کہاں ہے میرا ہندوستان، میں  اس کو ڈھونڈ رہا ہوں!

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

ہندوستان کی ایکتا میں انکیکتا، قومی سبھیتا، بھائی چارہ، جمہوریت، سارے دھرموں کا احترام اور ان کی عزت، ملک کی سالمیت،  بھرشٹاچار سے مکتی، منو واد اور انسانوں سے نفرت کرتے تشددپسند سنگھیوں,سنکیوں اور ایسی سرکار سے جو جھوٹے وعدے، گھوٹالے، حق کا گلا گھونٹتی ہوں۔ جہاں سچ بولنے والوں کوموت کی نیند سلا دیا جاتا ہوں۔ (پانسرے، داِبھول کر، گوری لنکیش، ) جہاں گودی میڈیا، بکاؤ میڈیا، ضمیر فرش صحافی، ٹی وی چینلز وہی دکھاتا ہو جو ان کے سرکاری  آقاکہیں۔ جہاں عدالتوں کے فیصلوں اور ججوں پر اثر انداز ہوا جاتا ہو۔ جہاں پراسرار طریقے پر  جسٹس کی موت ہو جاتی ہیے۔ جہاں پولس حراست میں پرنسپل رضوان پنڈت کی موت ہو جاتی ہو۔ جن کی سر کار میں سپریم کورٹ کے ججز کا پینل چیف جسٹس کے کام کے طریقے سے مطمئن نہ ہو کر پریس کانفرنس کے ذریعہ اپنی بات پہنچاتے ہوں۔

نوٹ بندی سے ملک کی معیشت  پچیس سال پیچھے چلی جاتی  ہو اوراتنک واد کے صفائے کےدعوے  بے معنی ثابت ہو نے لگیں۔ مہنگائ  اپنے عروج پر ہو۔ پٹرول کے دام آسمان چھو رہیے ہوں۔ جہاں کسانوں کی فصلیں آوارہ گھومتی گایوں سے برباد ہورہی ہوں۔ گو رکشک ہی گاٰئیں سپلائی  کر رہیے ہوں۔ ملک کے راز بیچنے والے اکثریتی فرقے سے ہوں۔ جہاں پلوامہ پر انگلیاں اٹھائی جا نے لگے۔ بالاکوٹ  کے ثبوت نا کافی ہوں۔ کسان خود کشی کر رہے ہو ں۔ جہاں کے نیتا انسانی جانوں کو سستا اور پشو کی حتیا پر انسو بہا رے ہوں۔ مسلم خواتین کی ہمدردی میں مگر مچھ کے آنسو بہہ رہیے ہوں۔ طلاق بل زبردستی  تھوپا جارہا ہو۔ اقلیتوں کے مذہبی حقوق سلب کیے جا رہے ہوں۔ ۔ جہاں خون مسلم گلی کوچوں میں، ریل کے ڈبوں میں، کھیت کھلیان  میں، زندہ آگ کے شعلوں میں،  مندر کی اوٹ میں، کلہاڑی اور ترشول اور بھالوں سے ٹپکتا ہو۔ جہاں معصوم آصفہ کا مسلسل بالتکار اور مندر کے سایہ میں دیش کی معصوم بیٹی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہو اور درندے آزاد ہوں۔ نیتا با لت کاریوں کی حمایت میں کھڑے ہوں۔ جہاں بوڑھے پہلو خان، ، دادری کے اخلاق،  اسسی سالہ بزرگ زینل کو زندہ آگ کی نظر کر دیا گیا ہو۔

ایک لمبی فہرست ہیے ہجومی تشدد کی جو سیکڑوں بے قصورں، بے یار ومدد گار انسانوں کے خون سے لکھی گئی ہو۔ جہاں پاتال سے چند گھنٹوں میں ماسٹر مائنڈ  سامنے  آئے جاتے ہوں وہاں یونیورسٹی کا ہونہار طالب علم نجیب لا پتہ ہو جاتا ہو۔ اخلاق احمد ماپ لینچنگ میں اپنی جان سے جاتے ہوں۔ جہاں افرازول کو کھیت میں بلا کر کلہاڑیے سے قتل کر کے اس کی ویڈیو پھیلائ جاتی ہو۔ قاتل شمبھو ناتھ اقبال  جرم کر کے اپنے کیے پر فخر کرے، اس کی حمایت میں  لیڈران کھڑے ہوں، سیاسی پارٹیوں کے راہ نما ان کی پشت پناہی کریں۔ ۔ بیٹی پڑھاؤ،  بیٹی  بچاؤ، کا نعرہ لگانے والے قتل جنین کا ریکیٹ چلاتے ہوں۔ جہاں خون مسلم کی وقعت  کتے کے پلے سے کی جانے لگے۔ دو بزار مسلمانوں  کے قاتل بڑے نیتا جی بن کر آزاد گھومیں۔

سمجھوتہ ایکسپریس کے  ساٹھ معصوم  مسلمانوں کو کس نے مارا پتہ نہ چلے۔ اقبال جرم کرنے والے ثبوت کی کمی کو بنیاد بنا کر بم بلاسٹ  میں ملوث چھوٹ جائیں۔ بے بنیاد من گھڑت کہانی  کی بنیاد پر مسلم نوجوان بیسیوں سال جیل میں سڑاٰئیں جائیں۔ کیا اجمیر کی درگاہ، مکہ مسجد حیدرآباد، شب برات کے موقع پر مالیگاؤں  میں بم بلاسٹ ہو اور مسلمان ہی پکڑ کر جیلوں میں ٹھوس دیے جائیں۔ ملک کے15فیصد مسلمانوں  کے لیے  جسٹس رویندر سچر کمیٹی  کی سفارشات جو سرکار کو اقلیتوں کی منہ بھرائی  کا آٰئینہ دکھاتی ہو اسے سرد خانے میں  ڈال دی جائے۔ ان کی اقتصادی، تعلیمی، ترقیاتی منصوبوں پر  بجٹ میں رقم مختص  نہ ہو، جو طے ہو اس کا پچاس فیصد بھی خرچ نہ کیا جائے۔ رنگاناتھ مشرا کی سفارشات  نافذکرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس کی جائے۔ اقلیتوں  کے لیے ان کی زبان کی ترقی، ترویج واشاعت کے لیے ستر سالوں میں  کوئی یونیورسٹی  قائم نہ کی جاسکی ہو۔ ان کی بستیاں بنیادی سہولیات، اسکولوں، شفاء خانوں، پینے کے صاف پانی سے محروم ہو ں۔

دسیوں ہزار فرقہ وارانہ فسادات سے ان کی معیشت  کو تباہ  کیا گیاہو، ان کے مکانات جائے گئیے ہوں۔ جہاں میرٹھ، مرادآباد  ملیانہ، بھاگلپور، گجرات، مظفر نگر کے  بے قصور مسلمان انصاف  کی دہائ  دیتے ہوں اور بڑی تعداد میں جیلوں میں قید فیصلے کے منتظر ہوں۔

ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن

اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا

 مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں سب سے پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہو۔ جہاں سرکاری ملازمت میں ان کی حصہ داری نہ کے برابر کردی گئی  ہو۔ کلیدی عہدوں سے دور رکھا گیا ہو۔ پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں۔ ان کے مدارس شک کی نگاہ سے دیکھے جائیں اور اکثریت کھلے بندوں  ہتھیار چلانے کے  مراکز چلائیں، گاندھی جی کی تصویر پر گولیاں چلا کر اپنےتشدد پسند نظریہ کاا علان کرٰیں! گوڑسے کی جے کےنعرے لگائیں! پھر بھی دیش پریمی کہلائیں؟؟۔ ۔ ۔ ملک کی معیشت کو چونا لگانے والے کس طرح ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ہماری انٹلی جینس تماشائی بنی رہتی ہیے۔ کیا یوں ہی فرار ہو جاتے ہیں دیش کی معیشت کو  کمزور کرنے والے دیش بھگت۔ !! داغی اور بھرشٹاچاری اپنے عہدوں پربراجمان ہوں، توان کے سروں پرکس کا ہاتھ ہوتا ہیے؟؟؟  وہ کس کے سایہ عاطفت میں  پل بڑھ رہیے ہیں,؟؟؟۔ کیا ان میں کوئی  مسلمان ہے؟؟؟ کیا یہ مدارس کے عالم ہیں ؟، کس نے دیش کو لوٹا ہیے؟  سونے کی چڑیا، بھارت پر اتنا بھاری قرض کا بوجھ کون ڈال گیا؟؟؟

کس سے کس کو خطرہ  ہیے۔ عوام جواب  مانگتے ہیں .۔ انتخابات کا موسم ہیے ان کے سوالوں کا صاف ستھرا جواب دیجیے۔ ان سوالوں پر میڈیا  مباحثہ کرائے۔ ہمیں اس بھارت ورش کی تلاش ہیے جو اپنی مہمان نوازی، بھائی  چارگی، ملنساری، اہنساء، پیار ومحبت  کا عظیم سنگم تھا۔ جہاں نفرت کے لیے کو ئی  جگہ ہی نہیں تھی۔ سارے دھرموں، زبانوں، تیج تہواروں، دکھ درد میں سبھی ساتھ ساتھ ہوتے۔ میں ایسے بھارت کو ڈھونڈ رہا ہوں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔