کیا عورت مردوں کی  امامت کرا سکتی ہے؟

مقبول احمدسلفی

سوشل میڈیا پہ کئی دفعہ عورت کا مردوں کی امامت کرنے کی تصویر دیکھنے کو ملی مگر تصنع بھری دنیا میں اس قسم کی چیزوں پر اعتبار مشکل سے ہوتا ہے البتہ دو مواقع پر خبروں کے مطابق عورتوں کا مردوں کی امامت کا معاملہ سامنے آیا تھااور اس پرعالم اسلام کی جانب سے سخت نقد وتبصرہ بھی کیا گیا تھا۔ پہلا موقع جب افریقہ نژاد نومسلمہ ڈاکٹر امینہ ودود نے نیویارک میں سوسے زائد لوگوں کی امامت کرائی تھی جس میں مرد وعورت اور بچے شامل تھے۔ دوسرا موقع جب کنیڈا میں راہیل رازا نامی عورت نے آکسفورڈ سٹی کے ایک اسلامی مرکز میں نمازجمعہ پڑھائی تھی، اس میں بھی عورت ومرد شامل تھے۔ ابھی اخبارات کی سرخیوں میں ایک تیسرا موقع سامنے آیا ہے جب کسی مسلم خاتون نے مردوں کی امامت کرائی ہے۔ خبروں کے مطابق قرآن وسنت سوسائٹی کی جنرل سیکریٹری 34 سالہ مسلم خاتون جمیتہ نے کیرلا کے مسلم اکثریتی ضلع میں عورت ومرد کی نماز جمعہ میں امامت کرائی ہے جس میں عورت ومرد کی تعداد اسی کے قریب تھی۔

جمیتہ نے جس طرح اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور عورت کو کہیں بھی امامت کرنے سے نہیں روکا ہے، کچھ ایسی ہی بات ڈاکٹرامینہ ودود نے بھی اپنے انٹرویو میں کہی تھی۔ گویا کہ عورت کی امامت کرنے کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عورت ومرد میں مساوات پایا جاتا ہے اور اسلام نے عورتوں کوامامت کرنے سے نہیں روکاہے۔

اس مسئلہ کی وضاحت سے قبل یہ بات جان لی جائے کہ عورتوں کا فتنہ دنیا میں سب سے زیادہ بھیانک اور غیرمعمولی نوعیت کا ہے۔ جب کوئی فتنہ عورت جنم دے یا کوئی عورت کا فتنہ پھیلائے تو اس فتنے کے ذریعہ آنے والی تباہی کو روک پانا مشکل ترین امر ہوجا تا ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

ما تَركتُ بَعدي فِتنَةً أضرَّ على الرجالِ منَ النساءِ(صحيح البخاري:5096)

ترجمہ: میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ خطرناک کوئی فتنہ نہں چھوڑا۔

اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کے حقوق واختیارات کی رعایت کی ہے، کہیں بھی انہیں اجر وثواب سے، عمل ومحنت سے، جودوسخا سے، زہدوورع سے اور عبادت ومعاملہ سے نہیں روکا ہے مگر جس طرح اللہ نے عورت کی جسمانی ساخت اور بعض فطری اوصاف مردوں سے جداگانہ رکھے ہیں اسی طرح عبادات واحکام سے لیکر حقوق ومعاملات تک بعض مسائل میں فرق رکھا ہے جو ان کے شایان شان ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ نعرہ لگاتے ہیں اسلام دین مساوات ہے جبکہ اصل نعرہ ہونا چاہئے اسلام دین عدل ہے جیساکہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ عورت ومرد میں بعض چیزوں میں مساوات ہے اور بعض چیزوں میں اختلاف پایا جاتاہے اس لئے مکمل مساوات کا نعرہ نہیں لگایا جائے گا۔ اور جہاں تک روشن خیال مغرب زدہ لوگوں کا خیال ہے کہ عورت ومرد میں ہرقسم کی برابری ہو،عورت خودمختار ہو،عورت سربراہ ہو،عورت ہرمحکمہ، تنظیم، ادارہ اور جماعت میں موجود ہو، ہر کام میں مردوں کی طرح عورتوں کی نصف شمولیت ہو۔ یہ ایک غیرفطری سوچ ہے دنیا میں شراب وکباب، رقص وسرود، اباحیت پسندی، فحاشیت وعریانیت اور خواہشات کا ننگا ناج سب اسی سوچ کی دین ہے۔

سربراہی صرف مردوں کا حق ہے لہذا کوئی عورت ملک وقوم کی سربراہ یا مردوں کا قائد ورہنما نہیں ہوسکتی ہے۔ گواہی میں دو عورت ایک مرد کے قائم مقام ہے، میراث میں مردوں کے آدھا ہے، عورت مکمل پردہ اور مرد کے لئےصرف ناف سے گھٹنہ تک سترہے۔ مرد بیک وقت چار شادی کر سکتاہے مگر عورت ایک وقت میں صرف ایک مرد کی زوجیت میں رہے گی۔ عورت کے لئے ریشم وسونا حلال ہے اور یہی چیز مردوں پر حرام ہے۔ عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ، نہ ہی جماعت سے مسجدحاضر ہونا لازم ہے بلکہ اس کی افضل نماز گھر میں ہے۔ ان سارے فرقوں کے ساتھ مردوزن میں عبادات ومعاملات کی بہت ساری چیزوں میں مساوات پایا جاتا ہے مثلا وضو، غسل، نماز، روزہ، حج، زکوۃ۔ ان میں صرف بعض احکام میں فرق ہے اور اکثر چیزیں مماثل ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :

وَلا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً(النساء:32)

ترجمہ: اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالٰی نے تم میں سے بعض کو بعض پر بُزرگی دی ہے۔ مردوں کا اس میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے ان میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ تعالٰی سے اس کا فضل مانگو، یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے۔

یہاں ایک مسئلہ حل ہوگیا کہ عورت ومرد میں مکمل مساوات نہیں ہے، یہی فطرت ہے جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ فطرت سے بغاوت کرتا ہے اور ساری دنیا مل کر بھی جتنی طاقت لگالے عورت ومرد میں مکمل یکسانیت پیدا نہیں کی جاسکتی۔ حیض عورت کو ہی آئے گا مرد کو نہیں ، بچہ عورت ہی پیدا کرے گی مرد نہیں ، حمل عورت کا خاصہ ہے مرد کا نہیں اور ساخت کا جو فرق ہے اپنی جگہ مسلم ہے بڑے سے بڑا سائنس داں اس فرق کوختم نہیں کرسکتا۔مغربی ممالک میں مساوات کے علم برداروں نے کتنے مردوں کو داڑھی اگنے سے روک لیا یا کتنی عورتوں کے چہرے پر ڈارھی کے ابال اگائے ؟ کس کس چیز میں مساوات قائم کریں گے ؟ مر جائیں گے مگر فطرت کو بدل نہیں سکتے۔ اور جوسکون ازدواجی زندگی میں مرد کو عورت سے ہے اسی سبب ہے کہ مرد مرد ہے اور عورت عورت۔ ہم جنس پرستی سوائے جنون وپاگل پن کے اور کچھ نہیں۔

یہ بات نصوص سے ثابت ہے کہ ایک عورت دوسری عورتوں کی جماعت کراسکتی ہےخواہ فرض ہو یا نفل مگر کوئی عورت کسی مرد کی امامت نہیں کرسکتی حتی کہ بیوی اپنے شوہر کی بھی امامت نہیں کرسکتی تو اجنبی عورت، اجنبی مرد کی کہاں سے امامت کرسکتی ہے ؟۔

مردہی عورتوں کا سربراہ ہے اورجس طرح دنیاوی معاملات میں عورت مرد کا سربراہ نہیں ہوسکتی اسی طرح نماز میں بھی وہ امام وپیشوا نہیں بن سکتی۔ مسجد میں عورتوں کی حاضری صرف مقتدی کی حیثیت سے ہوتی ہے اور عورتوں کے لئے الگ سے کوئی مسجد قائم نہیں ہوسکتی ہے۔ مسجد میں حاضری کے مزید اصول یہ ہیں کہ جن سے فتنے کااندیشہ ہو وہ عورتوں کے لئے ممنوع ہے مثلا عطر لگاکر آنا، آواز نکالنا حتی کہ امام کی غلطی پر تنبیہ کرنے کے لئے آواز نہیں نکالنا ہے بلکہ ایک ہاتھ دوسرے پر مارنا ہے۔عورتوں کا اول صف میں ہونا شر اورآخری صف میں ہونا خیرہے۔

عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ہے یہی حکم الہی اور فرمان نبوی ہے، اس پرچودہ صدیوں سے مسلمانوں کا عمل رہا ہے جو لوگ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مساوات کا بہانہ بناکر عورتوں کے ذریعہ دین اسلام میں فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئےکہ عبادت توقیفی معاملہ ہے اس کے کرنے کی دلیل چاہئے نہ کہ نہ کرنے کی۔ اگر شریعت اسلامیہ نے عورت کو صریح لفظوں میں مردوں کی امامت کرانے سے منع نہیں کیا ہے تو کیا ہوا اسلام کی واضح تعلیمات سے روشن وعیاں ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی۔ اس کے لئے صرف ایک حدیث کافی ہے۔

التسبيحُ للرجالِ، والتصفيحُ للنساءِ (صحيح البخاري:1204)

ترجمہ: تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کے لیے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لیے ہے۔

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں نماز میں آواز نہیں نکال سکتی، امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لئے جب عورت معمولی سی آواز نہیں نکال سکتی تو مکمل نماز کی امامت کیسے کرسکتی ہے ؟

مجھے حیرت ہے کہ امامت کا معاملہ خالص مسلمانوں کا ہے اور غیرمسلموں سے اس مسئلہ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور سارے فقہی علماء بشمول ائمہ سلف وخلف سبھی کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی۔ پھر کس قسم کے مسلمان عورتوں کے ذریعہ ایسا فتنہ پھیلاتے ہیں ؟ کیا ان کا کوئی مذہب نہیں یا یہ عورتیں خود ہی غیروں کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہورہی ہیں؟ اللہ کی پناہ۔

امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع شرح المھذب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے عورتوں کا مردوں کی امامت پر ممانعت سے متعلق ضعیف حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا اتفاق ہے کہ کسی عورت کے پیچھے بچے اور بالغ مرد کی نماز جائز نہیں ہے، ،، آگے لکھتے ہیں خواہ ممانعت عورت کی امامت مردوں کے لئے فرض نمازسے متعلق ہو یا تراویح سے متعلق ہو یا سارے نوافل سے۔ یہی ہمارا مذہب ہے اور سلف وخلف میں سے جمہور علماء کا۔ اور بیہقی نے مدینہ کے تابعین فقہائے سبعہ سے بیان کیا ہے اور وہ امام مالک، امام ابوحنیفہ، سفیان، امام احمد اور داؤد ہیں ۔ (المجموع شرح المهذب،كتاب الصلاة » فصل إمامة المرأة في الصلاة)

ام ورقہ رضی اللہ عنہا اپنے قوم کی عورتوں کی امامت کراتی تھیں اس سے دلیل پکڑی جاتی ہے کہ ان کی امامت میں محلے کے مرد اور مؤذن بھی شامل ہواکرتے تھے۔ یہ ٖغلط بیانی ہے، ابوداؤد میں صراحت نہیں ہے مگر دارقطنی میں نساء کا لفظ وارد ہے کہ ام ورقہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اس میں کوئی مرد شامل نہیں ہوتا تھا حتی کہ مؤذن بھی نہیں ۔ لہذا کسی مسلمان عورت کے لئے روا نہیں کہ وہ مردوں کی امامت کرائے۔ کیرلا میں جو کچھ ہوا ہمیں اس پہ سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ فتنہ مزید سر نہ اٹھا سکے۔

2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    برادرعاصم کی وال سےمنقول,اس پرسنجیدہ گفتگوکی گنجائش ہے.

    عورت کی امامت کامسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر ایمان کا دارومدار ہو۔ یہ فقہ کا ایک عام سا مسئلہ ہے جس پر دلیل سے بات کرنے کی اور اختلافی رائے کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت کرنےوالی خاتون نے روایت کو توڑا اور جمہور فقہا کی رائے کے خلاف عمل کیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام روش ہے کہ مسئلہ کی تحقیق کرنے کے بجائے اس کے خلاف عوام کے جذبات کو بھڑکا دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس مسئلہ کو ایسے ہی حل کرنا چاہیے جیسے ہمارے فقہا نے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے دلیل کی بنا پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور مخالفین نے بھی ان کی رائے کو وزن دیا ہے۔ اگر عورت کی امامت فتنہ ہے تو اسی لیبل کو بڑے بڑے فقہا پر بھی چسپاں کرنا پڑے گا۔
    امام قاضی ابو الولید محمد بن احمد بن رشدالقرطبی(متوفی ۵۱۵ھ)اپنی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں فرماتے ہیں:
    ’’عورت کی امامت کے بارے میں فقہا میں اختلاف ہے ۔جمہور فقہا کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ عورت مردوں کی امامت کرے اور اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ عورتوں کی امامت کرے ۔امام شافعی نے اس کی اجازت دی ہے، مگر امام مالک نے اس سے منع کیا ہے ۔ ابو ثور اور طبری جمہور کی رائے سے ہٹ کر ان کی مطلقاً امامت کے قائل ہیں ۔ جمہور فقہا کا اس مسئلہ میں کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کر سکتی اتفاق اس لیے ہے کہ اگر یہ جائز ہوتا تو صدر اول میں اس کی کوئی روایت ملتی اور اس لیے بھی کہ نماز میں عورتوں کا کھڑاہونے کا طریقہ یہی تھا کہ وہ صف میں مردوں کے پیچھے کھڑی ہوتی تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا مرد سے آگے کھڑا ہونا جائز نہیں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
    اخروھن حبت اخرھن اللّٰہ.
    ’’ان کو پیچھے رکھو جہاں اللہ نے ان کو پیچھے رکھا ہے۔‘‘
    اسی لیے بعض فقہا نے عورتوں کے لیے عورت کی امامت کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ نماز میں وہ سب ایک ساتھ کھڑی ہوں، علاوہ ازیں یہ بات بعض لوگوں سے صدر اول میں منقول ہے۔اور جن علما نے عورت کی امامت کو مطلقاً جائز سمجھا ہے ، انھوں نے اس حدیث کی طرف رجوع کیا ہے جو ابو داؤد نے ام ورقہ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام ورقہ کے گھر جایا کرتے تھے اور آپ نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا اور انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے اہل خاندان کی امامت کیا کریں۔‘‘ (۱/ ۱۰۵)
    ’’بدایۃ المجتہد‘‘ کی عبارت سے معلو م ہوتا ہے کہ عورت کی امامت کا مسئلہ اختلافی ہے۔ عورت عورتوں کی امامت کرے یا عورت مردوں کی امامت کرے ،دونوں باتوں میں اختلاف ہے۔ ابراہیم بن خالد بن ایمان ابو ثور (متوفی ۲۴۰ھ) جیسے محدث اور فقہ شافعی کے امام مجتہد اور ابو جعفر محمد بن جریر (متوفی ۳۱۰ھ) جیسے محدث ،مفسر ، مورخ اور مستقل فقہی مذہب کے امام نے جمہور علما کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ عورت مردوں کی امامت کرے اور ان کی دلیل ایک مرفوع صحیح حدیث ہے۔
    سنن ابی داؤد میں عورت کی امامت کے عنوان کے تحت ام ورقہ سے دو حدیثیں روایت کی گئی ہیں۔ پہلی حدیث کا متن یوں ہے:
    ’’ام ورقہ بنت نوفل سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیے نکلنے والے تھے تو میں نے کہا :اے اللہ کے رسول ، مجھے بھی اپنے ساتھ اس غزوہ میں جانے کی اجازت دیجیے ۔ میں آپ کے مریضوں کی تیمارداری کروں گی ، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی موت دے دے ۔ اللہ کے رسول نے فرمایا:اپنے گھر میں ٹھہری رہو یقیناًاللہ تعالیٰ تمھیں شہادت کی موت دے گا۔ راوی کا قول ہے کہ اس بشارت کی وجہ سے لوگ انھیں شہیدہ کہتے تھے۔ راوی کہتا ہے کہ وہ قرآن کی قاری (حافظہ)تھیں ، چنانچہ انھوں نے نبی اکرم سے اپنے گھر میں ایک مؤذن مقرر کرنے کی اجازت طلب کی ۔ آپ نے انھیں اس کی اجازت دے دی۔ راوی کا قول ہے کہ ان کاایک مدبر غلام (جو مالک کی موت کے بعد آزاد ہو جاتا ہے) اور ایک لونڈی تھی۔ یہ دونوں ایک رات اٹھ کر ان کے قریب آئے اور پلش کی چادر سے ان کو اس قدر دبا کر ڈھانپا کہ وہ مر گئیں ۔ وہ دونوں بھاگ گئے۔ صبح کو حضرت عمر لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : جس کسی کو ان دونوں قاتلوں کا علم ہو یا جس نے بھی ان کو دیکھا ہو تو پکڑ کر میرے پاس لے آئے ۔چنانچہ جب وہ لائے گئے تو حضرت عمر نے ان کو سولی پر لٹکا دیا۔ وہ دونوں پہلے قاتل تھے جن کو مدینہ منورہ میں سولی پر لٹکایا گیا۔‘‘(ابو داؤد)
    حافظ ابن حجرعسقلانی نے اسے ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ ‘‘میں ام ورقہ کے ترجمہ (۴:۵۰۵)میں ابن السکین کے حوالہ اور محمد بن فضیل کی سند سے بیان کی ہے اور اس میں اس قدر اضافہ کیا ہے :
    ’’جب صبح ہوئی تو حضرت عمرنے فرمایا: بخدا کل شب میں نے اپنی خالہ ام ورقہ کی قرأت نہیں سنی ۔پہلے وہ اس کے محلہ (دار) میں داخل ہوئے جب کچھ نظر نہ آیا تو ان کے گھر (بیت) میں داخل ہوئے تو وہ ایک کونے میں پلش کی چادر میں لپٹی پڑی تھیں ۔ آپ نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچ کہا کرتے تھے :چلو چل کر شہیدہ سے ملاقات کریں۔ پھر آپ منبر پر چڑھ گئے۔‘‘
    دوسری حدیث ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے ایک اور سند سے مروی ہے ،لیکن پہلی حدیث کا مل تر ہے۔ اس حدیث کا متن یوں ہے:
    ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر آیا جایا کرتے تھے۔ آپ نے ایک موذن مقرر فرمایا تھا جو ام ورقہ کے لیے اذان دیتا تھا ۔آپ نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے خاندا ن والوں کی امامت کیا کریں۔ راوی عبدالرحمان کہتا ہے کہ میں نے ان کا مؤذن دیکھا تھا جو ایک بوڑھا شخص تھا ۔‘‘(ابوداؤد)
    مذکورہ حدیث میں ایک لغوی نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر امامت کی حدود کا تعین نہیں ہو سکتا۔ دوسری حدیث میں’ تؤم اھل دارھا ‘کی تعبیر استعمال ہوئی ہے نہ کہ ’اھل بیتھا‘۔ ’اھل البیت ‘کے معنی گھر والے ہیں جبکہ ’اھل الدار ‘کے معنی قبیلے والے، محلے والے اور خاندان والے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے ’’الاصابہ‘‘ میں جو روایت نقل کی ہے ، اس میں بھی ہے کہ حضرت عمرپہلے ان کے احاطے یا محلے( دار )میں داخل ہوئے پھر ان کے گھر (بیت)میں۔
    امام راغب کے قول کے مطابق ’دار‘ کا لفظ شہر ، علاقے،بلکہ سارے جہان کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’المصباح المنیر‘‘ میں ہے:
    ’’اصل میں لفظ دار اس جگہ پر بولا جاتا ہے جو ارد گرد سے گھری ہوئی ہو ، مثلاًدو پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی وادی کو بھی دار کہا جاتاہے اور مجازاً اس کا اطلاق قبیلے پر ہوتا ہے۔‘‘
    احمد بن فارس بن زکریا (متوفی ۳۹۵)اپنی مشہور لغت کی کتاب ’’معجم مقاییس اللغۃ‘ ‘میں ’الدار‘ کے متعلق لکھتے ہیں :
    ’’اس سے مراد قبیلہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’الا انبئکم بخیر دور الانصار‘ کیا میں تمھیں انصار کے بہترین قبیلوں کے متعلق نہ بتاؤں ۔ ایک اور حدیث میں ہے :’فلم تبق دار الانبی فیہا المسجد‘یعنی کوئی ایسا قبیلہ نہ رہا جس میں مسجد نہ بنائی گئی ہو۔‘‘
    صاحب ’’القاموس المحیط‘‘ لکھتے ہیں کہ :
    ’’دار کا اطلاق ہر کھلی زمین پر ہوتا ہے جو پہاڑوں کے درمیان واقع ہو اور ہر اس چیز پر جس کو کسی چیز نے دائرے کی مانند گھیر رکھا ہو۔‘‘
    ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن عویمر بن نوفل الانصاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ تھیں ۔ انھوں نے رسول اکرم کے دست مبارک پر بیعت بھی کی تھی۔ اس زمانہ میں صراحت کے ساتھ اگر کسی عوررت کے بارے میں حافظہ ہونے کا ذکر ملتا ہے تو صرف انھی کے متعلق ملتا ہے ۔ان کی قرأت اتنی اچھی تھی کہ حضرت عمررات کو بڑے ذوق وشوق سے ان کی قرأت کو سنتے تھے۔ غالباً وہ اونچی آواز سے قرأت کرتی ہوں گی ۔ ایک رات حضرت عمر نے جب ان کی قرأت کو نہ سنا تو ان کے بارے میں انھیں فکر لاحق ہو گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمیں ان کا مرتبہ یہ تھا کہ آپ نے ان کو شہیدہ ہونے کی بشارت دی تھی اور وہ اکثر ان کے یہاں جایا کرتے تھے اور اپنے صحابۂ کرام سے کہتے : ’’چلو چل کر شہید ہ سے ملاقات کریں ۔‘‘یقیناًآنحضرت نے ام ورقہ کے حفظ قرآن اور حسن قرأت کی وجہ سے انھیں امامت کرنے کا حکم دیا وہ اپنے علاقے یا محلے کی بہترین قاری ہوں گی ۔ کیونکہ امامت کی اہلیت کے بارے میں امام احمد ، مسلم اور نسائی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے امامت کا حق دار وہ ہے جو قرآن کی سب سے بہتر قرأت کرنے والا ہو اور اگر قرأ ت میں سب برابر ہوں تو پھر وہ جو سنت کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو ،پھر وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو ،پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ۔اس حدیث میں مرد یا عورت کی کوئی تخصیص نہیں ۔ اسی معیار کے مطابق ام ورقہ اپنے محلے کی امامت کی حق دار ٹھہریں ۔
    یہ حدیث مسند امام احمد بن حنبل(متوفی ۲۴۱ھ)،طبقات ابن سعد(متوفی۲۳۵ھ)،صحیح ابن خزیمہ (متوفی ۳۱۱ھ)، سنن دار قطنی(متوفی۳۸۵ھ)،مستدرک حاکم(متوفی۴۰۵ھ)،سنن کبریٰ بیہقی(متوفی۴۸۵ھ)،کنز العمال علی المتقی (متوفی ۹۷۵ھ) میں مروی ہے۔
    امام دارقطنی نے مذکورہ حدیث کو دو مرتبہ روایت کیا ہے ۔ ایک روایت کا متن وہی ہے جو ابوداؤد کی روایت کا ہے۔ مگر انھوں نے ’’کتاب الصلوٰۃ باب ذکر الجماعۃ واہلہا وصفۃ الامام‘‘ میں اسے یوں روایت کیا ہے :
    ’’ام ورقہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے اجازت دے دی تھی کہ اس کے لیے اذان دی جائے اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں۔‘‘
    اس روایت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھی ۔ یہ دار قطنی کے اپنے الفاظ ہیں حدیث کے الفاظ نہیں ،یہ ان کی اپنی رائے ہے ۔سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ اضافہ نہیں ،اس لیے اس اضافے کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔
    حدیث مذکور کا فن حدیث کی رو سے مقام
    حافظ ابن حجر عسقلانی ’’التلخیص الحبیر‘ ‘میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ایک راوی ولید بن عبداللہ بن جمیع مجہول الحال ہیں ، مگر ابن حبان نے ان کو ثقہ شمار کیا ہے۔ زیلعی نے ’’نصب الرایۃ‘‘ ( ۳ / ۳۶) میں کہاہے کہ منذری کا قول ہے کہ ولید بن جمیع کے بارے میں کلام ہے ،مگر مسلم نے ان سے روایت کی ہے ۔
    ابن قطان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ولید بن جمیع اور عبدالرحمان مجہول الحال ہیں ،لیکن میں (زیلعی)کہتا ہوں کہ ابن حبان نے دونوں کو ثقہ شمار کیا ہے ۔ ابو داؤد کی شرح ’’بذل المجہود ‘‘میں ہے کہ ولید بن جمیع کو ابن معین، عجلی اور ابن سعدنے ثقہ مانا ہے۔ امام احمد ، ابو داؤد اور ابو زرعہ کا قول ہے کہ اس سے روایت میں کوئی حرج نہیں ۔
    ’’اروا ء الغلیل ‘‘ میں دور حاضر کے سب سے بڑے محدث ناصرالدین البانی فرماتے ہیں:
    ’’منذری نے ولید بن عبداللہ کو مجہول ٹھہرایا ہے اور میں نے صحیح ابو داؤد میں اس کا جواب دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم نے اسے حجت تسلیم کیا ہے اور ابن معین کی طرح ایک جماعت نے اسے ثقہ گردانا ہے۔‘‘ (۲/ ۲۵۶)
    دوسری حدیث کے ایک راوی عبدالرحمان خلادالانصاری کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’التقریب‘‘ میں کہا ہے کہ وہ مجہول الحال ہے ،مگر ’’التلخیص الحبیر ‘‘میں وہ کہتے ہیں کہ ابن حبان نے اسے ثقہ مانا ہے۔ ’’السیل الجرار ‘‘میں امام شوکانی (متوفی ۱۲۵۰ھ)کا قول ہے کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمان بن خلاد الانصاری مجہول الحال ہے ، لیکن ابن حبان نے اسے ثقہ شمار کیا ہے۔
    ابن خزیمہ نے ام ورقہ کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور ناصرالدین البانی نے ’’ارواء الغلیل ‘‘میں ’’التعلیق المغنی‘‘ کے مؤقف کے حوالے سے بتایا ہے کہ :
    ’’علامہ عیسیٰ نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
    اس حدیث کی صحت کی وجہ سے کم و بیش ہر مسلک کے فقہا نے اس حدیث سے انکار نہیں کیا ،یہ الگ بات ہے کہ اس حدیث کی تشریح انھو ں نے مختلف طریقوں سے کی ہے۔ جن فقہا نے اس حدیث کی بناپر مردوں کے لیے عورت کی امامت کو جائز سمجھا ہے ، ان کی نقلی دلیل خاصی مضبوط معلو م ہوتی ہے۔
    فقہی آرا کا جائزہ
    مذکورہ حدیث کی بناپر فقہا عورت کو امامت کا حق دار سمجھتے ہیں ۔ ’’البدائع والصنائع‘‘ میں امام کا سانی حنفی فرماتے ہیں :
    ’’عام طور پر عورت امامت کی اہل ہے ،یہاں تک کہ وہ عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے۔‘‘
    ’’فتح القدیر‘‘ میں محقق ابن الہمام کا بھی یہی قول ہے۔’’ السیل الجرار ‘‘میں امام شوکانی کا قول ہے کہ حدیث ام ورقہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی امامت عورتوں کے بارے میں صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے ۔ ’’الفقہ علی المذاہب الاربعہ ‘‘(۱/ ۴۰۹)میں ہے کہ اگر مقتدی عورتیں ہوں تو سوائے امام مالک کے سب ائمہ عورت کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں ۔حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ عورتوں کی امامت کرتی رہی ہیں ۔ ’’المحلی‘‘ (۴/ ۲۳۰)میں طاؤس کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ حضرت عائشہ اذان بھی دیتی تھیں اور اقامت بھی کہتی تھیں۔ عورت امامت کی اہل ہے ۔ امام مالک کے علاوہ سب ائمہ کا اس پر اتفاق ہے۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ آیا وہ مردوں کی امامت کر سکتی ہے یا نہیں؟
    فقہا نے ام ورقہ کی روایت کی ایک تشریح تو یہ کی ہے کہ اس میں صرف عورتوں کی امامت کا حکم ہے اور وہ دارقطنی کی دوسری روایت کا یہ جملہ’ وتوم نساء ھا ‘(اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں )بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ صحاح ستہ میں سے سنن ابی داؤد سمیت حدیث کی کئی ایک کتابوں میں یہ حدیث مذکور ہے ،لیکن دار قطنی کے علاوہ کسی نے یہ جملہ استعمال نہیں کیا ،بلکہ یہ لکھا ہے ’امرھا ان توم اھل دارھا‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ اپنے اہل خاندان کی امامت کرے ۔ اگر دار قطنی کی دوسری روایت کو غور سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دار قطنی کے اپنے الفاظ ہیں۔ اس روایت کا متن ملاحظہ فرمائیں :
    ’’ام ورقہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے اجازت دے دی تھی کہ ان کے لیے اذان دی جائے اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں ۔‘‘
    یہ آخری جملہ پہلے جملے سے کٹا ہوا ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ ام ورقہ کے نہیں ،بلکہ دارقطنی کے ہیں اور یہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔ عورت محض عورتوں کی امامت کرے اس کی تردید ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ (۲/ ۱۹۸) میںیہ کہہ کر کی ہے کہ:
    ’’ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موذن مقرر کیا اور انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے اہل خاندان (محلہ) کی امامت کرے ۔ یہ حکم مردوں اور عورتوں کے لیے عام ہے۔ ‘‘
    امیر صنعانی(متوفی ۱۱۸۲ھ)’’بلوغ المرام ‘‘کی شرح ’’سبل السلام ‘‘ میں کہتے ہیں :
    ’’حدیث ام ورقہ ابو داؤد نے روایت کی ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح گردانا ہے ۔اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت اپنے اہل خاندان کی امامت کرے گی، خواہ اس میں مرد ہی کیوں نہ ہوں ،کیونکہ ان کا موذن روایت کے مطابق بوڑھا آدمی تھا ظاہر ہے وہ ان کی امامت میں نماز پڑھتا تھا ۔ اسی طرح ان کا غلام اور لونڈی ان کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے ۔‘‘ (۲/ ۳۵)
    اسی طرح’’ الروض المربع شرح زادالمستقنع‘‘ (۲/ ۳۱۲ ، حاشیہ) میں عبدالرحمان بن محمد بن قاسم النجدی لکھتے ہیں کہ ان کو نبی پاک نے حکم دیا کہ وہ اپنے خاندان والوں کی امامت کیا کریں ،خواہ اس میں مرد ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر جمہور اہل علم اس کے مخالف ہیں ۔ دور حاضر کے مشہور محقق ڈاکٹر حمیداللہ سے سوال کیا گیاکہ کیا عورت صرف عورتوں کی امامت کر سکتی ہے ؟ ان کا جواب ’’خطبات بہاول پور‘‘ میں یوں ہے:
    ’’میں اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انھیں صرف عورتوں کے لیے امام بنایا گیا تھا ۔ حدیث میں اہل خاندان کے الفاظ ہیں ، اہل کے معنی صرف عورتوں کے نہیں ہوتے ۔ پھر اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کا ایک مؤذن تھا ،جو ایک مرد تھا اور مزید تفصیلات بھی ملتی ہیں کہ ان کے غلام بھی تھے ،ظاہر ہے کہ غلام ان کی امامت میں نماز پڑھتے ہوں گے ۔ غرض یہ کہ امامت صرف عورتوں کے لیے نہیں تھی ،بلکہ مردوں کے لیے بھی تھی۔‘‘( ۴۲۰)
    بعض فقہا اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ اس حدیث میں امامت کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے، مگر وہ اس حکم کو نوافل تک محدود سمجھتے ہیں اور فرضوں کے لیے ممنوع قرار دیتے ہیں ۔ حاکم نے مستدرک میں حدیث کو ایک اضافے کے ساتھ روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ :
    ’’نبی کریم نے ان کو حکم دیا کہ اپنے اہل خاندان کی فرائض میں امامت کریں ۔‘‘
    امام ابن تیمیہ’’ فتاویٰ‘‘ (۲۳ / ۲۴۸) میں فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کامشہور قول ہے کہ انھوں نے بوقت ضرورت عورتوں کو مردوں کی امامت کی اجازت دی ہے ،مثلاً اگر قاری عورت کے علاوہ اور کوئی قاری نہ ہو تو وہ مردوں کو نماز تراویح پڑھا سکتی ہے ۔چنانچہ’’ المغنی ‘‘میں ابن قدامہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے بعض (حنبلی )اصحاب کا قول ہے کہ عورت کے لیے نماز تراویح میں مردوں کی امامت جائزہے۔ ‘‘ ابن قدامہ ان اصحاب کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مؤذن مقرر کیا تھا جس سے پتا چلتا ہے کہ فرائض میں امامت کی اجازت دی گئی ،کیونکہ اذان تو صرف فرضو ں کے لیے دی جاتی ہے۔
    ان دلائل سے واضح ہو گیا کہ ام ورقہ فرائض میں عورتوں اور مردوں کی امام تھیں ۔
    بعض فقہابالخصوص احناف کی رائے ہے کہ امامت کا یہ حکم اسلام کے ابتدائی دورمیں تھا بعد میں منسوخ ہو گیا ۔ ’’البدائع والصنائع ‘‘کے مصنف کی بھی یہی رائے ہے ،مگر ابن الہمام الحنفی جیسے محقق نے ’’فتح القدیر‘‘ میں اس رائے پر سخت اعتراض وارد کیا ہے اور مستدرک امام محمد کی کتاب الآثار اور ابو داؤد کی روایات ،خاص طور پر ام ورقہ کی حدیث پیش کر کے اس رائے کا باطل قرار دیا ہے ۔ اس حکم کے منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ ’’طبقات ابن سعد‘‘ اور ’’الاستیعاب‘‘ میں ام ورقہ کے ترجمہ میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے :
    ’’ام ورقہ اپنے اہل خاندان کی امامت کرتی رہیں حتیٰ کہ ان کے غلام اور لونڈی نے ان کو اوپر سے ڈھانپ کر ان کا سانس بند کر دیا۔ ‘‘ (۸/ ۴۵۵)، (۴/ ۱۹۱۵)
    ڈاکٹر حمیداللہ ’’خطبات بہاول پور‘‘ میں رقم طراز ہیں :
    ’’اس حدیث کے متعلق یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہ شاید ابتداے اسلام کی بات ہو اوربعد میں اللہ کے رسول نے اسے منسوخ کر دیا ہو ،لیکن اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ام ورقہ حضرت عمر کے زمانے تک زندہ رہیں اور اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں یہ بات ویسے بھی عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ ابتدائی زمانہ میں جب خواتین زیادہ تر حفظ اور قرأت سے ناآشنا تھیں ان کو امامت کی اجازت دی گئی ہو اور بعد میں جب بے شمار خواتین اس فن میں ماہر ہوگئیں تو انھیں امامت سے روک دیا گیا ہو۔‘‘ (۳۵)
    وہ فقہا جو اس بات کے قائل ہیں کہ عورت مردوں کی امامت کر سکتی ہے ، انھوں نے حضرت ام ورقہ کی حدیث سے دو طرح استدلال کیا ہے ۔ کچھ فقہا کاخیال ہے کہ عورت ضرورت کے تحت مردوں کی امامت کر سکتی ہے جیسا کہ اس ضمن میں امام ابن تیمیہ نے امام احمد بن حنبل کا قول نقل کا ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ۔ صاحب ’’المغنی‘‘ کی بھی یہی رائے ہے کہ اس اجازت کو ام روقہ سے مخصوص سمجھا جائے گا ۔ ابو داؤد کی ’’شرح عون المعبود ‘‘کے مصنف کا بھی یہی قول ہے کہ ام ورقہ کا معاملہ خاص معاملہ ہے ، اسے عام اصول نہیں بنا یا جا سکتا۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے بھی اس رائے کی تائید کی ہے ۔وہ ’’خطبات بہاول پور ‘‘ میں کہتے ہیں :
    ’’بعض اوقات عام قاعدے میں استثنا کی ضرورت پیش آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استثنائی ضرورتوں کے لیے یہ تقرر فرما یا تھا ۔ چنانچہ میں اپنے ذاتی تجربے کی ایک چیز بیان کرتا ہوں ۔پیرس میں چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک افغان لڑکی طالب علم کے طور پر آئی ۔ہالینڈ کا ایک طالب علم جو اس کا ہم جماعت تھا اس پر عاشق ہوگیا ۔ عشق اتنا شدید تھا کہ اس نے اپنا دین بدل کر اسلام قبول کر لیا ۔ ان دونوں کا نکاح ہوا ۔ اگلے دن وہ لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ بھائی صاحب میرا شوہر مسلمان ہوگیا ہے اور وہ اسلام پر عمل بھی کرنا چاہتا ہے ،لیکن اسے نماز نہیں آتی اور اسے اصرار ہے کہ میں خود امام بن کر نماز پڑھاؤں ۔ کیا وہ میری اقتدامیں نماز پڑھ سکتاہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر آپ کسی عام مولوی صاحب سے پوچھیں گے تو وہ کہے گا کہ جائز نہیں ،لیکن میرے ذہن میں رسول اللہ کے طرز عمل کا ایک واقعہ حضرت ام ورقہ کا ہے ۔ اس لیے استثنائی طور پر تم امام بن کر نمازپڑھاؤ۔ تمہارے شوہر کو چاہیے کہ وہ مقتدی بن کر تمھارے پیچھے نماز پڑھے اور جلد از جلد قرآن کی ان سورتوں کو یاد کرے جو نماز میں کام آتی ہیں ۔کم از کم تین سورتیں یاد کرے ۔پھر اس کے بعد وہ تمھارا امام بنے اورتم اس کے پیچھے نماز پڑھو۔‘‘(۳۵)
    یہ ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے ،مگر ابو سعید خدری کی روایت کے مطابق اس کا خاوند اس وقت تک امامت کا حق دار نہیں ہو گا جب تک وہ اپنی بیوی سے بہتر قرأت نہ کرنے لگے ۔
    بعض فقہا نے حضرت ام ورقہ کی حدیث کے پورے متن کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ رائے قائم کی ہے کہ عورت مطلقاً مردوں کی امامت کر سکتی ہے۔ ابو ثورابراہیم بن خالد بن یمان کلبی بغدادی (متوفی ۲۴۰ھ)، اسماعیل بن یحییٰ بن اسماعیل المزنی (متوفی۲۶۴ھ)اور امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی۳۱۰ھ)کی یہی رائے ہے۔ ان میں ابو ثور اور مزنی امام شافعی کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے ۔ دونوں اپنے مذہب کے امام مجتہد تھے۔ ابو ثور کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ ’’میں سنت کے بارے میں ان کے علم کو پچاس برس سے جانتا ہوں ۔ مجھے تو وہ سفیان ثوری کی شکل میں معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘ امام نسائی کا قول ہے کہ ’’وہ ثقہ فقہا میں شمار ہوتے ہیں۔ ‘‘ ابو عبداللہ حاکم کا قول ہے کہ ’’اہل بغدادان پر بجا فخر کرتے ہیں ۔وہ اپنے زمانے میں ان کے مفتی اور نمایا ں محدثین میں سے تھے۔‘‘ امام مسلم (صحیح کے علاوہ ) ابو داؤد اور ابن ماجہ نے ان سے حدیث روایت کی ہے ۔ ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ (۲:۱۹۸) میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ’’جو مرد عورت کے پیچھے نماز پڑھے وہ نماز کا اعادہ نہ کرے۔‘‘ اور مزنی نے بھی انھی کے قول پر قیاس کیا ہے ۔ مزنی کو ’’طبقات الشافعیہ‘‘ میں امام جلیل کے لقب سے نوازا گیا ہے ۔ امام شافعی ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ اگر وہ شیطان سے مناظرہ کریں تو اس پر بھی غالب آجائیں ۔‘‘وہ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے ’’مختصر المزنی ‘‘کافی مشہور کتاب ہے۔ امام ابو جعفر الطبری محدث ،مفسر، فقیہ اور مورخ ہیں ۔ وہ ایک مستقل مذہب کے امام ہیں ۔ ان کی یہ رائے بھی ہے کہ عورت کو ہر معاملہ میں قضا کا حق حاصل ہے، ان تینوں ائمہ نے اپنے اجتہاد کی بنا پر اختلاف کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ قابل اجتہاد ہے۔
    جن فقہا نے اس بات کی مخالفت کی ہے کہ عورت مردوں کی امامت کرے ، انھوں نے دو حدیثوں اور اجماع کی دلیل پیش کی ہے۔
    ایک حدیث وہ ہے جسے خاص طور پر حنفی فقہا نے پیش کیا ہے ۔ وہ یوں ہے : ’اخرو ھن حیث اخر ھن اللّٰہ‘ ’’ان عورتوں کو وہیں پیچھے رکھو جہاں اللہ نے انھیں پیچھے رکھا ہے۔‘‘یعنی وہ نماز کی صف میں مردوں کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں ، اس لیے انھیں وہیں رہنے دو آگے نہ کرو ۔ مشہور حنفی محقق ابن الہمام اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
    ’’اگرچہ مشاہیر نے اس کا ذکر کیا ہے ،لیکن اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔‘‘ (بحوالہ بذل المجہود)
    زیلعی نے ’’نصب الرایۃ ‘‘ میں (۳/۳۶)اس حدیث پر سیر حاصل تبصرہ کیاہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ مصنف عبدالرزاق میں یہ حدیث عبداللہ بن مسعود تک موقوف ہے اور مذکورہ الفاظ عبداللہ بن مسعود کے ہیں ۔ عبدالرزاق ہی کی سند سے طبرانی نے اسے معجم میں روایت کیا ہے ۔سروجی نے الغایہ میں لکھا ہے کہ ’’ہمارے شیخ صدر سلیمان اسے یوں روایت کرتے تھے : ’الخمر ام الخبائث والنساء حبائل الشیطان واخروھن من حیث اخروھن اللّٰہ‘ (شراب برائیوں کی جڑ ہے اور عورتیں شیطان کے پھندے ۔ انھیں پیچھے رکھو ،کیونکہ اللہ نے انھیں پیچھے رکھا ہے)۔‘‘ اور وہ اسے مسند رزین کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کا قول ہے کہ یہ حدیث بیہقی کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں ہے۔ میں نے اسے تلاش کیا ،مگر اس میں نہ موقوف حدیث موجود ہے نہ مرفوع ۔ مجھے جو مرفوع حدیث ملی ، اس کے الفاظ یہ ہیں: ’الخمر ام الخبائث والنساء حبائل الشیطان و الشباب شعبۃ الجنون ‘(شراب ساری برائیو ں کی جڑ ہے ، عورتیں شیطان کے پھندے ہیں اور جوانی جنون کی ایک شاخ ہے) ۔اس حدیث میں ’اخروھن‘ والا ٹکڑا سرے سے موجود نہیں ۔ یہ دلیل کہ عورتیں چونکہ صف میں پیچھے کھڑی ہوتی ہیں ، اس لیے وہ آگے کھڑی نہیں ہو سکتیں ۔ حضرت ام ورقہ کی حدیث اس خیال کی نفی کرتی ہے ۔ اگر اس منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ممیز بچے کی بھی امامت ناجائز ہو جائے گی ،کیونکہ وہ بھی تو صف میں پیچھے کھڑاہوتا ہے حالانکہ امام شافعی کے نزدیک ممیز بچہ جمعہ کے علاوہ سب فرضوں کی امامت کر سکتا ہے۔ امام بخاری اور نسائی نے عمرو بن مسلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے چھ یا سات سال کی عمر میں امامت کی۔
    دوسری حدیث جس کا حوالہ احناف کے علاوہ اکثر دوسرے فقہا دیتے ہیں ، وہ یوں ہے:
    لا تومن امراۃ رجلا ولا اعرابی مہاجر ولا فاجر مومنا الا ان یقہرہ یخاف سوطہ.
    ’’نہ عورت مرد کی امامت کرے نہ بدو (دیہاتی )مہاجر کی اور نہ فاجر مومن کی سوائے اس کے کہ ایسا سلطان اس پر دباؤ ڈالے جس کے کوڑے سے وہ خو ف زدہ ہو۔‘‘
    اس حدیث کو ابن ماجہ نے ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘ میں حضرت جابر سے روایت کیا ہے ۔حافظ ابن حجر عسقلانی’’ التلخیص الحبیر‘‘ میں کہتے ہیں کہ اس حدیث کو عبداللہ بن محمد عدوی نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کیا ہے ۔امام وکیع کا عدوی کے بارے میں قول ہے کہ وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا ۔ انھوں نے اس کے شیخ کو بھی ضعیف ٹھیرایا ہے۔ ’’سبل السلام‘‘ میں امیر صنعانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ایک اور سند ہے جس کا ایک راوی عبدالملک بن حبیب ہے جس پر سرقہ حدیث کی تہمت ہے۔
    اگر اس حدیث کے متن پر غور کیا جائے تو ایک اور بات سامنے آتی ہے ۔اس حدیث میں تین شخصوں کی امامت کی ممانعت ہے عورت کی، بدو کی اور فاجر کی ۔ان میں سے بدو کی امامت کے متعلق فقہا کا قول ہے کہ اس کا تعلق ابتداے اسلام سے تھا جب بدوکتاب و سنت سے آگاہ نہیں تھے ،لیکن بعد میں جب ان کا ایمان پختہ ہو گیا اور صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو کتا ب و سنت سے آگاہی ہو گئی تو یہ ممانعت اٹھا لی گئی ۔ فاسق و فاجر کی امامت کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں بحث سے فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ اگر فاسق و بدعتی کو فاسق جانتے ہوئے اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے تو امام احمد اور مالک اسے جائز نہیں سمجھتے جبکہ امام ابو حنیفہ اور شافعی اسے جائز سمجھتے ہیں کیونکہ عبداللہ بن مسعود نے ولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھی حالانکہ وہ شراب پیتا تھا اور ایک دفعہ اس نے فجر کی چار رکعت پڑھائیں۔ عبداللہ بن عمر نے مختار کے پیچھے نماز پڑھی حالانکہ اس پر الحاد کی تہمت تھی۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں عبدالکریم سے تخریج کی ہے کہ انھوں نے دس صحابۂ کرام کو دیکھا جو ظالم اور جابر ائمہ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ بھی وقت کے تقاضوں کے زیر اثر تھی ،جب حدیث میں مذکور بدو اور فاسق کی امامت بعد میں جائز ٹھہر ی تو عورت بے چاری نے کیا قصور کیا ہے کہ اس کی امامت ابھی تک ناجائز ہو۔
    جب عورت کی امامت کی مخالفت کرنے والے فقہا کی پیش کردہ دونو ں حدیثیں ضعیف اور موضوع ٹھیریں تو کیوں نہ ہم فقہ کے بنیادی اصول کی طرف رجوع کریں کہ جس کی نماز درست تصور ہو گی ، اس کی امامت بھی درست تصور ہو گی ۔
    بعض علما اور خصوصاً ہمارے یہاں کے مذہبی پیشوا جو مرد کو صرف مرد ہونے کی وجہ سے عورت سے افضل سمجھتے ہیں، وہ اس سلسلہ میں ایسی قرآنی آیات پیش کرتے ہیں جن کا امامت کے موضوع سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ مثلاً ’الرجال قوامون علی النساء‘(۴: ۳۴)’’مرد عورتوں کے ذمہ دار ہیں ۔‘‘’وللرجال علیہن درجۃ‘(۲: ۲۲۵)’’اور مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے۔ ‘‘ان دونوں آیات کا تعلق میاں بیوی کے عائلی اور معاشرتی حالات سے ہے ،امامت کے مسئلہ سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ دین اور شریعت کے اعتبار سے مرد اور عورت ہر ایک کو اپنے اعمال کی جزا اور سزا ملے گی ۔ کسی کے اعمال صالحہ اکارت نہیں ہوں گے ۔ ان میں سے اللہ کے نزدیک وہی مکرم ہوگا جو متقی ہوگا ۔فضیلت کا بس یہی پیمانہ ہے ۔مرد کو صرف مرد ہونے کی وجہ سے عورت پر قطعی کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ یہ سوچ حکمت قرآنی سے متصادم ہے

  2. آصف علی کہتے ہیں

    برادرعاصم کی وال سےمنقول.اس موضوع پرسنجیدہ گفتگوکی گنجائش ہے.

    آصف علی.

    عورت کی امامت کامسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر ایمان کا دارومدار ہو۔ یہ فقہ کا ایک عام سا مسئلہ ہے جس پر دلیل سے بات کرنے کی اور اختلافی رائے کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت کرنےوالی خاتون نے روایت کو توڑا اور جمہور فقہا کی رائے کے خلاف عمل کیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام روش ہے کہ مسئلہ کی تحقیق کرنے کے بجائے اس کے خلاف عوام کے جذبات کو بھڑکا دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس مسئلہ کو ایسے ہی حل کرنا چاہیے جیسے ہمارے فقہا نے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے دلیل کی بنا پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور مخالفین نے بھی ان کی رائے کو وزن دیا ہے۔ اگر عورت کی امامت فتنہ ہے تو اسی لیبل کو بڑے بڑے فقہا پر بھی چسپاں کرنا پڑے گا۔
    امام قاضی ابو الولید محمد بن احمد بن رشدالقرطبی(متوفی ۵۱۵ھ)اپنی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں فرماتے ہیں:
    ’’عورت کی امامت کے بارے میں فقہا میں اختلاف ہے ۔جمہور فقہا کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ عورت مردوں کی امامت کرے اور اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ عورتوں کی امامت کرے ۔امام شافعی نے اس کی اجازت دی ہے، مگر امام مالک نے اس سے منع کیا ہے ۔ ابو ثور اور طبری جمہور کی رائے سے ہٹ کر ان کی مطلقاً امامت کے قائل ہیں ۔ جمہور فقہا کا اس مسئلہ میں کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کر سکتی اتفاق اس لیے ہے کہ اگر یہ جائز ہوتا تو صدر اول میں اس کی کوئی روایت ملتی اور اس لیے بھی کہ نماز میں عورتوں کا کھڑاہونے کا طریقہ یہی تھا کہ وہ صف میں مردوں کے پیچھے کھڑی ہوتی تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا مرد سے آگے کھڑا ہونا جائز نہیں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
    اخروھن حبت اخرھن اللّٰہ.
    ’’ان کو پیچھے رکھو جہاں اللہ نے ان کو پیچھے رکھا ہے۔‘‘
    اسی لیے بعض فقہا نے عورتوں کے لیے عورت کی امامت کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ نماز میں وہ سب ایک ساتھ کھڑی ہوں، علاوہ ازیں یہ بات بعض لوگوں سے صدر اول میں منقول ہے۔اور جن علما نے عورت کی امامت کو مطلقاً جائز سمجھا ہے ، انھوں نے اس حدیث کی طرف رجوع کیا ہے جو ابو داؤد نے ام ورقہ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام ورقہ کے گھر جایا کرتے تھے اور آپ نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا اور انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے اہل خاندان کی امامت کیا کریں۔‘‘ (۱/ ۱۰۵)
    ’’بدایۃ المجتہد‘‘ کی عبارت سے معلو م ہوتا ہے کہ عورت کی امامت کا مسئلہ اختلافی ہے۔ عورت عورتوں کی امامت کرے یا عورت مردوں کی امامت کرے ،دونوں باتوں میں اختلاف ہے۔ ابراہیم بن خالد بن ایمان ابو ثور (متوفی ۲۴۰ھ) جیسے محدث اور فقہ شافعی کے امام مجتہد اور ابو جعفر محمد بن جریر (متوفی ۳۱۰ھ) جیسے محدث ،مفسر ، مورخ اور مستقل فقہی مذہب کے امام نے جمہور علما کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ عورت مردوں کی امامت کرے اور ان کی دلیل ایک مرفوع صحیح حدیث ہے۔
    سنن ابی داؤد میں عورت کی امامت کے عنوان کے تحت ام ورقہ سے دو حدیثیں روایت کی گئی ہیں۔ پہلی حدیث کا متن یوں ہے:
    ’’ام ورقہ بنت نوفل سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیے نکلنے والے تھے تو میں نے کہا :اے اللہ کے رسول ، مجھے بھی اپنے ساتھ اس غزوہ میں جانے کی اجازت دیجیے ۔ میں آپ کے مریضوں کی تیمارداری کروں گی ، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی موت دے دے ۔ اللہ کے رسول نے فرمایا:اپنے گھر میں ٹھہری رہو یقیناًاللہ تعالیٰ تمھیں شہادت کی موت دے گا۔ راوی کا قول ہے کہ اس بشارت کی وجہ سے لوگ انھیں شہیدہ کہتے تھے۔ راوی کہتا ہے کہ وہ قرآن کی قاری (حافظہ)تھیں ، چنانچہ انھوں نے نبی اکرم سے اپنے گھر میں ایک مؤذن مقرر کرنے کی اجازت طلب کی ۔ آپ نے انھیں اس کی اجازت دے دی۔ راوی کا قول ہے کہ ان کاایک مدبر غلام (جو مالک کی موت کے بعد آزاد ہو جاتا ہے) اور ایک لونڈی تھی۔ یہ دونوں ایک رات اٹھ کر ان کے قریب آئے اور پلش کی چادر سے ان کو اس قدر دبا کر ڈھانپا کہ وہ مر گئیں ۔ وہ دونوں بھاگ گئے۔ صبح کو حضرت عمر لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : جس کسی کو ان دونوں قاتلوں کا علم ہو یا جس نے بھی ان کو دیکھا ہو تو پکڑ کر میرے پاس لے آئے ۔چنانچہ جب وہ لائے گئے تو حضرت عمر نے ان کو سولی پر لٹکا دیا۔ وہ دونوں پہلے قاتل تھے جن کو مدینہ منورہ میں سولی پر لٹکایا گیا۔‘‘(ابو داؤد)
    حافظ ابن حجرعسقلانی نے اسے ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ ‘‘میں ام ورقہ کے ترجمہ (۴:۵۰۵)میں ابن السکین کے حوالہ اور محمد بن فضیل کی سند سے بیان کی ہے اور اس میں اس قدر اضافہ کیا ہے :
    ’’جب صبح ہوئی تو حضرت عمرنے فرمایا: بخدا کل شب میں نے اپنی خالہ ام ورقہ کی قرأت نہیں سنی ۔پہلے وہ اس کے محلہ (دار) میں داخل ہوئے جب کچھ نظر نہ آیا تو ان کے گھر (بیت) میں داخل ہوئے تو وہ ایک کونے میں پلش کی چادر میں لپٹی پڑی تھیں ۔ آپ نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچ کہا کرتے تھے :چلو چل کر شہیدہ سے ملاقات کریں۔ پھر آپ منبر پر چڑھ گئے۔‘‘
    دوسری حدیث ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے ایک اور سند سے مروی ہے ،لیکن پہلی حدیث کا مل تر ہے۔ اس حدیث کا متن یوں ہے:
    ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر آیا جایا کرتے تھے۔ آپ نے ایک موذن مقرر فرمایا تھا جو ام ورقہ کے لیے اذان دیتا تھا ۔آپ نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے خاندا ن والوں کی امامت کیا کریں۔ راوی عبدالرحمان کہتا ہے کہ میں نے ان کا مؤذن دیکھا تھا جو ایک بوڑھا شخص تھا ۔‘‘(ابوداؤد)
    مذکورہ حدیث میں ایک لغوی نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر امامت کی حدود کا تعین نہیں ہو سکتا۔ دوسری حدیث میں’ تؤم اھل دارھا ‘کی تعبیر استعمال ہوئی ہے نہ کہ ’اھل بیتھا‘۔ ’اھل البیت ‘کے معنی گھر والے ہیں جبکہ ’اھل الدار ‘کے معنی قبیلے والے، محلے والے اور خاندان والے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے ’’الاصابہ‘‘ میں جو روایت نقل کی ہے ، اس میں بھی ہے کہ حضرت عمرپہلے ان کے احاطے یا محلے( دار )میں داخل ہوئے پھر ان کے گھر (بیت)میں۔
    امام راغب کے قول کے مطابق ’دار‘ کا لفظ شہر ، علاقے،بلکہ سارے جہان کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’المصباح المنیر‘‘ میں ہے:
    ’’اصل میں لفظ دار اس جگہ پر بولا جاتا ہے جو ارد گرد سے گھری ہوئی ہو ، مثلاًدو پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی وادی کو بھی دار کہا جاتاہے اور مجازاً اس کا اطلاق قبیلے پر ہوتا ہے۔‘‘
    احمد بن فارس بن زکریا (متوفی ۳۹۵)اپنی مشہور لغت کی کتاب ’’معجم مقاییس اللغۃ‘ ‘میں ’الدار‘ کے متعلق لکھتے ہیں :
    ’’اس سے مراد قبیلہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’الا انبئکم بخیر دور الانصار‘ کیا میں تمھیں انصار کے بہترین قبیلوں کے متعلق نہ بتاؤں ۔ ایک اور حدیث میں ہے :’فلم تبق دار الانبی فیہا المسجد‘یعنی کوئی ایسا قبیلہ نہ رہا جس میں مسجد نہ بنائی گئی ہو۔‘‘
    صاحب ’’القاموس المحیط‘‘ لکھتے ہیں کہ :
    ’’دار کا اطلاق ہر کھلی زمین پر ہوتا ہے جو پہاڑوں کے درمیان واقع ہو اور ہر اس چیز پر جس کو کسی چیز نے دائرے کی مانند گھیر رکھا ہو۔‘‘
    ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن عویمر بن نوفل الانصاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ تھیں ۔ انھوں نے رسول اکرم کے دست مبارک پر بیعت بھی کی تھی۔ اس زمانہ میں صراحت کے ساتھ اگر کسی عوررت کے بارے میں حافظہ ہونے کا ذکر ملتا ہے تو صرف انھی کے متعلق ملتا ہے ۔ان کی قرأت اتنی اچھی تھی کہ حضرت عمررات کو بڑے ذوق وشوق سے ان کی قرأت کو سنتے تھے۔ غالباً وہ اونچی آواز سے قرأت کرتی ہوں گی ۔ ایک رات حضرت عمر نے جب ان کی قرأت کو نہ سنا تو ان کے بارے میں انھیں فکر لاحق ہو گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمیں ان کا مرتبہ یہ تھا کہ آپ نے ان کو شہیدہ ہونے کی بشارت دی تھی اور وہ اکثر ان کے یہاں جایا کرتے تھے اور اپنے صحابۂ کرام سے کہتے : ’’چلو چل کر شہید ہ سے ملاقات کریں ۔‘‘یقیناًآنحضرت نے ام ورقہ کے حفظ قرآن اور حسن قرأت کی وجہ سے انھیں امامت کرنے کا حکم دیا وہ اپنے علاقے یا محلے کی بہترین قاری ہوں گی ۔ کیونکہ امامت کی اہلیت کے بارے میں امام احمد ، مسلم اور نسائی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے امامت کا حق دار وہ ہے جو قرآن کی سب سے بہتر قرأت کرنے والا ہو اور اگر قرأ ت میں سب برابر ہوں تو پھر وہ جو سنت کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو ،پھر وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو ،پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ۔اس حدیث میں مرد یا عورت کی کوئی تخصیص نہیں ۔ اسی معیار کے مطابق ام ورقہ اپنے محلے کی امامت کی حق دار ٹھہریں ۔
    یہ حدیث مسند امام احمد بن حنبل(متوفی ۲۴۱ھ)،طبقات ابن سعد(متوفی۲۳۵ھ)،صحیح ابن خزیمہ (متوفی ۳۱۱ھ)، سنن دار قطنی(متوفی۳۸۵ھ)،مستدرک حاکم(متوفی۴۰۵ھ)،سنن کبریٰ بیہقی(متوفی۴۸۵ھ)،کنز العمال علی المتقی (متوفی ۹۷۵ھ) میں مروی ہے۔
    امام دارقطنی نے مذکورہ حدیث کو دو مرتبہ روایت کیا ہے ۔ ایک روایت کا متن وہی ہے جو ابوداؤد کی روایت کا ہے۔ مگر انھوں نے ’’کتاب الصلوٰۃ باب ذکر الجماعۃ واہلہا وصفۃ الامام‘‘ میں اسے یوں روایت کیا ہے :
    ’’ام ورقہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے اجازت دے دی تھی کہ اس کے لیے اذان دی جائے اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں۔‘‘
    اس روایت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھی ۔ یہ دار قطنی کے اپنے الفاظ ہیں حدیث کے الفاظ نہیں ،یہ ان کی اپنی رائے ہے ۔سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ اضافہ نہیں ،اس لیے اس اضافے کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔
    حدیث مذکور کا فن حدیث کی رو سے مقام
    حافظ ابن حجر عسقلانی ’’التلخیص الحبیر‘ ‘میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ایک راوی ولید بن عبداللہ بن جمیع مجہول الحال ہیں ، مگر ابن حبان نے ان کو ثقہ شمار کیا ہے۔ زیلعی نے ’’نصب الرایۃ‘‘ ( ۳ / ۳۶) میں کہاہے کہ منذری کا قول ہے کہ ولید بن جمیع کے بارے میں کلام ہے ،مگر مسلم نے ان سے روایت کی ہے ۔
    ابن قطان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ولید بن جمیع اور عبدالرحمان مجہول الحال ہیں ،لیکن میں (زیلعی)کہتا ہوں کہ ابن حبان نے دونوں کو ثقہ شمار کیا ہے ۔ ابو داؤد کی شرح ’’بذل المجہود ‘‘میں ہے کہ ولید بن جمیع کو ابن معین، عجلی اور ابن سعدنے ثقہ مانا ہے۔ امام احمد ، ابو داؤد اور ابو زرعہ کا قول ہے کہ اس سے روایت میں کوئی حرج نہیں ۔
    ’’اروا ء الغلیل ‘‘ میں دور حاضر کے سب سے بڑے محدث ناصرالدین البانی فرماتے ہیں:
    ’’منذری نے ولید بن عبداللہ کو مجہول ٹھہرایا ہے اور میں نے صحیح ابو داؤد میں اس کا جواب دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم نے اسے حجت تسلیم کیا ہے اور ابن معین کی طرح ایک جماعت نے اسے ثقہ گردانا ہے۔‘‘ (۲/ ۲۵۶)
    دوسری حدیث کے ایک راوی عبدالرحمان خلادالانصاری کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’التقریب‘‘ میں کہا ہے کہ وہ مجہول الحال ہے ،مگر ’’التلخیص الحبیر ‘‘میں وہ کہتے ہیں کہ ابن حبان نے اسے ثقہ مانا ہے۔ ’’السیل الجرار ‘‘میں امام شوکانی (متوفی ۱۲۵۰ھ)کا قول ہے کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمان بن خلاد الانصاری مجہول الحال ہے ، لیکن ابن حبان نے اسے ثقہ شمار کیا ہے۔
    ابن خزیمہ نے ام ورقہ کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور ناصرالدین البانی نے ’’ارواء الغلیل ‘‘میں ’’التعلیق المغنی‘‘ کے مؤقف کے حوالے سے بتایا ہے کہ :
    ’’علامہ عیسیٰ نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
    اس حدیث کی صحت کی وجہ سے کم و بیش ہر مسلک کے فقہا نے اس حدیث سے انکار نہیں کیا ،یہ الگ بات ہے کہ اس حدیث کی تشریح انھو ں نے مختلف طریقوں سے کی ہے۔ جن فقہا نے اس حدیث کی بناپر مردوں کے لیے عورت کی امامت کو جائز سمجھا ہے ، ان کی نقلی دلیل خاصی مضبوط معلو م ہوتی ہے۔
    فقہی آرا کا جائزہ
    مذکورہ حدیث کی بناپر فقہا عورت کو امامت کا حق دار سمجھتے ہیں ۔ ’’البدائع والصنائع‘‘ میں امام کا سانی حنفی فرماتے ہیں :
    ’’عام طور پر عورت امامت کی اہل ہے ،یہاں تک کہ وہ عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے۔‘‘
    ’’فتح القدیر‘‘ میں محقق ابن الہمام کا بھی یہی قول ہے۔’’ السیل الجرار ‘‘میں امام شوکانی کا قول ہے کہ حدیث ام ورقہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی امامت عورتوں کے بارے میں صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے ۔ ’’الفقہ علی المذاہب الاربعہ ‘‘(۱/ ۴۰۹)میں ہے کہ اگر مقتدی عورتیں ہوں تو سوائے امام مالک کے سب ائمہ عورت کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں ۔حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ عورتوں کی امامت کرتی رہی ہیں ۔ ’’المحلی‘‘ (۴/ ۲۳۰)میں طاؤس کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ حضرت عائشہ اذان بھی دیتی تھیں اور اقامت بھی کہتی تھیں۔ عورت امامت کی اہل ہے ۔ امام مالک کے علاوہ سب ائمہ کا اس پر اتفاق ہے۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ آیا وہ مردوں کی امامت کر سکتی ہے یا نہیں؟
    فقہا نے ام ورقہ کی روایت کی ایک تشریح تو یہ کی ہے کہ اس میں صرف عورتوں کی امامت کا حکم ہے اور وہ دارقطنی کی دوسری روایت کا یہ جملہ’ وتوم نساء ھا ‘(اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں )بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ صحاح ستہ میں سے سنن ابی داؤد سمیت حدیث کی کئی ایک کتابوں میں یہ حدیث مذکور ہے ،لیکن دار قطنی کے علاوہ کسی نے یہ جملہ استعمال نہیں کیا ،بلکہ یہ لکھا ہے ’امرھا ان توم اھل دارھا‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ اپنے اہل خاندان کی امامت کرے ۔ اگر دار قطنی کی دوسری روایت کو غور سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دار قطنی کے اپنے الفاظ ہیں۔ اس روایت کا متن ملاحظہ فرمائیں :
    ’’ام ورقہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے اجازت دے دی تھی کہ ان کے لیے اذان دی جائے اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھیں ۔‘‘
    یہ آخری جملہ پہلے جملے سے کٹا ہوا ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ ام ورقہ کے نہیں ،بلکہ دارقطنی کے ہیں اور یہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔ عورت محض عورتوں کی امامت کرے اس کی تردید ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ (۲/ ۱۹۸) میںیہ کہہ کر کی ہے کہ:
    ’’ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موذن مقرر کیا اور انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے اہل خاندان (محلہ) کی امامت کرے ۔ یہ حکم مردوں اور عورتوں کے لیے عام ہے۔ ‘‘
    امیر صنعانی(متوفی ۱۱۸۲ھ)’’بلوغ المرام ‘‘کی شرح ’’سبل السلام ‘‘ میں کہتے ہیں :
    ’’حدیث ام ورقہ ابو داؤد نے روایت کی ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح گردانا ہے ۔اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت اپنے اہل خاندان کی امامت کرے گی، خواہ اس میں مرد ہی کیوں نہ ہوں ،کیونکہ ان کا موذن روایت کے مطابق بوڑھا آدمی تھا ظاہر ہے وہ ان کی امامت میں نماز پڑھتا تھا ۔ اسی طرح ان کا غلام اور لونڈی ان کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے ۔‘‘ (۲/ ۳۵)
    اسی طرح’’ الروض المربع شرح زادالمستقنع‘‘ (۲/ ۳۱۲ ، حاشیہ) میں عبدالرحمان بن محمد بن قاسم النجدی لکھتے ہیں کہ ان کو نبی پاک نے حکم دیا کہ وہ اپنے خاندان والوں کی امامت کیا کریں ،خواہ اس میں مرد ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر جمہور اہل علم اس کے مخالف ہیں ۔ دور حاضر کے مشہور محقق ڈاکٹر حمیداللہ سے سوال کیا گیاکہ کیا عورت صرف عورتوں کی امامت کر سکتی ہے ؟ ان کا جواب ’’خطبات بہاول پور‘‘ میں یوں ہے:
    ’’میں اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انھیں صرف عورتوں کے لیے امام بنایا گیا تھا ۔ حدیث میں اہل خاندان کے الفاظ ہیں ، اہل کے معنی صرف عورتوں کے نہیں ہوتے ۔ پھر اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کا ایک مؤذن تھا ،جو ایک مرد تھا اور مزید تفصیلات بھی ملتی ہیں کہ ان کے غلام بھی تھے ،ظاہر ہے کہ غلام ان کی امامت میں نماز پڑھتے ہوں گے ۔ غرض یہ کہ امامت صرف عورتوں کے لیے نہیں تھی ،بلکہ مردوں کے لیے بھی تھی۔‘‘( ۴۲۰)
    بعض فقہا اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ اس حدیث میں امامت کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے، مگر وہ اس حکم کو نوافل تک محدود سمجھتے ہیں اور فرضوں کے لیے ممنوع قرار دیتے ہیں ۔ حاکم نے مستدرک میں حدیث کو ایک اضافے کے ساتھ روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ :
    ’’نبی کریم نے ان کو حکم دیا کہ اپنے اہل خاندان کی فرائض میں امامت کریں ۔‘‘
    امام ابن تیمیہ’’ فتاویٰ‘‘ (۲۳ / ۲۴۸) میں فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کامشہور قول ہے کہ انھوں نے بوقت ضرورت عورتوں کو مردوں کی امامت کی اجازت دی ہے ،مثلاً اگر قاری عورت کے علاوہ اور کوئی قاری نہ ہو تو وہ مردوں کو نماز تراویح پڑھا سکتی ہے ۔چنانچہ’’ المغنی ‘‘میں ابن قدامہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے بعض (حنبلی )اصحاب کا قول ہے کہ عورت کے لیے نماز تراویح میں مردوں کی امامت جائزہے۔ ‘‘ ابن قدامہ ان اصحاب کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مؤذن مقرر کیا تھا جس سے پتا چلتا ہے کہ فرائض میں امامت کی اجازت دی گئی ،کیونکہ اذان تو صرف فرضو ں کے لیے دی جاتی ہے۔
    ان دلائل سے واضح ہو گیا کہ ام ورقہ فرائض میں عورتوں اور مردوں کی امام تھیں ۔
    بعض فقہابالخصوص احناف کی رائے ہے کہ امامت کا یہ حکم اسلام کے ابتدائی دورمیں تھا بعد میں منسوخ ہو گیا ۔ ’’البدائع والصنائع ‘‘کے مصنف کی بھی یہی رائے ہے ،مگر ابن الہمام الحنفی جیسے محقق نے ’’فتح القدیر‘‘ میں اس رائے پر سخت اعتراض وارد کیا ہے اور مستدرک امام محمد کی کتاب الآثار اور ابو داؤد کی روایات ،خاص طور پر ام ورقہ کی حدیث پیش کر کے اس رائے کا باطل قرار دیا ہے ۔ اس حکم کے منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ ’’طبقات ابن سعد‘‘ اور ’’الاستیعاب‘‘ میں ام ورقہ کے ترجمہ میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے :
    ’’ام ورقہ اپنے اہل خاندان کی امامت کرتی رہیں حتیٰ کہ ان کے غلام اور لونڈی نے ان کو اوپر سے ڈھانپ کر ان کا سانس بند کر دیا۔ ‘‘ (۸/ ۴۵۵)، (۴/ ۱۹۱۵)
    ڈاکٹر حمیداللہ ’’خطبات بہاول پور‘‘ میں رقم طراز ہیں :
    ’’اس حدیث کے متعلق یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہ شاید ابتداے اسلام کی بات ہو اوربعد میں اللہ کے رسول نے اسے منسوخ کر دیا ہو ،لیکن اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ام ورقہ حضرت عمر کے زمانے تک زندہ رہیں اور اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں یہ بات ویسے بھی عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ ابتدائی زمانہ میں جب خواتین زیادہ تر حفظ اور قرأت سے ناآشنا تھیں ان کو امامت کی اجازت دی گئی ہو اور بعد میں جب بے شمار خواتین اس فن میں ماہر ہوگئیں تو انھیں امامت سے روک دیا گیا ہو۔‘‘ (۳۵)
    وہ فقہا جو اس بات کے قائل ہیں کہ عورت مردوں کی امامت کر سکتی ہے ، انھوں نے حضرت ام ورقہ کی حدیث سے دو طرح استدلال کیا ہے ۔ کچھ فقہا کاخیال ہے کہ عورت ضرورت کے تحت مردوں کی امامت کر سکتی ہے جیسا کہ اس ضمن میں امام ابن تیمیہ نے امام احمد بن حنبل کا قول نقل کا ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ۔ صاحب ’’المغنی‘‘ کی بھی یہی رائے ہے کہ اس اجازت کو ام روقہ سے مخصوص سمجھا جائے گا ۔ ابو داؤد کی ’’شرح عون المعبود ‘‘کے مصنف کا بھی یہی قول ہے کہ ام ورقہ کا معاملہ خاص معاملہ ہے ، اسے عام اصول نہیں بنا یا جا سکتا۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے بھی اس رائے کی تائید کی ہے ۔وہ ’’خطبات بہاول پور ‘‘ میں کہتے ہیں :
    ’’بعض اوقات عام قاعدے میں استثنا کی ضرورت پیش آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استثنائی ضرورتوں کے لیے یہ تقرر فرما یا تھا ۔ چنانچہ میں اپنے ذاتی تجربے کی ایک چیز بیان کرتا ہوں ۔پیرس میں چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک افغان لڑکی طالب علم کے طور پر آئی ۔ہالینڈ کا ایک طالب علم جو اس کا ہم جماعت تھا اس پر عاشق ہوگیا ۔ عشق اتنا شدید تھا کہ اس نے اپنا دین بدل کر اسلام قبول کر لیا ۔ ان دونوں کا نکاح ہوا ۔ اگلے دن وہ لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ بھائی صاحب میرا شوہر مسلمان ہوگیا ہے اور وہ اسلام پر عمل بھی کرنا چاہتا ہے ،لیکن اسے نماز نہیں آتی اور اسے اصرار ہے کہ میں خود امام بن کر نماز پڑھاؤں ۔ کیا وہ میری اقتدامیں نماز پڑھ سکتاہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر آپ کسی عام مولوی صاحب سے پوچھیں گے تو وہ کہے گا کہ جائز نہیں ،لیکن میرے ذہن میں رسول اللہ کے طرز عمل کا ایک واقعہ حضرت ام ورقہ کا ہے ۔ اس لیے استثنائی طور پر تم امام بن کر نمازپڑھاؤ۔ تمہارے شوہر کو چاہیے کہ وہ مقتدی بن کر تمھارے پیچھے نماز پڑھے اور جلد از جلد قرآن کی ان سورتوں کو یاد کرے جو نماز میں کام آتی ہیں ۔کم از کم تین سورتیں یاد کرے ۔پھر اس کے بعد وہ تمھارا امام بنے اورتم اس کے پیچھے نماز پڑھو۔‘‘(۳۵)
    یہ ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے ،مگر ابو سعید خدری کی روایت کے مطابق اس کا خاوند اس وقت تک امامت کا حق دار نہیں ہو گا جب تک وہ اپنی بیوی سے بہتر قرأت نہ کرنے لگے ۔
    بعض فقہا نے حضرت ام ورقہ کی حدیث کے پورے متن کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ رائے قائم کی ہے کہ عورت مطلقاً مردوں کی امامت کر سکتی ہے۔ ابو ثورابراہیم بن خالد بن یمان کلبی بغدادی (متوفی ۲۴۰ھ)، اسماعیل بن یحییٰ بن اسماعیل المزنی (متوفی۲۶۴ھ)اور امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی۳۱۰ھ)کی یہی رائے ہے۔ ان میں ابو ثور اور مزنی امام شافعی کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے ۔ دونوں اپنے مذہب کے امام مجتہد تھے۔ ابو ثور کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ ’’میں سنت کے بارے میں ان کے علم کو پچاس برس سے جانتا ہوں ۔ مجھے تو وہ سفیان ثوری کی شکل میں معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘ امام نسائی کا قول ہے کہ ’’وہ ثقہ فقہا میں شمار ہوتے ہیں۔ ‘‘ ابو عبداللہ حاکم کا قول ہے کہ ’’اہل بغدادان پر بجا فخر کرتے ہیں ۔وہ اپنے زمانے میں ان کے مفتی اور نمایا ں محدثین میں سے تھے۔‘‘ امام مسلم (صحیح کے علاوہ ) ابو داؤد اور ابن ماجہ نے ان سے حدیث روایت کی ہے ۔ ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ (۲:۱۹۸) میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ’’جو مرد عورت کے پیچھے نماز پڑھے وہ نماز کا اعادہ نہ کرے۔‘‘ اور مزنی نے بھی انھی کے قول پر قیاس کیا ہے ۔ مزنی کو ’’طبقات الشافعیہ‘‘ میں امام جلیل کے لقب سے نوازا گیا ہے ۔ امام شافعی ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ اگر وہ شیطان سے مناظرہ کریں تو اس پر بھی غالب آجائیں ۔‘‘وہ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے ’’مختصر المزنی ‘‘کافی مشہور کتاب ہے۔ امام ابو جعفر الطبری محدث ،مفسر، فقیہ اور مورخ ہیں ۔ وہ ایک مستقل مذہب کے امام ہیں ۔ ان کی یہ رائے بھی ہے کہ عورت کو ہر معاملہ میں قضا کا حق حاصل ہے، ان تینوں ائمہ نے اپنے اجتہاد کی بنا پر اختلاف کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ قابل اجتہاد ہے۔
    جن فقہا نے اس بات کی مخالفت کی ہے کہ عورت مردوں کی امامت کرے ، انھوں نے دو حدیثوں اور اجماع کی دلیل پیش کی ہے۔
    ایک حدیث وہ ہے جسے خاص طور پر حنفی فقہا نے پیش کیا ہے ۔ وہ یوں ہے : ’اخرو ھن حیث اخر ھن اللّٰہ‘ ’’ان عورتوں کو وہیں پیچھے رکھو جہاں اللہ نے انھیں پیچھے رکھا ہے۔‘‘یعنی وہ نماز کی صف میں مردوں کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں ، اس لیے انھیں وہیں رہنے دو آگے نہ کرو ۔ مشہور حنفی محقق ابن الہمام اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
    ’’اگرچہ مشاہیر نے اس کا ذکر کیا ہے ،لیکن اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔‘‘ (بحوالہ بذل المجہود)
    زیلعی نے ’’نصب الرایۃ ‘‘ میں (۳/۳۶)اس حدیث پر سیر حاصل تبصرہ کیاہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ مصنف عبدالرزاق میں یہ حدیث عبداللہ بن مسعود تک موقوف ہے اور مذکورہ الفاظ عبداللہ بن مسعود کے ہیں ۔ عبدالرزاق ہی کی سند سے طبرانی نے اسے معجم میں روایت کیا ہے ۔سروجی نے الغایہ میں لکھا ہے کہ ’’ہمارے شیخ صدر سلیمان اسے یوں روایت کرتے تھے : ’الخمر ام الخبائث والنساء حبائل الشیطان واخروھن من حیث اخروھن اللّٰہ‘ (شراب برائیوں کی جڑ ہے اور عورتیں شیطان کے پھندے ۔ انھیں پیچھے رکھو ،کیونکہ اللہ نے انھیں پیچھے رکھا ہے)۔‘‘ اور وہ اسے مسند رزین کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کا قول ہے کہ یہ حدیث بیہقی کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں ہے۔ میں نے اسے تلاش کیا ،مگر اس میں نہ موقوف حدیث موجود ہے نہ مرفوع ۔ مجھے جو مرفوع حدیث ملی ، اس کے الفاظ یہ ہیں: ’الخمر ام الخبائث والنساء حبائل الشیطان و الشباب شعبۃ الجنون ‘(شراب ساری برائیو ں کی جڑ ہے ، عورتیں شیطان کے پھندے ہیں اور جوانی جنون کی ایک شاخ ہے) ۔اس حدیث میں ’اخروھن‘ والا ٹکڑا سرے سے موجود نہیں ۔ یہ دلیل کہ عورتیں چونکہ صف میں پیچھے کھڑی ہوتی ہیں ، اس لیے وہ آگے کھڑی نہیں ہو سکتیں ۔ حضرت ام ورقہ کی حدیث اس خیال کی نفی کرتی ہے ۔ اگر اس منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ممیز بچے کی بھی امامت ناجائز ہو جائے گی ،کیونکہ وہ بھی تو صف میں پیچھے کھڑاہوتا ہے حالانکہ امام شافعی کے نزدیک ممیز بچہ جمعہ کے علاوہ سب فرضوں کی امامت کر سکتا ہے۔ امام بخاری اور نسائی نے عمرو بن مسلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے چھ یا سات سال کی عمر میں امامت کی۔
    دوسری حدیث جس کا حوالہ احناف کے علاوہ اکثر دوسرے فقہا دیتے ہیں ، وہ یوں ہے:
    لا تومن امراۃ رجلا ولا اعرابی مہاجر ولا فاجر مومنا الا ان یقہرہ یخاف سوطہ.
    ’’نہ عورت مرد کی امامت کرے نہ بدو (دیہاتی )مہاجر کی اور نہ فاجر مومن کی سوائے اس کے کہ ایسا سلطان اس پر دباؤ ڈالے جس کے کوڑے سے وہ خو ف زدہ ہو۔‘‘
    اس حدیث کو ابن ماجہ نے ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘ میں حضرت جابر سے روایت کیا ہے ۔حافظ ابن حجر عسقلانی’’ التلخیص الحبیر‘‘ میں کہتے ہیں کہ اس حدیث کو عبداللہ بن محمد عدوی نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کیا ہے ۔امام وکیع کا عدوی کے بارے میں قول ہے کہ وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا ۔ انھوں نے اس کے شیخ کو بھی ضعیف ٹھیرایا ہے۔ ’’سبل السلام‘‘ میں امیر صنعانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ایک اور سند ہے جس کا ایک راوی عبدالملک بن حبیب ہے جس پر سرقہ حدیث کی تہمت ہے۔
    اگر اس حدیث کے متن پر غور کیا جائے تو ایک اور بات سامنے آتی ہے ۔اس حدیث میں تین شخصوں کی امامت کی ممانعت ہے عورت کی، بدو کی اور فاجر کی ۔ان میں سے بدو کی امامت کے متعلق فقہا کا قول ہے کہ اس کا تعلق ابتداے اسلام سے تھا جب بدوکتاب و سنت سے آگاہ نہیں تھے ،لیکن بعد میں جب ان کا ایمان پختہ ہو گیا اور صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو کتا ب و سنت سے آگاہی ہو گئی تو یہ ممانعت اٹھا لی گئی ۔ فاسق و فاجر کی امامت کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں بحث سے فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ اگر فاسق و بدعتی کو فاسق جانتے ہوئے اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے تو امام احمد اور مالک اسے جائز نہیں سمجھتے جبکہ امام ابو حنیفہ اور شافعی اسے جائز سمجھتے ہیں کیونکہ عبداللہ بن مسعود نے ولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھی حالانکہ وہ شراب پیتا تھا اور ایک دفعہ اس نے فجر کی چار رکعت پڑھائیں۔ عبداللہ بن عمر نے مختار کے پیچھے نماز پڑھی حالانکہ اس پر الحاد کی تہمت تھی۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں عبدالکریم سے تخریج کی ہے کہ انھوں نے دس صحابۂ کرام کو دیکھا جو ظالم اور جابر ائمہ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ بھی وقت کے تقاضوں کے زیر اثر تھی ،جب حدیث میں مذکور بدو اور فاسق کی امامت بعد میں جائز ٹھہر ی تو عورت بے چاری نے کیا قصور کیا ہے کہ اس کی امامت ابھی تک ناجائز ہو۔
    جب عورت کی امامت کی مخالفت کرنے والے فقہا کی پیش کردہ دونو ں حدیثیں ضعیف اور موضوع ٹھیریں تو کیوں نہ ہم فقہ کے بنیادی اصول کی طرف رجوع کریں کہ جس کی نماز درست تصور ہو گی ، اس کی امامت بھی درست تصور ہو گی ۔
    بعض علما اور خصوصاً ہمارے یہاں کے مذہبی پیشوا جو مرد کو صرف مرد ہونے کی وجہ سے عورت سے افضل سمجھتے ہیں، وہ اس سلسلہ میں ایسی قرآنی آیات پیش کرتے ہیں جن کا امامت کے موضوع سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ مثلاً ’الرجال قوامون علی النساء‘(۴: ۳۴)’’مرد عورتوں کے ذمہ دار ہیں ۔‘‘’وللرجال علیہن درجۃ‘(۲: ۲۲۵)’’اور مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے۔ ‘‘ان دونوں آیات کا تعلق میاں بیوی کے عائلی اور معاشرتی حالات سے ہے ،امامت کے مسئلہ سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ دین اور شریعت کے اعتبار سے مرد اور عورت ہر ایک کو اپنے اعمال کی جزا اور سزا ملے گی ۔ کسی کے اعمال صالحہ اکارت نہیں ہوں گے ۔ ان میں سے اللہ کے نزدیک وہی مکرم ہوگا جو متقی ہوگا ۔فضیلت کا بس یہی پیمانہ ہے ۔مرد کو صرف مرد ہونے کی وجہ سے عورت پر قطعی کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ یہ سوچ حکمت قرآنی سے متصادم ہے

تبصرے بند ہیں۔