کہانی اپنے ہندوستان کی: قسط (6)- طلسم کدہ

رمیض احمد تقی

Rameez
ہمارے ملک ہندوستان میں واقعات، سانحات اور حادثات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں، آزادی کے بعد سے آج تک اگر صرف ان واقعات کو شمار کیا جائے جن سے ملک اور بیرون ملک میں ہندوستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے، تو بھی وہ واقعات اور سانحات اتنے زیادہ ہیں ، کہ ان کوتحریر میں قید نہیں کیا جاسکتا اور ان واقعات میں کوئی بس اکسیڈنٹ اور سڑک کا حادثہ شامل نہیں ہے ،یہ تو وہ واقعات ہیں جن سے انسانیت شرماگئی،بلکہ ان میں ان انسانوں کے سامنے شیطانوں کو بھی اپنی کم تریں کااحساس ہو نے لگا ،انسانی قہرمانی کی اس آگ نے کوئی ایک گھر، کوئی ایک خاندان، کوئی ایک گاؤں تباہ نہیں کیا، بلکہ پورا کا پورا علاقہ پل بھر میں آگ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ۔ ایسے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے، بلکہ شمار سے باہر ہے،چنانچہ ایف ڈاٹ انڈیا کی رپورٹ کے مطابق وہ واقعات جن میں سو سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے اورسیکڑوں بے خانماں ہوئے، تو1967 سے لے کر 2002 کے درمیان ان کی تعداد سترہ تھیں، جن میں گجرات ، بنگلور، نیلی آسام اور مرادآباد میں دو ہزار سے زائد اموات ہوئیں،ان میں سے9 فرقہ وارانہ فسادات تو کانگریس اور اس سے ملحق دوسری پارٹیوں کے دورِ حکومت میں ہوئے، تین صدر راج میں اور چار دیگر دوسری پارٹیوں کے وقت میں ہوئے ، جبکہ بی جے پی کے دورِ حکومت میں صرف ایک فرقہ وارانہ فسادہوا،’مگر سو سونار کا ایک لوہار کا‘ بی جے پی کے دورِ حکومت میں برپا کیا جانے والا گجرات فساد ان سب میں سب سے زیادہ المناک ،دردناک اور انسانیت سوز تھا جو2002 میں مودی جی کے دورِ حکومت میں برپا کیا گیا تھا۔Amnesty International اور Human Rights Watch کی رپورٹ کے مطابق 2005 سے 2009 تک ہر سال تقریباً130 لوگ فرقہ وارانہ فساد ات میں مارے گئے ۔ان کے علاوہ چھوٹے موٹے ایسے بے شمار واقعات اور سانحات آئے دن آزاد ہندوستان میں ہوتے ہی رہتے ہیں، بلکہ گذشتہ صرف دو سالوں میں جب سے سینٹرل میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے، تو ایک تحقیق کے مطابق ہر دو سرے اور تیسرے مہینے میں پورے ملک میں کوئی نہ کوئی فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کی ضرور کوشش کی جاتی ہے اور پھر کسی نہ کسی معاملہ کی آڑ میں اس واقعہ کو بھلادینے کی ناکام سعی بھی کی جاتی ہے۔
ان واقعات کے اسباب وعلل کیا ہیں ،ان میں کون پیش پیش رہتے ہیں، کیا ایسا شخص ہندوستانی قانون کی نظر میں مجرم ہے اور اگر مجرم ہے تو اس کی کیا سزا ہے ؟کیا اس کا جرم واقعی اس قابل ہے کہ اس کو پھانسی دی جائے ؟توان فسادات کی سب سے بڑی وجہ ہماری گندی سیاست اور ناخواندہ اور شرپسند سیاست داں ہیں،جو اپنی روٹی سیکنے میں عوام کی روٹی جلانے کا کام کرتے ہیں ،Death Penalty Research Project of the National Law University (NLU)کی رپورٹ کے مطابق 1947 کے بعد سے اب تک ملک میں تقریباً 1,414 لوگوں کو پھانسی ہوئی ہے ، مگرطرفہ کی بات یہ ہے کہ ان فسادات میں جو لوگ مارے گئے ہیں ،جن بے قصوروں کا ناحق خون بہاہے، جن کی بہو بیٹیوں کی عزت وآبرو کو سرِ عام نیلام کیا گیاہے،ان 1,414 مجرموں کی فہرست میں سے کوئی بھی فسادی مجرم تھا ؟حالانکہ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے تحت قاتل کی سزا موت ہے اور ہندوستانی سپرم کورٹ کے مطابق صرف شاذ ونادر معاملات ہی میں پھانسی ہوسکتی ہے، ورنہ تو پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوتی ہے ،مگر سوال اب بھی وہی باقی ہے کہ ہماری عدلیہ نے اب تک کتنے فسادی مجرموں کے لیے سزائے موت یا عمر قید کی سزا کا اعلان کیا ہے، حالانکہ آئینِ ہندکے مطابق قاتل سزائے موت کا مستحق ہے اور فسادات میں کوئی ایک آدمی قتل نہیں کیا جاتا، بلکہ بلا امتیاز جوان بوڑھا اور بچے سب کا سب بے دردی سے قتل کیے جاتے ہیں اور عورتوں کی عصمتیں لوٹ لی جاتی ہیں ، انہیں مثلہ کرکے ماردیا جاتا ہے، مگر پھر بھی ان قاتلوں کو ہمارے ملک میں مجرم ثابت نہیں کیا جاتا، بلکہ جو مجرم بھی ہوتا ہے اسے کلین چیٹ دے دیا جاتا ہے ، یا پھر اسے ہی جج اور حاکم بنا دیا جاتا ہے اور ان سے انصاف کی تمنا کرنا آگ سے ٹھنڈک کی امید کرنے کے مترادف ہے۔
آج تک یہ بات کبھی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ جب کوئی ملک میں بم دھماکہ کرکے بے قصور لوگوں کے جسم کا چتھڑا اڑادیتا ہے، تو اس کو ہماری حکومت دہشت گرد قرار دے کر اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیتی ہے، مگر جب کوئی انسان یا کوئی جماعت پوراکا پوارا گاؤں آگ کی نذر کردیتا ہے، بچوں کو زندہ آگ میں ڈال دیتا ہے، نوجوانوں اور بوڑھوں کو گاجر مولی کی طرح تہہ تیغ کردیتا ہے ، عورتوں کو بے آبرو کرتا ہے، ان کی چھاتیاں کاٹ کر دروازے سے لٹکا دیتا ہے، تو پھر ان کو سزائے موت کیوں نہیں؟ ممبئی بلاسٹ میں تو صرف 260 بے قصور لوگ مارے گئے تھے اور تقریباً 700لوگ زخمی ہوئے تھے ، جبکہ مرادآباد، بنگلور ، گجرات، نیلی آسام اور مظفر نگر فسادات میں تو دسیوں ہزار لوگ قتل کیے گئے ، بے شمار زخمی ہوئے ، ممبئی بلا سٹ کے مجرم کے گلے میں پھانسی کا پھندا اور ان فسادیوں کے گلے میں گیندے کا پھول کیوں؟ توبہت ممکن ہے کہ رِشیوں کے اس ملک میں ہنوز ان کے کچھ شیاطین مرید باقی رہ گئے ہوں ، جن کی اس وقت اچھی تربیت نہیں ہوئی ہو؛چونکہ تباہی واتھل پتھل مچانا توشیاطین کی شرست میں داخل ہے،لہذا کبھی ان کی طبیعت میں جولانی پیدا ہوئی ، تو کسی گاؤں کو اجاڑ دیا، لوگوں کو ماردیا اور مسجدوں کو زمین بوس کردیا اور ظاہر سی بات ہے کہ جب مجرم مجسم ہے ہی نہیں تو اس کو گرفتار کیسے کیا جائے؟ اوریہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں دوبرادری کے لوگ صدیوں سے شاداں وفرحاں رہتے چلے آرہے ہیں ، پھر اچانک وہ آپس میں خون کی ہولیاں کیوں کھیلنے لگ جاتے ہیں؟ تو یہ بھی ان ہی شیاطین کا کرشمہ ہے جو انسانی لباس میں ملبوس ہوکر پہلے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت ڈالتے ہیں، پھر انہی کا روپ دھارن کرکے ایک برادری کا قلع قمع کرکے روپوش ہوجاتے ہیں اور جب ہماری تفتیش کار ٹیم وہا ں پہنچتی ہے ، تو معلوم ہوتا ہے کہ جن کے خلاف شبہ کیا جارہا تھا، وہ تو ایک مہینہ سے گاؤں میں نہیں ہے ، ظاہر سی بات ہے کہ جب ایک شخص موقعۂ واردات پر موجود ہوہی نہیں تو اس کو مجرم گرداننا کہاں کی دانش مندی ہوگی، ہندوستان اب مکمل طور پر طلسم کدہ بن گیا ہے، جہاں انسان کم جن بھوت اورپریت زیادہ آباد ہیں اور بھلائی وانصاف کی امید تو انسانوں سے کی جاسکتی ہے نہ کہ شیطانوں سے۔
آج ڈیجیٹل اور میک ان انڈیا کی بات کی جاتی ہے، مگر ظلم کی بنیاد پر استوار کیا گیا تاج محل کب تک لوگوں کی توجہات کا مرکز بنا رہے گا،جس کے درودیوار سے انسانی خون رس رہے ہوں، تو ایک دن خون سڑ کر فضا کو تو متعفن کرے گاہی ،ہمارے آزاد ہندوستان کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی ،بلکہ ان فسادات سے پرے ملک میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں ایک مظلوم خاندان آزاد عدلیہ سے انصاف کی امید میں ایک ایک کرکے دنیا سے رخصت ہوگئے اور ان کوانصاف نہیں ملا، آج بھی اس آزاد ملک میں کروڑوں لوگ انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں،مگر انہیں انصاف کب ملے گا، یہ تو ہماری عدلیہ کو بھی پتہ نہیں، جس ملک میں اس قدر مظلوم آباد ہوں ، جن کی آہیں ملک کے کونے کونے میں بھری ہوں، ایسے میں ڈیجیٹل اور میک ان انڈیا کا خواب کیوں کر شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے ، ہندوستان کی عمارتیں ہندوستانیوں پر استوار ہے اور جب ستون ہی کمزور ہو تو مکان خوشنما ہونے کے باوجود کیا دیر پا ہوسکتا ہے؟؟؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔