کمی صرف ججوں کی نہیں شعور اور انگریز کی غلامی کی بھی ہے

تین دن سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقریر موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ ان کا جذباتی ہوجانا ان کے دل کی نرمی کی دلیل ہے۔ موصوف نے سارا زور اس پر دیا کہ ججوں کی تمام خالی جگہوں کو بھرا جائے اور ججوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ کل روش کمار نے پرائم ٹائم میں اس کو موضوع بنایا اور بتایا کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات 18 گھنٹے کام کرتے اور چھٹی کے دن بھی مصروف رہتے ہیں۔ یہ بات ہمارے علم میں بھی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں پر کام کا بوجھ اس لئے بھی بڑھ رہا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات کے لئے جیب میں پیسے اور دماغ میں کے خنّاس کی وجہ سے ہر کوئی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ چلا جاتا ہے۔
یہ بات حکومت طے کرے یا سپریم کورٹ کہ فوجداری اور سول مقدمات کس سطح کے ہوں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں سنے جائیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماتحت عدالت پولیس کی چوکی اور سیشن عدالتیں کوتوالی بن گئی ہیں۔ جہاں نہ سرکاری وکیل معیار پر پورے اترتے ہیں اور نہ مجسٹریٹ اور جج۔ ضرورت اس کی بھی ہے کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے ان کی تربیت کی جائے۔ اور انہیں بھی سکھایا جائے کہ عدالت کا وقت 10 بجے شروع ہوکر 5 بجے ختم ہوتا ہے اور درمیان میں لنچ صرف ایک گھنٹہ کا ہوتا ہے۔ ہم کچھ باتیں سنی سنائی نہیں دیکھی ہوئی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ماتحت عدالتوں میں کوئی بھی 11 بجے کے پہلے کرسی پر نہیں آتا اور ہر کسی کا لنچ دو گھنٹہ سے کم کا نہیں ہوتا اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ مقدمہ جب تک ہوسکے ٹالا جائے اور صرف تاریخ دے دی جائے۔
رات روش کمار صاحب نے موجودہ چیف جسٹس اور سابق چیف کے فرمودات نقل کئے ان میں صرف امریکہ کا ذکر کیا تھا کہ ایک جج سال میں کتنے مقدموں کا فیصلہ کرتا ہے اور ان کو کتنی چھٹیاں ملتی ہیں۔ ہمارے چھوٹے بھائی سعودی عرب کے مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے فراغت سے دو سال پہلے انہوں نے اپنی اہلیہ کو بلا لیا اور جامعہ کے قریب ہی ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔ سال بھر کے بعد مالک مکان نے کہا کہ مکان خالی کرو یا کرایہ بڑھاؤ؟ بھائی نے کہا کہ میں ملازم نہیں طالب علم ہوں اور میں نے آپ سے کہہ دیا تھا کہ مجھے صرف دو سال کے لئے چاہئے۔ وہ نہیں مانا اور عدالت چلا گیا۔ پیشی ہوئی تو بھائی سے معلوم کیا گیا کہ تمہیں وکیل یا مترجم کی ضرورت ہے؟ انہوں نے انکار کردیا۔ جج صاحب نے مالک مکان سے دریافت کیا کہ تم کیوں خالی کرا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ میرے گھٹنوں میں تکلیف ہے اور میں بار بار اترنے چڑھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ جج صاحب نے معلوم کیا کہ تم نے مکان دیتے وقت کوئی معاہدہ کیا تھا؟ مالک نے جواب دیا کہ نہیں۔ جج صاحب نے میرے بھائی سے معلوم کیا کہ اگر مالک مکان نیچے آجائیں اور تم اوپر رہنے لگو تو تمہیں کوئی اعتراض ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ بالکل نہیں۔ پندرہ منٹ میں فیصلہ سناتے ہوئے جج صاحب نے کہا کہ مالک مکان نیچے کے حصہ میں آجائے اور کرایہ دار اوپر چلا جائے۔ اور مقدمہ ختم اور اہم بات یہ ہے کہ پھر اس کی کہیں اپیل نہیں تھی۔
اب ذرا ہماری کہانی سن لیجئے کہ ہم عیش باغ کالونی کے ایک مکان میں کرایہ پر رہ رہے تھے تین سال کے بعد مالک مکان نے کہا کہ میں مکان فروخت کرنا چاہتا ہوں اس لئے آپ جلد ہی کوئی دوسرا مکان لے لیجئے۔ یا آپ ہی خرید لیجئے۔ ہم نے کہا کہ یہ تو ہم لوگ آپس میں طے کرلیں گے کہ قیمت کیا ہے؟ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم جو بھی قیمت ہو ایک ہی قسط میں نہ دے سکیں گے۔ کیونکہ امین آباد میں ہم ایک عمارت بنوا رہے ہیں۔ انہوں نے بھی کہہ دیا کہ مجھے پوری نہیں فی الحال اتنی رقم کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح مکان ہم نے لے لیا۔ اس کے نیچے کے دو کمروں میں ایک کرایہ دار تھے جنہوں نے جب کرایہ پر لیا تھا تو 11 مہینے کا معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے 11 مہینے کا دوسرا معاہدہ کرلیا اور بعد میں جب مالک مکان نے کہا کہ اب میں اسے فروخت کررہا ہوں اس لئے اب تیسرا معاہدہ نہیں ہوگا۔ تو وہ عدالت چلے گئے۔ اور اسٹے لے آئے اور کرایہ منی آرڈر سے مالک مکان کو بھیج دیا۔ جسے انہوں نے واپس کردیا تو وہ کرایہ عدالت میں جمع کردیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آیئے اب مقدمہ بازی ہوجائے۔ ہم نے جب خریدنے کا فیصلہ کیا اور وکیل کے ذریعہ مقدمہ کی پوزیشن کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اگر کرایہ دار چاہے تو 20 برس تک بلکہ اس سے بھی زیادہ مدت تک مقدمہ چلے گا۔ ہمیں یا ہمارے بچوں کو کہاں فرصت تھی کہ مقدمہ لڑتے؟ تب مصالحت کی بات شروع ہوئی اور انہوں نے تین لاکھ روپئے مکان خالی کرنے کیلئے۔ اب چیف جسٹس صاحب بتائیں کہ اگر مقدمات کی تعداد لاکھوں ہے تو اس میں حکومت کا کتنا قصور ہے اور عام آدمی کا کتنا قصور ہے۔ اور عدالتوں کے نظام اور طریقۂ کار کا کتنا؟ ہم کیسے یہ کہہ دیں کہ کیا ہونا چاہئے؟ لیکن ماتحت ججوں اور سیشن ججوں کو بھی تو کچھ کرنا چاہئے؟ کل ہی 2006 ء کے مالے گاؤں والے مقدمہ کا فیصلہ ہوا ہے اور جھک مارکر ان شریف اور بے گناہ مسلمانوں کو بری کیا ہے۔ اور یہ بات ہر جج کو معلوم ہے ، ہر پولیس افسر کو معلوم ہے اور ہر وزیر کو معلوم ہے کہ پولیس جب دہشت گردی کے الزام میں دس بیس مسلمانوں کو گرفتار کرتی ہے تو عدالت سے پولیس ریمانڈ پر دس دن یا پانچ دن کے لئے لے لیتی ہے۔ اور عدالتیں اتنی آسانی سے پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں جیسے یہ بھی قانون کا حصہ ہے؟ ہندوستان کی بزدل اور مسلم دشمن پولیس ریمانڈ پر لے کر جیسی ذلیل اور شرمناک اذیتیں دیتی ہے اسے ہر کسی نے باعزت بری ہوکر بیان کیا ہے۔ ننگا کرکے مارنا بجلی کے جھٹکے دینا تین تین دن بھوکا رکھ کر جگانا اور دشمن کی طرح مارکر اقبال جرم کرانا۔ کسے معلوم نہیں ہے؟ صرف کرناٹک کے ایک عالم کے بارے میں سنا تھا کہ ان کے لئے عدالت سے یہ حکم حاصل کرالیا تھا کہ ہر دن ان کی ڈاکٹری رپورٹ عدالت میں آنا چاہئے۔
چیف جسٹس صاحب کو عدل و انصاف کی اس آبرو ریزی پر بھی تبصرہ کرنا چاہئے کہ 1966 ء میں 9 مہینے کے بعد ہمیں بے گناہ مان کر اور اس کے بعد سے اب تک سیکڑوں مسلمانوں کو برسوں جیل میں سڑاکر اس لئے باعزت بری کیا جاتا ہے کہ جرم کسی اور نے کیا تھا اور سزا انہیں دے دی گئی تھی۔ کیا وہ جج جو بے ایمان پولیس کے لائے ہوئے ہر شریف آدمی کو ریمانڈ پر دے دیتے ہیں جج بنے رہنے کے قابل ہیں؟ کیا ان ججوں کی بھی عزت کی جانا چاہئے جنہوں نے 18 سال 15 سال 10 سال یا پانچ سال سیکڑوں انسانوں کو جیل میں پڑا رہنے دیا اور جو پولیس والے لائے تھے انہیں ثبوت تلاش کرنے کا موقع دیا اور جھک مارکر باعزت بری کیا۔ کیا یہ مسلمان باعزت ہوگئے؟ وہ اگر جج ہیں اور انصاف کے لئے بیٹھے ہیں تو کیا یہ انصاف ہے کہ نہ ان حرام زادوں کو سزا دی جو جھوٹا الزام لگاکر لائے تھے۔ اور نہ ان ججوں کو کان پکڑکر کرسی سے اتارنے کا قانون بنایا جو کسی پولیس والے سے یہ معلوم نہیں کرتے کہ ان کے ملزم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اور نہ ریمانڈ ختم ہونے کے بعد بلاکر ان کا معائنہ نہیں کرتے کہ ان کے جسم پر ظلم کے کتنے نشان ہیں؟
سپریم کورٹ کے جج بیشک ملک کی آبرو بچائے ہوئے ہیں یا ایسے ہائی کورٹ کے جج جیسے اُتراکھنڈ کے دو جج ثابت ہوئے ضرورت ہے کہ یہ کوئی دعا کرے کہ گندہ پانی اور گرم ہوا ان پر اثر نہ کرے۔ اس لئے کہ پہلے سیشن جج کو ہی آخری عدالت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن برا ہو اس ماحول کا جہاں ہر کوئی لکشمی کی پوجا کرنے کے لئے ایسے فیصلے کراتا ہے جسے ہائی کورٹ ادھیڑکر رکھ دیتا ہے۔ اور یہ بھی لکشمی کی پرستش کا ہی اثر ہے کہ 1993 ء کے بم دھماکوں کی سی بی آئی تحقیقات کرتی ہے تو درجنوں مسلمانوں کو مجرم بناکر پھانسی دلانے کی سفارش کرتی ہے اور یہی سی بی آئی مالے گاؤں میں 9 مسلمانوں کے غلط یا صحیح بند کئے جانے کو دیکھتی ہے تو اسے اے ٹی ایس کی رپورٹ ہی گیتا اور رامائن معلوم ہوتی ہے۔ جس کے متعلق جج صاحب کو بھی ماننا پڑا کہ صرف مسلم دشمنی کی وجہ سے ہے۔ چیف جسٹس کا مطالبہ کہ جج بڑھائے جائیں ان کی تنخواہ بھی بڑھائی جائے سر آنکھوں پر۔ لیکن سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ انہیں جس کام کے لئے انصاف کی کرسی پر بٹھایا گیا ہے وہ انصاف کریں۔ بڑے ججوں نے ہی کہا ہے۔ انصاف میں دیر ناانصافی ہے اور ہر مسلمان ناانصافی کا شکار ہے۔ اس لئے کہ وہ باعزت بری بھی 15 سال کے بعد ہوتا ہے۔
محترم جسٹس ٹھاکر نے دکھ کے ساتھ فرمایا کہ لاکھوں انسان جیل میں ہیں۔ اس لئے کہ جج ان کے مقدمات نہیں سن پائے۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی وجہ ججوں کی کمی نہیں بلکہ طریقۂ کار کی غلطی ہے۔ ان میں ہزاروں ایسے ہیں جن کا کوئی ضمانت کرانے والا یا ضمانت لینے والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو اس کا حق ہونا چاہئے کہ اگر ان پر کوئی سنگین الزام نہیں ہے تو عدالت انہیں طلب کرے اور ان کی بات سن کر فیصلہ کردے۔ اگر اسے اندازہ ہو کہ گناہگار ہے تو سزا دے دے ورنہ رہا کردے۔ ہر کوئی نہیں جانتا کہ کسی کی ضمانت لینے والے کو بھی پورا دن برباد کرنا پڑتا ہے۔ اور ہر عدالت دو ضامن مانگتی ہے۔ دفعہ 353/A دو فرقوں میں نفرت پھیلانے والے کے خلاف لگائی جاتی ہے ندائے ملت کے اس زمانہ کے پرچے جب بھائی صاحب کا نام ایڈیٹر کی حیثیت سے جاتا تھا اور معاون ایڈیٹر پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے ہمارا۔ اس زمانہ کے 25 شماروں پر مقدمات قائم ہوئے۔ تو 50 ضامن بھائی صاحب کے لئے اور 50 ضامن ہمارے لئے کہاں سے لاتے؟ جن کے پاس اتنی منقولہ جائیداد ہو اور اسے حماقت نہیں تو کیا کہا جائے گا کہ ایک آدمی چاہے اس کے پاس پانچ لاکھ کی کار ہو، ریوالور ہو، بندوق ہو اور دس لاکھ روپئے بینک میں فکس ہو وہ بھی ایک آدمی کی ایک ہی ضمانت لے سکتا ہے۔ اور وہ اگر چاہے تو دو ضمانتیں بھی نہیں لے سکتا۔ یہ جو لاکھوں انسان جیل میں ہیں یہ ججوں کی کمی سے نہیں احمقانہ قانون کی وجہ سے ہیں۔ اور اس وجہ سے ہیں کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ جس جج کی عدالت میں ہمارے مقدمات ہیں ہم اس سے فیصلہ نہیں کرائیں گے۔ تو ہمارے فاضل وکیل نے دو سال تک عدالت میں فائل سے فٹبال کھیلی اور جب ان کا تبادلہ ہوگیا تب دوسرے جج کے سامنے مقدمات پیش ہونے دیئے اور صرف تین مہینے میں سب مقدمے خارج ہوگئے۔ لیکن 100 باحیثیت دوستوں کا کا انتظام سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ جسے عدلیہ کا پھوہڑپن اور انگریزی غلامی ہی کہا جائے گا۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔