کہانی اپنے ہندوستان کی: قسط(10) -تاریخی پس منظر

Rameez

ہندوستان کی تاریخ بہت قدیم ہے؛ بلکہ حضرتِ انسان نے اس کار گہہِ حیات میں جس سرزمین پر اپنی آنکھیں کھولی تھیں ، وہ ہندوستان ہی تھا، دنیا کا یہ ایک ایساواحد ملک ہے ، جو روزِ آفرینش سے اب تک مسلسل تاریخ کی نظروں کا طالب رہا ہے ، تاریخ نے اس کے دامن میں بے شمار گلہائے رنگا رنگ کھلائے اور عظمتِ رفتہ کے ساتھ اس کی مختلف تہذیب وثقافت کو بھی اپنے دامن میں محفوظ کیااور کبھی اس کی تاریخ لکھتے لکھتے واقعات و حادثات کی بادِ صرصر میں خود فضا میں قلابازیاں کھانے لگتی اورایک لمحہ کے لیے عالمِ انسانی میں اس کی تاریخ دھندلی پڑجاتی،تبھی اس کی گود سے پھوٹنے والی بہشتی درخت کی تیز خوشبو عالمی سیاحوں اور تجاروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی اور وہ دریاؤں اور سمندروں کی لہروں کو چیرتے ہوئے اس کی طرف بڑھتے، اس کی غبار آلود تاریخی صفحات کو صاف کرتے اور دنیا والوں کو اس کے وجود کا آئینہ دکھاتے؛جیسا کہ یہ مشہور ہے کہ’ واسکو ڈی گامہ’ نے کبھی اپنے کسی بحری سفر میں ہندوستان کو دریافت کیاتھا ، تاہم قدیم ہندوستانی تاریخوں کے مؤرخین کے مطابق ہندوستانی تہذیب وثقافت کا ثبوت 2,300 سال قبل مسیح سے ملتا ہے ، بلکہ جو لوگ انسانوں میں ارتقاکا عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان بتدریج جانور سے انسان بناہے ، تو اس کی تاریخ تقریباً پانچ لاکھ سال پرانی ہے، البتہ جو لوگ انسانوں میں عدمِ ارتقا کے قائل ہیں ، تو ان کے باوصف ہندوستان میں انسانوں کا ثبوت پچہتر سو سال سے ملتا ہے ،لیکن اسلامی مؤرخین کے مطابق ہندوستان میں انسانوں کی تاریخ ‘حضرت آدم علیہ السلام’ سے شروع ہوتی ہے ؛ کئی روایتوں میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ تاریخِ انسانی کا اول ترین انسان’ حضرت آدم علیہ السلام’ کو جنت سے اسی سرزمین کی طرف اتارا گیاتھا اور اس اعتبار سے یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ سرزمینِ ہندپر پہلا انسان بھی وہی تھے، جہاں تک واقعۂ مذکورہ کی صحت کی بات ہے ،تو وہ روایتیں اس کی تائید کرتی ہیں، گرچہ وہ روایات اپنی مرویات کے اعتبار سے ضعیف ہیں ،تاہم اتنی بھی ضعیف نہیں ہیں کہ ان کو دلیل نہ بنایا جاسکے۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ‘ السدی’  کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: "وقلنا اھبطوا”(اور ہم نے کہا کہ نکل جاؤ)میں حضرت آدم وحوا کے جنت سے نکل جانے کوبتایا گیا ہے، سو وہ ہندوستان میں اتارے گئے،حجرِ اسود اور مٹھی بھر جنتی درخت کی کچھ پتیاں بھی ان کے ساتھ آئیں، انہوں نے ان پتیوں کو ہندوستان میں بکھیر دیا، جن سے خوشبو کے درخت اگ آئے اور آج ہندوستان میں جس مقدار میں عود وغیرہ کی کھیتی ہوتی ہے وہ در اصل دادا آدم کے ہاتھوں سے بکھیرے گئے ان پتیوں کا کرشمہ ہے جو وہ جنت سے لائے تھے”۔بہرِ کیف یہ ایک لاریب حقیقت ہے کہ اس دنیا میں کسی سرزمین کی صحیح تاریخ، اس میں وقوع پذیر واقعات، حالات اور حادثات کاصحیح علم تو کائنات کے تخلیق کار ‘اللہ تعالیٰ’ ہی کے پاس ہے، البتہ جہاں تک مؤرخین اپنی تحقیق وجستجو کی لگام کو ڈھیل دے سکے ، اسی حد تک کسی ملک وملت کا جغرافیہ یا اس کی تاریخی حیثیت طے کی جاسکتی ہے ، چنانچہ قدیم ہندوستان کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، بلکہ اس کی ماقبل تاریخ کو بھی Palaeolithic Period, Mesolithic Period, Meolithic Period, Chaleolithic Period جیسے عہد میں بانٹاگیا ہے ، اس کے بعدکے عہد: 2500-1750 قبل مسیح (BC) کوIndus Valley Civilisation سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ 1500-1000 قبل مسیح کو ویدک عہد اور 1000-500 قبل مسیح کو جدید ویدک عہد کا نام دیا گیا ہے، تووہیں563 اور600 قبل مسیح میں بودھ اور جین مذہب کی بنیاد پڑی اور پھرہندوستانی سیاست اور سماج میں ان دونوں مذاہب کاخوب عروج رہا اورپھر 73- 300قبل مسیح تک مورین اور سنگا خاندان سمیت کئی خاندان سلاطین وراجہ نے ہندوستان کی پشت پر اپنی اپنی حکومت اور بادشاہیت کی میخیں گاڑیں اوریہ ایک حقیقت ہے کہ برِ صغیر کے زیادہ تر حصے موریا سلطنت کے زمانہ میں ہی فتح کیے گئے اور پھر تقریباً1857 عیسوی تک الگ الگ رنگ و نسل اور مذہب ومشرب کے لوگوں نے اس ملک پر اپنی اپنی حکومت کا سکہ جڑا۔
جہاں تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور پھر اس سرزمین پران کی حکومت کرنے کا سوال ہے، تو انفرادی طور پر ہندوستان میں اسلام اپنی ابتدا ہی میں پہنچ گیا تھا،کیونکہ عرب اور ہندوستان کے درمیان صدیوں سے تجارتی تعلقات قائم تھے اور جب حجاز میں اسلام کی پو پھٹی تو اس کا عکس ہندوستان پربھی پڑا، چنا نچہ جب کفارِ مکہ نے آپ ﷺ سے شق القمر کا معجزہ طلب کیاتھا ، جس کے باوصف چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے؛ روایتوں میں آتا ہے کہ معجزہ کے بعد کفارِ مکہ حیل وحجت کرنے لگے ، بلکہ نعوذباللہ کچھ لوگوں نے تو اس واقعہ کو آپ ﷺ کا جادو کہا ،لیکن جب تحقیق ہوئی توپتہ چلا کہ اس واقعہ کو ملاحظہ کرنے والے صرف مکہ کے لوگ ہی نہیں تھے ، بلکہ پوری دنیا میں بے شمار لوگوں نے اس منظر کو دانستہ وغیر دانستہ دیکھا تھا، بلکہ خود جنوب ہند مالابار کے بادشاہ’ چکراوتی فامس’ کو شق القمر کا وہ معجزہ دیکھنا نسیب ہوا، تو واقعہ کی تحقیق کے بعد وہ مکہ مکرمہ آپ کی خدمت میں جاکر مشرف بہ اسلام ہوااور پھر نبی اکرم ﷺ کی ہدایت کے مطابق جب وہ واپس ہندوستان لوٹ رہا تھاکہ راستے میں یمن کے ظفر ساحل پر اس کا انتقال ہوگیا، یمن میں اب بھی اس کی قبر موجود ہے ، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ’ ہندوستانی راجہ کی قبر ہے’ ، راجہ کی موت پر مالابار کی اس کی عوام نے بھی اسلام قبول کرلیا، اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ آغازِ نبوت ہی میں اسلام ہندوستان میں پہنچ چکاتھا اور عربوں کی پوری زندگی چونکہ تجارت ہی پر منحصر تھی اور مکہ میں اسلام آنے کے
بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں تھا، بلکہ پہلے ہی کی طرح تجار جوق در جوق ہندوستان کا رخ کرتے اورسامانِ تجارت فروخت کرتے اور واپس لوٹ جاتے، چونکہ ہندوستانی ساحلوں ہی سے گذرکر عرب چین وغیر کا سفر کرتے تھے، اس لیے ساحلی علاقوں میں اسلام پہلے پہنچا اوررفتہ رفتہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی، حضرت عثمان کے عہدِ خلافت میں تو باضابطہ مبلغین نے ہندوستان کی سرزمین کی طرف قصد کیا تھا اور ساتویں آٹھویں صدی عیسوی تک تو تقریباً تمام ساحلی علاقہ اور ان کے قرب وجوار کے کئی صوبوں میں اسلام پہنچ چکاتھا ، بلکہ 711 عیسوی میں جب سندھ کا راجہ داہر نے مسلمانوں کی کشتی اغوا کرکے عورتوں کی عزت پر ہاتھ ڈالنا چاہا، تو خلیفۃ المسلمین ابوالولید عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کی سفارش پر ایک نو عمر سالار’محمد بن قاسم ‘ کو اس بد بخت راجہ کی گوشمالی کے لیے سندھ ہندوستان بھیجا اورانہوں نے راجہ داہر کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی،توان کے خلقِ کریمانہ سے متأثر ہوکر بے شمار مردوعورت نے اسلام قبول کیا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہایہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں مسلمان بادشاہ خصوصاً ترکوں نے ہندوستان کو اپنی عمل داری میں لینے کا قصد کیا اور پھر ان ترکوں نے 1206 عیسوی میں سلطنت دہلی کی بنیاد رکھی اور چودھویں صدی کے اوائل تک شمالی ہند کے اکثر حصوں پر دہلی سلطنت کی حکومت دراز رہی۔ اس کے بعد سولہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کا وجود ہوا اور اس نے تقریباً دو صدی تک مستقل پورے ہندوستان پر حکومت کی، مگر اس حکومت کا انجام بہت برا ہوا، ان کی نااہلیوں کے باوصف انگریز ان پر غالب آگئے اور پھر تقریباً 1857 عیسوی میں ہندوستان سے مسلمانی حکومت کا خاتمہ ہوگیا، مگر انگریزوں کوبھی ڈیڑھ سو سال سے زیادہ اس سرزمین پر حکومت کرنا نصیب نہیں ہوا، مسلمانوں اور پھر برادرانِ وطن کی سعی مسلسل اور جد وجہد کے بعد 15 اگست 1947 کوہمارا ملک ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا اور پھر اس سرزمین کو دنیائے جمہوریت کا عظیم ترین جمہوری ملک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔