کیا  حکومت نے طلاق ثلاثہ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟

ندیم عبدالقدیر

علامہ اقبال کی  شہرۂ آفاق نظم’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں ، ابلیس  کہتا ہے ؎

الحذر آئینِ پیغمبر ؐ سے سوبار الحذر

 ہمارے یہاں بھی ایسی ہی ایک مجلس ِ شوریٰ چل رہی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی خوشحالی ،  تعلیمی ترقی ، سماجی بہبود اور معاشی فلاح کے تمام  کام مکمل ہوچکے ہیں ۔ بے گناہ مسلم نوجوان رہا ہوچکے ہیں ،تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ان کو اپنی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن مل چکا ہے،  فرقہ وارانہ ناانصافی  ماضی کا حصہ  بن گئی ہے ، مسلم کش فسادات اب صرف تاریخ کی کتابوں تک سمٹ گئے ہیں ۔  کوئی مسلم نوجوان بے روزگار نہیں رہا۔ مسلمانانِ ہند کی  خوشحالی آسمان سے باتیں کررہی ہےاور دنیا میں اس کی مثالیں دی جارہی ہیں ۔ مغربی فلاسفر اس پر مقالے تحریر کررہے ہیں ۔ اپنی انتھک محنت اور  لا زوال  کوششوں سے مسلمانوں کے سارے مسائل حل کرنے کے بعد اب ہمارے  پردھان سیوک اپنے تخت پر بیٹھ کر مشیروں سے مشورہ کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا کوئی کام رہ تو نہیں گیا۔ اس پر درباری انہیں صلاح دے رہے ہیں کہ جہاں پناہ کی  بے پناہ کوششوں سے مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہوچکے ہیں ، اور مسلمانان ِ ہند ایک ایسے ناقابل یقین عہدِ نو میں داخل ہوچکے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے گمان بھی نہیں کیا تھا ۔ ویسے اب صرف طلاق ثلاثہ کا مسئلہ رہ گیا ہے ۔ اگر مابدولت اس پر بھی اپنی نظر کرم عنایت فرمادیں تو عین نوازش ہوگی۔

 جس کے بعد ’عظیم تاریخی رہنما‘سپریم کورٹ کو اشارہ کردیتےہیں کہ تین طلاق کے مسئلہ پر  وہ کوئی سبیل تلاش کرے۔اشارہ پاتے ہیں عدالت عظمیٰ اس کام میں   لگ گیا۔

تین طلاق مسئلہ پر عدالت جس طرح کا برتاؤ کررہی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ وہ دیکھے گی کہ آیا طلاق مذہبی مسئلہ ہے کہ نہیں ۔ یعنی عزت مآب عدالت عظمیٰ کو ابھی تک یہ بھی نہیں پتہ کہ طلاق مذہبی معاملہ ہے کہ نہیں ۔ غیر مسلموں کا طلاق تو مذہبی معاملہ ہوتا ہے لیکن  مسلمانوں کے معاملات کے تئیں عدلیہ کا دائرۂ علم اتنا تنگ ہے کہ عدالت کو اب تک یہ بھی نہیں پتہ کہ آیا  مسلمانوں میں طلاق مذہبی معاملہ ہے یا نہیں ۔ عدالت نے یہ بھی معلوم کرنا چاہا ہے کہ اور کتنے ممالک ہیں جہاں طلاق ثلاثہ پر پابندی لگی ہے ۔ کیا فاضل عدالت کو یہ بات بھی نہیں معلوم   ؟ اور کیا دیگر معاملات جیسے گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے سے پہلے عدالت نے یہ معلوم کرناچاہا تھا کہ کتنے ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کے ذریعے گائے کے ذبیحہ کئے جانے پر پابندی ہے ۔
مسلم پرسنل لاء نے تقریباً ۵؍کروڑ مسلم خواتین کے دستخط شدہ  فارم کو عدالت میں جمع کردیا ہے ، جس میں مسلم خواتین نے طلا ق ثلاثہ کی حمایت کی ہے اس کے باوجود بھی عدالت اسے مسلمانوں کی آواز ماننے کو تیار نہیں ہے ۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو ہی راضی نہیں ہے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس کے تیور کچھ اور  ہی نظر آرہے ہیں ۔

اس معاملے کے عجیب و غریب کردار رفیقِ عدالت سلمان خورشید بھی ہیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کی رائے میں یہ ’گناہ‘ ہے ۔   ان کانگریسی مسلم لیڈران کا یہ خاصہ ہے کہ وہ عین اس وقت حکومت کی بولی بولنے لگتے ہیں جب قوم کو ان کی شدید ضرورت ہوتی ہے ۔ انہوں نے جوشِ  جنون میں یہ بھی کہہ دیا کہ تین طلاق ختم ہونا چاہئے اس سے قوم کی ۹۰؍فیصد برائی ختم ہوجائے گی۔ یعنی سلمان خورشید کے مطابق تین طلاق ختم ہونے سے بے روزگاری بھی ختم ہوجائے گی، تعلیم کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا، غربت بھی قصہ پارینہ بن جائے گی، صحت کے مسائل بھی دم توڑ دیں گے، رہائش کے مسائل حل ہوجائیں گے۔  عدالت میں یہ بھی کہا گیا کہ تین طلاق ’ناپسندیدہ عمل‘ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ تین طلاق ’ناپسندیدہ عمل ‘ ہے تو کیا طلاق’پسندیدہ عمل ‘ ہے؟ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام میں طلاق کو ’ناپسندیدہ عمل‘ قرار دیا گیا ہے لیکن عدالت میں جاری ڈرامہ بازی میں کمالِ مکاری سے   ’ناپسندیدہ عمل‘ کے لفظ کو ’تین طلاق‘ سے جوڑ دیا گیا ۔

ہمارے ملک میں طلاق نہ ہی اب مذہبی معاملہ رہ گیا ہے ، نہ ہی سماجی اور نہ ہی معاشرتی۔ یہ اب صرف اور صرف سیاسی معاملہ بن گیا ہے ۔ ہندوانتہا پسندی کے بڑھتے رجحانات  کی تشفی کےلئے ، اور ہندو ووٹ بینک کو خوش کرنے کےلئے تین طلاق کے مسئلہ کو ہوا دی جارہی ہے،مسلم خواتین کی زبوں حالی کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے ۔

تین طلاق کی اسلام میں گنجائش ہے یا نہیں ۔یہ ایک سوال ہے ۔ قانون کا اطلاق معاملہ کی نوعیت اور شدت پر منحصر ہوتا ہے ۔ اسی طرح طلاق کا بھی معاملہ ہے ۔   اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ نازیبا حالت میں دیکھ لیتا ہے اور علیحدگی چاہتا ہے تو کیا وہ اس کےلئے تین مہینے انتظار کرے گا؟

ملک میں طلاق کے اعداد وشمار بھی حکومت کے  دعوے کے خلاف ہیں ۔ مسلمانوں میں طلاق کی شرح ہندوؤں سے کم ہے ۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق صرف 0ء49؍فیصد مسلم خواتین ہی مطلقہ ہیں جبکہ ہندوؤں میں یہ شرح 0ء74؍فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار سارے کے سارے طلاق ثلاثہ کے بھی نہیں ہیں ۔ ان کے علاوہ ہندوؤں میں طلاق دئیے بغیر چھوڑ دی گئی خواتین مسلمانوں میں 0ء47؍ فیصد ہے جبکہ ہندوؤں میں یہ 0ء69؍فیصد ہے ۔ شادی شدہ خواتین کی شرح سب سے زیادہ مسلمانوں کی ہے ۔ 78ء8؍فیصدکے ساتھ مسلم خواتین سب سے زیادہ شادی شدہ ہیں جبکہ ہندوؤں میں یہ شرح 86ء2؍فیصد ہے۔

حیدرآباد کے نلسر یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر فیضان مصطفےٰ نے حال ہی میں لکھا ہے کہ 10؍ریاستوں کے  دارالافتاء سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں 340204؍ معاملات میں فتوے مانگے گئے ان میں سے ۶ء۵۰؍فیصد ہی فتوے طلاق ثلاثہ پر مانگے گئے۔یہ بھی عام طلاق کے لئے مانگے گئے فتوے تھے ، طلاق ثلاثہ کے لئے مانگے گئے فتوے نہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 74؍شرعی عدالتوں میں 1252؍ طلاق کے معاملات  تھے جن میں سے صرف اور صرف 14؍معاملات ہی طلاق ثلاثہ کے تھے۔

ایک خدشہ جو مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہے وہ یہ   کہ اگر عدالت نے طلاق ثلاثہ پر پابندی لگا دی، تو کیا ہوگا؟ یا پھر یہ کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں اگر کوئی دارلافتاءسے رجوع کرتا ہے اور فتویٰ مانگتا ہے تو  دارلافتاء یا شرعی عدالتیں کس طرح فتویٰ دے سکیں گی۔

پہلی باتتو یہ کہ اگر قانون عمل میں آبھی جائے، تو بھی اس کی قبولیت کا دارومدار سماج پر ہوتا ہے ۔ طلاق ثلاثہ کے کسی بھی فیصلہ کا بھی یہی حشر ہوگا۔  مسلم خواتین کے دلوں میں شرعی قوانین کے تئیں احترام اور عقیدت ہے ۔  یہ  ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ ۵؍کروڑ مسلم خواتین کے دستخط شدہ فارم اس کا چیختا ہوا ثبوت ہے۔ اسلئے اگر حکومت ہند طلاق ثلاثہ کے خلاف فیصلہ دے بھی دے تو بھی اس کا زمینی اطلاق کافی مشکل نظر آتا ہے۔

فتویٰ مانگنے کا جہاں تک سوال ہے تو فتویٰ کسی بھی معاملے پر اسلامی نقطہ نظر سے ایک عالم دین کی رائے ہوتی ہے ۔ یہ رائے حکومت کے قانون کی پابند نہیں ہوتی ہے بلکہ شرعی قوانین کی پاسدار ہوتی ہے۔ اسلئے اس طرح کے فتوے پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ فتویٰ شریعت کی روشنی میں دیا جاتا ہے نہ کی دستورِ ہند کی دفعات کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ ہر چھوٹے بڑے گھریلو معاملات میں دستورِ ہند کی بے جا مداخلت کا مطلب تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔مسلم پرسنل لاء بہتر کام کررہا ہے اس نے  شرعی قوانین کی حفاظت کیلئے پنی تمام طاقت جھونک دی ہے ، جبکہ ان کے ساتھ نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی کھڑی ہے اور نہ کوئی بڑالیڈر۔  مسلم پرسنل لا ء بورڈ کو آج چاہے جس نام سے بھی پکارا جائے لیکن ملک کی تاریخ اس کی جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔حکومت کا مؤقف سب پر ظاہر ہے ، بات صرف طلاق ثلاثہ کی نہیں ہے۔ شریعت میں مداخلت کا یہ صرف آغاز ہوسکتا ہے اور اس کے بعد یکے بعد دیگر ے ، ایک ایک کرکے دیگر احکامات ِ الہی پر بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے ، کیونکہ علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق نظم’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں ، ابلیس کہتا ہے ؎

الحذر آئینِ پیغمبر ؐ سے سوبار الحذر

 ہمارے یہاں بھی ایسی ہی ایک مجلس ِ شوریٰ چل رہی ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔