کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد!

نایاب حسن

چنددن قبل میں اپنے چند احباب کے ساتھ رات کے کھانے اورچائے نوشی کے بعدٹہل رہاتھا اوراس دوران قومی سیاست کی مختلف جہتوں پرباتیں بھی ہورہی تھیں، دورانِ گفتگوایک صاحب نے بتایاکہ اِ ن دنوں اے بی پی نیوزپرآنے والاپنیہ پرسون واجپئی کاخاص پروگرام ’’ماسٹرسٹروک ‘‘جب بھی ٹی وی پرآتا ہے، تودرمیان میں باربارسگنل آتاجاتااورپورے پروگرام کے دوران’’قطع وبرید‘‘کاسلسلہ جاری رہتاہے،انھوں نے اس پراپنے شبہے کابھی اظہار کیا تھا کہ ہونہ ہو،پرسون کے اس پروگرام کوحکومت کے اشارے پرمتاثرکیاجارہاہو؛ کیوں کہ ابھی چندماہ قبل جب سے وہ اے بی نیوزمیں آئے تھے اور اپنا نیا پروگرام شروع کیاتھا، اس میں زیادہ ترملک کے بنیادی موضوعات ومسائل پرحقائق کی روشنی میں گفتگوکرتے ہوئے خاص طورپرمرکزی سرکاران کے نشانے پرہوتی تھی، ظاہرہے کہ جب قومی میڈیامیں دورچوبیس گھنٹے گائے اورگوبر، طلاق وحلالہ اورمسجدومندر کاکھیل کھیلنے کاچل رہاہو، توایسے میں معقول صحافت کی گنجایش کہاں رہ جاتی ہے! پھراس کے بعد ہم نے کسی فیس بک پیج پرایک ویڈیودیکھاکہ ایک شخص پریکٹکلی یہ دکھارہاتھا کہ پنیہ پرسون واجپئی کے پروگرام کے دوران کس طرح ٹی وی کاسگنل عالمِ نزع میں چلاجارہاتھا اوربالآخریہ خبربھی آہی گئی کہ پرسون واجپئی اے بی پی نیوزسے الگ ہوگئے یاکردیے گئے ہیں، جب وہ آج آفس پہنچے، توان سے کہاگیا کہ وہ اپناکام کرکے چلے جائیں، ممکن ہے کہ آج ہی ان کے شوکاآخری دن ہو۔

بہرحال وہ اپنامعمول کاکام نمٹا کردفترسے نکل گئے اوراس کے ساتھ ہی یہ خبرعام ہوگئی کہ انھیں کل سے آفس آنے سے روک دیاگیاہے، اس سے ایک دن قبل ہی کاواقعہ ہے کہ چینل کے مینیجنگ ایڈیٹرملندکھانڈیلکرنے استعفادیاتھا، اسی چینل میں ایک دوسرے بے باک ودوٹوک گفتگوکرنے والے صحافی واینکر ابھیسارشرماہیں، ان کے بارے میں بھی خبرہے کہ طویل رخصت پربھیج دیے گئے ہیں، گویاکچھ دن قبل این ڈی ٹی وی کونشانہ بنانے والاسرکاری جبر اب اے بی پی نیوزکے انصاف پسندایڈیٹران اورصحافیوں کوتختۂ مشق بنا رہاہے، فی الحال توہندوستان کے سیکڑوں چینلوں میں مشکل سے چندایک چینل اوران میں بھی دوچارصحافی ہیں، جنھوں نے واقعی قلم کی آبروقائم رکھی ہے اورخریدوفروخت کے عروج کے دورمیں بھی صحافت کاتقدس برقراررکھے ہوئے ہیں، مگرحاکمِ وقت یہ کیسے برداشت کرسکتاہے کہ اس کی سیاسی لغزشیں سرِ عام آشکارکی جائیں، حکومت کوتووہ چینلزاوران کے زرخرید اینکرز اور صحافت کے پردے میں سفاہت پھیلانے والے ناہنجارلوگ پسندہیں، جورات دن مودی مودی کے نعرے لگاتے، حکومت کی غلطیوں کوبھی درست ٹھہراتے،اس کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کووسعت دینے کے لیے گلے پھاڑپھاڑکرچلاتے اورناظرین کے ذہن ودل میں مذہبی انتہاپسندی کی سڑانڈپیوست کرتے ہیں۔

ہم نے کل ہی’’دکن کرانیکل ‘‘میں ایک رپورٹ پڑھی ہے کہ ہندوستان غربت کی شرح کے معاملے میں اپنے پڑوسی ملک پاکستان سے بھی گئی گزری حالت میں ہے، مگرقومی میڈیاپرایک نظرڈالیے، توایسالگتاہے کہ غربت تواس ملک کاکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے،دسمبر2010ء میں افریقی عربی ملک تیونس میں ایک ریڑھی والے سبزی فروش نے پولیس کی زیادتی کے خلاف احتجاجاخودکشی کرلی، تومیڈیا،بہ طور خاص سوشل میڈیاکی توجہ کی بہ دولت پوراملک ہل گیاتھا،قیامت خیزمظاہروں کا ایساطوفان آیا کہ دو عشروں سے زائدتختِ اقتدارپرقابض رہنے والازین العابدین بن علی سوکھے پتے کے ماننداس طوفان میں اڑگیا، مگرہمارے یہاں مہاراشٹرمیں صرف حالیہ چنددنوں کے دوران کم ازکم پانچ کسان اپنی غربت، بے چارگی اورحکومت کی بے حسی سے عاجزآکر خودکشی کرچکے ہیں، ایک کی توخودسوزی کی بھی خبرہے، مگرنیشنل میڈیامیں ڈسکشن کاموضوع دیکھیے تواس کاکہیں نام ونشان نہیں ہے، مظفرپورکاتازہ حادثہ بھی ہندوستان کے لیے عالمی شرمندگی وذلت کاسبب ہے، مگرنہ توبہارکے وزیرِ اعلی اس پرلب کھول رہے ہیں، نہ مودی نے ایک حرفِ مذمت کہا اور میڈیا کا تو خیر کہناہی کیا،خوداس معاملے کا مرکزی ملزم تین تین اخباروں کا مالک ہے، جبکہ قومی میڈیامیں اب تک راہل گاندھی کی جھپی پرمباحثے ہورہے ہیں اوراین آرسی کے نئے ڈرافٹ پرموٹابھائی ہندی سنیماکے ولن جیسے بول بول رہاہے۔

بہرکیف موجودہ تیرہ وتارہندوستانی سیاسی منظرنامے پرالیکٹرانک میڈیامیں چندہی ایسے چہرے ہیں، جنھوں نے اب تک برسرِ اقتدارقوتوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے انکارکیاہے، یہ حکومت نہ انھیں کیسۂ زرکے دام میں پھنساسکی ہے اورنہ سطوتِ شمشیرہی ان کی بے باکی پرلگام لگاسکی ہے، ظاہرہے کہ ہردورمیں ایسے لوگوں کی جمعیت بہت محدودہوتی ہے،یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جوقلم کی آب اورصحافت کاوقارہوتے ہیں، ان کے دم سے حق گوئی کی روایت کوتسلسل عطاہوتا اورحق نگاری کی رسم آگے بڑھتی ہے، یہ ضمیرکی آوازکوسنتے اور حالات کے جبرکوشکست دینے کاحوصلہ رکھتے ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات انصاف، سچائی، حق پرستی وحق پژوہی کودبانے سے عبارت ہیں، ایسے میں ہراس فرد یاادارے کا زیرِ عتاب آنایقینی ہے، جس کے سرمیں حق اورسچ بولنے کاسوداسمایاہواہے، یہ وہ دورہے کہ جس میں سنگ وخشت مقیداورسگ آزادہیں، یہ دریدہ دہنوں کے بدن دریدہ ہونے کا دور ہے، ہونہ ہوکہ کشیدہ سری پراصرارکرنے والے سپردِ دارورسن کردیے جائیں، مگربہرکیف ایسے جنوں پیشہ گروہ کاوجودضروری ہے، کہ یہی گروہ حکومتِ وقت کی ایذا رسانیوں کوعالم آشکارکرکے اس کی ستم ایجادیوں کاحصارتوڑسکتاہے؛ لہذاحلقۂ صحافت میں جوسنجیدہ لوگ ہیں یاسماج کے دیگرطبقات کے حقیقت پسند وحق گو افراد،سبھوں کواس بدترین غیراعلانیہ ایمرجنسی کے خلاف سینہ سپرہوناچاہیے، سلطانیِ جمہور کے موجودہ دورمیں اگرحاکم طبقہ میڈیاکواپنے قابومیں کرلے یااسے خریدلے یااس کے حقیقت بیانی کے حق کودبانے میں کامیاب ہوجائے، تویہ متعلقہ قوم، ملک اورجمہوریت کے لیے انتہائی شرم وذلت کی بات ہے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔