کیانئی کانگریسی سرکاریں قانون کی عملداری بحال کریں گیں؟

سید منصورآغا

گزشتہ چارسال سے ایسا لگ رہا تھا کہ ہندستان پوری طرح فرقہ پرستانہ سیاست کی گرفت میں آگیا ہے۔ ’ہندوفرقہ پرستی‘ کے اس فاسد ماحو ل میں کچھ سیاستداں اورصحافی مسلم طبقہ کوبھی ایسی ہی جوابی سیاست کی تلقین کررہے تھے۔ لیکن راجستھان کی مسلم اکثریتی سیٹ ٹونک کے رائے دہندگان نے جس سوجھ بوجھ اوروطن سے حقیقی بہی خواہی کا مظاہرہ کیا ہے اس نے’مسلم فرقہ پرستی ‘کے نظریہ کو رد کردیا ہے۔ ٹونک نے دنیا کو بتا دیا ہیکہمسلم رائے دہندگان فرقہ پرستی سے بلند ہیں۔ اس سیٹ سے بی جے پی نے اپنے اکلوتے مسلم امیدوار یونس خان کو کھڑا کیا تھا اوریہ توقع کی تھی کہ مسلم رائے دہندگان کانگریس کے ہندوامیدوار ’سچن پائلٹ‘ کے مقابلے مسٹرخان کوووٹ دیں گے مگرایسا نہیں ہوا۔ سچن پائلٹ کو یونس خان پر 54,179 ووٹ سے جیت دلا دی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ ہندستانی مسلمانوں نے فرقہ ورانہ سوچ سے بلند ہوکر سیاسی فیصلہ کیا۔ سب سے بڑافیصلہ ملک کی تقسیم کے وقت کیا گیاتھا جب انہوں نے فرقہ ورانہ بنیاد پر تقسیم کی سخت مخالفت کی اور ہزارطوفانوں کے باوجود یہیں جمے رہے۔ جبکہ کانگریس نے اپنے مسلم قائدین مولانا ابوالکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی وغیرہ اورمولانا حسین احمد ؒ،  مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی وغیرہ کی قیادت میں جمعیۃ علماء ہندکی سخت مخالفت کے باوجود سرداربلبھ بھائی پٹیل کے زیراثر فرقہ ورانہ خطوط پر تقسیم کو تجویز کو قبول کرلیا۔ اتنا ہی نہیںآزادی کے وقت سے ہی اس کے طرزحکمرانی میں فرقہ پرستی ظاہر رہی۔ اس کی حکومتوں میں ہزاروں مسلم کش فساد ہوئے اوروہی قصورواربنائے گئے۔ قاتلوں کو کوئی سزانہیں ملی۔ چنانچہ ہم صرف آرزوکرسکتے ہیں کہ کانگریس کی موجودہ قیادت مسلم اقلیت کے ساتھ اپنے رویہ پر از سر نو غور کریگی۔ ہم کسی رعایت کے طالب نہیں صرف حق اورانصاف چاہتے ہیں۔ کانگریس کی سرکاریں فوری طورسے آئین اورقانون کی بحالی پر توجہ دیں جس کو بھاجپا کے راج میں پوری طرح مسخ کردیا گیا ہے۔ گزشتہ چارسال میں درجنوں واقعات ہجومی تشدد کے ہوئے۔ گائے اوربیف کے نام پراوربچوں کے اغوا کے نام پراقلیتی اوردلت طبقوں کے ساتھ مارپیٹ ہوئی، ان کوہلاک کیا گیامگر مظلوموں کی داد رسی نہیں ہوئی بلکہ الٹاخطاکاروں کوتحفظ فراہم کیا گیا۔ کم ازکم 54مویشی تاجروں کواسمگلنگ کے الزام میں جیلوں میں ڈال دیا گیا اوران کے مویشی چھین کر ان کو روزگار سے محروم کردیا گیا۔

یہ بھی کھلی حقیقت ہے تشدد کرنے والوں کو سرکاری تحفظ ملا اورا ن کا سیاسی قد بڑھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مظلوموں میں بڑی اکثریت کا تعلق مسلم فرقہ سے ہے، لیکن ان میں دلت بھی ہیں۔ ہمار ا مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ اورذات برادری سے اوپر اٹھ کر قانون کی عملداری قائم ہو۔ مظلوموں کی دادرسی ہو اورظالموں کی سرزنش قانون کے مطابق کی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس کی نئی قیادت اقوام عالم میں ملک کے وقار کی بحالی کے لئے آئین کی روح اورقانون کے تقاضوں پر کان دھرے گی یا ویسی ہی اندیکھی کریگی جو پہلے تھی۔

فرقہ پرستی کو اجودھیا معاملے سے طاقت ملی ہے۔ افسوس کہ یہ سب 1948 میں مورتیاں رکھے جانے سے لے کرمسجد کے انہدام تک قانون کی خلاف ورزیوں کا نتیجہ ہے اور کانگریس اس کی ذمہ داری سے انکار نہیں کرسکتی۔ اسی طرح فرقہ ورانہ سیاست، فرقہ ورانہ فسادات، نصاب کی کتابوں میں توہمات کی بھرمار اورغیرسیکولر اسباق کی شمولیت، جس نے نوجوان ذہنوں میں زہرگھولا،  سب کے بیج کانگریس نے بوئے، بھاجپا نے اس کی فصل کاٹی اوراس طرح لاقانونیت کوحوصلہ بخشا یہاں تک کہ اب ہجومی تشدد کی لپٹ پولیس افسران تک پہنچ گئی ہے۔

رواں الیکشن میں ہمیں سیکولرزم کا نعرہ سنائی نہیں دیا۔ کانگریس نے اپنی حکمت عملی میں فرقہ پرستانہ مظاہر کو شامل کرلیا۔ یہ ایک وقتی ضرورت کے طورپر توچلو ہوگیا، مگر اب ضرورت ہے رائے دہندگان نے شمالی ہند کی تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اورچھتیس گڑھ میں کانگریس کو جودوبارہ موقع دیا ہے، اس کا فائدہ اٹھاکر حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرے اورفرقہ ورانہ بنیادوں پر ناانصافی اورلاقونیت کے ماحول کو ختم کرنے پر دھیان دے۔ مظلوم کسان،  مزدوراورچھوٹے دوکانداراورتاجرسبھی ہیں۔ ان کی فکرکی جائے۔ جب کھیتی کسانی کی بات کی جاتی ہے توہم بھول جاتے ہیں کہ مویشی پالن کسانوں کا معاون کاروبارہے۔

بھاجپا کی اندھیرگردی نے مویشیوں کے کاروبار کوتباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ آوارہ مویشیوں کی تعدادروزبڑھ رہی ہے۔ کھیتوں کی حفاظت ناممکن ہوگئی ہے اور کسانوں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کا ازالہ ہونا چاہئے۔ آوارہ اورناکارہ مویشیوں کے مفید استعمال سے رکاوٹیں ہٹائی جانی چاہئیں۔ یہ کام اس طرح ہوکہ کسی کے جائز مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں اورکسی کی جائز ضرورتوں کے پوراکرنے میں رکاوٹ نہ رہے۔ ان کے نام پرسیاست بند ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔