کیا صرف قرآن ہی اسلام کا ماخذ ہے؟

مسعود جاوید

ان دنوں ایک خطرناک روش یہ سوال کرنے کی چل پڑی ہے کہ قرآن کی کس آیت میں ایسا لکها ہے؟  یہ روش جانے انجانے میں اس فکری یلغار اور سازش کی تائید کرتی ہے جس کے تحت احادیث نبویہ کی تخفیف کی کوشش عالمی پیمانہ پر کی جاری ہے۔ قران اصل ہے اس سے انکار نہیں ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بهی ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ مستند احادیث نبویہ قرانی تعلیمات کی عملی شکل ہے۔ دین اسلام محض فکری Theoretical نہیں ہے عملی یعنی practical بهی ہے جسے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے اپنے عمل سے، اپنی ہدایات instructions سے،  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل پر اپنی سکوت و رضامندی سے کر کے دکهایا۔

بعض نئے "مفکرین” اسلام آئے دن ایسی کتابیں لکهتے رہتے ہیں کہ جن میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف اور صرف قران ہی ماخذ و مصدر ہے۔ ماضی میں بهی ایسی کتابیں لکهی گئی تھیں مگر وہ خال خال تهیں مگر اب سوشل میڈیا پر اس پر بحث و مباحثہ میں ہر کس و ناکس حصہ لے رہے ہیں جو علمی بنیاد پر نہیں اپنی ذاتی رائے اور تصورات کی بناء پر دست وگریباں ہوتے ہیں۔
ان الدین عنداللہ الاسلام کے تحت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین محمد صل اللہ علیہ و سلم تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا دین اسلام تها لیکن شریعت ہر نبی کی ان کے زمانے کے احوال کے مطابق طے کی گئی۔ قرآن کریم  دین یعنی عقیدہ کی کتاب بهی ہے اور شریعت بهی۔   قران میں بلا شبہ بار بار غور و فکر پر زور دیا گیا ہے اس طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنا قابلِ ستائش ہے لیکن عملی شکل یعنی صحیح مستند احادیث نبویہ کی اہمیت سے انکار کی گنجائش بهی نہیں ہے۔ از سر نو مطالعہ کا مطلب یہ نہیں ہو کہ پچھلی تمام توضیحات و تفسیرات کو بیک جنبش قلم رد کردیا جائے۔ لنک Link کے بغیر  تو ہم قران تک بهی نہیں پہنچ سکتے۔ اگر صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کو ثقہ نہیں مانیں گے تو قرآن کی آیات جن الفاظ میں وحی کے ذریعے نازل ہوئیں اس کی صحت کی ضمانت بهی تو یہی تواتر اور تسلسل link ہے اس کا کیا کریں گے۔ اس سے یہ عندیہ نہ لیا جائے کہ من گهڑت ضعیف اور غیر مستند احادیث کو جگہ دی جائے۔ لیکن  تفرد شخصی ثابت کرنے اور انفرادیت قائم کرنے کے لیے اس حد تک بهی نہ جایا جائے کہ دین و شریعت کا ماخذ و مصدر ہی مشکوک ہو جائے۔ ایک مفکر نے لکها کہ جنت و جہنم وہمی ہیں یہ محض ترغیب و ترہیب کے لئے ذکر کئے گئے ہیں۔ ایک صاحب نے لکها عبادت کا منظم طریقہ اتنی رکعت اتنے قیام رکوع اور سجدے لازمی قرار دینے کی وجہ سے توجہ الی اللہ ختم ہو جاتی ہے لوگ گنتی میں الجها دیئے گئے ہیں  جبکہ خشوع اور خضوع کی روح ہی توجہ الی اللہ ہے۔ ایک صاحب نے لکها کہ علماء نے قرآن کو فقہ کی کتاب بنا کر رکھ دی ہے اس میں دنیا اور اس کی چیزوں پر غور و فکر کرنا چهوڑ دیا ہے۔ ایک صاحب نے لکها کہ قران تو مکمل سائنس کی کتاب ہے۔ کسی کو اس میں فلکیات کے رموز و اسرار ملے تو کسی کو سائنس کی تهیوری کسی کو معاشرتی آداب تو کسی کو سماجی قانون ۔۔۔۔ لیکن یہ تمام باتیں قرآن کے مختلف پہلو ہیں۔ بے شک قران علم کا سمندر ہے۔مگر اصل مقصود خدا شناسی ہے اور قربت الی اللہ ہے۔ قران هدی للناس ہے وہ ہدایت جس کی رو سے ہم جزا و سزا پر یقین رکھتے ہیں۔ دل میں ایمان اور زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ایمان لایا میں اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر آخری دن  قیامت پر اور  اچهی بری تقدیر پر۔

کیا آخری خطبہ حجة الوداع میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں کہا کہ میں تم لوگوں کے بیچ دو مصدر و ماخذ – قران اور میری سنت – چهوڑ کر جارہا ہوں ۔۔۔رہی یہ بات کہ قران کا مطالعہ سائنٹفک نظریہ سے کیا جائے۔ تو اس سے کسے انکار ہے۔ بہت سے مصنفین کی کتابیں اسلام اور سائنس ،  قرآن اور سائنس وغیرہ موجود ہیں اور ہر روز سائنسی ترقی اور نئی نئی تحقیق قران کی چودہ صدی قبل کہی گئی باتوں سے اتفاق کر رہی ہے۔ اگر ایک طبقہ قران کو محض قربت الی اللہ اور عبادت کے لئے مطالعہ کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ  دوسروں کو اس بات سے روکتا ہے کہ دوسرے لوگ  اس میں دوسرے موضوعات پر آیات اور ان کی تفاسیر ڈهونڈیں۔ لا الشمس ینبغی لها ان تدرك القمر و لا اللیل سابق النہار۔  ہر سیارہ اپنے اپنے مدار میں ایک فاصلہ سے مقررہ وقت پر گردش کر رہا ہے۔ اس solar system ، orbit اور planet کو ایک مادی نظام کہیں یا حکم الہی۔ اگر یہی فاصلہ ختم ہو گیا اور  دن نے رات کو یا رات نے دن کو پکڑ لیا یا سورج نے چاند کو یا چاند نے سورج کو پکڑ لیا یا مرکری، وینس ، ارتھ ، مارس ، جوپیٹر،  سیٹرن ، اورانس اور نیپٹون نے روگردانی کی تو ظاہر ہے شدید ترین دهماکہ ہوگا اور زمین و آسمان کے پرخچے اڑ جائیں گے  اور قیامت برپا ہو گی۔ اس کا مطالعہ کوئی عالم دین جب ہی کرے گا جب وہ سائنس کی بیسک سے واقف ہوگا۔ اب اگر اسے اسٹیفن ہاکنگ کہے یا کوئی اور فزکس کے ماہر اپنی تحقیق کا موضوع بنائے اور قیامت برپا ہونے کی یہ مادی دلیل دے تو اس پر چیں بہ جبیں کی ضرورت نہیں ہے۔  کن فیکون الله کی قدرت کاملہ ہے۔ اور مادی اسباب سنة الله  ہے۔

تبصرے بند ہیں۔