش کیلئے تشریف لے جائیے۔ لیکن حضرت آدمؑ نے فرمادیا کہ آج میں بھی تمہاری طرح مبتلا ہوں، تم اپنے اس باپ کے بعد کے باپ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو ، نوحؑ کو اور آلِ ابراہیمؑ کو اور آل عمران کو برگزیدہ بنایا ہے اور سارے جہان پر انھیں عزت دی ہے۔ اب یہ سب حضرت نوحؑ کی طرف جائیں گے اور ان سے کہیں گے: آپؑ خدا سے ہماری سفارش کیجئے کیونکہ آپ خدا کے پیارے ہیں، آپ کی دعا قبول فرماکر جنابِ باری نے روئے زمین پر کوئی کافر نہ چھوڑا، لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، انھیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا ہے، چنانچہ سب لوگ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں، تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے (بے واسطہ) بات چیت کی تھی۔ سب اہل محشر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے، وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس منصب کے لائق نہیں، تم حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ مادر زاد گونگے کو اور کوڑھیوں کو (بحکم خدا) اچھا بھلا کر دیتے تھے اور مردوں کو (بحکم خدا ) زندہ کرد یتے تھے، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی جواب دیں گے اور فرمائیں گے:
’’تم اولادِ آدم کے سردار کے پاس جاؤ، وہی ہیں جو سب سے پہلے اپنی قبر سے نکلے ہیں، جاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کہ وہ تمہارے رب کے ہاں تمہاری سفارش کریں۔ چنانچہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے، میں جبریل علیہ السلام کے پاس جاؤں گا۔جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ انھیں شفاعت کی اجازت دو اور جنت کی خوش خبری بھی سنادو۔ حضرت جبریلؑ سے یہ خوشخبری سن کر میں سجدے میں گر پڑوں گا۔ تقریباً ایک ہفتہ تک سجدے میں پڑا رہوں گا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! اپنا سر اٹھاؤ، کہو تمہاری سنی جائے گی، سفارش کرو قبول کی جائے گی۔ آپؐ اپنا سر اٹھائیں گے اور جناب باری کی طرف نظر کرکے پھر سجدے میں چلے جائیں گے۔ بقدر جمعہ سے جمعہ تک پھر سجدے میں پڑے رہیں گے۔ پھر اللہ تبارک تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! سر اٹھائیے؛ کہئے آپ کی بات سنی جائے گی، شفاعت کیجئے، آپؐ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اس نعمت پر پھر سجدے میں جانا چاہوں گالیکن حضرت جبریل علیہ السلام میرے بازو تھام لیں گے۔
اب اللہ تعالیٰ مجھے وہ دعائیں سکھائے گا جو کسی انسان کو نہیں سکھائیں۔ پس آپ کہیں گے: اے اللہ! تونے مجھے تمام اولادِ آدم کا سردار بنایا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں،مجھے تو نے سب سے پہلے قبر سے اٹھانے والا بنایا، اس پر بھی مجھے کوئی فخرنہیں (چنانچہ اب میں شفاعت کروں گا)، اس کے بعد میرے حوض پر لوگ آنے شروع ہوں گے جو صنعاء سے لیکر ایلہ سے بھی زیادہ وسعت والا ہوگا۔ پھر کہا جائے گا کہ صدیق لوگوں کو بلاؤ وہ بھی شفاعت کریں۔ پھر کہا جائے گا نبیوں کوبلاؤ۔ انبیا ؑ آنے شروع ہوں گے۔ کسی تیس چالیس آدمی ہوں گے، کسی کے ساتھ پانچ کسی کے ساتھ چھ اور کسی نبی کے ساتھ ایک بھی نہ ہوگا۔ پھر کہا جائے گا: شہیدوں کوبلاؤ کہ جس کی چاہیں شفاعت کریں۔ جب شہید یہ کرلیں گے تو جناب باری جل و علا فرمائے گا: میں ارحم الراحمین ہوں (حکم دیتا ہوں کہ) جن لوگوں نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ان سب کو جنت میں پہنچا دو۔ چنانچہ ایسے لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: دیکھو جہنم میں کوئی ایسا بھی ہے جس نے کبھی بھی کوئی بھلا کام کیا ہو؟ دیکھیں گے تو ایک شخص کو پائیں گے، اس سے سوال ہوگا کہ تونے کبھی کوئی نیکی کی ہے؟ وہ کہے گا ہاں صرف یہ کہ میں بیوپار میں بہت نرمی کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے اس بندے سے بھی نرمی کرو جیسے یہ میرے بندوں سے نرمی کیا کرتا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی دوزخ سے نکلے گا، اس سے پوچھا جائے گا: تو نے بھی کبھی کوئی نیک عمل کیا تھا؟ وہ کہے گا نہیں سوائے اس کے کہ میں نے اپنی اولاد سے کہا تھا کہ جب میں مرجاؤں تو تم مجھے جلا دینا، پھر میری خاک کو پیس ڈالنا حتیٰ کہ جب میں سرمے کی طرح ہوجاؤں تو سمندر کے کنارے جاکر تیز ہوا میں مجھے اڑا دینا۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا: تونے ایساکیوں کیا ؟ وہ کہے گا: فقط تیرے ڈر سے۔ جناب باری فرمائے گا: دیکھو سب سے بڑا ملک دیکھ لو تیرے لئے اسی چیز نے صبح مجھ کو ہنسا دیا تھا۔(مسند احمد)
شفاعتِ رسولؐ: قریش کے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں اور اس سبب سے آخرت میں شفاعت رسولؐ کے مستحق ہوں گے۔ اس تصور کے پیش نظر ایک دن رسول اللہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں، اہل خاندان اور بعض قریبی قبائل کو جمع کیا اور ان کے سامنے حسب ذیل خطبہ ارشاد فرمایا: اے عبد مناف کے بیٹو! تم اپنے کو خدا کی آگ سے نکالنے کا انتظام کرو، میں تم کو خدا کے سامنے کبھی بھی نفع اور نقصان نہ پہنچا سکوں گا۔ اے قصی کی اولاد ، اے عبدالمطلب کی، تم بھی اپنے کو آگ سے بچاؤ میں خدا کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہ کرسکوں گا۔ اور اے صفیہ رسولؐ خدا کی پھوپھی، اور فاطمہ رسول خدا محمدؐ کی بیٹی! تم بھی اپنے کو آگ سے بچاؤ کہ میں خدا کے ہاں تمہارے لئے کچھ نہ کرسکوں گا۔ ہاں دنیا میں تو میری رشتہ دار ہے اور میں اس کا حق ادا کرتا ہوں۔ (ترمذی)
* حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتے داری آپؐ کی قوم کو کچھ نفع نہ دے گی؟ ہاں سنو! میری رشتے داری دنیا و آخرت میں ملی ہوئی ہے۔ لوگو! میں حوضِ کوثر پر تم سب کا میر سامان ہوں۔ جب تم آؤگے تو لوگ مجھ سے کہیں گے کہ یا رسول اللہ! میں فلاں کا بیٹا ہوں، یا رسول اللہ! میں فلاں بن فلاں ہوں۔ میں جواب دوں گا کہ ہاں نسب تو پہچان لیا لیکن تم نے میرے بعد بدعتیں نکال لی تھیں اور پچھلے پیروں لوٹتے گئے تھے۔ (مسند احمد)
حوض کوثر پر: ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں لوگوں سے حوض کوثر کے متعلق سنا کرتی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس بارے میں سننے کا موقع نہیں ملا تھا۔ ایک دن مشاطہ میرے بال گوندھ رہی تھی کہ مجھے آپؐ کی آواز سنائی دی: ایہا الناس (اے لوگو!)
میں نے مشاطہ سے کہا چھوڑ دو کہ آپؐ کا وعظ سن سکوں۔ میں نے کان لگاکر سنا تو آپؐ فرما رہے تھے: ’’میں حوض (کوثر) پر تمہارا پیشرو ہوں۔ خبردار! تم ایسے نہ بنو کہ میرے پاس آنا چاہو تو اس طرح دور ہٹا دیئے جاؤ جیسے پرایا اونٹ، اور جب میں دریافت کروں کہ ان سے یہ سلوک کیوں ہورہا ہے، تومجھے جواب دیا جائے گا کہ آپ کے بعد انھوں نے جو وطیرہ اختیار کیا تھا آپ کو معلوم نہیں اور میں بھی کہوں کہ ہلاک ہوجائیں۔ (مسلم شریف)
کتاب اللہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
اے لوگو! میں تم سب کیلئے (قیامت کے دن کا انتظام کرنے کیلئے) آگے جانے والا ہوں۔ میرے حوض کوثر پر تم سب آنے والے ہو، جس کی چوڑائی صنعاء سے لے کر بصرہ تک کی ہے۔ اس میں آسمان کے ستاروں جتنے چاندی کے کٹورے تیر رہے ہیں۔ جب تم حوض کوثر پر میرے پاس آؤگے میں اس وقت تم سے دو اہم چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا۔ پس نگاہ رکھو تم ان دونوں کے بارے میں میرے بعد کیسی کارروائی کرتے ہو؟ سب سے بڑی اہم اور وزنی چیز تو کتاب اللہ قرآن کریم ہے (جو خدائی رسی سے) جس کا ایک سرا خود خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ پس تم کتاب اللہ کو مضبوط تھامے رہو، اس سے ادھر ادھر نہ ہونا، نہ اس میں کوئی تبدیلی کرنا اور (دوسری چیز) میرا خاندان اور میرے اہل بیت ہیں، اللہ تعالیٰ جو باریک بیں اور باخبر ہے مجھے خبر دے چکا ہے کہ یہ دونوں (یعنی کتاب اللہ اور میرے اہل بیت) الگ الگ نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس میرے حوض کوثر پر آئیں۔ (کنز العمال)

تبصرے بند ہیں۔