کیا آر ایس ایس کارکنان کی سول سروسز میں تقرری کی جانی چاہئے؟

ڈاکٹر رام پنياني

ایک پرانا تنازع ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے. آر ایس ایس سے وابستہ امیدواروں کو مبینہ طور پر سرکاری ملازمتوں میں مقرر نہ کئے جانے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے 16 جون، 2016 کو کہا: ” ہندوستانی حکومت نے کوئی ایسا حکم (سرکاری ملازمین کی آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرتا ہو) جاری نہیں کیا ہے اور اگر ایسا کوئی پرانا حکم ہے تو ہم اس پر نظر ثانی کریں گے.” آر ایس ایس پرچار مرمکھ  منموہن ویدیا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ” آر ایس ایس کے ارکان کی سول سروسز میں تقرری پر پابندی غیر منصفانہ اور غیر جمہوری گے. اس طرح کی پابندیوں سے آر ایس ایس کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی اس سے رضاکاروں کا حوصلہ پست ہوتا ہے. ”

سرکاری ملازمین کے لئے کسی بھی سیاسی تنظیم کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ممنوع ہے. آر ایس ایس خود کو ثقافتی تنظیم بتاتا ہے اور اسی بہانے سے کچھ ریاستی حکومتوں نے سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دے رکھی ہے. گجرات میں جب جنوری 2000 میں ریاستی حکومت نے اس کی اجازت دی، تب اس کی خوب مخالفت ہوئی جس کی وجہ سے صدر نے اس میں مداخلت کی. اس کے بعد، مسٹر واجپئی نے گجرات بی جے پی کو یہ ہدایت دی کہ اس کی اجازت واپس لے لی جائے. سن 2006 میں مدھیہ پردیش کے شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے سرکاری ملازمین کو سنگھ کی سرگرمیوں میں کھلے عام حصہ لینے کی اجازت  دی تھی.

بھارتی آئین اور پارلیمانی جمہوریت کا یہ بنیادی اصول ہے کہ سول سروز کو مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہئے. آر ایس ایس پہلے ہی ریاست کے مختلف شعبوں میں دخیل ہو چکی ہے اور اس کے تربیت یافتہ سیویم سیوک ریاستی اور مرکزی حکومتوں میں مختلف عہدوں پر پہنچ چکے ہیں. ان عناصر کے علاوہ، معاشرے کی ذہنیت میں اس طرح کی تبدیلی کر دی گئی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے افسران اقلیتوں کے خلاف تشدد کے  وقت یا تو آنکھیں موند لیتے ہیں یا حملہ آوروں کا ساتھ دیتے ہیں. فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقاتی رپورٹ نے اقلیتوں کے قتل عام میں آر ایس ایس اور پولیس و انتظامی افسران کی ملی بھگت کی جانب اشارہ کیا ہے. ظاہر ہے کہ اگر سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے گی تو اس سے سول سروسز کا مکمل طور پر کمیونلائزیشن ہو جائے گا.

آر ایس ایس کی اس دلیل کا کیا کہ وہ ایک سیاسی تنظیم نہیں ہے بلکہ ہندو نیشن کی تعمیر کے لئے مصروف عمل ایک ثقافتی تنظیم ہے. یہ دعوی اپنے آپ میں باہم متضاد ہے. جب نیشن کی تعمیر ایک سیاسی عمل ہے، تب یہ تنظیم بھلا کس طرح صرف ثقافتی تنظیم ہونے کا دعوی کر سکتی ہے. آر ایس ایس کی سیاسی سرگرمیاں، سیاست کے میدان میں اس کی حصہ داری اور اس کے سیاسی ونگ بی جے پی پر اس کے مکمل کنٹرول کو دیکھنے کے بعد کسی کے بھی ذہن میں یہ شک باقی نہیں رہ جانا چاہئے کہ سنگھ کوئی ثقافتی تنظیم نہ ہوکر خالص سیاسی تنظیم ہے. واضح رہے کہ آر ایس ایس کے کل وقتی پرچارک، بی جے پی کی ضلع اکائیوں سے لے کر مرکزی ایگزیکٹیو تک میں تنظیم کے جنرل سیکرٹری کے طور پر مقرر کئے جاتے ہیں. آر ایس ایس ایک سیاسی تنظیم ہے جو اپنے مختلف ذیلی تنظیموں کے ذریعہ کام کرتا ہے. ان میں سے کئی تنظیمیں خود کو غیر سیاسی بتاتی ہیں لیکن وہ سب آر ایس ایس کے سیاسی مقصد کو حاصل کرنے میں سرگرم عمل ہیں.

آغاز میں آر ایس ایس صرف سیاسی کارکنوں- جنہیں وہ سیویم سیوک کہتا ہے-کو تربیت دینے کا کام کرتا تھا. سن 1952 سے اس نے سیاسی تنظیموں کی تشکیل شروع کردی. پہلے بھارتیہ جن سنگھ بنا اور پھر بی جے پی. اس سے پہلے، سن 1936 میں سنگھ نے راشٹریہ سیوكا سمیتی اور 1948 میں اے بی وی پی کا قیام کیا تھا. جن سنگھ پر آر ایس ایس کا مکمل کنٹرول تھا. سن 1998 میں آر ایس ایس نے مرکزی کابینہ کی تشکیل میں براہ راست مداخلت کی تھی. یہاں تک کہ آر ایس ایس کی ہدایت پر جسونت سنگھ کی جگہ پر یشونت سنہا کو وزیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا. لال کرشن اڈوانی کے ذریعہ  جناح کو سیکولر بتائے جانے پر آر ایس ایس نے ان کی کھل مخالفت کی تھی.

سن 1978 میں سپریم کورٹ میں دائر ایک حلف نامہ میں آر ایس ایس کے دو چوٹی کے رہنما بالا صاحب دیورس اور راجیندر سنگھ نے کہا تھا، ” آر ایس ایس نہ تو مذہبی اور نہ ہی رفاہی ادارہ ہے لیکن اس کے مقاصد ثقافت اور حب الوطنی سے جڑے ہوئے ہیں. اگرچہ آر ایس ایس فی الحال ایک سیاسی جماعت نہیں ہے لیکن اس کے مقاصد سیاست سے میل کھاتے ہیں. فی الحال آر ایس ایس کا دستور اسے ایک پالیسی کے تحت سیاست میں فعال  حصہ داری کی اجازت نہیں دیتا … کل یہ پالیسی بدل سکتی ہے اور آر ایس ایس روزمرہ کی سیاسی سرگرمیوں میں سیاسی جماعت کی طرح حصہ داری کر سکتا ہے کیونکہ پالیسیاں مستقل نہیں ہوتیں اور نہ ہی اٹل ہوتی ہیں. ”

کسی تنظیم کی نوعیت کا اندازہ ہم کس بنیاد پر کریں؟ اس کے دعوے کی بنیاد پر یا اس کی سرگرمیوں کی بنیاد پر؟ آر ایس ایس کا یہ دعوی کہ وہ ایک ثقافتی تنظیم ہے، بے بنیاد ہے. وہ بلا واسطہ اور بالواسطہ طریقوں سے اور ریموٹ کنٹرول کا استعمال کرکے سیاست میں شریک رہتا ہے. اس کے سیویم سیوک  مہاتما گاندھی اور پاسٹر اسٹینس کے قتل میں ملوث تھے اور بابری مسجد کی شہادت میں ان کا رول تھا. یہاں یہ اہم ہے کہ جنتا پارٹی سے دوہری رکنیت کے معاملے پر جن سنگھ الگ ہو گیا تھا. واجپئی نے بڑے فخر سے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پہلے سیویم سیوک ہیں اور بعد میں وزیر اعظم. حال میں اسی مسئلے پر ان کی تنقید کئے جانے پر مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا ”ہم ہی آر ایس ایس ہیں.”

آر ایس ایس کی مختلف ذیلی تنظیمیں، معاشرے کے مختلف شعبوں میں کام کرتی ہیں اور ان کا بنیادی مقصد معاشرے کی طرز فکر پر تسلط قائم کرنا ہے. سرسوتی ششو مندروں میں بچوں کو تربیت دی جاتی ہے تو شاکھاوں میں دانشوروں کے ذریعہ سیویم سیوکوں کو سیاست کا درس پڑھایا جاتا ہے. آل انڈیا مجلس نمائندگان (اکھل بھارتیہ پرتندھی سبھا)  کے ذریعہ سنگھ اپنے مختلف ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے اور ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے.  ان کا مقصد سیاسی ہے، ان کی سرگرمیاں سیاسی ہیں اور پہلو بہ پہلو ان کے نتائج سیاسی ہیں.

اقتدار میں نہ رہتے ہوئے بھی سنگھ مختلف طریقوں سے سیاست پر کنٹرول رکھتا ہے. اس وقت تو کئی ریاستی حکومتیں اور مرکزی حکومت بھی اس کے کنٹرول میں ہے اور دہلی سے لے کر ریاستیں تک اس کا ایجنڈا زور شور سے نافذ کرنے میں لگی ہوئی ہیں. اگر سرکاری ملازمین کو سنگھ کی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کی اجازت دے دی جائے گی تو اس سے پھوٹ ڈالنے والی طاقتیں اور مضبوط ہوں گی اور بھارتی آئین کے مطابق حکومتی انتظامیہ کو چلانا مشکل تر ہو جائے گا. یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس طرح کی اجازت دیا جانا قانونا جائز نہیں ہے، بہت سے برسر اقتدار لوگ سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے اور آر ایس ایس کے کارکنوں کو سول سروسز میں تقرری دینے کی وکالت کر رہے ہیں.اس سلسلے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ قانونی نقطہء نظر سے غیر قانونی ہے اور بھارتی آئین کے مطابق نہیں ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔