کیا تصورِ خدا فقط انسانی ذہن کا کرشمہ ہے؟(آخری پارٹ)

ادریس آزاد

متحرک اور زندہ معاشروں میں ، جُوں جُوں ملحدین تصور ِ خدا پر اعتراض کرتے جاتے ہیں، ’’خدا کو ماننے والے‘‘ اُن اُن خامیوں کو اپنے تصورِ خدا سے نکالتے چلے جاتے ہیں ۔

ہردور کی ریفارمیشن سے یہی ہوتاہے، کیونکہ مجموعی طور پر تمام انسان توھم پرست ہوتے ہیں جو تصورِ خدا کی غیر موجودگی میں اور زیادہ توھّم پرست ہوجاتے ہیں چنانچہ وہ خدا کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ایک ہی راستہ اختیار کرنا پڑتاہے کہ اپنے تصورِ خدا کو ڈیولپ کرلیں۔

اب تک کی ساری گفتگو سے خدا کا وجود بالکل بھی ثابت نہیں ہوتا۔ ثابت ہوتا تو فقط اتنا کہ،

۱۔ ’’انسان کو خدا کی ضرورت ہے‘‘

۲۔ ’’انسان، خود اپنے تصورِ خدا کو وقت کے ساتھ ساتھ ریفارم کرتارہتاہے‘‘

۳۔ ’’ریفارمیشن کا عمل تصورِ خدا کے بغیر کیا جائے تو معاشرے میں بے یقینی (توھم پرستی) کا عنصر بڑھ جاتاہےجس سے افترأ کے دروازے کھلتے ہیں اور معاشرے بے رحم ہوکر فنا ہوجاتے ہیں ‘‘۔

سو یہ بات کہ آیا فی الواقعہ ’’خدا ہے یا نہیں ہے۔‘‘

ابھی تک وہیں کی وہیں موجود ہے۔اسی طرح ایک اور سوال بھی پیدا ہوگیا ہے کہ فی زمانہ وہ معاشرے جہاں سے خدا کو نکال باہر کردیا گیا ہے، ایسی کسی بھی ابتری کا شکار نہیں ہیں ، جس کا ذکر اوپر مضمون موجود ہے۔ مثلاً ناروے اور ڈنمارک ایسی کسی بھی ابتری کا شکار نہیں ہیں جیسی خدا کے بغیر، کسی معاشرے میں (بوجہ توھّم پرستی) پیدا ہوجانا لازمی ہے۔

یہاں ایک نکتہ پیش ِ نظر رہے کہ،
دورِ حاضر کے ایتھزم نے ’’خدا کو کبھی کچھ نہیں کہا‘‘۔ انہوں نے ہمیشہ خدا کے ایسے تصورات پر گرفت کی ہے جن میں جھول ہیں ۔ جو خدا کسی بچے کی طرح جلد غصے میں آجاتاہے۔ جو خدا بلاوجہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتاہے۔ جو خدا فقط اپنی عبادت کروانے کے لیے ہزاروں انسانوں کے خون کی قربانی مانگتاہے وغیرہ وغیرہ جیسے اعتراضات نے عہدِ حاضر کے مذہبیوں کو اپنا تصورِ خدا بدلنے اورمزید بڑا خدا تصور کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

چنانچہ ناروے اور ڈنمارک سے خدا نکل نہیں گیا بلکہ وہاں والوں کا خدا بڑا ہوگیا ہے۔ بہت بڑا۔ پہلے لوگ نہیں جانتے تھے لیکن اب جانتے ہیں کہ بھگوان، یہواہ، گاڈ، خدا، اللہ، یہ سب نام مختلف مذاہب میں خدا کے لیے بولے گئے ہیں ۔ فی زمانہ جبکہ اپنے اپنے تصورِ خدا کی ہرکوئی خاصی تخلیص کرچکاہے، اگر ہم بنظر غائر دیکھیں تو سب مذاہب کے لیے، ’’خدا اَب بہت بڑا ہے‘‘۔حال ہی میں انڈیا میں بننے والی فلم ’’پی کے‘‘ اس بات کے حق میں ایک دلیل کے طورپر پیش کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سیکولر ملکوں کے لوگ ایتھسٹ محسوس ہوتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آج بھی وہاں کی بڑی آبادیاں مذہبی ہیں ۔ بس اُن کے تصورِ خدا کی تخلیص ہوگئی ہے۔

ڈنمارک، ناروے، جاپان یا ایسے تمام معاشرے جہاں سے بظاہر خدا کو رخصت کردیا گیا ہے دراصل اپنے تصورِ خدا کی بے پناہ تخلیص کرچکے ہیں ۔ ڈنمارک کے عام لوگ بھی یا تو کسی بہت ہی بڑے اور رحیم کریم خدا کو مانتے ہیں اور اگر نہیں مانتے تو فقط عارضی طور پر، کیونکہ جونہی ان کی کسی ذاتی واردات میں تکرار کا عنصر آئے گا وہ اُسے فطرت کی طرف سے پیغام سمجھیں گے۔ یہ ضروری ہے۔

بہتر ہے کہ یہاں قارئین ایک بار رُک کر اُوپر ’’ذاتی واردات میں تکرار‘‘ کا اُصول دوبارہ پڑھ لیں ۔ کیونکہ اس طرح آپ مبہم، اور غصُیلی کمنٹنگ سے بچ سکتے ہیں ۔

میں نے ’’تکرار کے اُصول‘‘ پر خاصی سیر حاصل بات کی ہے جس کے منطقی قضایا سے کسی ذی عقل کو انکار ہوگا، میں ایسا نہیں سمجھتا۔

پس یہ سوال کہ ’’خدا سچ مچ میں ہے بھی کہ نہیں ؟‘‘ صرف فلسفیوں ، عقلیت پسندوں ، تشکیک پسندوں اور ملحدوں کے درمیان زیرِبحث رہتاہے۔ عوام چاہے امریکہ کے ہوں یا ڈنمارک کے، ان کے لیے سوال الگ ہے اور وہ یہ ہے، ’’خدا کیسا ہوسکتاہے؟‘‘۔

جہاں تک عقلی دلائل کا تعلق ہے تو خدا کے وجود پر فلسفیوں نے جتنے دلائل دیے، ان میں سے اکثرپر ایسے ایسے اعتراضات وارد ہوتے ہیں کہ سرے سے تصورِ خدا ہی خطرے میں پڑجاتاہے۔ یہ کام کانٹ اور غزالی ہم سے بہتر کرچکے ہیں ۔ فلسفہ میں خدا کے وجود پر بنیادی طور پر تین دلائل پڑھائے جاتےہیں جن ’’ادلۂ ثلاثہ‘‘ کہا جاتاہے۔

ان میں سب سے پہلی دلیل، ’’دلیلِ کونی‘‘ (Cosmological Argument) پر یہ اعتراض وارد ہوتاہے کہ اگر ہر ایفکٹ کی ایک کاز ہوتی ہے اور یہ سلسلہ پیچھے سے پیچھے لے جایا جائے تو ایک ’’پرائم مُووَر‘‘ (فرسٹ کاز) پر جاکر رُکے گا۔

اُس پرائم مُووَر کی کوئی کاز نہیں ہے۔ وہ خود سے وجود میں آگیاہے۔ اس دلیل پر یہ اعتراض ہے کہ ’’کاز اینڈ ایفیکٹ‘‘ کے پرنسپل کوخود پیش کرکے خود توڑنے کی اجازت کیسے حاصل کی گئی۔ جب اُصول ہی کازیلٹی ہے تو پھر علتِ اولیٰ (پرائم مُووَر) یا علت العلل کا کیا تُک بنتاہے۔ اس اُصول کو سچ مانناہے تو پھر ’’خدا کو کس نے بنایا‘‘ جیسا سوال بھی اپنی جگہ پوری طرح درست ہوگا۔ فی زمانہ بگ بینگ کیسے ہوا؟ بھی اسی قسم کا سوال ہے۔

دوسری دلیل کو ’’غائی دلیل‘‘ کہتے ہیں ۔

اِسے آرگومنٹ آف پرپز یا آرگومنٹ آف ڈیزائن بھی کہا جاتاہے۔اس دلیل کے مطابق یہ کائنات ایک ڈیزائنر نے ڈیزائن کی ہےاور اس کے پیچھے ایک خاص مقصد کارفرماہے، جو ہم انسانوں کو تلاش کرناہے اور وہ دراصل خدا تک پہنچنے کا مقصد ہے۔ اس دلیل پر اقبال نے یہ اعتراض کیا،

’’لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اِس طرح صرف ایک صانع کا ماننا لازم آتاہے، خالق کا ماننا لازم نہیں آتا جس کے متعلق اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ ہیولیٰ کائنات کوکسی نے خلق کیا، جب بھی یہ اُس کی حکمت و دانائی کا کوئی اچھا ثبوت نہیں کہ اوّل تو ایک بے حس اور متزاحم ہیولیٰ کی تخلیق سے اپنے لیے طرح طرح کی مشکلات پیدا کرے اور پھر ان پر غالب آنے کےلیے اُن طریقوں سے کام لے جو اِس کی فطرتِ اصلیہ کے منافی ہیں ۔ یوں بھی جس صانع کا وجود اپنے ہیولیٰ سے خارج ہے، وہ لامحالہ اس ہیولی سے محدود بھی ہے، لہٰذا اس طرح کا صانع ایک متناہی صانع ہوگااور محدود ذرائع کے باعث وہی طرزِ عمل اختیار کریگا جو ایک انسان بحیثیت صانع اختیار کرسکتاہے‘‘۔

تیسری دلیل

’’دلیل ِ وجودی‘‘ ہے۔ جس کے مطابق، ہمارے ذہن میں کوئی ایسا تصور نہیں ہوسکتاجس کا وجود بیرونی دنیا میں موجود نہ ہو۔ ہمارے ذہن میں چونکہ خدا کا تصور ہے فلہذا لازم ہے کہ خدا کو وجود بیرونی دنیا میں بھی موجود ہو‘‘۔
ایک تو دلیل ِ وجودی کا شیدائی خداکے وجود کو بیرونی کائنات میں تلاش کرتاہے اور گاہے کائنات کو ہی خدا قراردے کر وحدت الوجود کی طرف مُڑجاتاہے اور گاہے وجود کو مختلف حسین ناموں سے سجا کر گویا فقط ایک غیر شخصی خدا کےہونے کا یقین حاصل کرتاہے۔

البتہ اس دلیل پر کانٹ نے جو اعتراض کیا وہ میری دانست میں درست نہیں ہے کہ یہ دلیل محض خدا کے تصور کے انسانی ذہن میں موجود ہونے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ یہ دلیل ایک مغالطے پر مبنی ہے جسے مصادرہ علی المطلوب کہتے ہیں ۔ جس میں کسی شئے کو پہلے سے فرض کرلیا جاتاہے اور پھر اسے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کانٹ کے بقول،

’’ایسا کہنے سے کہ، میری جیب میں تین سو ڈالر ہیں ، میری جیب میں تین سو ڈالر آتو نہیں جائینگے‘‘۔

لیکن میری دانست میں کانٹ نے تین سو ڈالر کی مثال ہی غلط دی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ ڈالرز خود مجرد تصور نہیں دوسرے یہ کہ کانٹ کے مقدمہ کبریٰ میں ، صرف کانٹ ہے۔ صرف کانٹ سے مراد یہ قضیہ اب ’’کلیہ موجبہ‘‘ نہیں رہا بلکہ ’’جزیہ موجبہ‘‘ بن گیا ہے۔ کانٹ تو چھ ارب انسانوں میں سے ایک آدمی ہے۔ خدا کا تصور تو ہر ’’مؤمن اور مُنکر‘‘ کے ذہن میں موجود ہے۔ چنانچہ کانٹ کے اعتراض میں مغالطہ موجود ہے۔

سوال یہ ہے کہ انسانی ذہن میں خدا کا تصور کہاں سے آیا۔ میری دانست میں دلیل ِ وجودی آج بھی مضبوط ہے، وہ اس لیے کہ آپ کائنات کے ہرتصور سے چھٹکارا پاسکتے ہیں ، اپنی ’’میں ‘‘ سے چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ جیسا کہ ڈیکارٹ نے خاطرخواہ طریقے سے ثابت کردیا تھا۔ سو یہ ’’میں ‘‘ جو فقط موضوعی تجربہ ہے، ’’مطلق‘‘ ہے۔ اورسب انسانوں میں برابر ہے۔ انسان کی یہ انفرادیت وہ عنصر ہے جو انسانوں کو باقی حیات سے ممتاز کرتاہے۔

میری یہی انفرادیت اِس بات کا ثبوت ہے کہ شخصی خدا وجود رکھتاہے۔ کیونکہ میں جس ارتقأ کے نتیجہ میں ایک شخصی اور بالکل انفرادی وجود کا حامل ہوا ہوں وہ ایسےامکانات کے لامتناہی دروازے کھول رہاہے جس میں مجھ سے بڑھ کرارتقأ یافتہ، دیگر انفرادی وجودوں اور شخصیات کا ہونا لازم آتاہے۔

خود رچرڈ ڈاکنز نے کہا کہ،

’’ہم انسان کسی زیادہ ذہین ہستی کا بنایا ہوا ڈیزائن ہوسکتے ہیں ‘‘۔

سو ارتقأ کا وہ سلسلہ جو ہم سے بڑھ کر ذہین ہستیاں ثابت کرتاہے وہی سلسلہ یہ بھی ثابت کرتاہے کہ اِس ذہانت کی کوئی انتہا ٔ اور خاتمہ نہیں ۔ یہ طبق در طبق ہے اور ان منازل کا کہیں اور کبھی بھی خاتمہ نہیں ہوتا۔ بلاشبہ اس مقام پر پہنچ کر بہت سے ایسے ڈیزائنرز ثابت ہورہے ہیں جنہوں نے ممکنہ طور پر ہماری کائنات بنائی ہوگی کیونکہ ہم اپنے اوپر ایک سے ایک ذہین ہستی کا وجود، سائنسی طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں ۔ لیکن جب ہم ذہانت کے اس نہ ختم ہونے والے ارتقائی سلسلہ پر نظر ڈالتے ہیں تو خود بخود ایک ایسی بڑی عقل اِن تمام ڈائمینشنز پر حاوی ہوجاتی ہے جو ’’علت و معلول‘‘ سے پاک ہے۔

کیونکہ ابدی حال سے مسلسل اور مستقبل بنیادوں پر ماضی اور مستقبل تو پھوٹ سکتے ہیں ، لیکن ابدی حال سے دیگر حال کیسے پھوٹینگے؟ حال تو حال ہی رہیگا اور ایک ہی رہیگا۔چنانچہ ہم واحد شخصی خدا کو اِس طرح تصور میں لائینگے کہ وہ’’اصلی اور خالص زمانہ ہے‘‘ جو بہت بڑی عقل کا مالک ہے۔اب چونکہ زمانہ پہلی ڈائمینشن کے ساتھ بھی ایسے رہ سکتاہے کہ اس کے ساتھ فقط حال میں ہی موجود رہے اور دوسری کے ساتھ بھی اسی طرح رہ سکتاہے اور تیسری کے ساتھ بھی اِسی طرح رہ سکتاہے تو پھر چوتھی اور پانچویں اور چھٹی اور ساتویں علی ھذالقیاس ہرایک ڈائمینشن کے ساتھ ایسے کیوں نہ رہ سکتاہوگا کہ وہ ان کے حال میں عین اسی وقت میں موجود ہو جب دوسری ڈائمینشنز کے حال میں بھی موجود ہو۔

آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں ۔ ایک لائن ون ڈائمینشنل ہے۔ اس لائن پر حرکت کرتاہوا ایک نطقہ تصور کریں ۔ اب سوچیں ۔ یہ ایک ڈائمینشن ہے فقط، یعنی ایک لائن اور اُس کے ہرنقطے پر ’’زمانہ‘‘ اُس کے حال میں موجود ہے، یعنی اس مثال میں صرف ایک ڈائمینشن اور ایک وقت ہے فقط۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف مکان کی ایک ڈائمینشن اور ٹائم کی ایک ڈائمینشن نے اس فیبرک کے تانے بانے بُن دیے ہیں ۔

اب دوبارہ دیکھیں ، اب لائن نہیں ہے بلکہ ایک ٹو ڈائمینشل آبجیکٹ ہے، یعنی مستطیل یا مربع یا دائرہ وغیرہ اور اس میں حرکت کرتاہوا ایک نقطہ تصور کریں ۔ آپ دیکھیں ! اب دو نوں ڈائمینشنز کے ’’حال‘‘ میں ’’زمانہ‘‘ موجود ہے۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ مکان کی دو ڈائمینشنز ہیں اور زمانے کی ایک ڈائمینشن نے ان کے ساتھ مل کر سپیس ٹائم کی فیبرک بُن دی ہے۔اسی طرح تھری ڈی کے آبجیکٹس میں ہرہر ڈائمینش کے ساتھ بیک وقت ’’حال‘‘ میں موجود ’’زمانے‘‘ کو دیکھا جاسکتاہے، تو فورتھ، ففتھ، سکستھ، سیونتھ اور اسی طرح ہر ہر ڈائمینشن کے ساتھ وقت کو حال کے طور پر بیک وقت موجود کیوں نہیں دیکھا جاسکتا۔ ہم دیکھ رہےہیں کہ مکان کی ایک ہو، یا دو ہوں یا تین ڈائمینشنز ہوں ، زمانے کی ہمیشہ ایک ہی ڈائمینشن اس کے ساتھ جڑتی ہے اورہمیشہ اپنا اظہار فقط ’’حال‘‘ کے طور پر کرتی ہے۔ خدا چونکہ ابدی حال ہے سو وہ ہر ڈائمینشن میں اسی طرح ’’حال‘‘ کے طور پر موجود رہتاہے۔

حال کا کام ہے پیش آمدہ حادثے(ایونٹ) کا موجب بننا۔ اس کا خالق بننا، اس کا شاہد بننا، اس کا ناظر بننا۔ حال کے بغیر نہ چیزوں کی حرکت ممکن ہے نہ زمان و مکاں کا وجود۔ فلہذا اس سوال کا جواب کہ ہم سے زیادہ ذہین، لاکھوں سال ایڈوانس ہستیاں ہوئیں تو خدا کہاں ملیگا؟ وہ تو سب خدا کہلائینگے۔

نہیں ! وہ تو سب بیچارے ہماری طرح مختلف ڈائمینشز میں موجود مخلوقات ہونگے۔ ان کے ساتھ ہمہ وقت جو موجود رہیگا وہ ’’ابدی حال‘‘ ہوگا۔ زمانِ خالص، یعنی خدا۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی ڈائمینشن اپنے اوپر اپنی ہی تہہ سے نئی ڈائمینشن نہیں بناسکتی۔ نقطے کے عین اوپر نقطہ لگانے سے نقطہ میں کسی ڈائمینشن کا اضافہ نہیں ہوگا۔ ایک سائے پر ایک سایہ یا کئی سائے ڈال دینے سے بھی اگلی ڈائمینشن کا ظہور نہ ہوگا کیونکہ ایک سائے پر دوسرے سائے کی صورت میں تو دونوں ٹوڈائمینشنل ہیں ۔

اسی طرح ایک تھری ڈی کے آبجیکٹ پر ایک تھری ڈی کاآبجیکٹ ایسی تہہ نہیں بنا سکتا کہ اگلی ڈائمینشن کا اظہار ہو۔اگر کوئی ڈائمینشن اپنے اوپر آئے گی تو وہ، بعینہ وہی ڈائمینشن رہیگی نہ کہ کوئی اور ڈائمینشن بن جائے گی۔اس اصول کی روشنی میں ہرڈائمینشن پر دوسری کوئی اور ڈائمینشن تعمیر ہوتی ہے۔ اگر بہت ساری کائناتیں ہیں تو بہت ساری ڈائمینشنز بھی ہوں گی۔

فزکس کہتی ہے کہ مکان کی دس ڈائمینشنز ہیں ۔

ہمیں کیا پتہ آگے چل کر  لاکھوں ڈائمینشنزکا پتہ ملنے لگے۔ جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا تھاکہ
’’میں تھری ڈائمینشنل اینٹٹی، خدا کے بارے میں کیسے کچھ رائے دے سکتاہوں جو ملٹی ڈائمینشل ہستی ہے‘‘۔

سو اگر ڈائمینشن پر ڈائمینش تعمیر کرتے ہوئے ہم کبھی نہ ختم ہونے والے طبق طے کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھ سکتے ہیں تب بھی ہمیں یہ پریشانی نہیں ہے کہ

’’خدا تو ابھی بہت دُور ہے، پتہ نہیں ابھی ہمیں کتنی کروڑ ڈائمینشنز سے گزرنا پڑیگا، خدا تک جانے کے لیے؟‘‘۔

ایسا نہیں ہے۔ خدا تو پہلی ڈائمینشن میں بھی ایسے موجود ہے جیسے آخری میں ہوگا ڈائمینشنز کے لامتناہی سلسلے میں ہوگا، کیونکہ وہ تو ’’ابدی حال‘‘، وہی تو زمانہ ہے، بایں ہمہ فعّال، خلّاق، ذہین اور مستقل بنیادوں پر حیّ و قیّوم ہے۔

تبصرے بند ہیں۔