کیامسلم میڈیا کا امکان ہے؟

محمد انس فلاحی سنبھلی

اب یہ کہنے اور یہ عذر پیش کرنے کی بات تقریباختم ہو چکی ہے یا کردینی چاہیے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا میڈیا نہیں ہےاپنا کوئی نیوز چینل نہیں ہے،جس کے ذریعے وہ اپنی بات پہنچا سکیں، اسلام پر اعتراضات کا جواب دے سکیں۔کیونکہ اب الیکٹرانک میڈیا کا متبادل  ’’سوشل میڈیا ‘‘موجود ہے۔جس کے ذریعے اپنی بات رکھی جا سکتی ہے، کہی جاسکتی اور منوائی جاسکتی ہے۔نیٹ کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اب دھیرے دھیرے ’’سوشل میڈیا ‘‘نے الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ اہمیتحاصل کرنا شروع کردی ہے۔

دنیا میں انٹرنیٹ کے صارفین کی تعداد 4.021 بلین ہوچکی ہےاور ہر سال اس میں7فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد 3.196بلین سے تجاوز کرچکی ہے،اس میں13 فیصد کے حساب سے ہر سال اضافہ ہو رہا ہےاورموبائل فون کے استعمال کرنے والوں کی تعداد اس وقت 5.135بلین پہنچ چکی ہے، اس میں بھی ہر سال چار 4 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

یو ٹیوب اب ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے، جس کا استعمال اب دیگر چیزوں کے ساتھ  ساتھ نیوز، ڈبیٹس اور تعلیم و تعلم کو دیکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔اس کے ماہانہ مشاہدین کی تعداد 1.8بلین سے تجاوز کر چکی ہےآنے والوں دنوں میں بعید نہیں کہ پروگرام، سیریل، ڈرامے، فلمیں، خبریں اور  ڈبیٹس ٹی وی اسکرین کے بجائے موبائل اسکرین اور یوٹیوب ایپ ہی اس کی مکمل جگہ لے لیں۔ایسا اس لیے بھی ممکن بنتا جا رہا ہے بھاگ دوڑ کی زندگی نے اب لوگوں کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ وہ ان چیزوں کو ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کے لیے وقت نکال سکے۔یوٹیوب نے ان کی اس مشکل کو آسان کر دیا ہے۔

مسلم قیادت کو گزشتہ دو دہائیوں سے گلہ وشکوہ اور بہانہ تھاکہ ہمارا میڈیا نہیں ہے، قومی و بین الاقوامی میڈیا ہمیں مجرم بنا کر پیش کرتا ہےہماری سنی نہیں جاتی، ہمیں بولنے نہیں دیا جاتا ہےمیڈیا  مودیا ہو گیا ہے، میڈیا آزاد نہیں ہے حکومت کے اشاروں پر حساس موضوعات پر کنارے ہو جاتا ہے، ہر وقت مودی بھکتی بیان کرتا ہے۔ مدعے سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ ہم اپنا میڈیا چینل قائم نہیں کرسکتے حکومت اجازت اور قوم پیسے نہیں دے گی۔

اب یہ باتیں چھوڑ دینی چاہئیں،اِن مفروضات کو جہاں یوٹیوب کے دیگر بڑے آزاد چینل’’دی وائر‘‘، ’’نیشنل دستک‘‘، کے ساتھ ’’سیدھی بات ’’ سرجیکل اسٹرائک‘‘وہیں’’ نیوز میکس‘‘ نے غلط  ثابت کردیا ہے۔

’’نیوز میکس‘‘  کو گزشتہ  دوسال قبل یوٹیوب  چینل کی شکل میں  جناب شکیل  احمد  صاحب  نے قائم کیا۔رفتہ رفتہ اس کے ناظرین کی تعداد بڑھتی رہی، اس کے خصوصی پروگرام ’’خبرسے آگے ‘‘ اور’’ آپ کی آواز ‘‘کو پسند کیا جانے لگا۔ ابھی’’ نیوز میکس‘‘ کو قائم ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ’’ طارق فتح‘‘  کا فتنہ سرچڑھ کر بولنے لگا۔ اس فتنے کی سر کوبی کےلیے جن دوشخصیات   نے کوششیں کیں ان میں ایک نام ڈاکٹر  یاسر ندیم الواجدی صاحب اوردوسرانام’’ نیوز میکس‘‘ کے مینجیگ ایڈیٹر  کا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کوششوں نہ سراہا جائے توزیادتی، علمی اوراخلاقی بخل ہی ہوگا۔ ’’نیوز میکس ‘‘کے’’فتح کا فتنہ ‘‘ پر پانچ پروگرام کرنے پر انہیں دھمکیاں اورگالیاں  بھی سننی پڑیںاور ’’نیوز میکس‘‘ کو یوٹیوب سے بند کرادیا گیا، ایک ہی جھٹکے میں پانچ ہزارسبسکرائبر ٹوٹ گئے اورچھوٹ  گئے، لیکن’’نیوز میکس ‘‘کے مینجنگ ایڈیٹر جھکے نہیں، بکے نہیں، ڈٹے رہے پھر نئی قوت اورعزم و حوصلہ کے ساتھ متحرک ہو گئے۔ شروع میں ناظرین کی تعدا د کم رہی لیکن’’ خبرسے آگے‘‘ کے پروگرام کے ذریعے جلد ہی’’ نیوز میکس‘‘ نے یو ٹیوب پر اپنی ایک  منفردپہچان بنالی۔ایسے  ایسےپروگرام ریکارڈ کیےجن سے گودی اورمودی میڈیا نظر یں چراتاہے۔ جس  کی وجہ سے  بہت کچھ سہنا اورسننا پڑا، ہندو یوا واہنی کے غنڈوں نے گھیراؤ کیا ڈرایا اوردھمکایا۔

’’نیوز میکس ‘‘ ایک تنہا شخص کی کوشش اورقوم کی ضرورت تھی۔ اس شخص نے پرنٹ اورالیکٹرونک میڈ یا کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزارا،سہاراچینل کے  کرائم برانچ میں طویل عرصہ خدمات انجام دیں۔ایک شخص کی ہی کوششوں  کا نتیجہ ہے کہ ’’نیوز میکس‘‘ کے ناظرین اب ملک بھر نہیں دنیا بھر میں ہیں، اس کےپروگرام پابندی سے دیکھتے ہیں۔ یہ کسی تنظیم، جماعت اور نہ ہی کسی رفاہی ادارے  کے تعاون سے چل رہا ہے۔ اورنہ ہی ’’نیوز میکس‘‘ کے مینجنگ ایڈیٹر نے کبھی قوم سے اس کی اپیل کی بلکہ پیشکش کرنے والوں کو شکریہ کےسا تھ  منع کردیا۔

ہماری دینی جماعتوں  کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا وہ اپنے اداروں میں ایسی کوئی کوشش نہیں کرسکتے ؟ کیاوہ کروڑوں کے بجٹ میں سے کچھ بجٹ ایسے کسی کام کے آغاز کے لیےنہیں لگاسکتے ؟ کیا ان کےپاس ایسےافراد کی کمی ہےجو اس کام کو انجام دے سکیں ؟یہ بات پورے وثوق اوریقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہر جماعت اورہر تنظیم کے پاس اتنا بجٹ اورایسےافرادضرورموجود ہیں جو اس کام کو بہ حسن و خوبی کر سکیں۔ ضرورت صرف فکر، احساس، نظر اورعمل کی ہے!!!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔