کہاں چراغ جلائیں ہوا ہے چاروں طرف!

حفیظ نعمانی

کروڑوں کان یہ سننے کے لئے لگے ہیں کہ پانچ محترم ججوں نے کیا فیصلہ کیا؟ اور فیصلہ متفقہ ہے یا پانچ میں اکثریت کے بل پر ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک سکریٹری فضل الرحیم صاحب کے نام سے ایک اور حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا ہے جس میں جدید اور مثالی نکاح نامہ کا یقین دلایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ نکاح پڑھانے والوں کو ایڈوائزری دی جائے گی کہ نکاح پڑھاتے وقت لڑکے اور لڑکی کو بتادیا جائے کہ طلاق ثلاثہ ناپسندیدہ فعل ہے۔

ہم کیسے مان لیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ان خبروں سے بے خبر ہے جو اس کی مخالفت میں مختلف حلقوں میں گشت کررہی ہے۔ دہلی کی جامع مسجد کے سرکاری امام مولوی احمد بخاری بورڈ کے اور ہمارے نزدیک جو بھی ہوں لیکن حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے نزدیک اتنی بڑی چیز ہیں کہ وہ جو بھی کہیں اسے شاہی امام کا فتویٰ اور فرمان کہا جاتا ہے اور الیکشن کوئی بھی ہو سیاسی پارٹیاں روپئے کے بریف کیس ان کے قدموں میں رکھتی ہیں اور حمایت میں بیان حاصل کرکے سمجھتی ہیں کہ مسلم ووٹ تو مل گئے۔ اور حکومت سمجھتی ہے کہ ان کا بیان 20  کروڑ مسلمانوں کا بیان ہے۔ اور کون بتاسکتا ہے کہ وہ سال میں کتنے نکاح پڑھاتے ہیں ۔ انہوں نے بورڈ کو توڑکر نیا بورڈ بنانے کے فتنہ کا بیج بودیا ہے۔ کیا وہ بورڈ کے کسی نکاح نامہ کی پابندی کریں گے؟

ایک طبقہ عارف محمد خاں اور جاوید اختر جیسے مسلمانوں کا ہے ان میں ایک سابق وزیر اور دوسرے راجیہ سبھا کے ممبر ہونے کے علاوہ بڑے شاعر بھی ہیں اور خود بھی فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ شبانہ اعظمی کے شوہر بھی ہیں ۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ طلاق ہونا ہی نہیں چاہئے۔ اور ہمارے ہندو بھائیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ہاں یہ نہیں ہوتا کہ کیسے ہندو ہیں ؟ بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہندو ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ مسلمانوں کی قسمیں ہوتی ہیں وہ سب کو مسلمان سمجھتے ہیں اور سب کی باتوں کا برابر وزن دیتے ہیں ۔مسلمانوں کا یہ طبقہ وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ان کا اعتراف ہی مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔ اور ان میں سے ہی ایک صاحب کا حال میں ایک مضمون آیا تھا انہوں نے طلاق ثلاثہ پر بات کرتے کرتے یہ تک کہہ دیا تھا کہ بورڈ میں اب کوئی عالم نہیں ہے اس لئے اسے ختم کردینا چاہئے۔

اب نکاح نامہ جدید ہو یا قدیم بورڈ کیسے سپریم کورٹ کو اطمینان دلائے گا کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ کرکے دکھائے گا۔ جبکہ نہ جانے کتنی آوازیں ایسی آئیں گی کہ مارکے بھگائو اس مولوی کو جو نکاح کے ساتھ ہی طلاق کا منحوس لفظ بھی منھ سے نکال رہا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ 70  سال کی آزادی کے بعد مسلم معاشرہ اب وہاں آیا ہے کہ سنبھل جیسے شہرمیں جہاں تین لاکھ سے زیادہ مسلم آبادی ہے اب لڑکیاں پی ایچ ڈی کررہی ہیں اور ڈگری کالج میں پڑھا رہی ہیں یہ وہ ہیں جو ہماری نواسیوں اور پوتی کی ہم عمر ہیں ۔ اور پورے سنبھل میں جو 80-70  برس کو چھو رہی ہیں وہ کتنے ہی علمی خاندان کی ہوں  صرف دینی کتابوں اور کلام پاک کی تفسیر تک ہیں ۔ اور دیہاتوں کا تو ذکر کیا شہروں میں ابھی پچیس برس لگیں گے جب یہ ماحول بنے گا کہ طلاق نامہ کے مندرجات بھی گفتگو کا حصہ بن سکیں گے۔ ابھی تو لڑکی اور اس کی ماں بہن کا کیا ذکر باپ کے آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے ہیں اور لڑکی کے منھ سے قبول کیا اب بھی نہیں نکل پاتا اس کی خاموشی کو رضامندی سمجھ لیا جاتا ہے۔

مرکزی وزیر قانون اتوار کے دن آج تک چینل پر میڈیا سے بات کررہے تھے مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ کسی چینل پر کوئی نظر نہیں آتا کہ وہ مسلمانوں کے طلاق کے مسئلہ میں بات کررہے تھے۔ کہنے لگے کہ کیسا ظلم ہے کہ تین سیکنڈ میں تین بار طلاق کہہ دیا اور ایک لڑکی کا اس گھر سے رشتہ ختم ہوگیا جسے اس نے برسوں سنوارا تھا اور جسے اپنی دنیا سمجھا تھا۔ یہ بات تو کوئی مسلمان ہی ان سے کہہ سکتا تھا کہ اور یہ رشتہ صرف دو سیکنڈ میں قبول کیا کہنے سے قائم ہو بھی تو گیا تھا؟ اسلام نے جتنا آسان رشتہ جوڑنا کیا ہے اتنا ہی آسان توڑنا بھی کیا ہے کیونکہ طلاق کا ماحول بھی مہینوں کی رسہ کشی کے بعد بنتا ہے۔

ہماری بڑی بیٹی کی شادی کی تقریب گونگے نواب پارک لکھنؤ میں ہوئی تھی ہمارے پڑوس میں سب پنجابی سندھی تھے اور سب سے اتنے اچھے تعلقات تھے کہ ان کے باہمی جھگڑوں میں فیصلہ کے لئے ہم بلائے جاتے تھے اور کسی کو شکایت نہیں ہوئی درجنوں عورتیں اور اتنے ہی مرد شریک تھے اور کام میں ہاتھ بٹا رہے تھے۔ جب نکاح شروع ہوا تو سب تخت کے ارد گرد آگئے اور ایجاب و قبول کے بعد ہم نے آواز دی کہ کھانا لگوائو تو کتنی ہی آوازیں آئیں کہ کیا وِواہ ہوگیا؟ ہمارے زنانے حصہ سے پارک پوری طرح نظر آرہا تھا۔ اور پارک کے چاروں طرف چھتوں پر بھی دیکھنے والیاں موجود تھیں نہ جانے کب تک یہ شادی موضوع بنی رہی کہ جنہوں نے نکاح پڑھایا وہ تو بے بی کے نانا تھے؟

بارات سنبھل سے آئی تھی اس لئے نکاح نامہ ہم نے منگوالیا تھا اس وقت بھی کئی طرح کے نکاح نامے بازار میں ملتے تھے۔ اب بورڈ جدید نکاح نامہ کا یقین دلا رہا ہے لیکن یہ کیسے یقین دلائے گا کہ پورے ملک میں جہاں مسلمان آباد ہیں یہی نکاح نامہ بھرا جائے گا؟ جبکہ گائوں میں نہ عالم ہوں گے اور نہ نکاح نامہ۔ پوربی یوپی، بندیل کھنڈ، پورا بہار اور بنگال کے مالدہ اور مرشد آباد جیسے بے انتہا پسماندہ اضلاع میں کیا بورڈ اپنی بات تسلیم کرالے گا؟ بورڈ اپنی بالا دستی چاہتا ہے اور بورڈ کے مخالفین چشمہ لگاکر انتظار کررہے ہیں کہ فیصلہ آئے اور وہ اسے پڑھ کر بورڈ کی مخالفت میں میدان میں آئیں اور حکومت آبرو باختہ نام کی مسلمان عورتوں کے ووٹ کے لئے دسترخوان سجائے بیٹھی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔