کنن، شوپیان اور کٹھوعہ!

شاہ عباس

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کو گائوں کے ایک چھوٹے سے مندر کے اندر ایک ہفتے تک یرغمال بناکر چھ آدمیوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بناکر انتہائی سفاکی کے ساتھ قتل کردیا جس کیخلاف دنیا کے ہر گوشے سے شدید رد عمل سامنے آگیا۔ملزموں کیخلاف پولیس چارج شیٹ کے مطابق لڑکی کونشیلی ادویات کھلاکر جسمانی طور انتہائی اذیتیں پہنچاکرموت کی آغوش میں دھکیلنے سے قبل اُسے وحشیانہ طریقے سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

خانہ بدوش لڑکی کا اغوا اور اس کے بعد قتل تک کا غیر انسانی فعل15صفحات پر مشتمل اُس پولیس چارج شیٹ کے مطابق ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ تھا جس کا مقصد مسلمان خانہ بدوشوں کو علاقے سے نکلنے پر مجبور کرنا تھا۔ یہ چارج شیٹ چیف جوڈیشل مجسٹریٹ،کٹھوعہ کے سامنے9فروری کو پیش کی گئی۔

کٹھوعہ ضلع ایک ہندو اکثریت والا علاقہ ہے جہاں بسنے والے مسلمان اکثر گجر اور بکروال طبقے سے وابستہ ہیں۔ ان خانہ بدوش مسلمانوں کو اپنے مال مویشیوں کی وجہ سے موسمی حالات کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑتا ہے۔ یہاں رہنے والے اکثر مسلمان سیاسی طور پر زیادہ ہوشیار نہیں ہیں البتہ وہ انتہائی معصومانہ انداز میں اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ اُنہیں ہندو ایک نہیں تو دوسرے بہانے تنگ طلب کرتے رہتے ہیں اور اُن کو خوف و ہراس میں مبتلاء کرنے کا عمل گذشتہ کچھ برس میں کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اکثر سیاست دانوں کی الیکشن سیاست کا شکارہونے والے ان پچھڑے لوگوں کا مشترکہ الزام ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقہ (کٹھوعہ) میں رہتے ہوئے اپنے مذہبی عقائد کا کھل کر اظہار نہیں کرسکتے ہیں۔

 جب آٹھ سالہ بچی کی عصمت کے لوٹنے والوں اور قتل کرنے والے مجرموں کیخلاف پولیس کے چارج شیٹ پیش کرنے کا وقت آیا تو متعلقہ پولیس تھانے کو گھیرے میں لیکر ــ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے بلند کرنے والی بھیڑ عملاً عصمت دری اور قتل کے اس کیس میں ملوث افراد کی حمایت کررہی تھی۔ایسا کرنے والے افراد کیخلاف بھی پولیس نے کیس درج کرلیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین، جن میں اکثر تعداد کٹھوعہ کے وکلاء کی تھی،نے اُن کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔

اس سے قبل ماہ مارچ میں کٹھوعہ میں ’’ہندو ایکتا منچ ‘‘ نامی تنظیم نے سڑکوں پر نکل کر عصمت دری معاملے میں ملوث افراد کے حق میں کھلم کھلا مظاہرے کئے۔ مظاہرین ہاتھوں میں ترنگے لہراتے ہوئے ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ جیسے نعرے لگاکر اپنی شناخت کا کھلم کھلا اظہار کررہے تھے۔ایسی ہی ایک ریلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی لیڈروں نے بھی شرکت اور تقریریں کیں۔ انہوں نے عصمت دری کے اس کیس کو یہ کہتے ہوئے، بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی، سی بی آئی کو سونپنے کی وکالت کی کہ جموں کشمیر پولیس ہندئوں کو اس کیس کی تحقیقات کی آڑ میں ہراساں کررہی ہے۔

پولیس کی کرائم برانچ نے کٹھوعہ میں کمسن لڑکی کی عصمت دری و قتل معاملے کو لیکر سازش، اغوا،یرغمالی،اجتماعی عصمت دری اور شواہد مٹانے کا کیس آٹھ ملزمان کیخلاف درج کرلیا ہے۔ان میں سانجی رام نامی وہ ملزم بھی شامل ہے جو ایک سابق سرکاری حاکم تھا اور جس کو مقامی طور پر ایک’’طاقتور‘‘ آدمی تصور کیا جاتا ہے۔ پولیس چارچ شیٹ میں سانجی رام کا بیٹا،وشال کمار بھی شامل ہے جو کالیج سطح کا ایک طالب علم ہے۔ ملزموں کی فہرست میں رام کا16سالہ (کم عمر) بھتیجا  اور اس کا دوست پرویش کمار، سپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) دیپک کھجوریہ اور سریندر کمار، ہیرا نگر پولیس سٹیشن میں تعینات پولیس سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج بھی شامل ہیں۔ چارج شیٹ میں ر سانا نامی گائوں میں واقع دیوی استھان نامی چھوٹے سے مندر کا پجاری، سانجی رام بھی شامل ہے۔پجاری پر الزام ہے کہ اُس نے لڑکی کی اغوا  کاری،عصمت دری اور قتل کے جرم میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

 پولیس ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتا پر الزام ہے کہ اُنہوں نے سانجی رام سے 4لاکھ روپے لیکر کیس کے اہم سراغ مٹائے۔ قابل ذکر ہے کہ کرائم برانچ کو کیس منتقل ہونے سے قبل مذکورہ کیس کی تحقیقات مقامی پولیس کر رہی تھی اور اس کیس کے تحقیقاتی آفیسر آنند دتا ہی تھے۔

ضلع کٹھوعہ کے گائوں میں کمسن بچی کی اغوا کاری کا معاملہ پولیس چارج شیٹ کے مطابق 11جنوری2018 کو پیش آیا۔اس کے چھ روز بعد یعنی17جنوری کو مذکورہ لڑکی کی لاش گائوں کے جنگلی علاقے سے بر آمد ہوئی۔ کم عمر ملزم نے چارج شیٹ کے مطابق میرٹھ میں زیر تعلیم اپنے چچیرے بھائی،جنگوترا کو بھی فون کیا اور کہا کہ وہ آکر ’’اپنی پیاس بجھا لے‘ ‘۔

پولیس دستاویز کے مطابق کٹھوعہ میں چھ سالہ بچی کی عصمت دری کی سازش اس لئے رچائی گئی تھی تاکہ بکروال طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو خوف میں مبتلاء کیا جاسکے اور وہ علاقے سے چلے جائیں۔ بچی جنگلی علاقے میں گھوڑے چرارہی تھی جس کے دوران اس کے گھوڑے ادھر اُدھر گئے اور وہ اُنہیں تلاشتے ہوئے سازش کا شکار ہوئی۔ گھوڑے تو تھوڑی ہی دیر بعد اپنے مالک کے گھر لوٹ آئے لیکن اُن کو چروانے والی کمسن بچی۔۔۔۔؟

ملزموں نے دیوی استھان کے مندر میں اپنا مُنہ کالا کرنے کے بعد پوجا پاٹ بھی کی۔ پولیس کے مطابق اُنہوں نے بعد ازاں بچی کا گلہ گھونٹا لیکن اُس کی موت کو یقینی بنانے کیلئے سفاکوں نے اُس کے سر پتھر مار مار کے پھوڑ دیا۔پولیس تحقیقات کے مطابق جب بچی آخری ہچکیاں لے رہی تھی تو اُسے پھر اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا۔

پولیس تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملزم پولیس والوں نے کس طرح جرم کے اہم ثبوت مٹائے۔ انہوں نے فارنسیک لیبارٹری بھیجنے سے قبل مقتولہ کے کپڑے تک دھوڈالے اور جائے واردات پر جعلی ثبوت جمع کئے۔

گجرات کے سابق پولیس آفیسر اور اُس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کیخلاف مسلم کش فسادات کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے اندر بیان حلفی دائر کرنے والے سنجیو بھٹ نے کٹھوعہ عصمت دری و قتل معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک ٹیوٹ میں کہا’’ذرا سوچئے کہ اگر کٹھوعہ معاملے میں ایک ہندو لڑکی متاثرہ ہوتی اور ہندوملزموں کی جگہ کئی مسلمان ہوتے جنہوں نے اپنا جرم انجام دینے کیلئے کسی مسجد کا استعمال کیا ہوتا توبھارت نے کس طرح اس کیخلاف رد عمل ظاہر کیا ہوتا؟‘‘لیکن بھٹ کا سوال ایک طرف، کٹھوعہ کی معصوم بچی کو اپنی درندگی کا شکار بنانے والوں کیخلاف ہر مذہب،ہر نظریہ اور ہر طبقے سے آوازیں اٹھی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ آوازیں جرم کے ارتکاب کے تین ماہ بعد اٹھیں اور تب تک ہر سمت سکوت چھایا ہوا تھا۔ ویسا ہی سکوت جیسا شوپیان میں پیش آئے اسی قسم کے ایک اور گھناونے جرم کے وقت تھا۔

آنے والے ماہ مئی میں جنوبی ضلع شوپیان میں ہڑتال ہوگی۔ یہ ہڑتال آسیہ اور نیلو فر نامی دو جواں سال خواتین کی یاد میں ہر سال منائی جاتی ہے جنہیں 2009میں مبینہ طورعصمت دری کے بعد قتل کیا گیا۔ عام لوگوں کا الزام ہے کہ بھابی نندن کے اس عصمت دری و قتل معاملے میں سرکاری فورسز کا ہاتھ تھا لیکن سرکاری تحقیقات میں اس طرح کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے رمبی آراء نالے میں ٹخنوں کی گہرائی والے پانی میں ڈوبنے کو ان کی ہلاکت کی وجہ قرار دیدیا گیا جس نے پورے کشمیر میں سرکاری تحقیقاتی عمل و اداروں کی اعتباریت پر سوال کھڑ اکئے۔

ابھی ماہ فروری میں پوری وادی نے کنن پوشہ پورہ سانحہ کو پھر سے یاد کیا۔ 1991کوبھارتی فورسز نے ایک پوری بستی کو محاصرے میں لیکر وہاں کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی۔ اس سانحہ کو لیکر سرکاری تحقیقات میں بھی بھارتی فورسز پر االزام ثابت ہوگیا لیکن مجرموں کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

اب کٹھوعہ کی معصوم بچی کا کیس سرکاری تحقیقات کے بعد عدالت کے سامنے ہے۔ اس کیس کی بنیاد پر دو حکمران وزراء سے استعفیٰ دلوائے گئے ہیں۔ لیکن کیا سیاست اپنا کام کرنا بند کرے گی اور کیا واقعی سانجی رام جیسے ’’طاقتور‘‘ قاتل اور اس کے حواریوں کو قانون سزا دے گی؟ شایداس سوال کے جواب کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔