کووڈ پر فتح درست حکمت عملی کا نتیجہ 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

کورونا کے مہلک وائرس سے متاثر ہونے والے ابتدائی ممالک میں بھارت شامل تھا۔ یہاں کورونا کا پہلا معاملہ 30 جنوری 2020 کو سامنے آیا۔ اس کے بعد پورا ملک وائرس کی گرفت میں آ گیا۔ حکومت نے نظر نہ آنے والے وائرس سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے 24 مارچ کو پہلی بار 21 دن کا لاک ڈاؤن لگایا تھا۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس بیماری سے ملک کو کب تک جوجھنا پڑے گا۔ کورونا کے سائے میں سختیوں کے بیچ زندگی گزارنے کو مجبور عوام کو دو سال بعد راحت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس طرح بھارت کورونا کو شکست دینے اور حالات کو معمول پر واپس آنے والا بھی پہلا ملک بن گیا ہے۔ اسکول، دفاتر کھل رہے ہیں۔ سفر، اداروں میں سماجی دوری جیسی کووڈ کی پابندیاں کم ہو رہی ہیں۔ قومی راجدھانی دہلی اور اقتصادی راجدھانی ممبئی میں اب منھ پر ماسک لگائے رکھنا ضروری نہیں رہا۔ مغربی بنگال، تلنگانہ، کرناٹک جیسی کئی ریاستوں میں یا تو پابندیاں پوری طرح ہٹا لی گئی ہیں یا ان میں کمی لائی گئی ہے یا اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

ظاہر ہے اس کے پیچھے ملک بھر میں کورونا کے معاملوں میں آئی گراوٹ ہے۔ نئے مریضوں کی تعداد اب بارہ ساڑھے بارہ سو کے بیچ آ گئی ہے۔ پورے ملک میں کورونا کے ایکٹو معاملے 11639 ہیں۔ اگر انفیکشن کے سبھی معاملوں میں اس کا اوسط دیکھیں تو یہ صرف 0.03 فیصد ہے۔ دہلی میں کورونا مریضوں کے لئے مختص کئے گئے بستروں میں سے 99.4 فیصد خالی ہیں۔ مرکزی وزارت صحت کے سکریٹری راجیش بھوشن نے ریاستوں کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اگر کورونا کا ہفتہ واری انفیکشن دس فیصد سے زیادہ ہو جائے اور اسپتالوں میں 40 فیصد بستر بھر جائیں تو ایسے میں ریاست اپنے یہاں کورونا سے متعلق سبھی پابندیوں کو نافذ کر سکتی ہے۔ شروع سے ہی اس بیماری کی شکل عالمی رہی ہے۔ اسی پس منظر میں کچھ ماہرین ریاضیاتی سروے کی بنیاد پر کورونا کی چوتھی لہر کے جون میں آنے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن حقائق کسی نئی لہر کے آنے کی حمایت نہیں کرتے۔

حکومت نے پابندیوں سے عوام کو نجات دلانے کا فیصلہ ایسے وقت لیا ہے۔ جب چین، جنوبی کوریا، ویتنام، فرانس اور جرمنی میں اومیکران 2 کے معاملوں میں لگا تار اضافہ ہو رہا ہے۔ چین اپنے کئی علاقوں میں آج بھی سخت لاک ڈاؤن کرنے کو مجبور ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت ان ممالک سے آ رہی خبروں سے ناواقف ہے۔ دراصل گزشتہ 24 مہینوں میں کووڈ کی روک تھام کے لئے ملک نے جو اقدامات کئے ان کی وجہ سے اومیکران کی تیسری لہر بھارت میں آ کر کب گزر گئی کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ پورا ملک انفیکشن سے متاثر تھا۔ پہلی اور دوسری لہر میں تو دوسری ریاستوں کے مقابلہ ممبئی، دہلی، کیرالہ کی حالت زیادہ خراب تھی۔ اس بحرانی وقت میں عوام کے انسانی رشتے مضبوط ہوئے۔ لوگوں نے دل کول کر ایک دوسرے کی مدد کی اور دن رات ایک کرکے سائنسدانوں نے ویکسین بنانے کا کام کیا۔ انہوں نے لوگوں کی جان بچانے کے لئے کفایتی طبی طریقوں کو ایجاد کیا۔ بہر حال ان سوا دو سال میں کووڈ کا مقابلہ کرنے میں بھارت نے جو کامیابی حاصل کی ہے اس میں نگرانی، کانٹیکٹ ٹریسنگ، علاج، ویکسی نیشن، اسپتال، آکسیجن پلانٹ وغیرہ ڈولپ کئے جانے کی پوری دنیا میں تعریف ہو رہی ہے۔

یونیسیف کے اشتراک سے لا پورہ ودا فاونڈیشن کے ذریعہ منعقدہ پروگرام میں مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر منسکھ مانڈویا نے کہا کہ بھارت کی کووڈ کے خلاف جنگ میں کامیابی قیادت، اختراع، لگن، شراکت داری، اشتراک اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی کہانی ہے۔ حالانکہ طاقتور، زیادہ ترقی یافتہ مغرب اب بھی کووڈ کے بڑھتے معاملوں سے جوجھ رہا ہے۔ اس کے برعکس بھارت اومیکرون 2 کی لہر کو اچھی طرح سے سنبھالنے میں بھی کامیاب رہا۔ جبکہ اس کی وجہ سے دوسرے ممالک میں بے شمار اموات ہوئیں، بھارت کو اعلیٰ کووڈ مینجمنٹ اور وسیع ویکسینیشن مہم نے مل کر بچایا۔ کورونا سے مقابلہ کرنے کے لئے ملک کی قیادت نے فیصلہ کن قدم اٹھائے اور اپنی حکمت عملی میں دنیا کے بہترین طریقوں کو شامل کیا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب ویکسین کے بارے میں منفی خبریں اور جھوٹی افواہیں عروج پر تھیں۔ دنیا کی سب سے بڑی اور تیز ترین مہم کے خلاف جھوٹ پھیلا کر تذبذب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ 100 سالوں میں صحت عامہ کی بدترین تباہی کے خلاف بھارت کی لڑائی کو کمزور کرنے کا خطرہ بہت حقیقی تھا۔ اس وقت ویکسین کے بارے میں منفی تاثرات کو دور کرنے کے لئے طبی ماہرین، مذہبی رہنما، سماجی لیڈران اور سیاستدان آگے آئے۔ انہوں نے خود ویکسین لی اور لوگوں سے ٹیکے لگوانے کی اپیل کی۔ حکومت، نجی شعبہ، کثیرالجہتی اداروں، غیر سرکاری تنظیموں اور سائنسی برادری کے لوگوں کی فعال شرکت کے ساتھ میڈیا کی وسیع مواصلاتی حکمت عملی نے ویکسین کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کیا۔ اس کے نتیجہ میں ملک کی تقریباً 90 فیصد بالغ آبادی ٹیکہ کی دونوں خوراکیں لے چکی ہے۔

دنیا اب بھی حیران ہے کہ بھارت نے اپنی زیادہ تر آبادی کا کس طرح کامیابی سے ویکسینیشن کیا۔ اس وقت تک کووڈ سے بچانے کے لئے ٹیکہ کی 184.31 کروڑ خوراکیں دی جا چکی ہیں۔ 94 فیصد آبادی ویکسین کی کم از کم ایک خوراک لے چکی ہے۔ جب ٹیکہ کی بات ہوتی تھی تو ماہرین کہتے کہ ملک کو اس میں قریب دس سال لگ جائیں گے لیکن صرف 279 دنوں میں 100 کروڑ خوراکوں کا ہندسہ عبور کر تنقید کرنے والوں کو غلط ثابت کر دیا۔ یہ دنیا کی سب سے کامیاب تیز ترین ویکسینیشن مہم ہے۔ اس سے قبل پولیو سے بچاؤ میں بھی بھارت کی صلاحیت کو کمتر آنکا گیا تھا لیکن سچائی سب کے سامنے ہے۔ تمام طرح کی رکاوٹوں کے باوجود ہم کامیاب ہوئے تھے آج بھی ہوئے ہیں۔ آبادی کی کثافت کے لحاظ سے صحت عامہ پر فی کس کم اخراجات اور جی ڈی پی کا چھوٹا فیصد خرچ کر کے بھارت کا کووڈ سے زندگیوں کے کم نقصان کے پیش نظر بڑی کامیابی حاصل کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں یونیسیف نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے لوگوں کے ذہنوں سے ویکسین سے متعلق تردود کو دور کرنے کے لیے راجستھانی لوک فنکاروں، موسیقاروں اور مقامی اثرورسوخ کی مدد لی تھی۔

یاساموسا کیمورا، یونیسیف کے بھارت میں نمائندے، نے وبائی امراض کے خلاف بھارت کی کامیاب لڑائی کی تعریف کی اور کہا، "یہ ہماری تاریخ میں پہلی بار ہے کہ جنگی بنیادوں پر ویکسین تیار کی گئی تاکہ اربوں لوگوں تک پہنچ سکے۔ بھارت کا ویکسینیشن ماڈل کووڈ۔ 19  وبائی مرض کی عالمی رفتار کو متعین کرنے میں بہت اہم رہا ہے۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر تاکیو کونیشی نے اپنے بیان میں کہا کہ بڑے جغرافیائی، ثقافتی اور سیاسی چیلنجوں کے باوجود، بھارت نے متعدد چیلنجوں پر قابو پاتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک روڈ میپ پیش کیا ہے۔  انہوں نے حکومت اور کمیونٹی کے اشتراک کے ذریعے وبائی مرض کے خلاف کثیر حکمت عملی پر مرکوز ردعمل پر بھارت کو مبارکباد پیش کی۔

شوکو نودا، یو این ڈی پی کے رہائشی نمائندے نے کہا کہ بھارت کی کووڈ۔ 19 ویکسینیشن مہم پوری دنیا میں "بے مثال” ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی ویکسینیشن کی کامیابی کی کہانی ملک کی قیادت کی طرف سے وبائی مرض کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے عزم اور حوصلہ کی کی عکاسی کرتی ہے۔

 بہر حال کووِڈ کے خلاف جنگ میں بھارت نے کامیابی حاصل کی ہے لیکن خطرہ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ لوگوں کو اب بھی گزشتہ دو سال اچھی طرح یاد ہیں۔ جون/جولائی میں ایک اور لہر کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جس کا امکان نا کے برابر ہے۔ لیکن ہمیں احتیاط کا دامن پکڑ کر رکھنا ہے۔ پابندیاں ہٹنے سے ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ کیوں کہ ہم نے اس کی بنیاد پر ہی کورونا کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سفر نے قوم کو مضبوط اور پراعتماد بنا دیا ہے۔ وہ اب کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔ جس میں صحت عامہ کے کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کی تیاری بھی شامل ہے۔

تبصرے بند ہیں۔