کٹھوعہ: نیا قانون اور بی جے پی کا دیوالیہ پن

ڈاکٹر عابد الرحمن

 کٹھوعہ میں ہوئی انتہائی شرمناک اور دلدوز واردات پر پورے ملک میں ہوئے احتجاج کے بعد حکومت ہند نے بچوں کی جنسی ہراسانی کے معاملات کی روک تھام کے لئے پہلے سے موجودقانون میں ایک آرڈیننس کے ذریعہ ترمیم کرتے ہوئے سزائے موت کی تجوویز کردی ہے۔ لیکن سوال ہے کہ جس ملک میں اس طرح کے معاملات میں جرم ثابت ہونے کی شرح محض پچیس فیصد ہو کیا وہاں کوئی نیا قانون اس شرح کو بڑھا سکتا ہے؟جہاں ہر ظلم کوسیاسی اور مذہبی عینک سے دیکھا جاتا ہو، کیا وہاں صرف قوانین انصاف دلا سکتے ہیں ؟جس ملک میں لوگ قومی پرچم اور مذہبی و دیش بھکتی کے نعروں کے ساتھ ملزمین کے حق میں احتجاجی مظاہرے کریں کیا وہاں محض قانون بنا لینے سے مسئلہ حل ہوسکتاہے؟جس ملک میں قانون کے نفاذ کا اہم جز وکلاء ہی خود اسے سبوتاژ کریں کیا وہاں سخت سزاؤں کا تعین یقینی ہو سکتا ہے؟ جس ملک میں سیاسی اور انتظامی بنیادوں پر چھوٹ ملنے کی امید میں تفتیشی ایجنسیوں کی تبدیلی کی مانگ ہو کیا وہاں قانون کی کوئی اوقات ہوسکتی ہے؟جس ملک میں انتہائی شرمناک سانحات پر بھی سیاست ہواور اس میں خود وزراء اورحکمراں جماعت کے لوگ شامل ہوں اور حکومت ان پر کا رروائی کر نے کی بجائے الٹ انہیں نوازے کیا وہاں سخت قوانین سے کوئی امید رکھی جاسکتی ہے؟جس ملک میں خود قانون کے رکھوالے واہد مٹانے کا کام کریں کیا وہاں قانون موثر ہو سکتا ہے ؟جس ملک کا وزیر اعظم معصوم بچیوں کے ریپ اور قتل کے دلدوزواقعات پر بھی کافی وقت خاموش رہے اور بولے بھی تو روایتی انداز میں صرف بول دے کسی عملی کارروائی کاکوئی اشارہ کرے اور نہ ہی اس طرح کے واقعات پر سیاست کر نے والے اپنے حواریوں کی مذمت کرے کیا اس ملک میں قوانین میں تبدیلی اور سخت سزائیں مقرر کر نے سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟

نہیں ! محض سزاؤں کی تجویز سے ایسا نہیں ہوسکتا جب تک قانون کا بے لاگ نفاذ اور انصاف کی مکمل، غیر جانبدارانہ اور تیز ترین فراہمی یقینی نہیں بنائی جاتی۔ اور اس کے لئے ضروری ہے اخلاص اخلاق احساس اور سیاسی جراٗت۔ لیکن ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ نہ ہمارے سیاستدانوں میں اخلاص و اخلاق نام کی کوئی چیز ہے نہ عوام کو احساس ہے اور نہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والی مشنری میں جراٗت ہے۔ عدلیہ کا معاملہ ٹھیک ہے لیکن سیا سی حکمراں اور ان کی زیر دست سرکاری مشنری عدلیہ کو بے وقوف بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتی جس کی وجہ سے تاریخ پہ تاریخ کا وہ چکر چلتا ہے کہ انصاف بستر مرگ پر پہنچ جاتا ہے۔ اب تو پچھلے کچھ دنوں سے عدلیہ کی ساکھ بھی مجروح ہوتی نظر آرہی ہے یعنی قوانین بنانے کے سلسلے میں ہمارا ملک جتنا تیز ہے ان قوانین کے نفاذ اور انصاف کو یقینی بنانے کے معاملہ میں اتنا ہی سست بھی ہے۔ وطن عزیز میں ہے ہر ہر معاملہ کو سیاسی عینک ہی سے دیکھا جاتا ہے، عوام اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو سیاسی پارٹیاں اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرلیتی ہیں اور عوام بہت آسانی سے ان سیاسی لوگوں کے جال میں پھنس کر بے وقوف بن جاتے ہیں اوراگر ملزم اور اسکے شکارمیں مذہب کا فرق ہو یعنی دونوں میں کوئی ہندو اور کوئی مسلم ہو تو پھر اس میں سیاست فرقہ واریت کی آگ لگا دیتی ہے، جس کی وجہ سے انتہائی حساس معاملات بھی کسی بہتر انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔

کٹھوعہ کی جس شرمناک واردات کے بعد مذکورہ آرڈننس آیا اس میں یہی ہوا۔ اس میں تو خاص طور سے بی جے پی نے اوپر سے نیچے تک اخلاص اخلاق احساس جراٗت اور حکمرانی کی ذمہ داری، ہر اعتبار سے دیوالیہ پن کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ اس معاملہ میں ایک تنظیم ہندو ایکتا منچ نے ملزمین کی حمایت میں قومی پرچم ترنگا لے کر بھارت ماتا کی جئے اور جئے شری رام کے نعروں کے ساتھ احتجاج کیاجس میں بی جے پی کے دو صوبائی وزراء اور علاقے کا ایم ایل اے بھی شامل ہوئے جس کی اشتعال انگیز تقریر کا ویڈیو بھی وائرل ہوا، یہی نہیں ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ نرمل سنگھ نے بی جے پے کے دونوں وزراء سے صفائی طلب کر نے کی بات تو کی لیکن اپنی ہی پولس پربے قصور لوگوں کو ہراساں کر نے کا الزام بھی لگایا۔ کچھ دن بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ مقرر ہوئے نئے نائب وزیر اعلیٰ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ کٹھوعہ واقعہ معمولی ہے جس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔

حالانکہ بعد میں اسکی صفائی دی کہ ان کا مطلب ہے کہ ’اس طرح کے اور بھی واقعات ہیں اور ہمیں عدلیہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور کٹھوعہ کے سے اقعات دوبارہ نہیں ہونے چاہئے‘ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ موصوف کا مطلب یہی تھا بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی سماجی اور سیاسی فکر ہے جو ان کی زبان پر آگئی، ہمیں لگتا ہے کہ یہاں ان کا مقصد وہی ہے جو ۳مئی کودی وائر میں مانش فراق بھٹاچارجی لکھا ہے جس کا بین السطور یہ ہے کہ وزیر موصوف نے اس سانحہ کو چھوٹا اس ضمن میں کہا کہ جس معصوم کے ساتھ یہ پیش آیا اسکی کمیونٹی چھوٹی ہے اول تو مسلم ہے جو پورے ملک میں اقلیت میں ہیں اور دوسرے اس مسلم اقلیت کابھی چھوٹا سا گروہ ہے اور جن لوگوں نے اس پر ظلم کیا ہے وہ ہندو ہیں جو پورے ملک میں اکثریت میں ہیں سو ایک چھوٹے سے اقلیتی گروہ کے کسی فرد کے ساتھ پیش آنے والا کوئی واقعہ اس قابل کیسے ہوسکتا ہے کہ اس سے اکثریت کے اس دیش کو کوئی فرق پڑے۔ اور یہ سب بھی ہنداکثریت کے سماجی سیاسی اور جغرافیائی اثاثے کو بچانے کے مقصد سے کیا ہے، سو اسے بھاؤ دینے کی کیا ضرورت ہے؟

اسی طرح مرکز کے ایک وزیر موصوف نے کہہ دیاکہ اتنے بڑے دیش میں اس طرح کے ایک دو واقعات ہو جائیں تو اسکا بتنگڑ نہیں بنانا چاہئے۔ شاید انہیں معلوم نہیں کہ پچھلے سال کے ریکارڈس کے مطابق ملک میں ہر روزاس طرح کے 106 واقعات ہوتے ہیں جن میں ہر دس میں سے چار مظلو م چھوٹی بچیاں ہوتی ہیں اور اسی لئے گلوبل پیس انڈیکس نے وطن عزیز کو عورتوں کے معاملہ میں سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر رکھا ہے۔ مگربی جے پی لیڈران کو ریکارڈس اور حقائق کی کبھی کوئی پروا نہیں رہی اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے کچھ بھی کہہ دیناان کی عادت ہے۔ اس معاملہ میں مودی جی کا ردعمل بھی ہمیشہ کی طرح پیسنجر ٹرین کا سا لیٹ اور رسمی رہا بلکہ ایسا لگا کہ اس معاملہ میں وہ بالکل بولنا نہیں چاہ رہے تھے لیکن عوام نے سیاسی لوگوں کی فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر جو پرزور احتجاج کیا اس نے مودی جی کو بولنے پر مجبور کیا،اس ضمن میں انہوں نے یہ تو کہہ دیا کہ’ میں دیش کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ خاطی چھوڑے نہیں جائیں گے ہماری بیٹیوں کو یقینی طور پر انصاف ملے گا‘ لیکن نہ انہوں نے کٹھوعہ میں ہوئی شرمناک واردات کا خصوصی ذکر کیا اور نہ ہی اس معاملہ میں ملزمین کی حمایت میں بی جے پی ممبران اور ان کے حواریوں کے ذریعہ کئے گئے احتجاج کی مذمت کی، کٹھوعہ کا معاملہ غیر معمولی ہے، یہ کوئی روایتی ریپ اور قتل کا معاملہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ گھناؤنا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اس معاملہ کی چارج شیٹ کہتی ہے کہ یہ معاملہ منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا گیا تاکہ مسلم بکروال کمیونٹی کو خائف کر کے جموں کے علاقے سے نکل جانے پر مجبور کیا جا سکے اوراس معاملہ میں ملزمین کے حق میں جو احتجاج ہواوہ بھی شاید اسی لئے ہوا کہ یہ فرقہ وارانہ سیاست کر نے والوں کی سیاست کے عین مطابق ہوا۔

مودی جی نے لندن میں کہا کہ اس طرح کے معاملات پر سیاست نہیں ہونی چاہئے، بے شک اس طرح کے معاملات سیاسی اور مذہبی صف بندیوں سے اوپر اٹھ کر انسانی مسائل کے طور پر دیکھے جانے چاہئے لیکن یہاں بھی مودی جی کی منافقت عیاں ہو گئی کہ انہوں نے اس معاملہ میں سیاست کرنے والے اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف کوئی کارروائی تو دور ایک لفظ بھی نہیں کہا الٹ انہیں نوازا۔ ایک طرف ملزمین کی حمایت میں ہندو ایکتا منچ کے احتجاج میں شامل ہوئے دو وزراء سے استعفیٰ لینے کا نا ٹک کیا اور دوسری طرف اسی احتجاج میں بکروال برادری کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے اور معصوم بچی کے ریپ اور قتل کو جائز ٹھہرانے والے ایم ایل اے کوصوبائی کابینہ میں شامل کروادیا، حاکم وقت کی یہ منافقت کسی بھی قانون کے نفاذ اور کسی بھی سخت ترین سزاکی بجاآوری کے راہ کا سب سے بڑا روڑہ ہے۔ اس معاملہ میں بھی سمجھئے عوام بے وقوف بن گئی اور شاطر سیاستداں جیت گئے، لیکن اس طرح کہ ان کا ہمہ گیر دیوالیہ پن روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔