کورٹ بلوال جیل: ’ابو غریب‘ اور’گونتانوموبے‘ کا مقامی ورژن

واحد بشیر

’’ریاست‘‘ بلا شبہ ایک طاقتور ادارہ ہوتاہے۔ ریاست (اسٹیٹ)کی مغربی تشریح بھی دیکھی جائے تو اس میں اپنے شہریوں پر طاقت کے بے جا استعمال کو جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ شہریوں کے حقوق غصب کردینا اور حقوق کی بازیافت کے حق میں آواز بلند کرنا گویا ایک ایسا جرم ہے جس سے ریاست اپنے وجود کو ہی خطرے میں محسوس کرتی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں قریب پون صدی سے جاری جدوجہد کو دبانے اور مبنی بر حقیقت مؤقف کو نکارنے کی ریاستی پالیسی بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔تقسیم ہند سے لے کر اب تک لاکھوں باشندگان ریاست اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے حالات کی ابتری میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ہمہ وقتی بے چینی اور اضطراب نے یہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا کردی ہے۔

ماورائے عدالت قتل، حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، انسانی آزادی پر قدغن جیسے کام اب ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی ماحول کا ایک طرح سے حصہ بنائے گئے ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا اور اپنے حقوق کے لئے آواز کا بلند کرنا ہی اس بات کے لئے کافی ہے کہ ایک انسان کو حبس بے جا میں رکھا جاسکتا ہے۔ فی الوقت ریاست جموں و کشمیر کے ہزاروں باشندگان قیدو بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جرم بے گناہی میں ملوث ہر عمر کے لوگ قید کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ 80 سالہ بزرگوں سے لے کر دس بارہ سال کے بچے تک گرفتار کئے جاتے ہیں اور پھر انتہائی قبیح تشدد اور تعذیب سے گزارے جاتے ہیں۔ تحریک کے ساتھ وابستہ لوگوں کو قید کے دوران انتہائی سخت تشدد سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوجائے۔

حال ہی میں جموں سے شائع ہونے والے اخبار Early Timesنے قیدیوں سے متعلق ایک رپورٹ منظر عام پر لائی۔ مذکورہ اخبار کی اس شائع شدہ رپورٹ سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستی جیلوں میں نظربند لوگوں پر کس قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سینٹرل جیل کوٹ بلوال میں قیدیوں پر نہ صرف جسمانی تشدد کیا جاتا ہے بلکہ ان کے سارے کپڑے اتار کر انہیں کو الف ننگا بھی کیا جاتاہے۔ اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک ایسا فوٹو گراف پولیس سرکلز میں Whatsapp کے ذریعے عام کیا گیاجس میں ایک قیدی مادر زاد ننگا دکھائی دے رہا ہے اور جیل حکام اس پر جسمانی تشدد کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اخبار نے جیل میں موجود ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واقعات کوٹ بلوال جیل سے متعلق بالکل عام ہیں۔ وہاں موجود قیدیوں پر روزانہ کی بنیاد پر تشدد کیا جاتا ہے اور ایسے حالات سے گزارا جاتا ہے جو صریحاًانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ نہ پہلا ایسا واقعہ ہے اور نہ یہ اس قسم کا کوئی آخری واقعہ ثابت ہوگا۔

ایسے واقعات پہلے بھی منظر عام پر لائے گئے ہیں، مگر کوئی ٹھوس کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی۔ایسا لگ رہا ہے کہ جیل ملازمین کو قیدیوں پر تشدد کرنے میں مزا آرہا ہے، اسی لئے وہ مقید افراد کے کپڑے نکالنے اور انہیں جسمانی اذیت دینے میں کوئی باک محسوس نہیں کررہے ہیں۔ مذکورہ اخبار کی اس رپورٹ کے مطابق ایک سینئر پولیس آفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس قسم کے واقعات کو کئی بار اعلیٰ حکام کی نوٹس میں لایا گیا ہے،لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد معاملہ پھر وہیں پہنچ جاتا ہے۔یہ صرف جیل حکام کا کام نہیں لگ رہا ہے بلکہ اس میں پولیس کے افسران بالاکا شامل ہونا بھی بعید از قیاس معلوم ہورہا ہے۔ کیونکہ ایسے واقعات سے قیدیوں میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔‘‘ مذکورہ آفیسر کے بیان کے مطابق اس تصویر کو پولیس سرکلز میں عمداً قصداً پھیلایا جارہا ہے۔

اس رپورٹ سے ہی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں قیدیوں کے ساتھ کتنابراسلوک روا رکھا جارہا ہے۔ یہ دراصل ایک حقیقت ہے کہ فوج، پولیس اورٹاسک فورس جس طرح کا تشدد حراست کے دوران نوجوانوں پر روا رکھتے ہیں اس کی وجہ سے ہی بیشتر نوجوان عسکریت کی راہ کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف طلباء کو بار بار تھانوں میں طلب کیا جاتا ہے۔ جھوٹے کیسوں میں پھنسا کر عدالتی کارروائیوں میں مصروف رکھ کر نوجوانوں کے تعلیمی کیرئیر کو جان بوجھ کر تباہ کیا جاتا ہے۔بعض ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ تعلیمی ادارہ طالب علم کے ادارے میں حاضر ہونے کے شواہد بھی پیش کرتا ہے، لیکن اس کو جرم بے گناہی اور ناکردہ گناہوں کی سزا دہائیوں تک حبس بے جا میں رکھ کر دی جاتی ہے۔سالوں تک مقید افراد کے کیسز کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے۔بوڑھے والدین اپنے بچوں کی رہائی کا انتظار کرتے کرتے زندگی کی بازی ہی ہار جاتے ہیں، لیکن بچوں کی رہائی دیکھنا ان کو نصیب نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح عمر رسیدہ افراد کو بھی یہاں کی انتظامیہ بخشنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

حال ہی میں چند اخبارات نے ایک ایسی ہی خبر کو شائع کیا جس کے مطابق سوپور سے تعلق رکھنے والے ایک ۸۰ سالہ بزرگ شخص شیخ محمد یوسف پر چوتھی بار پی ایس اے عائد کیا گیا۔ایک کمزور و ناتواں، مختلف عوارض میں مبتلا شخص کو محض ذاتی انتقام گیری کے لئے پابند سلاسل کردینا اس ذہنیت کی عکاسی ہے جس کے ساتھ ریاست کی بیشتر آبادی ہر روز نمٹ رہی ہے۔کم عمر اور چھوٹے بچوں کو بھی آئے روز گرفتار کیا جارہا ہے اور ان کو ایسے تشدد سے گزارا جاتا ہے جس کو سن کر ہی انسان کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان تمام محبوسین کو دوران قید نہ صرف بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ جسمانی اور ذہنی تشدد کے بدترین مراحل سے بھی گزارا جاتا ہے۔ ریاست اور ریاست سے باہر موجود جیلوں میں محصور افراد کے اہل خانہ بار بار اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ جیل حکام انتہائی زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے بدترین سلوک سے یہاں کے باشندوں کو گزارنے کے یہ اپنی نوعیت کے پہلے واقعات نہیں ہیں، بلکہ نوے کی دہائی میں ہری نواس (Hari Niwas)اور پاپا ٹو(Papa II) جیسے بدنام زمانہ انٹراگیشن مراکز میں تشدد اور قتل کی وارداتیں اب یہاں کی معلوم تاریخ کا حصہ ہیں۔ بے شمار نوجوانوں کوان تشدد کے مراکز میں ناکارہ کردیا گیا۔ یہاں کی نوجوان نسل میں خال خال ہی کوئی ایسا شخص موجود ہوگا جس نے کسی طرح کے بھی تشدد کو نہ سہا ہو۔

90 ء کی دہائی کے بے شمار ایسے واقعات ابھی ریکارڈہونے باقی ہیں جن میں یہاں کے نوجوانوں کو ان بدنام مراکز میں تشدد اور قتل کا شکار کیا گیا۔ گو کہ بعد میں ان مراکز کی تعمیر نو کی گئی اور ان مراکز کو دوسرے کاموں کے لئے استعمال کیا جانے لگا لیکن بعض لوگ اس پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جبری طور گمشدہ کئے گئے افراد کے والدین اور دیگر اہل خانہ پر مشتمل ایک تنظیم نے تو یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ان بدنام جگہوں کی ازسر نو تعمیر حکومت نے محض اس وجہ سے کی ہے تاکہ وہاں موجود تشدد اور قتل کے ثبوت و شواہدضائع ہوجائیں۔

ریاست جموں و کشمیر کے جیل خانے ظلم و زیادتیوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے اعتبار سے ابو غریب اور گونتانوموبے سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہے، بلکہ اندازہ تو یہ ہے کہ ان سے بھی بدتر حالت یہاں کے جیل خانوں کی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں کے ارباب اختیار گردش ایام کی الٹ پھیر سے بالکل اپنے آپ کو ماوراء سمجھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ انتظامیہ اور حکومت میں جن لوگوں کی زبانیں انسانی حقوق اور امن و قانون کی مالا جھپتے نہیں تھکتی ہیں ان کی آنکھیں یہ ظلم دیکھنے سے قاصر ہیں اور جیسے ان کی آنکھیں ہی سفید ہوگئی ہیں۔ انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی تنظیموں کو فی الفور اس مسئلے کی سنجیدہ نوٹس لینی چاہئے اور ملوث افراد کے خلاف عالمی اداروں میں آواز بلند کر نی چاہئے۔

حکومت کے ذمہ دار افراد جنگی طرز پر یہاں کے عام لوگوں کے ساتھ معاملات روا رکھتے ہیں اور بدترین قسم کے جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ان جرائم میں سر فہرست ناکردہ جرائم کی پاداش میں قید کرنا اور پھر قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنا بھی شامل ہے۔ ریاست میں مقیم انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لینا ہوگا۔ ریاست کے سبھی سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ان کے حقوق کی بازیافت تک ایسی تحریک برپا کرنی چاہئے جس سے ارباب اختیار کو یہ احساس ہوجائے کہ وہ انتہائی ذلت آمیز کام میں ملوث ہیں۔ اللہ تعالیٰ سبھی قیدیوں کو حبس بے جا سے آزادی فراہم کرے اور ان کے لئے سنت یوسفی کو انگیز کرنا سہل اور آسان بنائے۔ (آمین)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔